آشوب ادب ۔۔۔ قاضی عبد الستار

 

مائک پہ وہ کوے کی طرح بول رہے ہیں

بلبل جو زمانے کے ہیں خاموش کھڑے ہیں

 

سب صدر میں بیٹھے ہیں بجاتے تھے جو بھونپو

فن کار ہیں جتنے وہ کناروں پہ پڑے ہیں

 

اس ہاتھ میں تحفے ہیں تو اس ہاتھ میں پرچے

دفتر میں مدیروں کے وہ چھپنے کو ڈٹے ہیں

 

محفوظ ہیں وہ علم سے محروم ادب سے

سینے پہ خریدے ہوئے تمغے تو لگے ہیں

 

تقریر کی بوتل سے نکلتا ہو ا پانی

تحریر کی ہر سطر میں کھانچے سے پڑے ہیں

 

بیساکھی ہے چاندی کی تو سونے کی سفارش

دہلیز پہ ایوارڈ کمیٹی کے بچھے ہیں

 

ابلیسؔ مرید ان کا ہے جبریلؔ بھی خوش ہیں

ہر فن میں وہ مولا ہیں خوشامد میں ٹِرے ہیں

 

جَو بیچ کے پائی تھی پراوٹ کی جو ڈگری

حالات کی کروٹ سے گہر اس میں جڑے ہیں

 

خالہ ہیں وزیر ان کی تو ساڑھو ہیں گورنر

ہر بورڈ کی کرسیِ صدارت پہ جمے ہیں

 

بیگم کی چھما چھم پہ ہیں قربان مناصب

’’ریڈر‘‘ کی ہے پازیب ’’پروفیسر‘‘ کے کڑے ہیں

 

ہر دور کا ہر وقت کلائی پہ بندھا ہے

دن رات مہ و سال حضوری میں بچھے ہیں

 

گردن میں جو رسی ہے تو وہ سات رتن کی

کس ٹھاٹ سے یاقوت کے کھونٹے میں بندھے ہیں

 

سونے کا جو بھوسہ ہے تو پکھراج کھلی ہے

ہر رنگ کے موتی ہیں جو راتب میں پڑے ہیں

 

ہر سینگ پہ اس بیل کے اک دنیا کھڑی ہے

ہر ’کھر‘ میں ’کڑک بجلی‘ کے دس نعل بندھے ہیں

 

ہر چال فلک سیر ہے دلکی ہو کہ پویہ

’شب دیز‘ ہیں جتنے بھی وہ شرمندہ کھڑے ہیں

 

نیلم بھی زمرد بھی ’اندھیری‘ میں ٹنکے ہیں

جتنے بھی جواہر ہیں وہ ’پٹھے‘ میں جڑے ہیں

 

’عنبر‘ کی زمیں تک ہے ’کھراہند‘ سے بھبکتی

زربفت کے قالین پہ گوبر وہ کرے ہیں

 

وہ ’ناتھ‘ دھنک پیس کے بنوائی گئی ہے

اپنوں سے شفق کی وہ کلاوے کے رنگے ہیں

 

تحریک ادب کا وہ کیا کرتے ہیں پاگر

زرکار سی اک ناند کے کولھے سے لسے ہیں

 

پگڑی میں سجائے ہوئے راونؔ کی کھڑاویں

دربار میں وہ رامؔ کے چرنوں میں پڑے ہیں

 

کیا تخت پہ طاؤس کے بیٹھے گا شہنشاہ

جس شان سے گدی پہ وہ موٹر کی جمے ہیں

 

سرقے کی تو عادت ہے تراجم سے ہیں مجبور

کتنی ہی کتابوں کے مصنف وہ بنے ہیں

 

ہیں صبح کراچی میں، سرِ شام ہیں لندن

امریکہ و جاپان تو جاتے ہی رہے ہیں

 

طلباء پہ گرجتے ہیں، برستے ہیں شب و روز

تحصیل کے دربار میں چپ چاپ کھڑے ہیں

 

ہر طرح سے لائق ہیں ہم اعزازِ’پدم‘ کے

بابو کو کمشنر کے وہ سمجھاتے رہے ہیں

 

ہر ’میر سمیلن‘ کو لکھا کرتے ہیں وہ ’پتر‘

جس بھاؤ بلا لو ہمیں آنے پہ تلے ہیں

 

نالے میں جو کیڑوں کی طرح رینگ رہے تھے

دیکھو کہ وہ اب چرخ چہارم پہ کھڑے ہیں

٭٭

تحریر نو، ممبئی، شمارہ ۱۴، مدیر: ظہیر انصاری

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے