غزلیں ۔۔۔ احمد جاوید

 

تھا جانبِ دل صبح دم وہ خوش خرام آیا ہوا

آدھا قدم سوئے گریز اور نیم گام آیا ہوا

 

رقص اور پا کوبی کروں لازم ہے مجذوبی کروں

دیکھو تو ہے میرا صنم میرا امام آیا ہوا

 

ہے ذرہ ذرہ پر صدا اہلاً و سہلاً مرحبا

کیا سرزمین دل پہ ہے وہ آج شام آیا ہوا

 

تجھ پر پڑی یہ کس کی چھوٹ اے چشم حیراں کچھ تو پھوٹ

کیا حد بینائی میں ہے وہ غیب فام آیا ہوا

 

ہے موسمِ دیوانگی پھر چاک ایجادی مری

لوٹا رہے ہیں پہلے کا خیاط کام آیا ہوا

 

خورشید سامانی تری اور ذرہ دامانی مری

ہے یہ عجوبہ دیکھنے ہر خاص و عام آیا ہوا

 

صد چشم بیداری کے ساتھ، صد سینہ سرشاری کے ساتھ

سو سو طرح شہباز دل ہے زیر دام آیا ہوا

٭٭٭

 

 

آمادہ رکھیں چشم و دل سامان حیرانی کریں

کیا جانیے کس وقت وہ نظارہ فرمانی کریں

 

ہاں ہاں دکھائیں گے ضرور ہم وحشت دل کا وفور

پہلے یہ شہر و دشت و در تکمیلِ ویرانی کریں

 

اے عاشقاں، اے عاشقاں ، آیا ہے امرِ ناگہاں

جو لوگ ہیں نظارہ جو وہ مشق حیرانی کریں

 

وہ شمع ہے در طاقِ دل روشن ہیں سب آفاقِ دل

افتادگانِ خاک اٹھو افلاک گردانی کریں

 

اک ناصحانہ عرض ہے دریاؤں پر یہ فرض ہے

دل کی طرح ہر لہر میں تجدیدِ طغیانی کریں

 

ایسے گھروں میں اہل دل رہتے نہیں ہیں مستقل

تبدیل یہ دیوار و در اسلوبِ ویرانی کریں

٭٭

شبخون، آخری شمارہ، شمارہ ۲۹۳ تا ۲۹۹، جون تا دسمبر ۲۰۰۵ء، مدیرہ: عقیلہ شاہین

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے