ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب ۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی

 

ہمارے نامور دوست، بزرگ محقق، مورخ ادب، شاعر اور بزعم خود ماہر لسانیات پروفیسر گیان چند جین نے تاحیات اردو زبان و ادب کی تدریس اور خدمت کی ہے۔ ان کی کئی کتابوں کے بارے میں بے خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں ان کی جگہ مدت مدید تک قائم رہے گی۔ تصنیف و تعلیم کے اس محترم اشرافی پیشے سے انہوں نے نام اور عزت بھی خوب کمائی ہے۔ اب وہ عمر کی آخری منزلیں طے کر رہے ہیں اور انہیں شاید یہ خیال آ رہا ہے کہ ساری عمر اردو پڑھ پڑھا کر انہوں نے کوئی گناہ کیا ہے اور اب اس کا پرائشچت یوں کیا جانا چاہئے کہ اردو کو، اور اس کے بولنے والوں کو، لسانی تنگ نظری، سماجی استحصال، سیاسی علیحدگی پسند گی اور بالآخر پاکستان نوازی کے جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔

کتاب کے عنوان سے کسی ہندی کتاب، یاکرسٹو فرکنگ کی کتاب One Language, Two Scripts کے ترجمے کا گمان گزرتا ہے۔ لیکن یہ کتاب نہ تو کرسٹوفر کنگ کی کتاب کا ترجمہ ہے اور نہ ہی یہ کتاب ہندی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اردو کتاب کا نام ہندی میں رکھ کر مصنف علام نے ہندی کو اردو پر فوقیت دینے کی کوشش کی ہے، ورنہ اردو زبان اور اردو رسم الخط میں لکھی گئی اس کتاب کا نام ’’ایک زبان، دو رسم الخط، دو ادب‘‘ بھی رکھ سکتے تھے۔ سچ پوچھئے تو اس کتاب کے لئے یہ عنوان بھی غلط ہے۔ یہ کتاب اردو ہندی تنازع پر نہیں، بلکہ ہندو مسلم افتراق کو ہوا دینے اور ابنائے وطن کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے کے لئے لکھی گئی ہے۔

پروفیسر گیان چند جین نے اس کتاب کا انتساب امرت رائے اور گوپی چند نارنگ کے نام کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی ادب دوست شخص کے لئے یہ دونوں نام نہایت محترم ہیں اور ان کے نام کسی کتاب کا انتساب موجب مسرت ہونا چاہئے۔ لیکن ذرا انتساب کی عبارت ملاحظہ ہو:

انتساب بہ، دشمنان ہندی کے معتوب اول، امرت رائے۔

کاش کوئی اردو والا تاریخی لسانیات میں ان کی انگریزی کتاب، A House Divided کے برابر یا نصف یا کم از کم، ایک چوتھائی علمیت کی کتاب تصنیف کر سکتا۔ اور پدم بھوشن ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صدر، ساہتیہ اکیڈمی، جن کی کتابوں ’امیر خسرو کا ہندوی کلام‘ (طبع دوم) اور ’ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ (طبع دوم) نے بڑے بڑے محققوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں اور وہ انہیں اپنا ہمسر ماننے پر مجبور ہیں۔

انتساب کی بچکانہ اور اسکولی لڑکیوں کی cheer leader جیسی زبان سے قطع نظر کر بھی لیا جائے تو اس کی عبارت سے نکلنے والے حسب ذیل نتائج سے قطع نظر کرنا غیر ممکن ہے۔

(۱) امرت رائے کی کتاب بنیادی طور پر اردو کے خلاف ہے، اور اردو کو تقسیم ہند کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ گیان چند جین ہی نکال سکتے ہیں کہ جو شخص اس کتاب سے اختلاف رکھے وہ ’’دشمنان ہندی‘‘ میں سے ہے اور امرت رائے ان ’’دشمنان ہندی‘‘ کے ’’معتوب اول‘‘ ہیں یعنی کسی اردو مخالف کتاب سے علمی اختلاف کرنے کے معنی ہیں ’’دشمنان ہندی‘‘ میں شمار کئے جانے کا مستوجب ٹھہرنا، اور اس کے مصنف کو اپنا ’’معتوب اول‘‘ قرار دینا۔

(۲) پروفیسر موصوف شاید نہیں جانتے کہ امرت رائے کی کتاب کے خلاف بہت ہی کم اردو والوں نے احتجاج کیا اور جو کیا وہ بھی غیر موثر۔ اس کتاب کے سب سے بڑے مخالف خود امرت رائے کے صاحبزادے اور مشہور ہندی و انگریزی ادیب آلوک رائے ہیں۔ لہٰذا گیان چند جین در اصل یہ کہہ رہے ہیں کہ آلوک رائے ابن امرت رائے ابن پریم چند ’’دشمنان ہندی‘‘ میں ہیں اور خود آلوک رائے کے باپ ان کے ’’معتوب اول‘‘ ہیں۔

(۳) پروفیسر گیان چند کے پاس کیا کوئی پیمانہ ہے جس کے ذریعہ وہ ناپ سکتے ہیں کہ کس کے پاس کتنا علم ہے، اور ان کا دعویٰ ہے کہ کسی اردو والے کے پاس امرت رائے کا نصف یا چوتھائی علم بھی نہیں۔ جین صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے علم کو بھی من، سیر، چھٹا نک یا روپیہ آنہ پائی کی مقدار میں ناپنے کا پیمانہ ایجاد کر لیا ہے۔ ہم اردو والوں کے علم کی مقدار متعین کرنے سے پہلے وہ ’’دشمنان ہندی‘‘ کے سر فہرست آلوک رائے کے علم کے بارے میں معلومات حاصل کر لیں۔ آلوک رائے آکسفورڈ یونیورسٹی میں روڈز اسکالر (Rhodes Scholar) رہے ہیں۔ یہ اعزاز دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ کیمبرج کے پی ایچ۔ ڈی۔ ہیں اور ان کی کتابیں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے مطبعوں سے چھپتی ہیں۔ وہ آئی۔ آئی۔ ٹی دلی میں انگریزی کے پروفیسر رہے ہیں۔ اس وقت وہ دہلی یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر ہیں اور دنیا کی مختلف بڑی یونیورسٹیوں میں لکچر یا تعلیم دے چکے ہیں۔ پروفیسر گیان چند اپنے پیمانے میں ناپ لیں کہ آلوک رائے کا علم اپنے باپ کے علم کا چوتھائی ہے یا نصف، یا اس سے کچھ کم۔ اب رہے بیچارے اردو والے تو ان میں کوئی روڈز اسکالر یا کیمبرج کا پی ایچ۔ ڈی۔ نہیں ہے، لیکن اگر گیان چند جین صاحب اردو کے ایک دو علما، مثلاً بزرگوں میں گوپی چند نارنگ، مختار الدین احمد، رشید حسن خاں، انصار اللہ نظر اور نوجوانوں میں سراج منیر مرحوم، تحسین فراقی اور سہیل احمد ہی کی تحریریں پڑھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ صاحب علم کسے کہتے ہیں۔ جہاں تک سوال ’’تاریخی لسانیات‘‘ کا ہے تو اس فن میں گیان چند جین کا مبلغ علم اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ ماکس میولر اور شوکت سبزواری کو تاریخی لسانیات میں مستند سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ کسی اور کے علم کا کیا محاکمہ کر سکیں گے۔

(۴) دنیا جانتی ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کو اردو کی ساری دنیا سے جتنے اعزاز، اکرام، ایوارڈ، اور انعام ملے ہیں، اتنے اردو کے کسی ادیب کو نہیں ملے، اور نہ شاید آئندہ مل سکیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے ممدوح گوپی چند نارنگ کو اردو کی دنیا میں اپنے بزرگوں اور معاصروں کے ساتھ کسی گھوڑ دوڑ میں مبتلا بیان کرنا پسند کرتے ہیں کہ ان کی تیز رفتاری نے اردو کے ’’بڑے بڑے محققوں‘‘ کے ’’ہوش اڑا دیئے ہیں‘‘ اور ’’وہ انہیں اپنا ہمسر ماننے پر مجبور ہیں۔‘‘ اصل صورت حال تو یہ ہے کہ اردو والے گوپی چند نارنگ کو اپنا ہمسر تو کیا، اپنے سے بر تر مانتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس کی وجہ ’’امیر خسرو کا ہندوی کلام‘‘ نہیں، جو گوپی چند نارنگ کی کمزور کتابوں میں سے ہے۔’’دیباچۂ غرۃ الکمال‘‘ میں خود خسرو نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے ہندی کلام کو کبھی جمع نہیں کیا بلکہ دوستوں کے تفنن کی خاطر کبھی کبھی ہندوی میں بھی طبع آزمائی کی۔ امیر خسرو کے معتبر ترین محقق وحید مرزا نے اپنی کتاب ’’امیر خسرو‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ بد قسمتی سے خسرو کا زیادہ تر ہندی کلام دست برد زمانہ سے غارت ہو گیا، اس لئے کہ خود انہوں نے یا ان کے ہم عصر نے اسے محفوظ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور خود گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب میں شامل پہیلیوں کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ اس کتاب میں شامل زیادہ سے زیادہ دس پہیلیاں ایسی ہیں جن کا ’’مستند ہونا زیادہ قرین صحت ہے‘‘ (امیر خسرو کا ہندوی کلام، ص: ۲۵) یعنی یہ دس بھی بے شک و ریب خسرو کی تصنیف نہیں ہیں۔ خود مصنف/ محقق کے اس اعلان کے بعد اس غیر معتبر کلام کو جرمنی کی کسی لائبریری سے نکال کر شائع کرنے سے کس محقق کے ہوش اڑ گئے؟

دوسرا افسوس ہمیں یہ ہے کہ جین صاحب نے بے وجہ اور بے دلیل یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ اردو کے محققوں اور گوپی چند نارنگ کے درمیان کوئی معانداتی رشتہ اور مقابلہ تھا اور گوپی چند نارنگ نے ان ’’محققوں‘‘ کو ’’مجبور‘‘ کر کے اپنی وقعت ان سے منوا لی۔ گویا ادب کا میدان نہ ہوا داستان امیر حمزہ کا اکھاڑا ہوا جہاں دو سرداروں میں تین تین، بلکہ کبھی کبھی تو سات سات شبانہ روز کشتی ہوتی ہے، پھر کوئی فاتح اور کوئی مفتوح قرار پاتا ہے۔ تیسرا افسوس یہ ہے کہ ایک مدت ٹھوس علمی کاموں میں مشغول رہنے کے باوجود جین صاحب کا دماغ علمی معاملات میں بھی طالب علمانہ مقابلوں، امتحان میں اول آنے، اور ’’حریفوں‘‘ کو زک دینے کے بچکانہ خیالات سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔

انتساب کی اس بد مذاقی اور غیر علمی انداز کو دیکھنے کے بعد کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی، کہ یہ بات آشکارا ہو جاتی ہے کہ اس کتاب سے علم تو کیا، معلومات بھی نہ حاصل ہو سکے گی۔ لیکن تبصرے کا حق ادا کرنے کی خاطر مجھے یہ کتاب پوری پڑھنی پڑی۔

سترہ ابواب پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب کا باب اول ’’تمہید‘‘ پوری کتاب کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ۲۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں نہ تو زبان کے بارے میں کوئی علمی یا تحقیقی بحث ہے، نہ رسم الخط پر اور نہ ہی ادب پر۔ پورے باب میں غیر ضروری باتیں اردو زبان، اردو کے مصنفین اور بالخصوص اردو کے مسلمان مصنفین اور مسلمانوں کے خلاف بغیر کسی حوالے یا ٹھوس ثبوت کے یکجا کی گئی ہیں۔ پروفیسر جین ’’تحقیق کا فن‘‘ نامی ایک لمبی چوڑی کتاب کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ محقق کو غیر جانب دار، سچائی کا جویا، حق پرست اور غیر متعصب ہونا چاہئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے کوئی بات پوری چھان بین اور اصل ماخذ کا حوالہ دیئے بغیر نہ لکھنی چاہئے۔ اس کتاب میں بھی وہ فرماتے ہیں (ص: ۳۱) کہ ’’اہل علم کی وفا داری صرف سچ سے ہوتی ہے‘‘ اور (ص: ۵۱)’’اہل قلم کی وفا داری کسی علاقے، مذہب، زبان یا رسم الخط سے نہ ہو کر صرف سچ سے ہونی چاہئے۔‘‘ اور خود ان کا عالم یہ ہے کہ یہ پورا باب بے حوالہ، بے دلیل اور متعصبانہ بیانات سے بھرا پڑا ہے۔

’’حرف اول‘‘ میں پروفیسر جین صاحب خود تحریر کرتے ہیں:’’میرے اردو شاگردوں اور دوستوں کو شاید اس بات کا قلق ہو کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ایسے ہے جیسے میں کوئی اردو دشمن یا مسلمان دشمن ہوں۔‘‘ یعنی انہوں نے یہ کتاب خوب جان کر لکھی ہے کہ اس کے بعد انہیں اردو دشمن اور مسلمان دشمن سمجھا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کو، بلکہ اردو کے ہندو اور مسلم مصنفین کو بھی ایک دوسرے سے متنفر کرنے کے لئے لکھی گئی ہے۔ مسلمانوں اور اردو کے خلاف جتنا بھی مواد مل سکا، انگریزی، ہندی اور اردو کے مصنفین کے اقتباسات، خواہ وہ کسی کتاب کے ہوں یا تقریر کے، یا خطوط کے، وہ کتاب کے موضوع سے متعلق ہوں یا نہ ہوں، شامل کئے گئے ہیں۔ اور ہوشیاری یہ کہ ان باتوں کے معتبر یا غیر معتبر ہونے، درست یا نادرست ہونے پر کوئی بحث نہیں ہے۔ دیگر یہ کہ یہ باتیں کن سیاق و سباق میں کہی گئی ہیں، اس کا بھی پتہ نہیں۔ اس کے علاوہ، اکثر معاملات میں راوی یا تو خود جین صاحب ہیں یا ان کا کوئی شاگرد یا دوست، یا ان کا کوئی قریبی رشتہ دار۔

اب کتاب کے باب اول ’’تمہید‘‘ (ص: ۳۱ تا ص: ۳۴)، سے کچھ جواہر ریزے ملاحظہ ہوں:

(۱) میری ایک نہایت قریبی رشتہ دار سکھ خاتون نے دہلی اور یوپی میں رہنے والے مسلمانوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو ملک کی تقسیم چاہتے تھے، پھر یہ یہاں کیوں ہیں؟ (ص: ۲۵)

(۲) میری نگرانی میں پی ایچ۔ ڈی۔ کے لئے ریسرچ کرنے والے ایک ریسرچ اسکالر نے مجھے بتایا کہ اس نے اتحاد المسلمین کے امیدوار کے حق میں چار بار ووٹ دیا۔ (ص: ۲۵)

(۳) دو تین سال پہلے ستیہ پال آنند پاکستان گھوم کر آئے۔ وہاں انہوں نے اسکولی نصاب کی کتابیں دیکھیں۔ تاریخ کی کتابوں میں عام طور پر لکھا ہے کہ ہندوستان میں اسلام کے آنے سے پیشتر یہاں کے باشندے جاہل اور غیر مہذب تھے۔۔۔ محبوب صدر نے پاکستان کے اسکولی نصاب کی تفصیل دی ہے۔ اس میں اسلام کی ستائش اور غیر مسلموں کی جھوٹی ہجو کے سوا کچھ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے جیسے یہ نصاب افغانستان کے طالبان نے تیار کیا ہے۔ (ص: ۳۴)

(۴) کالی داس (گپتا رضا) نے (میرے نام) ۵ جنوری ۲۰۰۰ کو خط لکھا،۔۔۔ ’میں نے دیکھا ہے کہ کسی ہندو مشہور شاعر یا ادیب کو بخشا نہیں گیا۔ دیا شنکر نسیم، چکبست، فراق، مالک رام، گیان چند، گوپی چند نارنگ اور اب میں، سبھی پر کیچڑ اچھالی گئی ہے۔ صرف جگن ناتھ آزاد بچے ہیں کیونکہ انہوں نے اقبال کی پرستاری میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے‘۔ (ص: ۲۱ تا ۲۲)

(۵) (اردو کی) چھوٹی آسامیوں کے لئے ہندوؤں کی بہت تعریف اور آؤ بھگت کی جاتی ہے لیکن بڑے مقامات کے لئے امیدوار کا مذہب بھی دیکھا جاتا ہے۔ (ص: ۲۳)

(۶) مسلم بڑے ادیب پر کوئی چھوٹا ادیب درشتی کا لہجہ اختیار کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا، لیکن ایک بڑے ہندو ادیب کے خلاف چھوٹا ادیب بھی اپنے قلم کو بے لگام چھوڑنے کے لئے آزاد ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ رسالے کے قارئین اور ادارتی عملے کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہیں۔ (ص: ۲۳)

(۷) بڑے سے بڑے ہندو ادیب کو خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اردو دنیا میں جینا ہے تو مسلمانوں کی خوشنودی پر نظر رکھے۔ (ص: ۲۶)

(۸) اردو میں زبان کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں۔ (ص: ۱۴)

(۹) تاریخ میں مسلمانوں کی یہ پالیسی رہی ہے کہ جن علاقوں کو فتح کیا جائے وہاں کی زبان، بالخصوص رسم الخط کو ختم کر کے اپنی زبان اور لپی (رسم الخط) کو ان پر مسلط کیا جائے۔۔۔ ہندوستان میں بھی ایسی پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔۔۔ سندھی، پنجابی، کشمیری وغیرہ کی لکھاوٹ پوری طرح بدل دی گئی۔ (ص: ۱۶)

(۱۰) اردو کو ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ کہا گیا لیکن قیام پاکستان کے بعد اس کا بھانڈا پھوڑ دیا گیا۔۔۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی ضخیم تصنیف ’ہندی اردو تنازع‘ میں انکشاف کیا کہ ابتدا ہی سے انجمن ترقی اردو اور مسلم لیگ سے گہرا ربط تھا۔۔۔ تقسیم ملک سے پہلے ایسے فرقہ وارانہ خیالات کو اردو والوں کا ہندوؤں سے پوشیدہ رکھنا کہ اردو تحریک کا بنیادی مقصد پاکستان بنوانا ہے، ایسی غداری ہے جس پر میں افسوس کرتا ہوں۔ (ص: ۱۸ تا ۱۹)

(۱۱) امریکہ اور کینیڈا میں پاکستانی انگریزی ہفتے وار ہیں۔ ان سب کی وفا داری پاکستان سے ہے۔ ان میں کھل کر ہندوستان اور ہندوؤں کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔۔۔ جب ہر ملک کے اہل اردو اتنی شدت سے پاکستان نواز ہیں تو ممکن ہے ہندوستان کے مسلمان بھی ان کے ہم نوا ہوں لیکن ہندوستان میں ہندو اکثریت کے خوف سے شاید مصلحت سے کام لیتے ہوں۔ (ص: ۳۲ تا ۳۴)

(۱۲) میں اپنے اردو والے مسلمان دوستوں کی تحریریں دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ ان میں اب بھی وہی علیحدگی پسندی دکھائی دیتی ہے جو پہلے تھی۔ ابنائے وطن کے بارے میں ان کے جذبات وہی ہیں جو ہندوستان کے باہر کے اردو والوں کے ہیں۔ (ص: ۳۳)

(۱۳) اردو کے متعدد بڑے شعرا مثلاً مومن، داغ، جگر اور اصغر وغیرہ کی زندگیوں کے ساتھ طوائفوں کے معاملات لپٹے ہوئے ہیں۔ (ص: ۳۸)

(۱۴) گوپال کرشن مانک ٹالا نے (مجھے) اپنی ۲۸ نومبر ۲۰۰۱ کی چٹھی میں لکھا، ’آپ نے اردو کے مسلم ادیبوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل سچ ہے لیکن۔۔۔ آپ کچھ بھی کر لیجئے یہ لوگ سدھرنے والے نہیں بلکہ وہ آپ کو Ignore کرنا شروع کر دیں گے۔‘ (ص: ۳۹ تا ۴۰)

(۱۵) ہندوستان میں مسلمان اردو والے اپنی کمر پر دو قومی نظریے کا بھاری گٹھر اٹھائے پھرتے ہیں۔۔۔ ایک عام ہندو کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے برابر کیوں رکھا جائے۔ (ص: ۳۳)

(۱۶) اردو ادب۔۔۔ میں غیر مسلموں بالخصوص ہندوؤں کے دینی عقائد، معاشرے اور معاصر شخصیتوں پر اتنی سیاہی پوت دی گئی ہے کہ کوئی ہندی معاصر اسے قبول نہیں کر سکتا۔ وہ یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ یہ میرا ادب نہیں، کسی دوسری ملت کی چیز ہے۔ (ص: ۰۲)

(۱۷) ہندوستان میں اردو کے ہندو مصنف اتنے گھبرائے ہوئے ہیں کہ وہ مسلمان اردو ادیبوں کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔ (ص: ۹۳)

یہ تحقیقی جواہر پارے اور ’’حق پرستانہ‘‘ شہپارے کسی علمی ادبی کتاب کے بجائے وشو ہندو پریشد یا شیو سینا کے انتخابی منشور یا نریندر مودی کی تقریر کا اقتباس معلوم ہوتے ہیں۔

یہ کتاب علم سے کتنی دور ہے، اس کی ایک مثال مصنف علام کا یہ بیان ہے کہ مسلمان جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کی زبان، بالخصوص رسم الخط کو ختم کر دیتے ہیں۔ گیان چند جین نے راجا رام موہن رائے کی ایک مبینہ تحریر فرمان فتح پوری کے حوالے سے نقل کی ہے کہ ’’ہندوستان کا بڑا حصہ کئی صدیوں سے مسلمان حکمرانوں کے زیر نگیں چلا آ رہا ہے۔۔۔ بنگالی چونکہ جسمانی طور پر کمزور تھے وہ اسلحہ اٹھانے سے گریز کرتے تھے۔۔۔ ان کی جائیدادیں تباہ کی جاتی رہیں۔ ان کے مذہب کی توہین ہوتی رہی۔۔۔‘‘ اگر یہ صحیح ہے کہ سب سے زیادہ غلامی بنگال میں رہی تو سات سو سال کی مسلمانوں کی حکمرانی کے باوجود بنگال کی زبان اور اس کا رسم الخط مسلمانوں نے ختم کیوں نہیں کر دیا؟ زبان نہیں تو رسم الخط تو ضرور ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ پھر ایسا کیوں نہیں ہوا؟

جین صاحب کے عقیدے کے مطابق سندھی، پنجابی، اور کشمیری کے رسم الحظ مسلمانوں نے تبدیل کر دیئے۔ لیکن جین صاحب یہ نہیں بتاتے کہ مسلمانوں کے آنے سے قبل ان زبانوں کا رسم الخط کیا تھا اور اس کی تبدیلی کس زمانے میں ہوئی، اور کشمیریوں، پنجابیوں اور سندھیوں نے کن حالات میں اسے قبول کیا، اور یہ رسم الخط کتنے عرصے میں پوری طرح تبدیل ہو سکا۔

پروفیسر جین کو ان سوالوں سے غرض نہیں، انہیں تو اردو کی مخالفت کے بہانے مسلمانوں کی ہجو لکھنی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

بیرونی حملہ آوروں نے اپنے اقتدار اور احساس برتری کے نشے میں ہندوستانی زبان اور لپی کو قبول نہ کر کے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنائی۔۔۔ قرون وسطیٰ میں مسلمانوں نے جب دوسرے ممالک کو فتح کیا، سب سے پہلے وہاں کی زبان اور رسم الخط پر ضرب کاری لگائی۔۔۔ اس کی بہترین یا بدترین مثال فتح ایران ہے۔ (ص: ۱۵۳)

سوال از آسماں جو اب از ریسماں شاید اسی کو کہتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے، دعویٰ تھا ہندوستان کے بارے میں، اور دلیل لائے ایران کے بارے میں۔ وجہ ظاہر ہے، مصنف علام کو معلوم ہے کہ ہندوستان کے بارے میں ان کا دعویٰ سراسر پادر ہوا ہے، لہٰذا وہ بھاگ کر ایران میں پناہ لیتے ہیں۔ یہاں بھی وہ ایران کی حقیقت نہیں بیان کرتے کہ مسلمانوں کے حملے کے وقت ایران میں تحریری زبان، یعنی پہلوی، بیشتر کاہنوں اور مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی۔ ہزوارش کی بے تحاشا آمیزش کے سبب تقریری زبان سے اس کا رشتہ اس قدر ٹوٹ چکا تھا کہ خود مذہبی رہنما صاحبان لکھتے کچھ تھے اور پڑھتے کچھ تھے۔ عربوں کے یہاں زبان اور رسم الخط پر کوئی پابندی نہ تھی، تحریر سب کی میراث تھی۔ اب جن لوگوں کو علم کا شوق تھا انہوں نے لامحالہ عربی رسم الخط اختیار کیا۔ اس کے باوجود، خود انگریزوں کے بیان کے مطابق ایران کو مکمل طور پر عربی رسم الخط اختیار کرنے میں کوئی تین سو برس لگ گئے۔ فارسی زبان باقی رہی، صرف رسم الخط بدل گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ جس فارسی زبان سے ہم واقف ہیں، اس زبان میں ادب کی متفرق پیداوار آٹھویں صدی سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ یہ کیونکر ممکن ہوتا اگر زبان ختم کرنے کا کوئی منصوبہ عربوں کے پاس تھا اور اس پر وہ عمل در آمد کر رہے تھے؟

مصر کا حال سب پر عیاں ہے۔ مسلمانوں کے آنے کے بہت پہلے وہاں کی زبان مصری تھی (جسے Demotic بھی کہتے ہیں)، قبطی اس کا رسم الخط تھا، اور رسم الخط بیش از بیش تر کاہنوں اور مذہبی رہنماؤں کے پاس تھا۔ عیسائی مبلغوں نے اپنی آسانی کی خاطر قبطی کو ترک کر کے یونانی کو رائج کیا۔ زبان وہی مصری رہی۔ ساتویں صدی کے وسط میں جب عرب وہاں پہنچے تو انہوں نے عربی کو سرکاری زبان قرار دیا اور سرکاری نوکریوں کے حصول کے لئے قبطی عیسائیوں نے عربی پڑھنی شروع کی۔ لیکن ان کی اپنی زبان وہی یونانی رسم الخط میں قبطی (یا درست تر کہیں تو مصری) رہی۔ یہ سلسلہ کوئی پانچ سو برس چلا۔ اس دوران قبطی عیسائیوں پر فلسطینی اور شامی عیسائیوں کے مظالم اس قدر بڑھ گئے تھے کہ قبطیان عیسائی نے صلیبی جنگوں کے زمانے میں عربی زبان قبول کر لی، صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ہم ان صلیبی جنگوں والے عیسائیوں سے اظہار برأت کرتے ہیں۔ لہٰذا عربی کو مصر میں پھلتے پھولتے اور عمومی طور پر قائم ہوتے کوئی سات سو برس لگ گئے اور یہ تلوار کی نوک پر نہیں ہوا۔ بعد میں قبطی عیسائیوں نے بے تکلف اسلام بھی قبول کیا لیکن وہ الگ مبحث ہے۔

مصر کے چند ہی سال بعد اسپین پر مسلمان قابض ہوئے اور وہاں کم و بیش آٹھ سو برس رہے، لیکن وہاں کے لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ وہاں کی زبان وہی رہی جو پہلے تھی۔ عربی علمی زبان البتہ ہو گئی، لیکن اس میں حیرت کی کیا بات ہے جب اس وقت آدھی دنیا کی علمی زبان عربی ہو چکی تھی یا ہو رہی تھی۔

شمالی اور مشرقی افریقہ میں عربوں کی آمد کے وقت قبائلی زبانیں رائج تھیں جن کا کوئی رسم الخط نہ تھا۔ جب عربوں کی ہمت افزائی کے باعث وہاں علم کا چرچا ہوا تو لا محالہ عربی کا چلن بڑھا۔ کچھ علاقوں نے عربی زبان بھی اختیار کر لی۔ لیکن نائیجیریا، سینیغال وغیرہ خطّوں میں پرانی ہی زبانیں رائج رہیں اور اب بھی رائج ہیں۔ نائیجیریا میں دو اہم قبائلی زبانیں اب بھی رائج ہیں، لیکن وہاں کی سرکاری زبان انگریزی ہے، عربی نہیں۔ سینیغال میں بھی قبائلی زبانیں موجود ہیں، لیکن وہاں کی سرکاری زبان عربی نہیں، فرانسیسی ہے۔

سوڈان کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں قبائلی زبانوں اور عربی کے میل ملاپ سے کئی زبانیں پیدا ہوئیں جو عربی النسل ہیں لیکن اکثر ایسی ہیں کہ جن میں آپسی مفہومیت (Comprehensibility) نہیں ہے، لہٰذا انہیں الگ زبانیں سمجھنا چاہئے۔ گیان چند جین صاحب ماکس میولر اور شوکت سبزواری جیسے غیر سائنسی ’’ماہرین‘‘ کے حوالے سے بار بار کہتے ہیں کہ دو زبانوں کے اختلاط سے نئی زبان نہیں پیدا ہوتی۔ وہ اور کچھ نہیں تو یہودیوں کی زبان ییدی (Yiddish) کو دیکھ لیتے جو عبرانی حرفوں میں لکھی جاتی ہے لیکن جس میں مصوتوں کو ظاہر کرنے والے حرف بھی ہیں اور جس کی بنیادی لفظیات اور صرف و نحو نویں صدی کی جرمن کی ہیں۔ گیان چند جین صاحب لسانیات میں اپنی تربیت کا بار بار حوالہ دیتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ ایک زبان پنسلوانیا ڈچ (Pennsylvania Dutch) یا پنسلوانیا جرمن (Pennsylvania German) بھی ہے جو امریکہ کی ریاست پنسلوانیا میں بسنے والے جرمن اور سوئس آج بھی بولتے ہیں۔ یہ زبان جرمن اور انگریزی کے امتزاج کا براہ راست نتیجہ ہے۔ جین صاحب گھر کے قریب آئیں تو ماپلا عورتوں کی ملیالم ملاحظہ کریں جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور معیاری ملیالم سے بہت مختلف ہے۔ تامل ناڈو میں ایک زبان ’’اروی‘‘ نامی ہے جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور جس میں تامل اور عربی لفظیات کو بخوبی برتتے ہیں۔

زبانوں کے اختلاط سے نئی زبان نہیں بنتی، یہ دعویٰ گیان چند جین اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں بعض ’’اردو والے مسلمان‘‘ کہتے ہیں کہ مسلمانی زبانوں اور ہندوستان کی مقامی زبانوں کے اختلاط سے اردو پیدا ہوئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس ذمہ دار ماہر لسانیات یا ماہر تاریخ نے یہ بات کہی ہے۔ جین صاحب کی عادت یہ ہے کہ سیاسی پلیٹ فارم سے دیئے گئے بیانات اور غیر علمی لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ اقوال کو ’’مسلمان اردو والوں‘‘ کے ’’علمی نظریات‘‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ ایک دنیا جانتی ہے اور اس بات پر فخر کرتی ہے کہ اردو ہندوستانی زبان ہے اور ’’فوجی لشکروں‘‘ وغیرہ سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جین صاحب رائی کا پہاڑ بناتے ہیں پھر لات مار کر اسے گرا دیتے ہیں اور پھر بغلیں بجاتے ہیں کہ وہ مارا، دیکھو میں ’’ہندو‘‘ ہوں اور کتنا عقل مند اور انصاف پسند ہوں اور ’’مسلمان‘‘ کتنے احمق اور بے ایمان ہیں۔

دنیا میں مسلمانوں کی حکومت مغرب و مشرق کے اور بھی کئی ممالک میں رہی اور آج بھی ہے۔ کتنے ممالک ایسے ہیں جہاں کی زبان اور رسم الخط کو مسلمانوں نے ختم کیا؟ وسطی اور مشرقی یوروپ میں یونان و بلقان تک کے وسیع علاقے پر مسلمان صدیوں قابض رہے لیکن وہاں کی سب زبانیں اور سب رسم الخط موجود ہیں، عربی ترکی کہیں بھی نہیں۔ یوگو سلاویہ کے خطّوں بوسنیا، کو سوو کو دیکھئے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن ان کی زبان اور رسم الخط اب بھی وہی ہیں جو مسلمانوں کے پہلے تھے۔ البانیہ میں مسلمان نوے فی صدی سے بھی زیادہ ہیں، لیکن وہاں بھی زبان اور رسم الخط مقامی ہیں، عربی یا ترکی نہیں۔ انڈونیشیا اور ملیشیا کو دیکھئے جہاں کی زبانیں قبل اسلامی ہی ہیں، حالانکہ مسلمان وہاں بھاری اکثریت میں ہیں۔ رسم الخط البتہ دونوں زبانوں کا رومن ہے، اور یہ کرم فرمائی بیچارے مسلمانوں کی نہیں، ڈچ حاکموں کی ہے۔ چین کے مشرقی علاقے میں مسلمان حضرت عثمانؓ کے وقت سے ہیں اور اکثریت میں ہیں۔ انہوں نے مقامی چینی زبان اور رسم الخط کو حسب سابق قائم رکھا ہے۔

کالی داس گپتا یا جین صاحب کا عقیدہ ہے کہ اردو کے مسلمان ادیبوں کے ہاتھوں اردو کے ہندو شاعروں اور ادیبوں کی تذلیل کی گئی اور ان پر کیچڑ اچھالی گئی۔ لیکن کالی داس گپتا رضا صاحب نے جن لوگوں کے نام لئے ہیں وہ سب ہندو ادیب اور شاعر اردو کے ابتدائی درجے سے لے کر ایم۔ اے۔ تک کے نصاب میں شامل رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ ان پر ریسرچ کل بھی ہو رہی تھی اور آج بھی ہو رہی ہے۔ اگر ان کا یہ عقیدہ درست ہے کہ اردو زبان صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے تو اس کے ذمہ دار ہندو حضرات ہیں جنہوں نے اردو کو ترک کر دیا ورنہ ہندو ادیبوں کی قدر اردو ادب اور اردو کے ادبی معاشرے میں اب تو پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ فراق کو میر سے بھی برتر سمجھنے والا کوئی ہندو نقاد نہیں، اسلام پسند اور مولانا تھانوی کے عقیدت مند محمد حسن عسکری تھے۔ پریم چند کے بارے میں یہ کہنے والے کہ وہ بڑے بڑے لکھنوی اور دہلوی علما سے بہتر اردو لکھتے ہیں، کوئی جٹا دھاری پنڈت نہیں بلکہ علامہ شبلی تھے۔ بیدی کی اہمیت منوانے والے ماسٹر تارا سنگھ نہیں، آل احمد سرور تھے۔ گوپی چند نارنگ کو امریکہ میں مقیم علی گڑھ کے سابق طالب علموں نے ’’محسن اردو‘‘ کا خطاب اور ایوارڈ دیا۔ یہ وہی علی گڑھ ہے جہاں جین صاحب کے بقول ہندو دشمنی کے ’’خلیفہ‘‘ سر سید احمد خاں نے اپنی ’’ہندو دشمنی‘‘ کی روایت قائم کی تھی۔ مثالیں بے شمار ہیں۔ یہ صرف چند نمونے ہیں۔ جین صاحب عالم فاضل اور ادب کے مورخ ہیں، مجھ سے زیادہ جانتے ہوں گے۔

فاضل مصنف نے ہندوؤں کی تذلیل کرنے والوں میں سرسید احمد خاں کا نام اس لئے بھی رکھا ہے کہ ان کے کالج میں ہندو طلبا کو سرخ ٹوپی پہننی پڑتی تھی۔ کیا سرخ ٹوپی پہننے سے غیر مسلموں کے مذہب پر کوئی ضرب پڑتی ہے؟ دنیا جانتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ڈریس ہندو اور مسلمان کے لئے الگ الگ نہیں ہوتے۔ آج پورے ملک میں انگریزی اسکولوں میں طالب علموں کو ٹائی لگانی پڑتی ہے اور لڑکیوں کو انگریزی لباس بھی پہننا پڑتا ہے۔ ان بچوں میں کثیر تعداد ہندوؤں کے بچوں کی ہے۔ اس سے بہت کم تعداد میں مسلمانوں کے بچے ہیں، اور عیسائی تو نام کے ہیں۔ نہ کبھی ہندوؤں نے اعتراض کیا کہ یہ لباس عیسائیوں کا ہے نہ مسلمانوں نے اور نہ اس مغربی لباس کے پہننے سے کسی ہندو کی رگ ہندویت پھڑکتی ہے۔ پھر یہ سرخ ٹوپی کی شکایت کیوں؟ سرخ ٹوپی کوئی اسلام کی علامت تو نہیں۔ اور اب تو یہ ٹوپی اور شیروانی دونوں ہی علی گڑھ سے خارج ہو گئے ہیں۔ مصنف علام یہ بھول گئے کہ جب ۱۸۸۸ میں پنجاب کے مسلمانوں نے علی گڑھ میں ایک سونے کا تمغہ قائم کیا جو مسلمانوں کے درمیان بی۔ اے میں اول آنے والے لڑکے کو ہر سال دیا جانا تھا تو سرسید نے اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے ایسا ہی تمغہ ہندو طالب علموں کے لئے بھی قائم کیا۔

مسلمانوں کے خلاف جین صاحب کے دل میں (اور اب زبان پر) شکوؤں کا ایک طومار ہے۔ اس کو دیکھ کر ایک یہودی لطیفہ یاد آتا ہے جسے مشہور یہودی رپورٹر ٹامس فریڈ میں (Thomas Friedman) نے بیان کیا ہے:

دو یہودی کسی غیر ملک میں پہنچتے ہیں۔ وہاں سرحد پر پاسپورٹ کنٹرول افسر اُن سے پاسپورٹ اور ویزا طلب کرتا ہے۔ اس پر ایک یہودی اپنے ساتھی سے سرگوشی میں کہتا ہے،’’دیکھا، یہاں کے لوگ بھی کس قدر اینٹی یہودی ہیں، ہم سے پاسپورٹ اور ویزا طلب کر رہے ہیں۔‘‘

جہاں تک سوال ہے اس بات کا کہ بڑے سے بڑے ہندو ادیب پر کوئی بھی چھوٹا موٹا مسلمان ادیب درشت لہجے میں تنقید کر سکتا ہے، لیکن کسی ہندو ادیب کی مجال نہیں کہ کسی بڑے مسلمان ادیب پر کچھ تنقید تو کر دیکھے، تو ہمارے پروفیسر صاحب ذرا اس بات کو ذہن میں لائیں کہ ابو الکلام آزاد، کلیم الدین احمد اور آل احمد سرور سے بڑھ کر عالی مرتبت اردو ادیب کون ہیں، اور پھر یہ غور کریں کہ اسلوب احمد انصاری ان تینوں حضرات کو مسلسل سب و شتم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسن کو آل احمد سرور نے ایک انتخاب میں رضیہ سجاد ظہیر پر فوقیت دی تھی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے سرور صاحب کے بارے میں کیا کیا دل آزار باتیں نہیں لکھیں؟ خود محمد حسن کے خلاف گوپال متل نے نہایت سخت لکھا لیکن ’’مسلمان اردو والوں‘‘ نے گوپال متل کو کچھ بھی نہ کہا۔ رشید حسن خاں نے ’’علی گڑھ تاریخ ادب اردو‘‘ کے مصنفین کے خلاف کیا سخت ترین تنقید نہیں کی؟ رضوان احمد نے عابد رضا بیدار کو کئی سال تک اپنے قلم کے نشانے پر رکھا۔ کیا گیان چند جین کو نہیں معلوم کہ ذکی کاکوروی نے مسعود حسن رضوی ادیب کو کس کس طرح طنز و تعریض کا نشانہ بنایا؟ اور بھی مثالیں ہیں، گیان چند جین اگر ایمان دار دل سے غور کریں گے تو انہیں خود یاد آ جائیں گی۔ (میں پاکستان سے مثالیں نہیں دے رہا ہوں، ورنہ فوری طور پر کئی باتیں میرے ذہن میں موجود ہیں۔)

جین صاحب کے ’’دل میں خیال آتا ہے کہ۔۔۔ ممکن ہے ہندوستان کے مسلمان بھی‘‘ پاکستان نواز ہوں، لیکن ’’ہندوستان میں ہندو اکثریت کے خوف سے شاید مصلحت سے کام لیتے ہوں۔‘‘ یعنی ہندوستان کے اردو لکھنے والے مسلمان پاکستان نواز اور غدار ہیں۔ خیر یہ تو جین صاحب کا خیال تھا اور ایسے خیالات آر۔ ایس۔ ایس، وشو ہندو پریشد اور شیو سینا وغیرہ کے عالم فاضل لوگوں کے بھی دل میں آتے ہوں گے۔ لیکن ان کے اس ارشاد کی دلیل کیا ہے کہ ان کے ’’اردو والے مسلمان دوستوں کی‘‘ تحریروں میں ’’اب بھی وہی علیحدگی پسندی دکھائی دیتی ہے جو پہلے تھی‘‘۔ (ص: ۳۳) جین صاحب نے اپنے کئی ’’اردو والے مسلمان دوستوں‘‘ کا ذکر اس کتاب کے صفحہ VI پر کیا ہے۔ کچھ مزید دوستوں کا ذکر متن کتاب میں بھی ہے۔ بھلا وہ ان میں سے ایک کی کوئی تحریر کیا، ایک جملہ ہی دکھا دیں جس میں ’’علیحدگی پسندی‘‘ ہو اور ’’ابنائے وطن (= ہندوؤں)‘‘ کے تئیں ان کا وہی رویہ نظر آتا ہو جو ’’ہندوستان کے باہر اردو والوں (=پاکستانیوں)‘‘ کا ہے۔ لگے ہاتھوں اپنے ان ہی دوستوں کی کسی تحریر کا ایک جملہ بھی ایسا دکھا دیں جس میں ’’وہ علیحدگی پسندی‘‘ نظر آئے ’’جو پہلے تھی‘‘، اور اس ’’پہلے تھی‘‘ کی بھی تھوڑی سی تفصیل وہ پیش کر دیتے تو اور بھی خوب ہوتا۔

زیر تبصرہ کتاب کے بقیہ ابواب میں اسی قسم کے نظریات اور عقائد کی تفصیل ہے۔ کہیں کہیں عنوانات سے دھوکا ہوتا ہے کہ یہاں شاید کوئی علمی بحث ہو گی۔ مثلاً تیسرے باب کا عنوان ہے ’’اردو اور ہندی کے آغاز کی تلاش اور محققین‘‘ لیکن پورے باب میں ’’وہابیت‘‘، شاہ ولی اللہ کی تحریک، شیخ احمد سرہندی، مجدد الف ثانی کی تحریک،’’تحریک اتحاد اسلامی‘‘ سے لے کر بھارتی جنتا پارٹی تک کا ذکر ہے اور آخر میں حسب ذیل گل افشانی کی گئی ہے:

ہندوستان کے مسلمان طلبہ اور اساتذہ کا اہل پاکستان سے کافی رابطہ رہتا ہے، اپنے عزیزوں سے ملنے ملانے کے لئے ان پر پاکستان کے طرز تعلیم اور نصاب کا اثر ضرور پڑتا ہو گا۔ (ص: ۵۶)

معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں آباد ہونے کے بعد جین صاحب کے علمی اور تحقیقی طریق کار میں گمان، ظن (خاص کر سوئے ظن)، اور عقلی گُدے کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ورنہ وہ ’’ضرور پڑتا ہو گا‘‘ جیسے فقروں کو علمی بحث میں جگہ نہ دیتے اور یہی نہیں، انہوں نے کئی جگہ ایسا کیا ہے۔ جین صاحب کو غالباً یہ بھی معلوم نہیں کہ اپنے عزیزوں سے ملنے ملانے کے لئے پاکستان کے لئے عموماً ایک ماہ کا ویزا ملتا ہے اور ہندوستان سے پاکستان جانے والے زیادہ تر سن رسیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ نئی نسل والوں میں سے اکثر نے تو اپنے اعزا کو دیکھا بھی نہیں۔ وہاں یہ سن رسیدہ یا نو عمر لوگ (اگر کوئی ہوں) ایک ماہ میں نہ تو اسکول میں کچھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ پڑھا سکتے ہیں۔ پھر ان پر پاکستان کا زہریلا اثر کہاں سے اور کتنا پڑتا ہو گا؟

جین صاحب کے باب ہشتم،’’ہندی کے ماضی پر اہل اردو کے دو سوالات‘‘ میں مسلم لیگ کے بارے میں ارشاد ہے:

ظاہر ہے کہ مسلم لیگ کا ہریجنوں کے لئے پریم دکھانا حب علی کی وجہ سے نہیں، بغض معاویہ کے سبب تھا۔ ہندوؤں میں پھوٹ ڈالنے کی خاطر۔ (ص: ۱۱۹)

جین صاحب نے ’’ظاہر ہے‘‘ کہہ کر تاریخی تحقیق کا حق ادا کر دیا، لیکن وہ یہ نہ واضح کر سکے کہ اس باب میں (بلکہ پوری کتاب میں) اس بحث کی ضرورت کیونکر ظاہر سمجھی جائے۔ وہ آگے چل کر ہندی کی برتری اس طرح بیان کرتے ہیں:

ہندی کے علما کی تحریریں دیکھئے کس قدر عبور اور قدرت کے ساتھ، سنسکرت، پالی، پر اکرت اور اپ بھرنش کے الفاظ اور قواعد کو پانی کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ان کے مقابل نا واقفان اردو کو دیکھئے جو اپنی لسانی عصبیت کو عدم واقفیت اور جہالت کا جواز سمجھتے ہیں۔ (ص: ۱۲۵)

پروفیسر گیان چند جین یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ ’’اردو کا مزاج تنگ نظری کا ہے‘‘ (ص: ۱۳۴) پھر اگلے باب میں آگے اردو کو میل جول کی زبان نہ مانتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

فاتح اور مفتوح میں کہاں کا میل، کیا ہندو سومناتھ کے مندر توڑنے والوں، جزیہ لگانے والوں، ہندو کلچر کو تباہ کرنے والوں پر ملتفت ہوتے۔ اردو میل جول کی نشانی ہے یا ہندوستان کی زبان سے الگاؤ برتنے کی علامت۔ (ص: ۱۴۸)

دسویں باب ’’ہندی اردو تنازع اور فرقہ وارانہ سیاست‘‘ میں بھی پیٹ بھر کر زہر اُگلا گیا ہے۔ مندروں کو توڑنے اور مسلمان بادشاہوں کی ہندو بیویوں وغیرہ کا ذکر کرنے سے شوق ستم نہ پورا ہوا تو بھارتیندو کے حوالے سے لکھتے ہیں۔’’یہ (اردو) طوائفوں کی زبان ہے، ہندو رئیسوں کے بد چلن لڑکے طوائفوں اور دلالوں سے گفتگو کرنے کو اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (ص: ۱۸۰) جین صاحب کا عقیدہ ہے کہ بھارتیندو نے ’’طوائفوں کی زبان‘‘ والا لقب بنگال کے گورنر سے سیکھا ہو گا۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ جین صاحب نے یہی طوائفوں کی زبان (اردو) نہ صرف پڑھی بلکہ تیس چالیس سال تک یونیورسٹیوں میں پڑھائی اور پچیسیوں کتابیں لکھیں۔ اسی کی روٹی کھائی، اسی سے نام و نمود کمایا۔ انہیں کس بنگال کے گورنر نے گمراہ کیا تھا؟

گیارہویں باب،’’اردو کی ادبی تاریخ کے کچھ موضوعات‘‘ میں صرف ایک موضوع ہے اور وہ یہ کہ اردو کی کچھ مثنویوں میں (سب میں نہیں، یہ جین صاحب بھی مانتے ہیں) ہیرو مسلمان ہوتا ہے اور ہیروئن ہندو۔ جین صاحب کے خیال میں یہ ہندوؤں کی توہین ہے،’’اس موضوع میں مذہبی تفوق کے ساتھ ایک رکیک جنسی جارحیت ہے۔‘‘ (ص: ۱۹۲) جین صاحب یہ ملاحظہ کرنا بھول گئے کہ وہ غالباً پہلے محقق ہیں (اور وہ ہندو بھی نہیں، جین ہیں) جنہیں یہ نکتہ سوجھا ہے۔ مثنویوں کے کردار تو فرضی ہوتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں کہیں اور نہیں، ہندوستان کے سیاسی حلقوں، فلم انڈسٹری اور میٹرو پولیٹن شہروں کو دیکھئے، بہتیرے ایسے مسلمان ملیں گے جن کی بیویاں اور محبوبائیں ہندو ہیں اور بہت سے ایسے ہندو ہیں جن کی بیویاں مسلمان ہیں۔ جین صاحب کو فرضی کہانی پر اعتراض ہے، حقیقی زندگی پر نہیں۔

پروفیسر موصوف کی مسلمان دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اختر حسین رائے پوری کے ترجمہ ’’شکنتلا‘‘ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ’’ابا‘‘،’’امی جان‘‘،’’بڑی بی‘‘ اور ’’میاں‘‘ (شوہر) جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو خالص ’’اسلامی معاشرت‘‘ کے الفاظ ہیں اور ’’ہندو گھرانوں کے لئے بھی یہ الفاظ بالکل اجنبی اور بیگانہ ہیں۔‘‘ (ص: ۲۰۷/ ۲۰۸) لیکن اگر جین صاحب کو اختر حسین رائے پوری کی ’’ذہنیت‘‘ پر اعتراض ہے کہ انہوں نے اپنے دیباچے میں ایک جملہ ایسا لکھا ہے جو نازیبا ہے، تو انہیں گوپی چند نارنگ کی بیگم پر بھی اعتراض ہے کہ انہوں نے جین صاحب کے سوال،’’آپ کیسی ہیں؟‘‘ کے جواب میں ’’خدا کا شکر‘‘ کہا۔ انہیں ’’بھگوان‘‘ یا ’’ایشور‘‘ کہنا چاہئے تھا۔ (ص: ۲۸)

گیارہویں باب کے آخر میں پورا ایک صفحہ ’’بابری مسجد‘‘ پر ہے۔ پیرا گراف شروع ہوتا ہے اس جملے سے:’’عام اردو پڑھنے والے محمود غزنوی کے موید ہیں۔‘‘ (ص: ۲۱۵) بابری مسجد کا ذکر جین صاحب نے اس لئے کیا کہ ان کے عقیدے کے مطابق جب ۱۹۴۹ میں اس مسجد میں رام چندر جی کی مورتی رکھ دی گئی تھی تو جو ’’عمارت‘‘ توڑی گئی وہ مسجد تھی ہی نہیں،’’وہ تو مندر میں تبدیل ہو چکی تھی۔‘‘ لیکن ’’بابری مسجد ٹوٹنے کے انتقام کے طور پر بنگلہ دیش میں ہزاروں مندر توڑے گئے۔‘‘ جین صاحب نے یہ واقعہ کہیں پڑھا ہو گا کہ ۱۹۴۹ میں بابری مسجد کا دروازہ کھول کر اندر مورت رکھ دی گئی۔ پھر انہوں نے ۱۹۹۲ میں مسجد کے انہدام کے بارے میں پڑھا ہو گا۔ اس انہدام کے ساتھ ساتھ اور فوراً بعد جو کثیر تعداد میں مسلمانوں کا جان و مال ضائع ہوا، اس کا ذکر شاید انہوں نے کہیں پڑھا نہ سنا۔ بنگلہ دیش میں مندر توڑے جانے کا واقعہ انہوں نے بے شک پڑھا یا پھر سنا ہو گا لیکن وہ کسی قسم کا حوالہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کا راوی ستیہ پال آنند، بنگلہ دیش نہیں، پاکستان میں توڑے گئے مندروں کی تعداد ’’سینکڑوں‘‘ بیان کرتا ہے، لیکن یہاں بھی ستیہ پال آنند کی کسی تحریر کا حوالہ نہیں۔ جین صاحب ثانوی حوالے دینے کے ماہر ہیں (ان کی یہ کتاب بیشتر ثانوی حوالوں کی مرہون منت ہے اور کسی بھی ثانوی حوالے کی انہوں نے بچشم خود تصدیق نہیں کی)، لیکن یہاں وہ ثانوی حوالہ دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ بابری مسجد اگر ۱۹۴۹ میں مندر میں تبدیل ہو چکی تھی تو جین صاحب کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہندوؤں نے اپنا ہی مندر توڑا۔ سومناتھ کے مندر کا بھی جین صاحب کو نہایت غم ہے۔ اس کا ذکر وہ بار بار کرتے ہیں۔ کاش وہ رومیلا تھاپر کی کتاب اس موضوع پر پڑھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ سومناتھ کے مندر کی محمود غزنوی یا کسی بھی مسلمان کے ہاتھوں انہدام کی کوئی معاصر یا قریبی شہادت نہیں ہے۔

پروفیسر گیان چند ہم طالب علموں کو قدم قدم پر ہدایت کرتے ہیں کہ حق بات کے سوا کچھ نہ کہو، تعصب سے کام نہ لو، سچائی کو مت چھپاؤ۔ لیکن خود وہ جگہ جگہ ان باتوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور کتمان حق کی یہ ادا انہوں نے آغاز کتاب ہی سے اختیار کر لی ہے۔ ملاحظہ ہو، اپنی ’’تمہید‘‘ میں فرماتے ہیں:

میں نے ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی ’’تاریخ زبان و ادب اردو‘‘ پر ایک مضمون لکھا۔ ہندوستان کے کسی بھی اردو رسالے نے یہ مضمون نہیں چھاپا لیکن اتنا احترام کیا کہ تحریر میں انکار لکھ بھیجنے کو بھی تیار نہ ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ امریکہ آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہندوستان کا کوئی رسالہ میرا مضمون نہیں چھاپ رہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مضمون دیکھ کر بتائیں گے۔ وہ مضمون دیکھنے کے لئے لے گئے۔ کچھ دن بعد انہوں نے فون کیا کہ مضمون چھپ جائے گا۔ یہ قومی اردو کونسل کے رسالے میں چھپا۔ اس کی وجہ سے مملکت پاکستان میں آسمان ٹوٹا نہ ہندوستان میں کوئی جوالا مکھی پھوٹا، ہاں ہندوستان کے اردو پریس کی آزادی ضرور بے نقاب ہو گئی۔ (ص: ۳۳)

ابواللیث صدیقی کی تاریخ کے بارے میں گیان چند صاحب کا کوئی ’’مضمون‘‘ نہیں ہے۔ ہاں ان کی کتاب ’’اردو کی ادبی تاریخیں‘‘ کا ایک باب ضرور ابو اللیث صدیقی کی تاریخ کے بارے میں ہے۔ اس باب (یا مضمون ہی کہہ لیجئے) کے بارے میں جین صاحب کا یہ ارشاد بالکل غلط ہے کہ ’’ہندوستان کا کوئی رسالہ میرا مضمون نہیں چھاپ رہا۔‘‘ کم از کم ’’شب خون‘‘ میں اشاعت کے لئے یہ مضمون کبھی نہیں آیا۔ اگر اس تحریر کی عدم اشاعت کا سبب ’’مسلمانی تعصب‘‘ ہوتا، یا گیان چند جین صاحب کے ’’اردو والے مسلمان دوستوں‘‘ کی ’’علیحدگی پسندی‘‘ ہوتا تو اس بات کی کیا وجہ ہے کہ جین صاحب کا یہ ’’مضمون‘‘ ہی نہیں، بلکہ پوری کتاب ہی پاکستان میں انجمن ترقی اردو نے 2000ء میں شائع کر دی ہے۔ تعجب اور سخت تعجب ہے کہ جین صاحب اس حقیقت کو پردہ پوش رکھتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی انجمن ترقی اردو ہے جسے وہ زیر تبصرہ کتاب کے صفحہ ۱۹ پر ’’غداری‘‘ کا مرتکب قرار دے چکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ یہ کتاب ہندوستان میں بھی زیر اشاعت ہے اور اس کے پاکستانی ایڈیشن میں ابو اللیث صدیقی کے بارے میں حسب ذیل الفاظ گیان چند جین صاحب نے استعمال کئے ہیں:

(ابواللیث صدیقی) جب تک چند صفحات میں ہندوؤں پر سب و شتم نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا۔ (ص: ۷۵۲) افسوس کہ وہ ہندوؤں کی محترم ترین ہستیوں اور ہادیوں کا ذکر کرتے ہیں تو کمال بے حرمتی کے ساتھ۔ (ص: ۷۴۳) کتاب کا انداز تحقیقی نہیں۔۔۔ خود اشتہاری کثرت سے ہے۔ (ص: ۷۵۳) (مصنف میں) ہندو کشی (کا رجحان ہے) (ص: ۷۵۳)۔ (مصنف کی) کس غضب کی ناواقفیت ہے۔ وہ نہ یہ جانتے ہیں کہ شدر کسے کہتے ہیں، نہ ہندوستان کی قدیم تاریخ جانتے ہیں (ص: ۷۵۴) (مصنف کو) آریوں اور سنسکرت سے بغض ہے۔ (ص: ۷۵۷) (مصنف) کی طبیعت میں موزونیت نہیں تھی (ص: ۷۷۵) وغیرہ۔

یہ باتیں بالکل صحیح ہے، بلکہ میرے خیال میں تو ابو اللیث صدیقی اور بھی زیادہ سخت الفاظ میں مطعون کئے جانے کے مستحق ہیں۔ جب پاکستانیوں کو ایسی تحریر چھاپنے پر اعتراض نہیں تو ہندوستانیوں کو کیوں ہو گا۔ پھر ’’ہندوستان کے اردو پریس کی آزادی ضرور بے نقاب ہو گئی‘‘ (یعنی یہ ثابت ہو گیا کہ ہندوستان کا اردو پریس پاکستان کا غلام ہے)، کہنے سے جین صاحب کا کیا مطلب ہے؟

تین سو سے کچھ اوپر صفحات پر مشتمل اس کتاب کا چودھواں (آخری) باب ’’اردو ہندی اور رومن رسم الخط پر ایک طائرانہ نظر‘‘ صرف دس صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ہندو مسلم تنازع کے موضوع سے پاک ہے اور اپنے عنوان کے مطابق ہے، لیکن اس میں اردو کے رسم الخط کی ’’برائیاں‘‘ اور نا گری رسم الخط کی ’’خوبیاں‘‘ بیان کرنے میں خاصے جوش سے کام لیا گیا ہے۔’’اردو رسم الخط کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ صرف اسی کے کام کا ہے جو اس زبان کو جانتا ہو۔‘‘ (ص: ۳۵۱) سبحان اللہ، پھر تو یہ ’’سب سے بڑی خرابی‘‘ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہے۔ بھلا جین صاحب ان زبانوں کو جانے بغیر صرف حرفوں کو پہچان کر تامل یا تیلگو یا ملیالم کا ایک فقرہ پڑھ کر دکھا دیں، روسی اور چینی کی تو بات ہی نہ کیجئے۔ رومن رسم الخط جاننے والا تو ڈچ یا جرمن کو بھی بمشکل ہی پڑھ سکتا ہے۔’’پاکستانی علاقے کے۔۔۔ ایک مولوی صاحب پنڈت پنت کو پنڈت نپت (ن پت nipat) پڑھتے تھے۔‘‘ (ص: ۲۵۱/۲۵۲) درست، ہمارے ایک استاد انگریزی میں Gokhale کو مدتوں ’’گو کھیل‘‘ پڑھتے رہے۔ ایک اور استاد نے مجھے silhouette کا تلفظ ’’سلوٹی‘‘ بتایا، نہ کہ ’’سلوئٹ‘‘ جو صحیح تلفظ ہے۔ جین صاحب کے ملاقاتی ایک دو ہائی کورٹ کے جج ضرور ہوں گے۔ ذرا وہ ان سے پوچھ دیکھیں کہ ہائی کورٹ کے عام جج کو Puisne جج جو کہا جاتا ہے تو اس کا تلفظ ’’پیونی‘‘ کیونکر ہوا؟ یقیناً یہ رسم الخط ہی نہیں، پوری انگریزی زبان کی ’’خرابی‘‘ ہے۔ تو کیا جین صاحب قبلہ اپنے نئے ہم وطنوں کو مشورہ دیں گے کہ وہ انگریزی زبان نہ سہی، رومن رسم الخط ہی ترک کر دیں؟

اس کتاب کا طرز بیان اور طریق کار غیر علمی اور مناظرانہ ہے۔ اس کی توقع گیان چند جین جیسے استاد تو کیا کسی معمولی درجہ کے سیاسی اکھاڑے کے داؤں پیچ بیان کرنے والے سے بھی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ مصنف علام کی تمام گہر افشانیوں سے ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟ یہ نتیجہ لابدی ہو جاتا ہے کہ اردو بولنے والوں اور اردو کے مصنفین کی برائی کے پردے میں مسلمانوں کی برائی کی گئی ہے کہ لوگوں کے دل میں مسلمانوں اور اردو زبان کے خلاف بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوں۔ اردو کا تو محض بہانہ ہے، مصنف اردو سے در اصل مسلمان مراد لیتے ہیں، فرماتے ہیں:

یہ حقیقت ہے کہ تہذیبی اعتبار سے مسلمانوں کے تشخص کا جو اظہار اردو زبان و ادب میں ہوتا ہے، وہ ہندی میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہندوؤں کے تہذیبی تشخص کا اظہار جو ہندی ادب میں ہوتا ہے، اس قدر اردو میں میں نہیں ہوتا۔ اردو زبان و ادب کا لسانی و تہذیبی پس منظر عربی فارسی اور اسلام سے نزدیک ہے، ہندی زبان و ادب کا سنسکرت اور ہندو دھرم سے۔ (ص: ۲۷۹)

پوری کتاب میں پروفیسر صاحب نے دو باتوں کی تکرار کی ہے:

(۱) لسانیاتی اعتبار سے اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں۔

(۲) اردو کو مسلمان اپنے ساتھ نہیں لائے تھے۔ اردو کے بنیاد گزار اور اولین معمار ہندو ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ ’’ہندوؤں‘‘ نہیں،’’ہندوستانیوں‘‘ کو اردو کا بنیاد گزار اور اولین معمار قرار دینا چاہئے، جین صاحب کی دونوں باتیں بالکل صحیح ہیں۔ لیکن یہ نئی دریافتیں نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی صاحب ہوش اردو والا ہو گا جسے ان باتوں سے انکار ہو۔ خود پروفیسر جین نے ان باتوں کی تائید میں اردو کے متعدد معتبر بزرگوں کے اقوال پیش کئے ہیں جن میں آل احمد سرور، احتشام حسین، ابو محمد سحر، مسعود حسین خاں، سہیل بخاری اور گوپی چند نارنگ کے نام نمایاں ہیں۔ میرا بھی ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ اردو اور جدید کھڑی بولی ہندی صرف سیاسی اور بعض تاریخی وجوہ سے دو الگ زبانیں قرار پائی ہیں ورنہ لسانیات کے اصول سے دونوں میں کوئی فرق نہیں اور اردو کسی غیر ملک سے نہیں آئی، یہیں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔

میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکی کہ ان دو بدیہی باتوں کو بیان کرنے کے لئے جین صاحب کو یہ کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ایسی کتاب جس میں از اول تا آخر مسلمانوں اور اردو کے خلاف زہرا گلا گیا ہے۔ جین صاحب کے کچھ ارشادات ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔ اب مزید عبرت کے لئے یہ چند مزید ملاحظہ ہوں:

(۱) [عربی زبان کے] اس لے پالک (اردو زبان) کا فرضی جد عربی، اس کے صلبی جد سنسکرت سے علیحدگی اور آویزش پر عمل کرتا رہا ہے۔ (ص: ۷۵) – (۲) ہندی کا مزاج مرکز گریز وسعت کا ہے، اردو کا مزاج تنگ نظری کا۔ (ص: ۸۹) (۳) اردو کا مزاج تنگ نظری کا ہے۔ (ص: ۱۲۴) – (۴) ہندی اپنا دائرہ زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتی ہے، اردو اپنا دائرہ تنگ سے تنگ تر کرنا چاہتی ہے، عوام سے ہٹ کر والیان ملک اور رؤسا کی جاگیر بنا (کذا) کر۔ (ص: ۱۲۵) – (۵) سات سو سال مسلم حکومت نے۔۔۔ ہندو تہذیب کو دبا کر تیسرے درجے کی چیز بنا دیا تھا۔ (ص: ۱۷۶) – (۶) اس صدی میں اردو تحریک کے سالار علیحدگی پسند یا مسلم لیگی مسلمان رہے ہیں۔ (ص: ۲۴۲) – (۷) اگر آپ سر سید کی طرح اردو کے محافظ ہیں تو یہ بھی جان رکھئے کہ اردو کے تمام یا بیشتر ہندو ادیب اپنے سینے میں ایک راجہ شوپر شاد لئے ہوئے ہیں۔ (ص: ۲۷۸)

یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کی ہے۔ یہ ادارہ اردو اشاعت کا ایک معتبر ادارہ ہے۔ اس کے مالک جمیل جالبی کے بھائی ہیں، وہی مشہور محقق اور ادبی مورخ جمیل جالبی جن کے معتقد ہمارے فاضل مصنف بھی ہیں اور جن کو انہوں نے اپنی کتاب ’’اردو کی ادبی تاریخیں‘‘ یہ لکھ کر معنون کی ہے کہ جمیل جالبی ’’ادبی تاریخ کے سب سے اچھے اہل قلم‘‘ ہیں۔ حیرت ہے کہ اردو کے صریحاً خلاف جھوٹ اور اغلاط و تعصب سے بھری ہوئی یہ کتاب ایک اردو ادارہ سے کیسے اور کیوں شائع ہوئی؟

ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب گیان چند جین قیمت: 275/- روپے صفحات: 311

ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، کوچہ پنڈت، لال کنواں، دہلی 110006-

 

(بشکریہ اردو بک ریویو نئی دہلی، شمارہ مارچ تا مئی ۲۰۰۶ء)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے