نقاد کو اتنا بلند اور اہم مرتبہ آپ کیوں دے رہے ہیں؟ کیا آپ نے تنقیدی کتابوں، یا تنقیدی تحریروں کی عمر پر نہیں غور کیا؟ تنقید تو چار دن کی چاندنی ہے (اگر اسے چاندنی کا لقب دیا جا سکے)۔ کم ہی تنقیدیں ایسی ہیں جو اشاعت کے دس پندرہ سال بعد بھی پڑھی جاتی ہوں۔ پڑھی جاتی کیا، جانی بھی جاتی ہوں تو بڑی بات ہے۔
درسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہم کسی نقاد یا کسی تنقیدی کتاب کو اہمیت دے لیتے ہیں، لیکن درس کی دنیا کے باہر بھی بہت بڑی دنیا ہے۔ اس دنیا میں ادب پڑھنے والے بہت ہیں،اور ان کی تعداد پر اس بات سے کوئی اثر نہیں پڑتا کہ کسی نقاد مثلاً شمس الرحمٰن فاروقی نے کسی افسانہ نگار مثلاً انتظار حسین یا قرۃ العین حیدر کے بارے میں کیا رائے ظاہر کی ہے؟
بات یہ ہے کہ آپ لوگ نقاد کو جو اہمیت دیتے ہیں (یا دینا چاہتے ہیں) وہ بچارا اس کا اہل ہی نہیں ہے۔ یہ سب ادبی اور سماجی سیاست کے گورکھ دھندے ہیں۔ آپ لوگوں نے نقادوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہے (یا کر دینا چاہتے ہیں) کہ مصنف کی تقدیر کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ ممکن ہے کچھ طالب علموں کے امتحان کے نتیجے کا فیصلہ کچھ نقادوں کے ہاتھ میں ہو، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ایک انٹرویو سے مقتبس: امروز، شمارہ 1، علی گڑھ، مدیر ابو الکلام قاسمی)
٭٭٭