فانی باقی ۔۔۔ شمس الرحمٰن فاروقی

 

مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے

وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد

 

گیارہ سال کی عمر، یعنی سن بلوغ کو پہنچتے پہنچتے مجھے سب کچھ سکھا اور سمجھا دیا گیا تھا۔

مثلاً یہ کہ ہماری انسانی کائنات کے دو نام ہیں: جزیرۂ آلوچۂ سیاہ، اور جمبُ دویپ۔ اور وہ کائناتی محور، جس کے سہارے کائنات کی ہر شے قائم ہے، اس کا نام کوہستان میرو ہے۔ اسے سمیرو بھی کہتے ہیں۔ سمیرو یا میرو کے پانچ رخ ہیں: اول مشرقی رخ جو نیلم کا بنا ہوا ہے۔ دوسرا جنوبی رخ جو سرخ یاقوت کا ہے، اور تیسرا مغربی رخ، یہ زرد پکھراج کا ہے۔ چوتھا شمالی رخ ہے جو سفید براق بلور کا ہے۔ اور سب سے آخری رخ سمیرو کے مرکز میں ہے۔ یہ گہرے سبز زمرد کا ہے۔

اس کائنات کے شمالی خطے میں ناقابل گذار پہاڑ ہیں اور دشت اور صحرا ہیں، یہ خطہ اس قدر وسیع اور گھنا ہے کہ اگر اوپر جا کر بہت دور سے اس کا مشاہدہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ سارا جمبُ دویپ اور کچھ نہیں ہے، صرف کوہ و صحرا ہے۔ لیکن یہ سلسلۂ کوہستان و دشت و صحرا ختم بھی ہو جاتا ہے اور جہاں یہ ختم ہو جاتا ہے وہاں وسیع و عریض میدان ہیں۔ اتنے وسیع کہ جہاں تک نظر جائے، لگتا ہے صرف میدان ہی میدان ہے۔ لیکن غور سے دیکھیں تو اس میدان میں بستیاں بھی آباد ہیں۔ وہاں کے باشندوں کو اتّرا کورو کہتے ہیں۔ ان کی عمریں ہزار برس یا اس سے زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ اپنی معبود دیویوں سے شادیاں بھی رچا لیتے ہیں لیکن کسی شادی کی مدت حیات سات سے آٹھویں دن تک نہیں پہنچتی۔ آٹھویں دن کیا ہوتا ہے؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ دیوی سے شادی کرنے والا شاید جاں بحق ہو جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غیر معمولی لمبی عمروں کے باوجود اس خطے میں آبادی کا دباؤ اتنا نہیں ہوتا کہ لوگ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوں اور اس طرح وسیع و عریض علاقوں میں جنگ و قتال کر کے جل تھل کو کشتوں سے بھر دیں۔ اس کی نوبت ہی نہیں آتی اور آبادی کا تناسب برقرار رہتا ہے۔

دیویوں سے شادی کرنے والوں کے علاوہ اور لوگ بھی ہیں جو اس خطے میں جینے مرنے کا وظیفہ پورا کرتے ہیں۔ بے شمار درخت، جھاڑیاں، اونچے نیچے پہاڑ ہیں اور ان گنت ندیاں ہیں۔ یہ سب اپنی اپنی زندگیاں بھرتے ہیں اور انھیں کچھ خبر نہیں کہ یہیں پاس میں کہیں اترا کورو لوگ (یا جنات؟ یا دیو؟ ) بھی رہتے ہیں۔ سچ پوچھو تو ان کی زبانوں میں (کیوں کہ الگ الگ علاقے کے لوگ الگ زبان بولتے ہیں) میں جن، پری، دیو، پری وغیرہ الفاظ ہیں ہی نہیں۔ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں سخت گرمی پڑتی ہے۔ ان کے یہاں ٹھنڈی چیز کا تصور نہیں۔ وہ ٹھنڈے اور گرم میں فرق نہیں کر سکتے اور ان کی زبان میں برف کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ انھیں گرم پانی پلائیں یا ٹھنڈا یخ پانی، انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ایک قول یہ بھی مجھے پڑھایا گیا کہ جزیرۂ آلوچۂ سیاہ خود کوئی کائنات نہیں ہے، وہ در اصل تمام کائناتوں کا مرکز ہے۔ اور جزیرۂ آلوچۂ سیاہ کو سات سمندر گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ ان سمندروں کی تفریق اس طرح قائم ہے کہ ہر ایک سمندر کے بعد ایک خطۂ زمین ہے۔ کچھ لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ ان سات سمندروں میں الگ الگ چیزیں بھری ہوئی ہیں۔ اول میں آب تلخ و نمکیں، دوئم میں شربت گڑ، سوئم میں شراب، یا سوم رس، چہارم میں مکھن، پنجم میں جغرات، اور چھٹویں میں دودھ۔ آخری سمندر کے بعد کوئی خطہ نہیں ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔

ایک بڑی مایوسی کی بات یہ تھی کہ کسی کو نہیں معلوم کہ تمام کائناتوں کا آخری سرا کہاں ہے۔ کہا گیا کہ اس سرے کے بارے میں ہم جان بھی لیں کہ وہ کس طرف اور کتنے فاصلے پر ہے تو بھی ہم وہاں تک پہنچ نہیں سکتے۔ لیکن دکھم، جو انسان کی اصل تقدیر ہے، اس سے نجات تب ہی مل سکتی ہے جب ہم تمام کائناتوں کے انتہائی آخری کنارے کو چھو لیں گے۔ معلوم ہوا کہ دکھم، یعنی دکھ، درد، غم، انتشار سے کسی کو نجات نہیں۔

میرے استاد کی عادت تھی کہ بولتے بولتے سو جایا کرتے تھے۔ ہماری یا کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کو بیدار کرے، یا درس چھوڑ کر چلا جائے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میرے استاد سر صبح ہی سو گئے اور سر شام بیدار ہوئے۔ ان کے چہرے پر، اور چہرے ہی پر کیوں، ان کی ساری شخصیت پر، ان کی پور پور پر، نور کی قوت برستی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ بے تاخیر، اور اس طرح، گویا وہ سوئے ہی نہ تھے، انھوں نے کہنا شروع کر دیا:

ہاں، یہ جزیرۂ آلوچۂ سیاہ بھی کسی کا بنایا ہوا ہے۔ یہ بے انت نہیں ہے۔ بس اتنی بات درست ہے کہ کوہستان میرو ساری کائنات، بلکہ تمام کائناتوں کا محور ہے۔ اس کوہستان کے مختلف کوہ و در کو تم ایک نیلوفر کے پھول کی طرح تصور کر سکتے ہو۔

اور جب تصور کر سکو گے تو اسے وجود میں بھی لا سکو گے۔ اس طرح کہ کوہستان میروئے نیلوفری کی چار پنکھڑیاں ہیں۔ اور ہر پنکھڑی ایک بر اعظم ہے۔ اور جنوبی پنکھڑی کا نام بھارت ہے اور یہ ملک، جس پر تم آباد ہو، اسی بھارت یا ہند یا سندھ کا ایک حصہ ہے۔

میری تعلیم کے آخری سال کئی پوشیدہ قوتوں کو اپنے اندر پیدا کرنے اور پھر ان سے خارجی ماحول پر اثر انداز ہونے، بلکہ کبھی خارجی ماحول کو نیست و نابود کر کے نیا ماحول خلق کرنے کی مشق میں صرف ہوئے۔ میں کچھ سمجھتا، کچھ نہ سمجھتا، لیکن سوال کرنے یا تفصیل و کوائف معلوم کرنے کا یارا مجھ میں نہ تھا۔ کسی میں بھی نہ تھا۔ میرے والدین میں بھی نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حقیقت در اصل تمھارے ذہن کا داخلی ترین حصہ ہے۔ تو کیا حقیقت الگ سے، معروضی طور پر، کچھ نہیں؟ ایک بار میں نے ہمت کر پوچھ ہی دیا۔ والدہ تو دوپٹے میں منھ چھپا کر میری بیوقوفی، یا معصومیت پر مسکرانے لگیں۔ لیکن میرے والد چپ رہے۔ میں خوش ہو رہا تھا کہ بڑے میاں کو اچھا چت کیا ہے۔ اب کل جا کر اپنے استاد جی کی بھی استادی نکالوں گا۔ لیکن چند لمحے کے سکوت کے بعد میرے باپ گویا ہوئے۔

معروض کیا ہے؟ صرف انداز بیاں ہے۔ تم اس گھڑے کو دیکھ رہے ہو اور اس میں بھرے ہوئے پانی کو بھی دیکھ رہے ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جب تم اس کے پاس جانے کا ارادہ کرو تو پاس تک نہ پہنچ سکو؟ اگر تم ایک چیونٹی میں تبدیل ہو جاؤ تو تم گھڑے کا منھ بھی نہ دیکھ پاؤ گے۔ گھڑے کی سطح چیونٹی کو اتنی ہی وسیع اور لا حد نظر آئے گی جیسے انسانوں کی زمین کی سطح تمھیں محسوس ہوتی ہے کہ مسطح ہے، چپٹی ہے اور بے انت ہے۔ اور اگر تم کسی اونچی جگہ کھڑے کر دیے جاؤ گے تو تمھیں گھڑا نظر بھی نہ آئے گا۔ اور ابھی تو ہم تین شخص اس گھڑے کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم کہیں بھی جا کر گواہی دے سکتے ہیں کہ ہماری کوٹھری میں ایک پانی کا گھڑا ہے اور وہ پانی سے بھرا ہوا بھی ہے۔ اس وقت تو تم اپنی آنکھوں، اپنی قوت مشاہدہ، قوت ادراک کے بل پر گواہی دے سکتے ہو اور وہ بالکل سچی گواہی ہو گی۔ لیکن اگر ہم لوگ یہاں نہ ہوں؟ کوئی بھی نہ ہو؟ تو پھر کون گواہی دے گا کہ پانی کا گھڑا یہاں ہے؟ پھر تمھاری قوت مشاہدہ کس کام کی جب وہ موجود اور غیر موجود میں فرق کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو؟

مجھے یہ فضول سی بال کی کھال لگی۔ لیکن اچانک میرے باپ نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا تو میں نے دیکھا کہ ہماری کوٹھری کی چھت سے ایک چاند لٹک رہا ہے۔ پھر میں نے محسوس کیا (یا دیکھا) کہ وہی چاند چھت سے اتر کر میرے دل میں روشن ہو گیا ہے۔ گھبرا کر میں نے اپنا سر جھنجھوڑا، ہاتھ پاؤں پھینکے جیسے مجھے صرع کا دورہ پڑ گیا ہو۔ لیکن اب جو ہوش آیا تو چاند کہیں نہ تھا۔ چھت پہلے کی طرح سنسان تھی۔

یہ بھی ان لوگوں کا کوئی شعبدہ ہو گا، میں نے دل میں سوچا۔ کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ آگ نہ جلائے یا پاتی تر نہ کرے؟

اگلے دن درس شروع ہونے کے پہلے استاد نے مجھ سے پوچھا، کیا تم جانتے ہو کہ تمھاری ریڑھ کی آخری ہڈی سے لے کر سر کی آخری ہڈی تک بہتر ہزار ندیاں ہیں؟ میں نے کہا، جی نہیں۔ استاد کی بات مجھے بالکل احمقانہ لگتی تھی، لیکن زبان پر حرف استفسار یا انکار لانے کی مجال کہاں تھا؟ استاد نے فرمایا، یہ بہتر ہزار ندیاں تمھارے بدن کے تمام حصوں کو انفاس کی قوت پہنچاتی ہیں، کچھ بہت تیزی سے، کچھ آہستہ آہستہ اور کچھ بالکل آہستہ۔ اگر یہ ندیاں نہ ہوں تو انفاس کی مناسب قوت کے بغیر تم اپاہج ہو جاؤ، خاص کر تمھارا دماغ کچھ نہ رہ جائے، پلپلی جھلیوں کا گندہ مجموعہ ہو کر رہ جائے۔

میں چپکا سنتا رہا۔ اور تمھارے بدن میں سات چکر ہیں۔ ہر چکر کو بیدار کرنے اس کی قوتیں بیدار ہوتی اور زندگی کو بامعنی بناتی ہیں۔ اور ساتویں چکر کے نیچے، تمھاری ریڑھ کی آخری ہڈی کے آخری جوڑ کے نیچے کنڈلنی کا مستقر ہے۔ وہ ایک ناگ ہے جو ہر وقت خوابیدہ رہتا ہے۔ وہ جو حق کا سچا تلاشی ہے، وہ اپنے وجود کی فہم حاصل کرنے جد و جہد میں مصروف کنڈلنی کو جگانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر تم ایسا کر سکو تو کیا ہر طرح کے دکھ درد سے آزاد ہو سکو گے۔ نہیں، ہر طرح کا دکھ تو نہیں، لیکن جینے مرنے کے دکھ کو سہنے کی صلاحیت تم میں پیدا ہو جائے گی۔ وہ معروضی ہو یا موضوعی، لیکن تم دنیاوی زیست کے دکھ سے ہر طرح آزاد ہو گے۔ تم جانتے ہو، انسانی وجود کی سب سے بڑی آزمائش دکھم ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک وہ تمھارے ساتھ رہتا ہے، مختلف درجوں میں اور مختلف شکلوں میں۔ جب تم دودھ پیتے بچے تھے اور تمھیں بھوک لگتی تھی اور تمھارے رونے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے کے باوجود تمھیں دودھ نہ ملتا تو تم اس وقت اپنی ننھی منی ہستی کے سب سے بڑے دکھ میں مبتلا تھے۔

اور اب، جب تم خود کو کائنات میں تنہا نظر آتے ہو، تنہائی سے بڑھ کر کوئی دکھ نہیں۔ ہاں موت کا خواب البتہ ایک دکھ ہے جو موت کے وقت سب سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ کنڈلنی کوئی علامت نہیں، کوئی استعارہ نہیں، تم خود ہو۔ اسے جگاؤ گے تو خود تمھیں کائنات کی سب سے بڑی بیداری نصیب ہو جائے گی۔ کوئی ضروری نہیں کہ تمھیں کنڈلنی کو جگانے کے لئے خود کو کسی پہاڑ کے غار میں بند کر لینا پڑے۔ تم نے سنا ہو گا، ایک زمانے میں لوگ اپنے خزانے پر ایک سانپ متعین کر دیتے تھے۔ سانپ کو ہٹاؤ تو خزانے کا راستہ دکھائی دے۔ کیا وہ کوئی طلسمی سانپ تھا، یا علامتی سانپ، یا واقعی اپنے دانتوں کے پیچھے کوئی زہریلی تھیلیوں والا، نوکدار دانتوں والا، دو شاخہ زبان والا؟ کیا معلوم؟

میری سمجھ میں کچھ بھی تو نہ آیا۔ بھلا انسانی جسم میں کوئی سانپ بھی سویا ہوا ہو سکتا ہے؟ سچ مچ کا سانپ، اور بھی ناگ دیوتا؟ ہو گا۔

اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ تم کنڈلنی کو جگا لو تو تم دکھ سے واقعی آزاد ہو جاؤ۔ ہاں، دکھ تمھاری نگاہوں میں حقیر یا غیر اہم لگنے لگتا ہے۔ دکھ تو کائنات کا مرکز ہے، اس سے فراغ کہاں؟ پیدا ہونے سے لے کر نجات حاصل کرنے کے درمیان جتنی منزلیں ہیں وہ دکھ سے عبارت ہیں۔ اور یہ نہ بھولو کہ سب سے بڑا مرحلہ نجات حاصل کر لینے کا ہے۔ اس کے بعد تمھاری زندگی میں کوئی مقصد نہر ہے گا۔ تو تم وہاں پہنچ کر کیا کرو گے؟

ایک سبق نے تو میری عقل ہی غارت کر دی۔ ذہنی اور مادی کائناتیں آپس میں مدغم ہو سکتی ہیں۔ تم اپنے لیے چاند خلق کر سکتے ہو اور اسے آسمان پر معلق بھی کر سکتے ہو۔ کیا تم نے غور کیا کہ خارجی مظہرے سمندر، پہاڑ، آسمان وغیرہ اگر نظر آتے ہیں تو یہ تمھارے ذہنی مظاہر کا پرتو بھی ہو سکتے ہیں جنھیں تمھارا شعور ادراک کے پردے منعکس کر سکتا ہے؟ یعنی ذہنی مظاہر ہی اصل مظاہر ہیں؟

یہ سب مجھے پڑھایا گیا۔ پڑھایا ہی نہیں، سکھایا گیا۔ سکھایا ہی نہیں میری ذات اور وجود کا حصہ بن گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ مظاہر اگر داخلی ہیں تو میں انھیں خارجی سطح پر بھی دیکھ سکتا ہوں۔ اور اگر دیکھ سکتا ہوں تو وہ موجود ہیں۔ اور اگر وہ موجود ہیں تو میرے ہی خلق کردہ ہیں۔

تو پھر یہ شعر و شاعری، یہ عشق و محبت، یہ دریافت اور ایجاد۔ یہ سب کیا ہیں؟ یہ سب تم ہو، تمھارے باہر کچھ نہیں۔ ہر بار مجھے غیب سے یہی جواب آتا۔ مجھے اپنے آپ سے، ہر شے سے خوف آنے لگا۔ یہ دنیا، یہ وجود، یہ تگ و دو، یہ دوستیاں، ملک گیریاں، کشور ستانیاں، یہ سب میں ہی ہوں؟ ہاں۔ اگر یہ سب تم نہیں ہو تو تم کچھ بھی نہیں ہو۔ تم ہی ان کے خلاق ہو اور تم ہی ان کو نیست و نابود کرو گے، کر سکتے ہو، اب بھی یہی کر رہے ہو۔

میں یہ سب سن، پڑھ اور سیکھ کر زندگی سے اکتا گیا تھا۔ میں اپنے گھر، اپنی درسگاہ، اپنے گاؤں، سب کو بے معنی اور فضول جاننے لگا تھا۔ یہ کون سی تعلیم ہے اور کون سی عقل جو مجھے سکھاتی تھی کہ میں ہی اپنا بنانے والا اور پھر اپنا ہی زوال ہوں اور پھر صفحۂ ہستی سے خود کو مٹانے والا بھی ہوں۔ آخر اور بھی لوگ ہیں۔ کھاتے، پیتے، انسانی افعال اور انسانی آلودگیوں سے خالی نہیں۔ وہ جیتے، لڑتے بھڑتے، بدلہ لیتے، جرم و سزا کے مراحل سے بھی گذرتے ہیں۔ لیکن وہ میری ہی طرح کے لوگ نہیں تو پھر کیا ہیں؟ کیا انھوں نے اپنے آپ کو خود ہی بنایا ہے۔ تو کیا ان کو نجات کی فکر نہیں؟ لیکن نجات بھی دکھم کا انت تو نہیں؟ تو ان کے دکھ کیسے ہیں؟ ویسے، جیسے کسی جانور کے ہوتے ہیں؟ جسے کوئی پروا نہیں کہ فکر کرے کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور مرنا کسے کہتے ہیں؟ بس مرنے سے خوف، زندگی کو قائم رکھنے کی جد و جہد، اسے وہ سمجھتے ہیں۔

ان کو شاید موت کی حقیقت کا علم بھی نہیں۔ ہاں، دکھ وہ ضرور جانتے ہیں، یا شاید جانتے ہیں لیکن اس نام سے نہیں؟ کیا وہ نام کا تصور بھی رکھتے ہیں، یا یہ ہم ہیں جو اشیا کو نام دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس شے کو اپنے علم کے حصار میں قید کر لیا؟ لیکن موت کے بعد کیا ہے؟ شاید کچھ نہیں، ورنہ ہر ارذل ترین ذی روح زندگی کو بر قرار رکھنے کے لیے اتنی تگ و دو کیوں کرتا ہے، اتنے دکھ کیوں بھوگتا ہے؟ مرنے بعد کیا ہو گا، انھیں نہیں معلوم، زندگی کو وہ جانتے ہیں۔ اسی لیے زندگی کو عزیز رکھتے ہیں۔

 

(۲)

میں نے ایک رات گھر چھوڑ دیا۔ میرا باپ ہماری جھونپڑی کے دروازے پر کھردرے فرش پر سویا ہوا تھا۔ میری ماں کہیں اندر رسوئی کی چوکھٹ کو تکیہ بنا کر معصوموں کی نیند سو رہی تھی۔

میرا باپ؟ میری ماں؟ کیا میں بھی اپنے باپ کی قوت ایجاد کا ایک مظہرہ تھا؟ کیا اس نے اپنا نطفہ میری ماں کے رحم میں ڈالا تھا اور میں نے ہستی کے خفیف ترین ذرے سے لے کر مکمل ہوش و حواس والے وجود کی منزلیں اس آرام گاہ میں محفوظ گذاری تھیں؟ شاید وہی چند لمحے تھے جب میں دکھ سے بے خبر تھا۔ یا پھر میری ماں۔ کیا میری ماں بھی اس چاند کی طرح تھی جسے میرے باپ نے آناً فاناً ہماری جھونپڑی کی چھت سے معلق کر کے پھر اسے میرے دل میں اتار دیا تھا؟ تو پھر نہ کوئی میرا باپ تھا، نہ کوئی میری ماں۔ میں اس پورے برہمانڈ میں اکیلا تھا۔

پھر بھی، میں چل پڑا۔ ہمارے بھارت کے جنوبی خطے میں ایک ملک ہے، جس کا نام ایک زمانے میں کیرالا پترا کہا جاتا تھا۔ کیرالا یعنی تاڑ کا پیڑ اور پترا بمعنی بیٹا۔ اس کے نام بدلتے گئے، یہاں تک کہ اس کے کئی علاقے متعین ہوئے اور ان کے نام بھی الگ الگ رکھے گئے اور بدلتے گئے۔ بہر حال مجھے تو کیرالا پترا ہی نام اچھا لگتا ہے۔ میں نے اب تک جتنے علوم حاصل کیے تھے، ان میں موسیقی اور رقص کو خاص اہمیت تھی۔ لیکن کیرالا پترا میں ایسے کئی رقص تھے جنھیں وہاں جا کر ہی سمجھا اور ممکن ہوا تو سیکھا جا سکتا تھا۔

اثنائے راہ میں مجھے کئی بار یہ خیال آیا کہ یہ سب سیکھنے سے کیا فائدہ؟ مجھے تو اپنا ہی علم ابھی کچھ نہ تھا، دنیا بھر کی غیر ضروری چیزیں جان لینے کے بعد میں خود کو سمجھ لوں گا؟ کنڈلنی کو جگانا بے شک میری دسترس میں تھا۔ لیکن کیا دکھ کا کوئی علاج وہاں تھا بھی کہ نہیں؟ مگر خیر، چلو آگے بڑھو۔ ناگ کنڈلنی تو میرے بس میں تھا ہی، آگے چلتے ہیں، دیکھیں کیا دکھائی دیتا ہے۔

ایک قصر نادر روزگار مثل آسمان بلند ہے۔۔۔ایک دریچہ طلائے احمر کا اس قصر میں نمایاں ہے۔ صبح کو جب آفتاب نکلتا ہے۔۔۔ایک ہوا آتی ہے وہ پردے کو اڑاتی ہے۔ پردہ اڑ کر میخ ہائے طلا پر نصب ہو جاتا ہے۔ چالیس دروازے اس دریچے کے دہنے اور بائیں بنے ہیں۔ وہ بھی وا ہو جاتے ہیں۔ ہر دروازے میں ایک ایک عورت حسین، منقل آتشیں لیے، مشک و عنبر سلگتا ہوا، آ کر کھڑی ہوتی ہے۔ بعد اس کے ایک نازنین مہ جبین، مہر تمکین، نمونۂ برق طور، از سر تا پا دریائے جواہر میں غرق، اس دریچۂ طلائی میں کرسی جواہر نگار پر آ کر بیٹھتی ہے، کرشمہ و ادا میں طاق، حسن و جمال میں شہرۂ آفاق۔۔۔گلے میں ہیکل الماس کے نگینوں کی پڑی ہے۔۔۔جو اس نازنین کو دیکھتا ہے، دلدادہ، شیفتہ و فریفتہ ہوتا ہے۔۔۔وہ نازنین [ترنج کو] مجمع عشاق میں پھینکتی ہے۔ جو شخص اس ترنج کو اٹھا کر سونگھتا ہے، گریبان چاک کرتا ہے، اپنے کو ہلاک کرتا ہے۔ ایک سمت ایک برج نظر آتا ہے۔ اس برج پر ایک کبوتر باز لباس زریں پہنے، چھیپی طلائی ہاتھ میں، کبوتر اڑاتا ہے۔ ایک زنجیر طلائی اس برج سے لٹکی رہتی ہے۔ ہر شخص [جو] اس ترنج کو سونگھ کر دیوانہ ہو جاتا ہے، جوش جنوں میں بڑھتا ہے، زنجیر طلائی کو پکڑ کر چڑھتا ہے۔ جب قریب برج کے پہنچتا ہے کہ اوپر چڑھ جائے اپنے کو اس نازنین تک پہنچائے، اس برج میں ایک سوراخ پیدا [ہوتا] ہے۔ اس سوراخ سے ایک ہاتھ نکلتا ہے، اس شخص کو اندر سوراخ کے کھینچ لیتا ہے۔ بعد ایک ساعت کے اس شخص کا سر کٹا ہوا، سوراخ سے وہی ہاتھ باہر پھینک دیتا ہے۔ پھر وہ نازنین نظر نہیں آتی، کھڑکی بند ہو جاتی ہے۔

[ایرج نامہ، جلد اول: داستان گو، شیخ تصدق حسین]

معلوم نہیں میں ہوش میں ہوں یا مجھ میں کسی قسم کا سحر تاثیر کر گیا ہے۔ یا شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں؟ میں ہڑ بڑا کر جاگا۔ میں کسی ندی کے کنارے پہاڑی کی چھاؤں میں سو گیا تھا۔ وہاں خدا جانے مجھ پر کیا معرکہ گذرا۔ کیا میرا باپ اپنی قوتیں استعمال کر کے مجھے واپس بلا رہا تھا؟ یا اس نے یہ طلسمات صرف مجھے چکر میں ڈالنے کے لیے خلق کیے ہیں؟ میں پھر سو گیا۔ اب۔۔۔

ایک صحرائے پر خار دشت پر آزار سے گذر ہوا جہاں کی زمین بھی تابش آفتاب سے سیاہ تھی، تیرہ بختی مسافران صحرا کی گواہ تھی۔۔۔پانی نام کو نہیں چشمۂ چشم بھی اشکوں سے خالی، زبان مژگاں سے سوکھی سناتے۔۔۔کہیں کہیں جانور جو نظر آتا لخلخاتا پانی کی تلاش میں پھڑپھڑاتا زبان باہر نکالے تڑپتا۔۔۔دو تین چیلیں پوٹے ٹیکے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھیں اور ہانپ رہی تھیں، سوز جگر کی سرد مہری سے کانپ رہی تھیں۔

تالاب اور جھیلیں برنگ آئینہ مصفا ہیں۔ بگلے ایک پاؤں سے بغلوں میں چونچ دابے کھڑے ہیں۔۔۔مینڈک جھیل چشمے میں ارّاتا ہے۔ جھینگر کی چیں چیں ہے، ٹٹیری ٹراتی ہے۔۔۔ ہوا سرد چلنے لگی۔ درختوں کی کھڑکھڑاہٹ سے ہرن کی ڈاریں دامان کوہ اور بیہڑ سے نکلیں۔۔۔کسی طرف سے پاڑھے کسی جانب سے نیل گائیں ظاہر ہوئیں۔ کچھا رمیں شیر ڈکارا، ہاتھی چنگھاڑا، درختوں میں مرغ جھنڈ کے جھنڈ بولنے لگے۔ ڈھیٹر چہکارے، جھیلوں پر بگلوں نے پھریری لی، مچھلیاں دم مارنے لگیں۔

جوانان بوستاں مثل صالح پاک روش و نیک رو، پنجۂ مرجاں برنگ دست دعائے عابد خوشخو، صد برگ میں سبحۂ صد دانہ کا شمار، جعفری مطیع جعفر تیار۔ نسیم سحر میں متبرک نفس زاہداں کا اثر، دفتر قدرت خدا کا ورق، ہر برگ سوسن زبان شکر کنندگانِ داور، مہندی برنگ روشن ضمیران صاف باطن، بوئے گل مشام اہل راز کی ساکن، غنچہ مثل دہانِ حقیقت آگاہان خاموش، قمریوں کی زبان پر حق سرہٗ کا جوش، کلیاں صومعہ زادان خوشبو، سنبل یاد کدیورِ قدرت میں آشفتہ مو۔۔۔

ہر سمت شاہدان طناز پائینچے کلائیوں پر ڈالے دوپٹے کاندھوں پر ڈھلکائے ہوئے ہزاروں ناز و انداز سے پھرتے، دم خرام محشر بپا کرتے۔ رات کا وقت، شمع و چراغاں روشن، صحن میں چوکا لگا، پلنگوں پر جوبن۔ کوئی نیند میں غافل کوئی لہو و لعب کا شاغل۔ کہیں چوسر کہیں گنجفہ۔ کہیں ستار بجتا، بائیں کا ٹھیکا۔ کہیں کہانی ہو رہی ہے کہیں شعر خوانی ہو رہی ہے۔ کہیں پردے پڑے ہوئے چاہنے والے در پردہ مزے اڑاتے، شام ہی سے پہنچے ہوئے۔ کہیں ووئی کی صدا، کسی جا قہقہے اڑتے، پھبتیاں کہنے کی آواز بر پا۔ قلماقنیاں داغستانیاں کاندھے پر رکھے پہرے پر ٹہلتیں۔ باری دارنیاں اوٹوں کے قریب جاگ رہیں۔

[طلسم ہوش ربا، جلد اول: داستان گو، سیدمحمد حسین جاہ]

میرے خدا، یہ کون سے ملک ہیں جن کے مناظر میں نے دیکھے؟ کیا واقعی ایسی جگہیں جسمانی، طبیعی وجود رکھتی ہیں؟ یا ان کا وجود محض ذہنی ہے؟ اچھا فرض کیا ذہنی ہی وجود سہی، لیکن کہیں تو کوئی چیزیں ایسی ہوں گی جن کی بنا پر میں ان کا تصور کر سکا، خواب ہی میں سہی۔ یا کیا واقعی میں نے خواب دیکھے تھے یا ان جگہوں پر میں کبھی نہ کبھی آیا گیا تھا؟ کہا جاتا ہے ہم ایسی چیزوں کا تصور نہیں کر سکتے جو موجود نہ ہوں۔ یہ ہمارے فلسفے کا بنیادی اصول ہے۔ تو پھر، وہ جو کچھ میں نے دیکھا، کیا تھا؟ دیکھا بھی کہ نہیں؟ لیکن یہاں تو دیکھنے اور تصور میں لانے میں کوئی فرق نہیں؟ اب میں کیا کروں؟ چلو فرض کیا وہ سب جگہیں، وہ سب مناظر، وہ سب ماحول، وہ ہوائیں، وہ آوازیں، وہ موسیقی، وہ سب ہیں نہیں لیکن ہو سکتے ہیں۔

میں نے مانا ہم لوگ عجائبات اور حجابات سے گھرے ہوئے ہیں۔ اور جب ہم ہی لوگ بے وجود ہیں تو پھر ان متفرق، متلون دنیاؤں کا کیا ڈر؟ کوئی مجھے واپس بلائے یا میں خود گھبرا کر واپس چلا جاؤں، یا یہیں یا کہیں اور اپنی ہتیا کر لوں، کسی کا کیا بگڑتا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ مجھے کوہستان ہمالیہ پر بھی جانا ہے۔ مانا کہ وہ جگہ یہاں سے بہت دور ہے۔ اور ابھی چند لمحوں کے جو خواب میں دیکھ کر جاگا ہوں، ان کی ان مراحل کے آگے کوئی حقیقت نہیں جو مجھے کوہستان ہمالیہ کی راہ میں مجھے درپیش ہوں گے۔ مجھے معلوم ہے وہاں میرے خوابوں کی طرح دیو لوک بھی ہیں اور اسر لوک بھی۔ اژدہے اور مگر مچھ بھی ہیں اور رقاصان سیماب منظر بھی۔ وہاں کی بھول بھلیاں ایسی ہیں کہ پوری پوری قومیں ان میں داخل ہو کر گم ہو جاتی اور پھر نابود ہو جاتی ہیں۔ بڑے بڑے محلوں کے محافظ ہیں جن کے سر آسمان کو چھوتے ہیں اور جن کے ایک ہاتھ میں کل عالم کی موت ہے اور ایک ہاتھ میں کل عالم کی حیات۔ جو کوئی ان کے سوالوں کے جواب نہ دے سکے، ان کے ایک اشارے میں فنا ہو جائے گا۔

 

(۳)

یہاں، یعنی جس جگہ کہ اب میں ہوں، یہاں کئی طرح کے ناچ گانے، موسیقی کے نظام ہیں۔ یہی جگہ کیرالا پترا ہے اور میں یہاں مدتوں سے قیام پذیر ہوں۔ یہاں میں ان کی موسیقی اور رقص کے سارے فنون، سارے شعبدوں پر مکمل مہارت حاصل کر چکا ہوں۔ صرف ایک کھیل، یا سوانگ باقی ہے۔ اسے یہاں کے لوگ کڑُی یتّم سوانگ، یا رہسیہ کہتے ہیں۔ اس رہسیہ کو جاننے اور برتنے والے صرف ایک رِشی ہیں جو بارہ سال میں ایک بار منظر دنیا پر آتے ہیں اور اپنا رہسیہ دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس میں کئی قول اور بھی ہیں۔ میں انھیں وقت پر بیان کروں گا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ نادرۂ روزگار مناظر جنھیں میں اثنائے راہ خواب میں دیکھ چکا ہوں (اس کو مدتیں گذریں)، ان سے بھی بڑھ کر کوئی عجوبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن دیکھیں گے۔ ان بزرگ کے نمودار میں اب صرف چند ہفتے باقی ہیں۔

ان بزرگ کا نام کوئی نہیں جانتا۔ ان کی عمر کتنی ہے، یہ بھی کسی کو نہیں معلوم۔ بس یہ ہے کہ لوگ انھیں رہسیہ سمراٹ کہتے ہیں۔ کچھ لوگ انھیں نٹ راج بھی کہتے ہیں۔ وہ بارہ سال میں ایک بار نمودار ہوتے ہیں۔ کاویری ندی کی تہ میں کہیں ایک غار میں ان کا مسکن ہے۔ ان کا ناچ تین دن یا پانچ دن یا سات دن چلتا ہے۔ میں نے بہت پوچھا لیکن کوئی اس سے زیادہ بتانے پر راضی نہ ہوا۔ صرف اتنا معلوم ہوا کہ روشنی بہت معمولی ہوتی ہے اور کوئی منچ یا تماشا گاہ کا چبوترا یا تخت نہیں ہوتا۔ رقص گاہ کی زمین کو چوبیس گھنٹے کی محنت میں تیار کیا جاتا ہے۔ یعنی اسے چکنا کرتے ہیں لیکن اتنا نہیں کہ نٹ راج تماشے کے دوران لڑکھڑا جائیں یا پھسل جائیں۔ زمین بالکل برابر کر دی جاتی ہے، کنکر پتھر نکال دیے جاتے ہیں تا کہ زمین اپنی اصل صورت میں نظر آئے۔ رہسیہ سمراٹ کے پیچھے چار موسیقار ہوتے ہیں۔ وہ سازندوں کا بھی کام کرتے ہیں۔ جس زبان میں وہ گیت گاتے ہیں، وہ ویدوں کی سنسکرت سے مشابہ ہوتی ہے، لیکن سراسر ویدی سنسکرت نہیں ہوتی۔ اس میں کیرالا پترا کی قدیمی زبان کی بھی آمیزش ہوتی ہے۔ اس زبان کے آغاز اور اس کی اصل کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ لیکن اتنا سب تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زبان دیوتاؤں کی بنائی ہوئی لیکن ان قوموں کی زبان ہے جو بھارت میں آریاؤں کی آمد کے پہلے سے آباد تھیں۔ شروع شروع میں یہ سارے ملک میں جگہ جگہ بولی جاتی تھی، یعنی اس بھارت میں جس پر تم آباد ہو، اور جو ایک وسیع تر بھارت یا ہند یا سندھ کا ایک حصہ ہے۔ ویدی سنسکرت کی طرح یہ زبان باہر سے نہیں آئی تھی۔

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تصور کی حد سے باہر دور زمانوں میں ایک مخبوط الحواس شخص رہتا تھا۔ اسے کوئی کام نہ آتا تھا، اس کی پرورش کے لیے اسے ایک مندر میں حاجب مقرر کرا دیا گیا تھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ جس سے بھی ملتا، کچھ دیر بعد اس کا نام بھول جاتا تھا۔ زبان اس کو آتی نہ تھی، اس لیے اشاروں سے، اور اس سے زیادہ غوں غاں کر کے بتاتا تھا کہ کون آیا کون گیا۔ ان باتوں کی بنا پر لوگ اسے مسخرہ بھی سمجھتے تھے۔

مندر میں جس مقدس کتاب کے اقوال کا ورد ہوتا تھا وہ اس قدر قدیم تھی کہ اس کے کئی اوراق پر سے حرف اڑ چکے تھے۔ پروہت لوگ اپنی اپنی اٹکل سے الفاظ نکالتے، لیکن ان کے معنی پھر بھی سمجھ میں نہ آتے تھے۔ ایک زمانہ گذر گیا، کتاب قدیم تر اور بوسیدہ تر ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ اسے پڑھنا موقوف کر دیا گیا۔ زائرین آتے، اسے دور سے سلام کرتے، یا اگر بہت ہوا تو اسے آہستہ سے مس کرتے اور چلے جاتے۔ ان احتیاطوں کے باوجود استمرار زمان کے باعث کتاب کے حرف تقریباً سب کے سب اڑ گئے۔ اب اسے مندر کے ایک تاریک کونے میں رکھ دیا گیا کہ ہوا بھی نہ لگے۔ بہت ہی شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا کہ کوئی دور دراز کا مسافر اس کتاب کے کسی اشلوک یا فقرے کے معنی پوچھنے آ جاتا تو اسے پروہت اعلیٰ کے سامنے حاضر کیا جاتا۔ پروہت اپنی سمجھ سے جو معنی بتا دیتا، انھیں کو آخری اور حتمی قرار دیا جاتا۔ سوال پوچھنے یا وضاحت طلب کرنے کی کسی کو نہ جرأت تھی اور نہ ضرورت۔

ہمارے مخبوط الحواس مسخرے کو شراب کا بھی بہت چسکا تھا۔ ایک رات وہ ساری رات پیتا رہا اور بے سدھ ہو کر اس طاق کے نیچے پڑ رہا جس پر وہ مقدس کتاب رکھی جاتی تھی۔ صبح ہوئی تو دنیا جاگ گئی لیکن نہ جاگا تو وہ مست و خراب نیم فاتر العقل خادم۔ جب بہت دیر ہو گئی اور زائرین کو کتاب مقدس کی دور سے بھی زیارت میں مشکل ہونے لگی تو اس نیم فاتر العقل مسخرے کو گھسیٹ کر مندر کے باہر کر دیا گیا۔ وہ تین دن تک سوتا رہا۔ چوتھے دن جب وہ جاگا تو اس کی زبان پر کچھ عجیب و غریب نامانوس اور ذرا کرخت الفاظ رواں تھے۔ کرختگی کے باوجود اس زبان میں ایک پُراسرار موسیقی بھی تھی گویا کہیں دور کچھ دیوتا آپ میں گفتگو کرتے ہوں۔ وہ دن بھر ایسے ہی اول فول بکتا رہا۔ شام کے قریب ایک پروہت نے، جو بہت بڑے عالم بھی تھے، انھوں نے محسوس کیا کہ یہ الفاظ تو کچھ مانوس اور شنیدہ سے ہیں۔ اچانک اس پر یہ بات روشن ہوئی کہ وہ الفاظ تو کتاب مقدس کے الفاظ سے بہت مشابہ ہیں۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور کتاب کو اپنے دامن میں چھپا کر باہر لایا۔ کتاب کی جھلک پاتے ہی مسخرے نے اس کی تمام عبارتیں فر فر پڑھنا شروع کر دیں۔ بہت غور اور تذبذب کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ جو زبان وہ مخبوط الحواس حاجب بول رہا تھا، وہی تو کتاب مقدس کی اصل زبان تھی جسے لوگ امتداد وقت اور تطاول ایام کے باعث بھول چکے تھے۔

پھر وہی زبان ملک کیرا پترا کی زبان قرار پائی۔ دن گذرتے گئے، اس میں سنسکرت بھی بہت ساری داخل ہو گئی۔ سنسکرت وہ زبان تھی جسے یہاں کے طالب علموں اور قاضیوں نے کوہستان سمیرو کے طویل اسفار کے بعد آہستہ آہستہ حاصل کیا تھا۔ پھر بعد میں عربی کے الفاظ بھی اس میں دخیل ہوتے گئے۔ جو لوگ عربی سے متاثر اس زبان کے ماہر تھے، انھیں منشی اور ماپلا کہا جاتا تھا۔ پھر یہ عربی معاشرے میں اس قدر نفوذ کر گئی کہ دو زبانیں وجود میں آ گئیں، ایک تو وہ جسے مقامی زبان میں، لیکن عربی رسم الخط میں لکھا جاتا، اور ایک تو وہ زبان جسے ہم آپ سب بولتے تھے۔ اس زبان میں بھی عربی الفاظ کی وافر تعداد تھی لیکن مقامی دیوتائی زبان کے تصرف کی وجہ سے وہ الفاظ بدلتے گئے اور اب تو بمشکل ہی انھیں عربی الفاظ کہا جا سکتا تھا۔

زبانیں سیکھنے کا بے حد شوق اور بہت جلد کسی بھی نئی زبان پر ماہر ہونے کی بے اندازہ صلاحیت مجھے بزرگوں سے ملی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ شاید سوچنے، دیکھنے، موسیقی کے زیر و بم کو سمجھنے کی قوت جو مجھے ماں کے پیٹ ہی میں مل گئی تھی، اسی طرح یہ بھی کوئی عطیۂ الٰہی ہے اور شاید ایک دن وہ بھی آئے جب میں دنیا کی کسی بھی زبان کو صرف ایک بار سن کر سمجھ سکوں گا۔ یعنی کوئی لفظ بولا گیا اور میں نے اسے فوراً سمجھ لیا، خواہ زبان کا نام مجھے معلوم نہ ہو، اور نہ ہی اس خطے کا نام جہاں وہ بولی جاتی ہو گی۔

آخر وہ وقت آ گیا جب رہسیہ سمراٹ نے ظہور کیا۔ لوگ مجتمع ہونے لگے۔ موسیقاروں نے اپنی جگہ سنبھالی۔ تماشا گاہ، جیسا کہ میں نے بتایا، مسطح تھی، کوئی مرتفع جگہ نہ تھی۔ لوگ مگر پھر بھی جمع ہونے لگے۔ دھیرے دھیرے پاس کے گھروں کی چھتوں اور چھجوں پر بھی لوگ آ آ کر بیٹھتے گئے۔ پھر ناریل اور تاڑ کے پیڑوں کی باری آئی۔ لوگ بخوبی جانتے تھے کہ ناچ کا دور کئی دن بھی چل چکتا تھا۔ لیکن تماشائیوں کا اشتیاق دید ہر ضرورت، ہر پابندی پر غالب آ گیا تھا۔

دن پھوٹنے کے پہلے موسیقی بلند ہوئی اور ایک دروازے سے، جو بظاہر تو اب تک کچھ خفیہ سا تھا، سمراٹ ظاہر ہوئے۔ بالکل سیاہ لباس میں ملبوس، کوئی آرائش نہیں، ہاتھ گلا پاؤں کمر سب زیورات سے عاری۔ پاؤں میں گھنگھرو بھی نہیں۔ ان کا قد کچھ ٹھیک سمجھ میں نہ آتا تھا۔ ایک لمحہ لگتا کہ وہ پستہ قد ہیں، ایک لمحہ لگتا کہ وہ اوسط سے زیادہ طویل القامت ہیں اور کبھی تو وہ بہت تنومند، توانا اور طویل القامت دکھائی دیتے تھے۔ لباس کی طرح ان کا بدن بھی سارا بالکل سیاہ تھا۔ یا شاید انھوں کسی ترکیب سے، کوئی لیپ لگا کر، یا کسی تیل کی مالش کر کے خود کو سیاہ فام کر لیا تھا۔ انھوں نے ناظرین کو جھک کر ڈمڈوت کی۔ ایک نعرہ بلند ہوا۔ موسیقی کی لے دھیمی ہوتی گئی، یہاں تک کہ دور والوں کو بمشکل سنائی دیتی ہو گی۔ (لیکن یہ بھی میرا وہم تھا۔ بعد میں لوگوں نے بتایا کہ وہ باریک اور تیور سے تیور تر سر، آواز کے ہر زیر و بم، کو بہت صاف سن سکے تھے۔)

رہسیہ سمراٹ نے کائنات کی تخلیق شروع کی۔ ان کی آنکھ کے ہر اشارے، ابروؤں کی جنبش، ان کی انگلیوں کے ہر کنایے، ان کے پاؤں کا ہر ادھورا یا مکمل قدم، ان کی کمر یا گردن کی ہر جنبش، کائنات کے ان دیکھے اور ناقابل تسخیر اصول موت و زیست کے سامنے ان کا سرو قد ہونا، زمیں بوس ہونا، ان سب سے خوف اور بیم و امید و التجا سے بھری ہوئی دنیائیں تعمیر ہوتی چلی گئیں۔ جمب دویپ، کائناتی کوہستان میروے نیلوفری کی ہر پنکھڑی اور ہر پنکھڑی پر آباد دنیائیں۔ سرشٹی میں ان گنت کوس کی دوری پر جھلملاتے ہوئے ستارے، برفستان، ریگزار، پانی، پانی ہی پانی۔ یہ سب، اور بہت کچھ ان کے ہر اشارے، خفیف ترین اشارے یا بدنی حرکت کے رموز کی بدولت سامنے آتا گیا۔ یا یہ کوئی طلسم تھا، کوئی غیر انسانی وجود تھا جس کی کلید رہسیہ سمراٹ کے اشاروں اور حرکات و سکنات میں تھی۔ ان کے پاؤں، پاؤں ہی نہ لگتے تھے، ان کے ہاتھ، ہاتھ نہ لگتے تھے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں اور کھلی ہوئی بھی تھیں۔

ایک لمحہ وہ بھی آیا جب ہم نے خالق الخالقین، یعنی برہما کو اپنے سامنے دیکھا۔ کیا وہ کسی پردے کے پیچھے سے اچانک نمودار ہو گیا تھا، یا وہ خود وہی سب کچھ تھا جسے ہم نے اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا؟ رہسیہ سمراٹ اب کہیں نظر نہ آتے تھے، ہاں، چیونٹیوں کی ایک قطار تھی جو منظر گاہ کے اس سرے پر تھی جہاں سے رقص شروع ہوا تھا۔ پھر ہر طرف کچھ سفید و نیلگوں دھواں سا پھیلنے لگا۔

بعد میں مجھے بتایا گیا کہ سات دن اور سات راتوں میں تخلیق کا یہ کائناتی سفر تمام ہوا۔ اس مدت میں کون آیا، کون چلا گیا، مجھے کچھ نہیں معلوم۔ مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ جب میں نے آنکھ کھولی تو جم غفیر ویسا ہی تھا جیسا کہ بالکل آغاز میں تھا۔ لوگ بے شک چلے گئے ہوں، نئے تماشبین آ گئے ہوں گے، لیکن میں نے تسلسل ہی دیکھا۔ صرف تسلسل۔ منظر گاہ پر دنیاؤں کا ویسا ہی ہجوم تھا۔

اچانک مجھے نٹ راج دکھائی پڑے۔ ان کے ہاتھ میں تین بتیوں کا ایک دیا تھا۔ انھوں نے ایک پھونک میں تینوں بتیاں روشن کر دیں اور دفعۃً ہر طرف آگ ہی آگ تھی، اگر آگ کا کوئی وجود ہے تو وہی ہر طرف تھا۔ سب دنیائیں، سب ستارے، سیارے، کہکشائیں میرے سامنے بے آواز جلتی گئیں۔ اور پھر۔۔۔پھر نٹراج بھی اسی کائناتی آتش کدے میں خاک ہو گئے۔ ہر طرف راکھ ہی راکھ تھی۔

مجمع میں گریہ کا شور تو اسی وقت بلند ہونے لگا تھا جب دیے کی بتیاں روشن ہوئی تھیں۔ میں نے زندگی میں ایسا درد ناک، ایسا دکھ بھرا منظر نہ دیکھا تھا، نہ میری تعلیم و تعلم کے دنوں میں، نہ میرے بن باس کے دنوں میں مجھے اس کے پاسنگ کا، ایک ذرۂ بے مقدار بھرکا تصور ہی ممکن ہوا تھا، یا ہو سکتا تھا۔ بے ساختہ و بے ارادہ میری آنکھیں بھر آئیں اور پھر میرے چہرے پر آنسوؤں کی چادر پھیل گئی۔ میں کیوں رو رہا تھا؟ کس کے لیے رو رہا تھا؟ میرا تو کچھ بھی نہ کھویا تھا، ہاں علم کا اعتماد جس نے میری زندگی کی رہنمائی اب تک کی تھی۔ وہ زعم، خود اعتمادی، وہ طمانیت قلب جو میرے باپ ماں کا عطیہ تھا۔ اب میں دنیا میں بالکل تنہا تھا۔

میں نے آنکھیں بند کر لیں کہ ان قاتل روشنیوں میں میری بصارت نہ جل جائے۔ شاید میرے آنسو تھم سکیں کہ جب کچھ نہ دیکھوں گا تو روؤں گا کس پر؟ لیکن میں تو خود پر رو رہا تھا، خود کو رو رہا تھا۔ مجمع میں سینہ زنی اور سر پر خاک اڑانے اور اپنی رانوں کو زور زور سے پیٹنے کا شور تھا جیسے ان کی رانوں اور کمر کوئی کیڑا چل رہا ہو، کوئی چیونٹی سرسرا رہی ہو۔ دفعتاً مجمعے سے ایک آواز بلند ہوئی۔ دیکھو، دیکھو، وہ راکھ تو چلنے لگی ہے! ہراس سے مغلوب ہو کر میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، یا یوں کہیں کہ گر پڑا۔ کہیں دور سے سنسناہٹ کی سی، سناہٹے کی صدا بلند ہونے لگی۔ جیسے سمندر کا پانی پیچھے ہٹ رہا ہو، پھر آگے آ رہا ہو۔ لیکن۔۔۔نہیں۔ یہ تو جیسے کئی مردنگ کے ایک ساتھ بجنے لگے ہوں اور ان کی تال آہستہ آہستہ تیز، پھر تیز تر ہو رہی ہو۔ آہستہ آہستہ راکھ میں کچھ اضطراب، کچھ انتشار کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ میری آنکھیں بند تھیں۔ میں شور کو سن سکتا تھا، اور دنیا و مافیہا سے بے خبر تھا کہ اچانک مجھے ٹھنڈک اور نرم، دل آویز تری کا احساس ہوا، جیسے کوئی اپنے بھیگے آنچل سے میری عرق آلود پیشانی پونچھ رہا ہو۔ میں نے آنکھیں بند رکھیں۔ بھینی بھینی پھوار اب میرے چاروں طرف تھی۔ طبیعت میں ٹھہراؤ کی مطمئن سی خنکی پھیلنے لگی تھی۔ پھر اِکا دُکا ہلکی ہلکی بوندیں مجھ پر، بلکہ میرے چاروں طرف بھی ٹپکنے لگیں۔ مگر شاید یہ کوئی سرگوشی کی سی آواز ہو، جیسے میں خواب میں ہوں اور یہ بوندیں نہیں ہیں بلکہ کسی لطیف، آسمانی بانسری سے پھوٹتے ہوئے سر ہیں۔ کچھ الفاظ بھی ہیں، اور یہ الفاظ اب مجھے صاف سنائی دے رہے ہیں:

It droppeth as the gentle rain from heaven

Upon the place beneath۔ It is twice blessed:

It blesseth him that gives and him that takes;

‘Tis mightiest in the mightiest

سب الفاظ میں صاف صاف سن رہا ہوں۔ ان میں عجیب سی موسیقی ہے، جیسے دور سے آبشار کے گرنے کی آواز آ رہی ہو، یا شاید کسی کی کلائی میں کانچ کی رنگین چوڑیاں آپس میں بج رہی ہوں۔ عجب اسرار ہے، یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ زبان کون سی ہے؟ کوئی فرنگی زبان ہو تو ہو۔ یا شاید یہ زبان ہی نہیں، صرف آوازوں کا مجموعہ جو بالکل اتفاق سے کسی آہنگ میں ایک ساتھ کھنک رہا ہو۔

لیکن اب مجھے الفاظ کے معنی بھی سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ اس طرح نہیں کہ میں ان کی صرفی ترکیبوں، ان کی نحوی صورتوں کو سمجھ سکوں۔ ان میں حال کا صیغہ بتانے والا لفظ کون سا ہے اور ماضی یا مستقبل کی نشان دہی کرنے والا کون سا فقرہ ہے؟ لیکن میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں، جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ از خود سمجھ لیتا ہے کہ کچھ کہا جا رہا ہے، اور یہ بھی سمجھنے لگتا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ کوئی آسمانی بشارت ہے جو بہت دور سے نغمے کی صورت میں مجھ پر اتر رہی ہے۔ جا، اٹھ جا۔ اپنی تقدیر اور اپنا انجام تلاش کر۔ یہ نعمت ہے جو تجھے ودیعت ہو گی اگر تو خود کو اس کے لائق ثابت کر سکے گا۔ مگر یہ تگ و دو سے، کتابوں میں سر کھپانے سے، دھیان اور مراقبے میں نہیں ملتی۔ تو نے کائنات کو بنتے اور فنا ہوتے دیکھ لیا ہے۔ اب تجھے سکون اسی وقت نصیب ہو گا جب تو خود کو اس آسمانی نغمے میں منتقل کر سکے گاجو تجھ پر ابھی نازل ہو رہا ہے۔

الفاظ اور پیغام تو میں نے سمجھ لیے، لیکن کیا یہ الفاظ کچھ اور معنی بھی رکھتے ہیں؟

میں نے آنکھ کھولی۔ شام کا دھواں بھرا دھندلکا ہر طرف تھا۔ تماشائی سب جا چکے تھے۔ دنیا اپنے معمولہ کاروبار میں منہمک تھی، جیسے یہاں ابھی کچھ بھی تو نہ ہوا تھا۔ میں نے منظر گاہ پر داخل ہو کر چاروں طرف ادھر ادھر دیکھا۔ ایک بزرگ نظر آئے جو دریاں قالین وغیرہ سمیٹنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ رہسیہ سمراٹ کہاں چلے گئے تو انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا، گویا انھیں یقین نہ آ رہا ہو کہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہو۔ لیکن انھوں میرے لجاجت بھرے چہرے کو دیکھا تو سمجھ لیا کہ میں واقعی جویا ہوں، فضول گو نہیں ہوں۔ انھوں نے کہا:

’’جہاں رہتے ہیں وہیں چلے گئے ہوں گے۔ ویسے اصلیت کسی کو معلوم نہیں۔ ذرا آگے اپنی کاویری ندی گھومتی ہے، اس قدر کہ معلوم ہوتا ہے دوہری ہو کر اپنے میں سما جائے گی۔ ٹھیک اس موڑ پر ایک گھنا درخت ہے اور اسی جگہ ندی کا پانی بہت گہرا ہے۔ سنتے ہیں سطح کے بہت نیچے ایک کنڈ ہے جس میں مگر اور گھڑیال اور سونس اور بڑے بڑے کچھوے بسیرا لیتے ہیں۔ نٹ راج اسی کنڈ میں ڈوب جاتے ہیں۔ پھر پتہ نہیں چلتا۔ کہتے ہیں اس کنڈ کے سب سے گہرے حصے میں ان کی جھونپڑی بھی ہے۔‘‘

وہ بزرگ اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ گہرے کنڈ کے سب سے گہرے کونے میں جھونپڑی؟

میں نے خیال کیا یہ بھی کچھ اسی طرح کی بات ہو گی کہ نٹ راج بات کہتے پوری کائنات کی تعمیر کرتے ہیں اور پھر اسے نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ مگر اس راکھ کے منتشر ہونے پر وہاں کیا معاملہ ہوا تھا؟ کیا دکھائی دیا تھا؟ میں نے بڑے میاں سے پوچھا، اگرچہ میری آواز خوف اور شرمندگی سے کپکپا رہی تھی۔

’’دیکھو گے؟‘‘

انھوں نے اچانک آنکھیں نکال کر پوچھا۔ اف، وہ کیا آنکھیں تھیں، جیسے گرد و پیش کا سارا صحرا، سارا آسمان، ساری زمین بھڑک رہی ہو بر افروختہ اور جاہ و جلال کے غضب سے لبالب۔ بگولے ہیں کہ شعلے ہیں کہ پوری سرشٹی ایک الاؤ ہے۔ مجھے لگا اگر میں آنکھیں کھولے رہوں گا تو بھسم ہو جاؤں گا یا اسی الاؤ میں کود پڑوں گا۔

میں نے آنکھیں بند کر لیں، یا شاید از خود میری آنکھیں بند ہو گئیں۔ میں نے دیکھا کہ راکھ کے اس ڈھیر سے ایک پرندے کا سر آہستہ آہستہ برآمد ہو رہا ہے۔ گردن کے اوپر بالکل سنہرا، بلکہ خود ہی سونے کا ڈلا جسے نرم کر کے گردن اور سر اور چونچ بنا دیا ہو۔ لیکن بقیہ جسم بالکل ہمارے مونال تیتر کی طرح تھا۔ سرخ، زرد، نیلے رنگوں میں دمکتا ہوا۔ لیکن اس کی چونچ مونال سے بہت زیادہ لمبی تھی، بالکل جیسے کوئی خنجر ہم سب کے سینوں میں اتر جانا چاہتا ہو۔ اور، اور، اس کی چونچ میں بے شمار سوراخ تھے جن میں سے ہلکے ہلکے شعلے جھانک رہے تھے۔ موسیقار؟ میں نے سوچا۔ لیکن موسیقار تو بہت بڑا ہوتا ہے، کچھ شتر مرغ یا سیمرغ جیسا، اور بالکل سرخ۔ لیکن سنا ہے موسیقار ہزار سال میں ایک بار نمودار ہوتا ہے۔ اس کی چونچ سے لاتعداد گیت اور راگ صورت نما ہوتے رہتے ہیں، صورت نما میں نے اس لیے کہا کہ ہر راگ، ہر گیت، ہر لہرے، ہر تان کو، ہر شخص الگ الگ سن اور دیکھ سکتا ہے۔ موسیقار شام تک نغمہ سنج رہتا ہے، دور دور سے لوگ اسے سننے اور دیکھنے آتے ہیں۔ لیکن اس کے پہلے کہ کوئی اس کے قریب آ سکے وہ آسمان کی طرف دیکھ کر دلدوز آواز میں چیختا ہے۔ پھر اندھیرا چھا جا جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو وہاں راکھ کا ایک ڈھیر نظر آتا ہے، موسیقار کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں جو بھی موسیقار کے گیت سن لے وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا نایک، سب سے بڑا کلاونت بن جاتا ہے۔

مگر یہاں تو وہ مونال، یا موسیقار، بالکل خاموش تھا۔ اس کے چاروں طرف بس ایک گونج سی تھی جو اسے گھیرے میں لیے ہوئے تھی۔ جب گونج اتنی شدت اختیار کر گئی کہ خود وہ پرند بھی اس میں گم ہوتا محسوس ہوا تو اچانک ایک بجلی سی گری اور اس پرند کو اڑا لے گئی۔ میں ساری حس، ساری قوت مشاہدہ و ادراک کھو بیٹھا۔ میری آنکھیں بند تھیں اور میں کہیں دور بہت دور پاتال کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔

معلوم نہیں میں کتنی دیر تک سویا، اور مجھے یہ بھی خبر نہ تھی کہ جاگ رہا بھی ہوں کہ نہیں۔ ہوائیں مرے سر میں پیچاں تھیں۔ وہ کچھ یہ کہتی ہوئی لگ رہی تھیں کہ اٹھ، تجھے ابھی اور بھی دور جانا ہے۔ مگر میں کہاں جاؤں کیوں جاؤں؟ میں رہسیہ سمراٹ تو ہوں نہیں کہ تمام دنیاؤں کو ایک دم میں بنا ڈالوں اور پھر ایک دم میں ملیا میٹ کر ڈالوں۔ کیا میری ساری صلاحیتیں، سارے اکتسابات، اسی طرح ضائع ہو جائیں گے جس طرح کہ رہسیہ سمراٹ نے دنیائیں بنائیں اور ضائع کر دیں؟

 

(۴)

سامنے ٹھنڈے پانی کی جھیل، چاروں طرف مرغزار، سرد ہوا، ذہن میں انتشار۔ کتنا ٹھنڈا پانی ہے؟ میں کود کر دیکھوں؟ اچانک مجھے کسی نے پانی کی طرف اچھال ہی تو دیا۔ میں نے ہزار چاہا کہ اس نادیدہ پنجے کی گرفت سے آزاد ہوں لیکن حریف زبردست تھا، تڑپنے کی بھی مجال نہ دیتا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ سرد پانی کے صدمے نے میری قوت قلب ضائع کر دی۔ یا شاید کئی لمحوں کے لئے معطل کر دی۔ میں تہ تک اترتا چلا گیا۔ پھر جو آنکھ کھلی تو میرے سامنے منظر جلد جلد بدل رہا تھا، جیسے پردے پر تصویریں دوڑ رہی ہوں۔ ایک منظر کو دوسرے سے کچھ واسطہ نہ تھا۔

چاندنی کھلی ہوئی تھی، دشت و در چاندی کا پتر۔ شاہد بہار کو مشاطۂ شب آئینۂ ماہ دکھاتی۔۔۔رات کا سناٹا، تمام میدان سفید ہو رہا، جانور اپنے اپنے مسکن میں بیٹھے ہوئے۔ کبھی جو ہوا کے جھونکے سے کوئی درخت کھڑکتا، ایک آدھ ہرن، خرگوش جست کر کے جھاڑی سے باہر نکل آتا، ادھر ادھر دیکھ کر چوکڑی مار جاتا۔ جھاڑیوں سے ہرن، پاڑھے، چیتل، نیل گاؤ، سر نکالے۔ جھیلوں کا یہ عالم کہ جیسے خانۂ زمین میں آئینے جڑے ہوئے۔ کنارے کنارے بگلے، قازیں، سرخاب، پروں میں منھ ڈالے ایک پاؤں سے کھڑے ہوئے۔ دامن کوہ میں کوڑیالا کھلا ہوا، نرگسستان کواکب کو شرماتا۔۔۔

نیچے پال کے، چوکا تختوں کا بچھا تھا۔ اس پر چاندنی کا فرش و قالین آراستہ تھا۔ مقابا اور صندوقچہ دھرا تھا، صندوقچے سے لگا ہوا آئینۂ حلبی رکھا، ساقنیں ہزار بناؤ کئے، دلائی سفید اودی گوٹ کی اوڑھے، آگے سے طوق سونے کا دکھلانے کو گلا کھولے، پائچے پائجامے کے پیچھے تخت پر پڑے، ماتھے پر افشاں لگائے، پٹے چھوڑے بال بنائے، لب تخت با ہزاراں ناز و انداز بیٹھی تھیں۔ کان کا زیور جھوم کر جھونکے لیتا تھا، رخ تابندہ بحر حسن تھا، اس میں اس زیور کا عکس پڑتا تھا۔ یہ ظاہر تھا جیسے کنول دریا میں تیرتے ہیں یا مچھلیاں اور جانورانِ آبی پیرتے ہیں۔ ہاتھوں میں کڑے پڑے، دست حنائی میں پور پور چھلے تھے۔

۔۔۔ایک سمت لگن اور پتیلوں میں نیچے بھیگتے تھے، سامنے کچھ حقے تیار تازہ کیے رکھے تھے۔ تپائیاں سوراخ دار بچھی تھیں۔ چلمیں ان میں گھرسی تھیں۔ کوئی گنڈہ گنڈہ لڑاتا تھا، کوئی دونی کی پیتا تھا۔۔۔ساقن بھی مسکراتی تھی، یہ کیفیت دونا نشہ جماتی تھی۔ ایک طرف سامنے خریدار دعائیں دیتے تھے، کشمیر اور سالجہاں مانگتے تھے۔ یارقند پیسے والی چلم کے بھروانے والے اڑاتے تھے۔ کوئی کہتا تھا، ساقن کے دم کی خیر، آج تو پیڑو پر کی ہم کو بھی پلوائیے۔ ساقن کہتی تھی، بیٹا انگیا کے اندر پیو یہ بہت عمدہ ہے۔ دم بدم چلم جما کر دیتی تھی۔ خریداروں میں یہ بحث تھی کہ ایک کہتا تھا، تم سر کرو۔ دوسرا کہتا تھا، کیا ہم کو پست پینے والا مقرر کیا ہے؟

۔۔۔حلوائی کی دکان پر تھال برنجی برابر چنے تھے۔ آگے دکان کے زنجیر برنجی لٹکتی تھی، گھنٹی اس میں بندھی تھی۔ اندر دکان کے نوکروں نے گولوں پر کڑھاؤ چڑھائے تھے، مٹھائی بناتے تھے۔ الماریاں مٹھائی سے بھری رکھی تھیں، مٹھائیوں کو جالدار اور محراب دار چنا تھا کہ پھول اور گلدستے بنے معلوم ہوتے تھے۔ مٹھائی پر ورق طلائی اور نقرئی لگے تھے، عجب جوبن دیتے تھے۔۔۔نانبائی بصد خوش ادائی ظروف مسی صاف و شفاف میں طعام لذیذ چنے ہوئے۔ پلاؤ، زردہ، قورمہ، مرغ کا شوربا، کباب و باقر خانی، آبی نان، ہوائی کلچے وغیرہ ہر قسم کا کھانا مہیا رکھتے تھے۔ تنور گرم تھا پتیلا چڑھا تھا۔ ایک طرف ماہی دمے میں کباب گرما گرم تھے۔ کچھ لوگ دکان میں کھانا کھاتے تھے، کچھ خریدار پیالے لیے کھڑے تھے۔۔۔

[طلسم ہوش ربا، جلد اول: داستان گو، محمد حسین جاہ]

میں اس جھیل کی تہ میں کتنی دور نکل آیا ہوں؟ کوئی قوت مجھے جھیل سے باہر لے آئی ہے، یا ابھی اس جھیل ہی میں ہوں؟ یہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے؟ میں جانتا ہوں یہ دنیا بہت بڑی ہے اور پورا برہمانڈ (اگر وہ پورا ہے بھی) تو لا متناہی ہے اور میں حقیر ترین ذرے سے بھی کمتر ہوں۔ یا شاید ہوں ہی نہیں اور یہ سب میرے ذہن کی دنیا میں آباد ہے؟ مجھے پھر نیند آ گئی۔

I will arise and go now, go to Innisfree

۔۔۔and live in the bee-loud glade

And I shall have some peace there, for peace comes dropping slow,

Dropping from the veils of the morning۔۔۔

There’s midnight all a glimmer and noon a purple glow

And evening full of linnet’s wings

۔۔۔I hear the lake water lapping with low sounds۔۔۔

زبان تو وہی ہے جو میں نے پہلے سنی تھی، اپنے اس پرانے گاؤں میں، جب نٹراج نے تمام کائناتوں کو نیست و نابود کر دیا تھا، اس کے کچھ ہی بعد۔ لیکن آواز مختلف، لہجہ مختلف۔ جیسے کوئی نیند یا نشے میں ہو اور کچھ بھرائی ہوئی سی آواز میں بول رہا ہو۔ لیکن یہی کیفیت تو میری بھی ہے۔ میں شاید نشے ہی میں ہوں۔ عجائبات مخلوقات کی وسعت اور رنگا رنگی نے مجھے اپنے آپ سے کسی طرح منقطع کر دیا ہے۔ میں گرد و پیش کی دنیا کو دیکھ تو رہا ہوں (اگر وہ دنیا ہی ہے) لیکن سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔

میں نے دوبارہ جھیل میں چھلانگ لگا دی۔ اب جو پاؤں زمین کو لگے تو میں نے دیکھا کہ اسی منظر گاہ کا کنارہ ہے، پیچھے کوئی ندی بہہ رہی ہے، شام ہر طرف پھیل رہی ہے، کنار رود سیہ فام شام ہے، میں ہوں۔ میں نے خود کو سنبھالا، لاٹھی کندھے پر رکھی اور شمال کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں، جہاں کوہستان ہمالیہ کا دشوار گذار سلسلہ ہے، پانی ہے برف ہے ہوا ہے۔ میرے باپ نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ دنیا کے بے مصرف مشغلوں میں وقت گذارنے سے بہت بہتر ہے کہ تم کنڈلنی کو بیدار کر لو اور پھر مکمل خود آگاہی کی تلاش میں کوہستان ہمالیہ میں کہیں گہرائی میں اپنا گھر بنا لو اور کنڈلنی سے مکالمہ قائم کرو۔ کائنات جو کچھ ہے اور کائنات میں جو کچھ ہے وہ تمھارے ہی ذہن کا جیتا جاگتا پرتو ہے۔ یہ خارجی مظاہر تمھارے ذہن کے داخلی منظر نامے کا حصہ ہیں۔ ہمالیہ کے کونے کونے میں زندگی کرنے کے روپ بھرے ہوئے ہیں۔ وہاں کوہ و کمر پر چراغ لالہ سے روشنی ہوتی ہے، وہاں تمھیں خود سے باہر نکلنے کا موقع مل سکتا ہے۔ ابھی تو تم سوئے ہوئے ہو، کہ تمھیں اس ہستی ناپائیدار سر سے یک گونہ لگاؤ ہے، جیسا کہ ایک شاعر نے، جو ابھی پیدا نہیں ہوا، یوں لکھا ہے جب اس نے حقیقت اور خواب پر غور کیا ؎

تا جنبش تار نفس افسانہ طراز است

بیدل بہ کمند رگ خواب است دل ما

کیا مطلب، وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا اور اس کے شعر آپ پر القا ہو چکے ہیں، یا القا ہو رہے ہیں؟ یہ کون سی دنیا اور کون سا علم ہے؟ لیکن باپ کے سامنے یارائے زباں کشائی کس کو تھا۔ تم تعینات سے باہر آ سکو گے تب تمھیں یہ بات بھی معلوم ہو جائے گی۔

دفعتاً میرے سامنے آسمان میں ایک دریچہ روشن ہو گیا۔ دریچہ، شگاف، یا صرف میرا وہم، مجھے آنکھوں کے سامنے دنیا کچھ تاریک سی لگنے لگی۔ لیکن اب اس دریچے میں ایک شاخ زریں نظر آئی جس پر ایک نیلگوں زرد پرند کچھ کہتا ہوا نظر آیا۔ اس کے پیچھے ایک سیاہ پردہ سا، جس پر وہی لفظ لکھے ہوئے تھے جو وہ پرندہ (یا کوئی آفاقی وجود؟ ) اپنی زبان سے ادا کر رہا تھا۔ میں ان الفاظ کو پڑھ نہ سکتا تھا لیکن جو کچھ سن رہا تھا اسے خوب سمجھ سکتا تھا۔ شروع کے الفاظ صاف سنائی نہیں دئیے، لیکن ان کے بعد:

Miracle, bird or golden handiwork

More miracle than bird or handiwork

Planted on the starlit golden bough۔۔۔

۔۔۔Of hammered gold and gold enamelling

To keep a drowsy Emperor awake

Or set upon a golden bough to sing

To lords and ladies of Byzantium

Of what is past, or passing, or to come۔

کیا مطلب، یہ بائزینطیم کوئی جگہ ہے؟ اور وہاں ایسے پرند ہیں، یا کم از کم ایک پرند ایسا ہے جو ماضی اور حال اور مستقبل کی تمام باتوں کے علم پر حاوی ہے؟ اور کیا میرے باپ نے کبھی وہ پرندہ پالا تھا؟ لیکن اب تو وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ پھر انھیں یہ سب کیسے معلوم ہے؟ مگر ذرا ٹھہریں، مجھے بھی تو دو بارکسی فرنگی زبان میں بہت کچھ شاعری سنائی دی تھی۔ اور مجھے معلوم نہیں کہ جن لوگوں کے وہ شعر ہیں وہ کس زمانے میں تھے؟ اور سچ پوچھیں تو مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ میں کس زمانے میں ہوں؟ کیا میرے پیچھے کوئی ماضی ہے، اور کیا میرا کوئی مستقبل بھی ہے؟ کیا ایسا بھی ہو گا کہ میرے بعد جو لوگ ہوں گے وہ میری اس ہرزہ سرائی کو پڑھ سکیں گے؟ کیا جس زبان میں اس وقت گفتگو کر رہا ہوں وہ کوئی زبان بھی ہے یا یہ صرف میرے دل میں ہے؟ اور کہیں لکھ دوں تو کیا یہ زبان کل باقی بھی رہے گی کہ نہیں؟

کیا میں اس جھیل میں دوبارہ کود پڑوں جس میں ایک بار کود کر میں یہاں پہنچا تھا؟ بے وقوف آدمی، ہوش کی بات کرو، لیکن شاید تم ہوش ہی میں نہیں ہو۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھے کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے اس میں تمھارے دل دماغ کو کچھ دخل رہا ہو تو رہا ہو، لیکن تمھارے ارادے کو کوئی دخل نہ تھا۔ اب دوبارہ اپنے ارادے سے اس جھیل میں غوطہ لگاؤ تو شاید غرقاب ہی ہو جاؤ، یا کہیں اور پہنچ جاؤ۔ اشیا کا اختتام یوں نہیں ہوتا۔ جو ہے اور جو نہیں ہے اس میں کچھ ایسا فرق بھی نہیں۔ صرف تمھاری سمجھ کا پھیر ہے۔ تم کوہستان ہمالیہ کے لیے نکلے تھے، تو بس ادھر ہی طرف جاؤ۔ جب تم سے کوئی تعرض کرے گا تو دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو راستہ آسان ہے۔ خیر، آسان نہ سہی لیکن معلوم ہے۔

تو میں چلا گیا۔ میں آنکھ بند کر کے ایک طرف چل پڑا۔

 

(۵)

ان کا نام وامن وششٹھ تھا۔ یا شاید وامن ان کا نام نہیں تھا بلکہ لقب تھا، کیوں کہ وہ بھی وامن اوتار کی طرح پستہ قد تھے، بلکہ کہا جائے کہ بونے تھے تو زیادہ صحیح ہو گا۔ وامن اوتار کی طرح وہ بھی وشنو جی کے بہت سچے اور پکے بندے تھے، بلکہ کچھ لوگ انھیں وشنو جی کا اوتار ہی سمجھ لیتے تھے۔ لیکن وہ ان وامن اوتار کی طرح نہیں تھے جو لوہے کی لاٹھ کی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اس کا سرا آسمان کو چھوتا ہے۔ لوگ کہتے تھے وہ زمین کو تھامے ہوئے ہیں نہیں تو لحظہ لحظہ اتنے زلزلے آئیں کہ ساری دنیا تہ و بالا ہو جائے۔ انھیں وامن اوتار نے ایک بار اپنے راجا سے کہا کہ مجھے رہنے سونے کے لیے کچھ زمین دے دو۔ راجا نے ان کے پستہ قد کو دیکھا تو مسکرا کر بولا،’’زمین کیا کرو گے، ہاں تین قدم چلو، اتنی زمین تمھیں مل جائے گی جتنی تم تین قدم میں طے کر سکو گے۔ وہی تمھارے لئے کافی ہو گی۔‘‘

وامن نے راجا کو رحم بھری نگاہ سے دیکھ اور کہا،’’اچھا، تو میں چلا۔ تم میرے قدم دیکھتے رہنا کہ تین سے زیادہ تو نہیں ہو رہے ہیں۔‘‘

پھر راجا کے سامنے زمین آسمان کے بیچ کہیں ایک کھڑکی سی کھل گئی۔ وامن اوتار اس میں سے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ پلک جھپکنے میں جتنا عرصہ لگتا ہے اس سے بھی کم مدت میں وامن نے جانی پہچانی کائنات، سورج، چاند، ستارے، سمندر پہاڑ، سب پار کر لیے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دشت امکاں کو بھی پار کر گئے، یعنی اس سب کو، جو ابھی ہے نہیں لیکن ہو سکتا ہے، یا کبھی ہوا ہو گا اور اب وقت کے اس پار بہنے والے دھندلے پانیوں میں ان گنت صدیوں سے غرق ہے۔ پھر ان کا دوسرا قدم محسوس کائنات سے آگے، امکانات سے پرے، ان کائناتوں کو پار کر گیا جو وجود نہیں رکھتیں لیکن جو وجود میں آنے کے لیے بے قرار ہیں۔ یا در اصل ابھی وہ بے قرار بھی نہیں ہیں لیکن جب انھیں امکانات کا علم ہو گا تو ان کی روح میں ناتمامی کا احساس چبھنے لگے گا اور وہ خود کو مکمل کرنے کے لیے وجود میں آ جانے کے لیے مضطرب ہونے لگیں گی۔ راجا کے حواس گم ہونے لگے، لیکن اس کی آنکھیں وہیں کھڑکی کے پار ٹکٹکی لگائے ہوئے تھیں۔ وامن اوتار کا تیسرا قدم اندر لوک، پر لوک، کے آگے کائنات غیر وقت پر پڑا ہی تھا کہ راجا چیخ اٹھا:

’’بس مہاراج، بس۔ مجھ سے بڑی بھول ہوئی۔ اب آگے دیکھنے کی تاب نہیں ہے۔ میں دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘

وامن اوتار مسکرائے۔ راجا نے اپنا تاج ان کے قدموں میں رکھ دیا اور گڑگڑا کر بولا:

’’یہ راج پاٹ سب آپ کا۔ میں اس کا مستحق نہیں۔ یہ سب آپ سنبھالیے، مجھے بن باس دیجیے۔‘‘

وامن اوتار نے راجا کو تکبر اور خود نمائی سے حذر کرنے کی تلقین کی، کہا ’’ہم تاج گیر نہیں، تاج بخش ہیں۔‘‘ اور اپنی راہ لی۔

اور ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ تین قدم جو وامن اوتار نے طے کیے تھے، حسب ذیل تھے: اول، نیند۔ دوم، نیند اور خواب۔ سوم، گہری نیند۔ یہ تینوں قدم روحانی طور پر شاید وہی تھے جو وامن نے راجا کی آنکھوں کے سامنے اپنے گوشت پوست کے جسم کے ساتھ طے کیے تھے۔ واللہ اعلم۔ لیکن جن وامن وششٹھ کا ہم ذکر رہے ہیں وہ ابھی اپنے ہم نام اوتار کے بہت پیچھے، کئی درجہ نیچے کہیں نفس مطمئنہ کی تلاش میں تھے۔ انھوں نے کنڈلنی کو اس درجہ اپنی گرفت میں کر لیا تھا کہ وہ اسے دوپٹے کے طور پر اپنی کمر میں لپیٹے رہتے تھے، لیکن ابھی وہ خود کو، یا اپنے داخلی وجود کو نامکمل سمجھتے تھے۔ وامن وششٹھ کے پاس سب کچھ تھا، وہ لا انتہا علوم کے مالک تھے اور اتھاہ اسرار کی گہرائیوں میں اتر چکے تھے۔ لیکن ابھی انھیں وہ نہ ملا تھا جو انھیں بے نیازی کی مملکت پر قابض و قادر کر دیتا۔

وہ اسی تلاش میں ملکوں ملکوں قریۂ و امصار، دشت و در میں سرگرداں رہے۔ ایک بار وہ تھک کر اور اپنی ہستی سے بیزار ہو کر ایک ٹیلے کے دامن میں چادر لپیٹ کر پڑ رہے۔ تو انھوں نے خواب میں کسی کو دیکھا، کچھ روشنی اور کچھ ابر مطیر کے لباس میں چھپا ہوا۔ وامن نے چاہا کہ ان (روح؟ جسم؟ تصور؟ ) سے پوچھیں کہ میری خلش کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ لیکن رعب اور ہیبت نے زبان کھولنے کی قوت سلب کر دی تھی۔ پھر انھوں نے محسوس کیا (دیکھا؟ دل میں کہیں منعکس دیکھا؟ ) کہ وہ ہستی دور کسی بہت اونچی جگہ شمال کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ پھر ان کے دل میں خیال آیا، مجھے شمال کی طرف چلنا چاہیے۔ اس کے پہلے کہ ان کی آنکھ کھلتی (یا وہ ہوش میں آتے؟ )، انھوں نے سنا، کوئی کہہ رہا ہے، حجاب تم خود ہو، تمھارا علم اور فضل اس سے بڑا حجاب ہے۔ انھیں سکتہ سا آ گیا۔ یہ سب جو میں نے صدیوں کی تپسیا اور دھیان اور دشت و جبل میں مارے مارے پھر کر حاصل کیا ہے، یہی مجھ پر حجاب بن کر چھا گیا ہے؟ کیا اسی کی روشنی کی بدولت میں اندھا ہو گیا ہوں اور میری خلش یہی ہے کہ مجھے بصیرت کی تلاش ہے؟ آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے رہرو ذرا، دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو۔ آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو رہرو بھی تو منزل بھی تو۔ ناخدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو۔ پھر میں کہاں جاؤں؟ کہیں نہیں، اپنے جھوٹے علم اور اپنی معصوم غلط فہمیوں کو ترک کر، دور وہ شمال کا فلک نشیمن تیرا منتظر ہے۔ تو نے ابھی اپنے آپ سے باہر نکلنا تو سیکھا نہیں ہے، یہ کنڈلنی جسے تو اپنا طرۂ امتیاز جانتا ہے، یہی تو تیری راہ کا بندھن ہے۔ تیرے ہاتھ پاؤں اسی نے باندھ رکھے ہیں۔ ان قیود سے ماورا ہو جا۔ تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا۔ یہ ہند و ایران کیا، صین و روم کیا، یہ سب قیود ہیں جو علم نے تجھ پر عائد کئے ہیں، ورنہ کائنات کی ہر شے ایک دوسری سے سے متحد ہے اور متحد نہیں تو متصل ضرور ہے۔

 

(۶)

تو یہ حالات اور وجوہ تھے جنھوں نے ایک دن وامن وششٹھ کو ہمالیہ کے دامن میں پایا۔ اب تک وہ گھنے جنگلوں میں روشنی کی تلاش کرتے رہے تھے، وسعتوں کا انھیں تجربہ نہ تھا۔ اپنے اندر کی وسعت کو تو وہ متصور کر سکتے تھے لیکن کشادگی کی انتہاؤں اور بلندیوں کی ظالم بے نیازی سے انھیں واسطہ نہ پڑا تھا۔ برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کلاہ عالم تاب پر۔ اور لطف یہ تھا کہ اس بلندی اور بے نیازی کے باوجود انھیں اس طلسمی کوہستان میں سفر بالکل بار نہ لگتا تھا۔ تھکن یا اکتاہٹ انھیں دور سے چھوتی بھی نہ تھی۔

کئی دن کئی رات کے سفر نے انھیں کوہستان ہمالیہ کی گہرائیوں میں پہنچا دیا۔ یہاں چیڑ کے درخت تو بہت پہلے ہی پیچھے چھوٹ گئے تھے، اب مدت ہوئی وہ سیاہ قامت، تنومند، گھنی پتیوں والے دیودار بھی غائب تھے۔ پہاڑوں پر کہیں کہیں کچھ جھاڑیاں نظر آتی تھیں، لیکن پست قد اور پژمردہ۔ ان کی جگہ تمام گہرے یا کم گہرے غاروں پر برف کی مہر تھی۔ ہوائیں بہت تند تھیں لیکن دھوپ ذرا سی رہ گئی تھی، جیسے کسی کی آنکھوں میں نیند کا غلبہ ہو، آنکھیں ذرا ذرا کھلی ہوئی ہوں اور ان کی زرد سنہری روشنی فضا کو گرم کرنے کی کوشش کرتی ہو۔ ہوائیں، الاماں، اور دونوں طرف صف بستہ پہاڑوں کی دیواریں، ان کی بلندی بھی ٹھیک سے نظر نہ آتی تھی۔ وہ سارے چرند، درندے اور پرند جن سے نچلی وادیوں میں رونق تھی اب کہیں دکھائی نہ دیتے تھے۔ صرف برفانی تیندوا کبھی کہیں کسی چٹان کے سائے میں اپنی جھلک دکھا دیتا تھا۔ سب سے اونچی چوٹیوں پر بسنے والے دیووں کی جسامت والے سیاہ فام جھالر دار لباس میں ملبوس یاک کسی دور کی وادی میں دکھائی دیتے، لیکن صرف واہمے کی طرح، کہ خدا جانے وہ حقیقی تھے یا یا قوت تخیل نے انھیں بنایا تھا۔ انسان کا کہیں پتہ نہ تھا۔ نیم روشن فضا میں یہ بھی ٹھیک سے نہ معلوم ہوتا کہ یہ چاک گریبان صبح کی شفق ہے یا شام کے نشتر نے آفتاب کی فصد کھولی ہے اور اس کا لہو سارے آسمان پر پھیل گیا ہے۔

وششٹھ رشی نے لڑکھڑاتے ہوئے قدم آگے بڑھائے۔ سامنے ایک سیاہ چٹان پر کچھ پر اسرار سی، ہلکی لیکن غیر مرتعش روشنی سی نظر آئی۔ پیچھے کچھ نہ تھا، صرف اونچی نیچی بھوری سیاہ پہاڑیاں آسمان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مگر سریلی سی آواز آہستہ آہستہ فضا میں پھیلنے لگی تھی، جیسے کوئی وچتر وینا پر گا رہا ہو۔ وہ اور قریب گئے تو کوئی پری، یا شاید کوئی دوشیزہ، یا شاید پہاڑوں میں بسنے والی کوئی روح تھی۔ انھوں نے ہمت کر کے دو چار قدم آگے بڑھائے، گانے والی اب سامنے نظر آ رہی تھی۔ ایسی شکل! یہ سراپا، یہ قد و قامت، یہ قیامت جلوہ بدن۔ وششٹھ رشی نے یا کسی اور بھی رشی منی نے اپنے دور ترین اور بے قابو ترین خواب میں بھی ایسی شکل نہ دیکھی ہو گی اور نہ ایسی آواز سنی ہو گی۔ ہمت کر کے وہ اور قریب گئے کہ خال و خط کو اور صاف دیکھ سکیں، لیکن اس کی شخصیت کا افسوں ایسا تھا کہ وہ بہت آگے نہ بڑھ سکے۔ جس حد تک ممکن ہو ا، انھوں نے آنکھ اٹھا کر اس پری کو دیکھا۔ پھر وششٹھ منی کو محسوس ہوا کہ کہیں قریب ہی محفل سجی ہوئی ہے۔ داستان گو کسی کا سراپا بیان کر رہا ہے:

سراپا کا کیا بیان کیا جائے کہ صفحۂ فسانہ وقت تحریر وصف رخ، رشک گلزار بہشت بنتا ہے۔ قلم خود نکتہ چینی کرتا ہے۔۔۔مانگ جادۂ کہکشانِ فلک کو راہ بھلا دے، پیشانیِ نور آگیں صبح صادق کو کاذب بنا دے۔ خال ہندو رہزن ضمیر عاشقاں، بھویں وہ محراب جو سجدہ گاہ حسینان جہاں۔۔۔آنکھیں وہ جام سرشار محبوبی جو دل خستہ کو بریاں کریں۔۔۔رخسار تاباں گل سرخ کو ندامت سے آب آب کرے بلکہ چشمۂ خورشید کو بے آب و تاب کرے۔۔۔لب یاقوت رنگ لعل بدخشانی کا جگر خون کرے بلکہ یاقوت رمانی کو ہیرا کھلائے، مرجان غیرت سے مرمر جائے۔۔۔سینہ گنجینۂ نور چھاتیوں کا اس پر ظہور، نار پستاں کو دیکھ کر نار بستاں کا سینہ شق ہو، سیب بہی کا رنگ غیرت سے فق ہو۔ شکم صاف و شفاف تختۂ بلور، ناف کو گرداب بحر حسن کہنا پرانی بات ہے، یہ چشمۂ آب حیات ہے۔ موئے کمر آئینۂ حسن میں گویا بال آیا ہے، یا تار خطِ شعاعِ آفتابِ سپہرِ حسن برملا ہے۔ آگے عجب لذت کی چیز ہے، وہ ہنسنی ہے جو موتی چگتی ہے، یا وہ چور خانہ ہے جس کو کلید تمنا کھولتی ہے۔ وہ مضمون حجاب ہے جس پر مہر خط شباب ہے۔ وہ مورنی ہے جو کہ مستی میں رال مور کے منھ سے ٹپکے تو وہ اپنی منقار میں لے لے۔ وہ دیدۂ پر نور ہے جس میں وصل کی سلائی سرمہ لگائے گی، وہ غنچۂ تنگ سر بستہ ہے جس میں ہوائے تمنا بڑی مشکل سے جائے گی۔۔۔

[طلسم ہوش ربا، جلد اول: داستان گو محمد حسین جاہ]

داستان گو کا بیان ابھی جاری تھا، لیکن اب مغنیہ کی آواز اس پر حاوی ہونے لگی تھی۔ وششٹھ رشی نے سنا:

ہمہ عمر با تو قدح زدیم و نہ رفت رنج خمار ما

چہ قیامتی کہ نمی رسیز کنار ما بہ کنار ما

چو غبار نالۂ نیستاں نہ زدیم گامے از امتحاں

کہز خود گذشتن ما نہ شد بہ ہزار کوچہ دوچار ما

نہ بہ دامنےز حیا رسد نہ بہ دستگاہ دعا رسد

چو رسد بہ نسبت پا رسد کف دست آبلہ وار ما

وامن وششٹھ کو تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ انھوں نے دوڑ کر اس حسینہ کے پاؤں لیے اور بے ساختہ ان کی زبان پر جاری ہوا:

چہ کسی و چہ نام خوانندت

ور کدا می مقام دانندت

وہ مسکرا کر بولی،’’اور آپ؟ آپ کا گذر اس طرف کیونکر ہوا؟ میں تو یہیں رہتی ہوں، یہی میرا گھر ہے اور یہی میرا مدفن۔‘‘

’’میں خود کو ڈھونڈتا ہوں لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ کیا آپ۔۔۔؟ یہ کون سی تلاش ہے، کس کی تلاش ہے؟ یہ کلام آپ کو کس نے سکھائے؟‘‘

’’شاید آپ بھولتے ہیں۔ یہاں ہر شے ہر وقت موجود ہے۔‘‘

’’اور آپ نے یہ زبان کہاں سیکھی؟‘‘

وہ ہنسی۔’’جہاں سے آپ نے سیکھی ہو گی۔‘‘

’’میں نے؟ میں نے تو سیکھی نہیں۔ جب آپ محو نغمہ تھیں تو یہ الفاظ خود بخود میری سمجھ میں آتے جا رہے تھے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس زبان کا نام کیا ہے اور یہ شاعر کون ہے۔ وہ ہے بھی کہ نہیں؟‘‘

’’چلیے، خود نگری کی کئی منزلیں تو آپ نے طے کر لی ہیں کہ آپ ماضی مستقبل کی ہر زبان سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے آگے کی راہیں آپ پر ابھی تک بند ہیں۔ خود کو حاصل کرنے کے پہلے، بہت پہلے، آپ کو خود نگری کے علاوہ بہت سی منزلوں سے گذرنا ہے۔ خود بینی، خود نگہداری، خود اختیاری، ترک خود، پھر ترک ترک۔‘‘

وامن وششٹھ نے کہنا چاہا،’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ لیکن الفاظ ان کے منھ سے ادا ہونے کے پہلے اس حسینہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اپنے قدموں پرسے اٹھاتی ہوئی بولی:

’’چلیے، میں آپ کو اپنا گھر دکھاؤں، اپنے شوہر سے ملاؤں۔‘‘

’’مگر مجھے کہیں کچھ راستہ تو نظر آتا نہیں۔‘‘ وششٹھ رشی نے کچھ پریشان ہو کر کہا۔’’ہر طرف تو یہاں پہاڑ ہیں، گھاٹیاں ہیں، بند راہیں ہیں۔ راستے کا کیا ذکر؟‘‘

’’یہی تو میں نے کہا کہ ابھی آپ نے خود نگری کے آگے قدم رکھا نہیں۔ آپ نے اشیا کی حقیقت کا پہلا باب بھی نہیں پڑھا۔ میرے ساتھ چلیے، میرے قدم بقدم چلیے۔‘‘

وششٹھ رشی اب جو دیکھا تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ پہاڑ، بیابان، گھاٹی، ایسا کچھ تو وہاں نہ تھا۔ سامنے سبزار، پیچھے آبشار، دو رویہ پھولوں کی روش، بیچ میں جادہ جس پر نرم قدموں کے نشان صاف نظر آتے تھے۔ ان کا پہلا قدم بہزار دقت اٹھا، پھر سب آسان ہو گیا۔

’’میرا نام کلپنا ہے‘‘ اس حسینہ نے کہا۔’’مجھے میرے شوہر نے بنایا ہے۔ میری زندگی میں سب کچھ ہے مگر محبت نہیں ہے، یگانگت نہیں، حتیٰ کہ دسراتھ بھی نہیں۔ شوہر کے باوجود میں اکیلی ہوں، بانجھ ہوں۔ اس کنول کی طرح جسے پالا مار گیا ہو۔‘‘

’’شوہر نے بنایا۔۔۔؟‘‘ وششٹھ رشی کچھ کہتے کہتے چپ ہو گئے، شاید اس طرح کی کرید بد تہذیبی کے مترادف ہوتی۔

کلپنا نے وششٹھ کی ہچکچاہٹ کو گویا محسوس ہی نہ کیا اور کہا۔

’’میرے شوہر بہت دور سے آئے ہیں، جنوب میں کوئی علاقہ کیرا پترا نام کا ہے۔ انھوں نے ہر طرح کا علم حاصل کیا ہے اور وہ ہر طرح کی قوت کے مالک ہیں۔ وہ بود کو نابود اور نابود کو بود کر سکتے ہیں۔‘‘

اب وامن وششٹھ کو کچھ کہنے کی تاب ہی نہ تھی۔ وہ کوئی آسمانی قوت ہے؟ کوئی آسر یا دیو تو نہیں؟ میں نہ جانے کہاں پھنس گیا ہوں۔ اب دیکھیں نجات بھی ہوتی ہے کہ نہیں۔ یہ لڑکی خود کہہ رہی ہے کہ میں کوئی انسانی وجود نہیں ہوں، ان رشی کی قوت ارادی کا مرئی اور جسمانی روپ ہوں۔ پھر تو وہ غیر مخلوق ہوئی؟ مگر غیر مخلوق تو صرف پرمیشور ہے؟

وہ ان خیالات میں گم تھے کہ لڑکی بولی۔’’گھبرائیے نہیں، اب گھر بہت دور نہیں۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ آپ تو وامن اوتار کے پہلے ہی قدم میں کھوئے گئے ہیں۔ ابھی آپ نے دشت امکاں کو بھی ٹھیک سے نہیں طے کیا ہے۔ اور اگر باطنی انداز میں کہیں تو آپ ہنوز نیند کی منزل میں ہیں۔ پھر آپ یہاں کہاں؟‘‘

وامن وششٹھ کو یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ ابھی وہ جواب کے لیے مناسب الفاظ تلاش کر رہے تھے کہ وہ حسینہ بولی۔’’آپ کو میرے شوہر نے بلایا تو نہیں؟ یہ میں اس لیے پوچھتی ہوں کہ کسی باطنی تصرف کے بغیر کسی بھی ذی وجود کا یہاں تک پہنچنا محال تھا۔‘‘

’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ وامن وششٹھ نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔’’ہاں مجھے ایک اشارہ ضرور ملا تھا کہ شمال کی طرف چلو۔ ادھر ہی تمھارا مدعا حاصل ہو گا۔‘‘

’’جی تو پھر بات وہی ہے۔ کلپت رشی نے آپ کو ضرور اشارہ بھیجا ہو گا۔‘‘

’’کلپت؟‘‘

’’جی ہاں، میرے شوہر کا نام کلپت ہے۔ کلپنا اور کلپت کی جوڑی اچھی ہے نہ؟‘‘ وہ عجیب پر اسرار سی ہنسی ہنس کر بولی۔’’دیکھیے وہ ہمارا گھر ہے۔‘‘

غار کا دہانہ بہت کشادہ نہ تھا، لیکن ذرا گردن جھکا کر کوئی انسان بآسانی داخل ہو سکتا تھا۔ اور وامن وششٹھ تو کوتاہ قد تھے، ان کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ غار سے ہلکی ہلکی روشنی باہر آ رہی تھی، اس طرح نہیں جیسے اندر کوئی چراغ روشن ہو بلکہ اس طرح جیسے کہیں دور الاؤ جل رہا ہو اور اس کے شعلے دیوار سے منعکس ہو کر ہر طرف پھیل گئے ہوں۔ کلپنا کے قدم دیکھتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئے۔ غار کی روشنی کہاں سے آ رہی تھی وہ اس بات کو متعین نہ کر سکے لیکن روشنی نہایت لطیف تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ غار کی چھت کہیں اونچی کہیں نیچی ہے لیکن اس کی لمبائی بہت ہے، بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ غار کا سرا نظر نہ آتا تھا۔ کلپت رشی غار میں ایک طرف چکنے فرش پر دو زانو بیٹھے تھے، اس طرح گویا کوئی مجلس ہو اور وہ میر مجلس ہوں۔

غار کے دہانے سے ذرا دور آخر تک بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی نہر بہہ رہی تھی، بہت شفاف پانی، تہہ میں رنگ برنگ پتھر۔ لیکن نہیں، شاید وہ مچھلیاں تھیں، اٹکھیلیاں کرتی، غوطے لگاتی، ادھر سے ادھر اچھلتی، ایک تماشے کا سماں تھا۔ یہ نہر کہاں سے آئی ہے اور اس کا سرا کدھر ہے، وامن وششٹھ نے سوچا۔ لیکن وہ ابھی کچھ بول نہ پائے تھے کہ کلپت رشی نے کہا:

’’بیٹھو، تم اچھے آئے۔ میں نے تمھیں ادھر آنے کا اشارہ دیا تھا، ملا ہو گا۔‘‘

’’جی ہاں‘‘ وششٹھ رشی نے پھنسی پھنسی آواز میں جواب دیا۔

’’بات یہ ہے تم بھی میرے ہمسفر ہو، لیکن تمھیں راستہ ٹھیک سے نہیں معلوم، بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ تم منزل سے بھی بے خبر ہو۔‘‘

وامن وششٹھ کچھ کہنے والے تھے کہ کلپنا نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر انھیں چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ کلپت رشی کی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ اس طرح گفتگو کر رہے تھے گویا سب کچھ دیکھ رہے ہوں:

’’تم تو بالکل ہی گم کردہ راہ ہو۔ جن کے نام پر تمھارا نام ہے وہ عارف تھے، لیکن کامل نہیں۔ بنانا اور مٹانا دونوں ایک ہی عمل ہیں لیکن مٹانے میں دیر لگتی ہے۔ وقفے یا مدت کے معنی میں دیر نہیں، اس تغیر کے معنی میں جو مٹانے کے بعد آہستہ آہستہ رو پذیر ہوتا ہے۔ رہسیہ سمراٹ نے مجھے یہی بتایا تھا۔ تم نے مٹنے کے عمل کا پہلا حرف ابھی ابھی دیکھا، اسے سیکھنا اور زبان سے ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔‘‘

وامن وششٹھ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ کلپنا بھی ذرا متعجب نگاہوں سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔

’’یہ نہر دیکھ رہے ہو؟ اور یہ مچھلیاں؟‘‘ انھوں نے سوال کیا۔ پھر جواب کا انتظار کیے بغیر انھوں نے کہنا شروع کیا۔’’یہ نہر میری بنائی ہوئی ہے، اور یہ مچھلیاں بھی۔ لیکن یہ میرے ہاتھ پاؤں کی محنت سے نہیں، میری قوت تخلیق سے بنی ہیں۔ پہلے یہاں کچھ نہ تھا۔ تم سوچ رہے ہو گے اس پانی کا سر چشمہ کہاں ہو سکتا ہے؟ سر چشمہ میں ہوں۔‘‘

کلپنا نے چونک کر اپنے شوہر کو دیکھا۔ یہ بات شاید اسے بھی نہیں معلوم تھی۔

’’میں نے یہاں کتنی عمریں گذاریں، مجھے اس کا اندازہ تو ہے، لیکن پورا علم نہیں۔‘‘ کلپت رشی نے کہا۔’’تم گرد و پیش میں کیا دیکھ رہے ہو، بتاؤ۔‘‘

وششٹھ رشی اب تک عاجزانہ سر جھکائے ہوئے کھڑے تھے۔ اب انھوں نے نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ بظاہر جہاں مچھلیوں والا چشمہ ختم ہوتا تھا، اس کے کچھ آگے، یا کچھ اوپر، پورا نظام شمسی قائم تھا۔ سب سیارے اپنے اپنے کام میں محو تھے۔ سورج کی گردش سے نگاہیں خیرہ ہو رہی تھیں لیکن تمازت ان تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ لیکن چشمے کے بعد تو بظاہر کچھ نہ تھا، غار وہیں ختم ہو چکا تھا، بظاہر اس پر وہاں کوئی باندھ بندھا ہوا تھا، لیکن باندھ کا پانی وہاں کہیں جمع نہ ہوتا تھا۔ نہ جانے اس کا پانی اور یہ مچھلیاں کہاں چلی جاتی ہیں، انھوں نے سوچا۔ اب تو اس غار کی چھت بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ لیکن کہیں، جہاں چھت ہونی چاہیے تھی، ایک اور کائنات نظر آ رہی تھی جس میں کوئی سیارہ، کوئی نظام شمسی نہیں تھامگراس کے باوجود ایک کے بعد ایک کئی کہکشائیں سامنے سے گذر رہی تھیں۔ ان کے بہت آگے، یا بلندی پر، یا پیچھے، کئی روشن ستارے چکا چوندھ کر رہے تھے، لیکن ان کی روشنی کبھی دور جاتی ہوئی محسوس ہوتی، کبھی اپنی جگہ پر قائم دکھائی دیتی اور کبھی کبھی تو کسی کہکشاں کے جم غفیر میں وہ ستارہ ہی نظر نہ آتا تھا۔

وامن وششٹھ نے گھبرا کر اپنے ہاتھ پاؤں کو دیکھا۔ سب کچھ وہیں تو تھا جہاں ہونا چاہیے تھا۔ وہ کسی اور دنیا میں نہیں پھینک دیے گئے تھے، اپنی جگہ محفوظ تھے۔ محفوظ؟ کیا واقعی یہاں کوئی محفوظ ہے؟ کچھ دھندلی سی آواز انھوں نے سنی، اس میں عجب طرح کا غیر انسانی زور تھا، جیسے کوئی کسی خطرے سے آگاہ کر رہا ہو۔ انھوں نے دھیان دے کر سنا۔ نہیں، کوئی خطرے والی بات نہیں تھی۔ کلپت رشی کہہ رہے تھے:

’’یہ سارے آسمان، اور ان کے سارے سورج اور ستارے، ہوائیں اور بادل، روشنیاں اور اندھیرے، سب میرے بنائے ہوئے ہیں۔ اور یہ وہی ہیں اور وہی نہیں بھی ہیں جنھیں تم اوپر انسانی آسمان میں دیکھتے یا تصور کرتے ہو۔‘‘

وامن وششٹھ نے ہمت کر پوچھا:

’’م۔۔۔مگر کیوں؟‘‘

کلپت رشی کچھ شرمندہ سی مسکراہٹ مسکرائے (شرمندہ مسکراہٹ اور ان کے ہونٹوں پر؟ وششٹھ نے حیرت سے سوچا)۔’’ہاں، کیوں کہ میرا جی اس دنیاوی کائنات میں اکتا گیا تھا۔ میں اتنا سارا علم حاصل کر چکا، پھر وہ سب بھلا بھی چکا اور اپنے دل دماغ ہی نہیں پورے وجود کو علم، اطلاع، گمان، وہم سب سے پاک کر چکا تو بھی جن سوالوں کے جواب کی مجھے تلاش تھی، وہ بے نیاز جواب ہی رہے۔ کہتے ہیں ایک کائنات عظمیٰ ہے جس میں سب کائناتیں جمع ہیں، یا مدغم ہیں۔ تو پھر اس کی شکل کیا ہے؟ وہ تکونی ہے کہ چوکور ہے کہ دائرہ ہے، یا زنجیرہ ہے؟ کیا کوئی قانون قاعدے ہیں جن کے تحت یہ کائنات زندہ اور عمل پذیر ہے؟ اور یہ زندہ ہے بھی کہیں؟ اپنی معمولی دنیا میں تو میں زمان، مکان، علت معلول، سب جانتا ہوں، لیکن یہ کس طرح عمل کرتے ہیں؟ اچھا اگر کو ئی کائنات عظمیٰ نہیں ہے، صرف ہماری کائنات ہے، تو پھر وہ سب کہاں ہیں؟ وہ جمب دویپ، وہ کوہستان سمیرو، وہ بے ازل اور بے ابد کنول کا پھول کہاں سے آیا؟

’’جب میرا جی ان سوالوں سے گھبرا جاتا تو میں اپنا دل بہلانے کے لیے نئے نئے آسمان اور آفاق بنا کر دل بہلاتا، یا وقت گذاری کرتا۔ لیکن نہیں۔ مجھے کسی اور کی تلاش تھی۔ حسن کی، زندہ حسن کی، جسے میں دیکھ سکوں، سن سکوں، چھو سکوں، جسے میں صرف اور صرف اپنا کہہ سکوں۔ اور وہ حسن ارادے اور ذہن کا بھی مالک ہو۔ اسے تکلم پر قدرت ہو، اسے ہواؤں، آبشاروں، طیور، ابر و باراں، صاعقہ، ان سب کی موسیقی کا بھی شعور ہو۔

وامن وششٹھ ہی نہیں، کلپنا بھی کلپت رشی کا منھ دیکھ رہی تھی۔ دونوں چاہتے تھے کہ کچھ کہیں، لیکن مداخلت کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ کلپت رشی کے الفاظ ہوا کی طرح سارے غار میں بہ رہے تھے۔

’’مجھے معلوم تھا کہ کائنات کا آخری سرا چھو لینے ہی پر میرا دکھ دور ہو سکے گا۔ اور یہ دکھ تمام دکھوں کا بادشاہ تھا، اور کائنات کا سرا کہاں ہے، مجھے اب تک معلوم نہ ہو سکا تھا۔ تو میں نے پہلی خوبصورت شے جو بنائی وہ مور تھا۔ طاؤس لاہوتی بھی اس قدر حسین، اس قدر دلربا کیا ہو گا۔ میں تو ایک لمحے کے لیے مبہوت رہ گیا۔ یہ میں نے بنایا ہے؟ لیکن اس نے وجود میں آتے ہی پر پھڑپھڑاتے ہوئے غار کے اس سرے سے اس سرے تک کا چکر لگانا شروع کر دیا۔ اس قدر وحشت تو شاید حیوانی طاؤس میں بھی نہ ہو گی۔ اور اس کی آنکھیں، وہ دلفریب کہ تکتے رہیے، لیکن ان میں فہم اور فکر اور ارادے کی روشنی نہ تھی۔ افسوس کہ ان کا حسن میرے کسی کام کا نہ تھا۔

’’میں نے طاؤس کو باہر نکل جانے کا اشارہ دیا۔ اشارہ کیا دیا، اسے غار کا باہری دہانہ دکھا دیا اور وہ خوشی خوشی اڑ کر باہر کی چٹان پر جا بیٹھا اور اپنی آئندہ معشوقوں کو اپنی جھنکار بھری آواز میں پکارنے لگا۔ لیکن وہاں مورنیاں کہاں تھیں؟ وہاں کی ہوا ہی اور تھی، زمیں اور تھی۔ اس نے تھوڑی ہی دیر میں سمجھ لیا کہ یہاں کچھ سرسبز نہ ہو گا اور کچھ تھکی ہوئی سی رفتار کے ساتھ نشیب کی وادیوں کی طرف اڑ گیا۔

’’میں مایوس نہ ہوا، میں جانتا تھا کہ جو کچھ مجھے درکار ہے، وہ بن ہی جائے گا اور بنانے کی اس کوشش میں بھی ایک لذت تھی۔ کچھ اور وقت گذرا (اگر وقت کا کوئی تصور اس جگہ ممکن تھا) اور میں نے پانی کا یہ چشمہ بنایا جو تم دیکھ رہے ہو۔ یہ اچھا شگون تھا، کہ پانی منبع اور علامت ہے زندگی اور تحرک کی۔ جیتی جاگتی زندگی اب کچھ دور نہ ہونا چاہیے، میں نے سوچا۔ ایک مدت تک میں لہروں کے گذرنے، لہرانے اور جوش کرنے کا منظر دیکھتا رہا۔ ہر بار نیا پانی، ہر بار نئی لہر۔ اور ہر بار روشنی کے کھیل یا شرارت کی وجہ سے لہروں کے نئے رنگ۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں اس زندہ، تقریباً تکلم پر قادر، زندگی سے بھر پور پانی کو اپنے پاس بلاؤں، اس کی باتوں سے دل بہلاؤں، اس کے رنگوں سے لطف اندوز ہوں۔ لیکن توبہ، وہ لہریں میری کب سننے والی تھیں؟ اور ان میں قوت سامعہ شاید تھی بھی نہیں۔ پھر میں نے چشمے کے پانی میں رنگ برنگی چھوٹی بڑی مچھلیاں بنائیں۔ لیکن اب ایک نیا مسئلہ سامنے تھا۔ میرا یہ غار بہت لمبا، بہت گہرا سہی، لیکن پانی اس کے آخری سرے پر جمع ہوتا رہا تھا۔ اب یا تو وہ واپس میری طرف واپس آئے یا اٹھنا شروع ہو۔ مجھے یہ دونوں صورتیں منظور نہ تھیں، کیوں کہ رخ بدلنے یا انداز و رفتار بدلنے کے نتیجے پانی کچھ کا کچھ ہو سکتا تھا۔ پھر یہ مچھلیاں کہاں جائیں گی؟ میرے رہنے اور پاؤں پھیلانے کی بھی جگہ رہے گی کہ نہیں؟‘‘

وامن وششٹھ نے ہمت کر کے مداخلت کی۔ ’’لیکن۔۔۔ لیکن اب تو ایسا نہیں ہے۔ غار کے آخری سرے پر کوئی اور غار، یا حوض بنا ہے کیا؟‘‘ کلپنا مبہوت کھڑی سن رہی تھی۔ اس غار اور غار کے بنانے والے کی تاریخ سے وہ واقف نہ تھی، سمجھتی تھی کلپت رشی نے اسے یوں ہی پایا ہو گا اور اس میں اقامت اختیار کر لی ہو گی۔ اب اسے لگ رہا تھا کہ کچھ بھی ایسا نہیں ہو جو در اصل ویسا ہی ہو جیسا کہ نظر آتا ہے۔ غار کی اونچائیوں پر وہ دنیائیں، دشت و صحرا، کہکشائیں، پوری پوری کائنات کو شروع سے قائم دیکھتی آ رہی تھی۔ اور باہر جو آسمان و زمین تھے وہ اپنی ہی طرح کے آسمان و زمین تھے۔ کیا معلوم کتنی دنیائیں ہیں اور کہاں ہیں اور کس نے بنائی ہیں۔ کلپت رشی نے آنکھیں کھول کر کلپنا کو دیکھا، کچھ عجب سی مسکراہٹ مسکرائے اور پھر کہنے لگے:

’’ہاں، تو میں نے اپنے غار کے سرے پر چھوٹا سا حوض بنایا۔ مچھلیوں کو اور چشمے کے پانیوں کو ایک اور جولاں گاہ مل گئی۔ پھر میں نے اس نئے حوض کے پرلے سرے پر ایک چھوٹی سی نہر نکالی کہ حوض جب بھر جائے تو پانی اور مچھلیاں اس کے کناروں پر سیلاب کا سا ڈھنگ نہ اختیار کر لیں۔ اب سب بالکل ٹھیک تھا۔ پانی نہر کے سر چشمے سے نکل کر میرے غار میں آتا رہتا اور حوض میں جمع ہو کر باہر نئے غاروں اور گہرائیوں کی طرف نکل جاتا۔ لیکن وہ مچھلیاں، ہزار رنگ کی تھیں اور رنگ بدلتی بھی رہتی تھیں اور ان کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی۔ سطح سے لے کر تہہ تک اور تہہ سے لے کر سطح تک ان کے انگنت نقش و نگار بنتے۔ چشمہ اپنی سریلی، کچھ سر خوش سی آواز میں آتا اور جاتا اور گاتا رہتا۔ لیکن میں بات کس سے کرتا؟ کون میرے غار کے فرش پر نازک قدموں سے چلتا اور اس کے نقش پا پھول کی طرح کھلتے جاتے؟ کس کے گنگنانے یا گانے کی آواز میرے دھیان میں خلل ڈالتی اور مجھے نیند آنے لگتی؟ کس کے بدن کے خطوط کبھی کہیں جھلک دکھا جاتے کبھی کہیں اور کسی شمع کی لو کی طرح روشن نظر آتے؟ میں کس سے پوچھتا کہ تم نے کھانا کھایا کہ نہیں؟ مچھلیوں کو اپنا کھانا خود ہی اس نہر میں مل جاتا تھا۔ اور کچھ نہیں تو چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے پانی کے ساتھ باہر سے بہہ کر آتے، وہی ان کے لیے کافی تھے۔ مچھلیوں کی خوب چین سے گذر رہی تھی۔ چشمہ بھی اپنے نغمے کے بہاؤ میں مگن تھا۔ مضطرب تھا تو میں تھا۔‘‘

وامن وششٹھ نے گھبرا کر دیکھا۔ کلپت رشی کی آنکیں کچھ سرخ، کچھ نم ہو رہی تھیں۔ سرخی تو ٹھیک ہے، لیکن یہ نمی کیوں؟ وششٹھ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ انھوں نے سوچا کہ کسی طرح ان کی گفتگو فی الحال روک دی جائے تو کیسی رہے؟ ایسا نہ ہو کہ ان تمام دلپذیر اور دلدوز باتوں کو دو بارہ اپنے لفظوں کے ذریعہ زندہ کرنے میں ان کی زندگی پر کچھ آنچ آئے۔ انھوں نے سوال بھری آنکھوں سے کلپنا کو دیکھا اور انھیں حیرت ہوئی کہ وہ بھی رو رہی تھی۔ آنسو اس کے رخسار پر ڈھلک آئے تھے لیکن وہ انھیں خشک کرنے کی بھی زحمت نہ کرنا چاہتی تھی۔ اس اثنا میں کلپت رشی کا بیانیہ جاری تھا:

’’۔۔۔میں اس اضطراب کے عالم میں نہیں جینا چاہتا۔ جی ہی نہیں سکتا۔ یہ سب میرے اکتسابات، یہ میرے دور ترین دنیاؤں کے روحانی سفر، میرے کوئی کام نہ آئیں گے؟ میں نے سارے ماحول سے خود کو جدا کر لیا۔ بند آنکھوں کو کھول دیا۔ اب وہ آنکھیں مردہ اور بے نور تھیں۔ سارا نور، ساری قوت ایجاد میرے ذہن میں مرتکز ہو گئی تھی۔ عورت کے بدن، اس کے حسن، اس کے حسن کے مزاج کے بارے میں جو کچھ میں نے دیکھا اور سمجھا اور تصور کیا تھا، وہ سب میرے تصرف میں تھا۔ بس جان ڈالنے کی دیر تھی۔ مجھے نہیں معلوم مجھے کتنی دیر لگی، لیکن ایک دن، یا شاید ایک رات میری آنکھوں کی روشنی واپس آ گئی اور کلپنا میرے سامنے کھڑی تھی۔‘‘

وامن وششٹھ کے منھ سے نکلا:’’یہی کلپنا؟ یہ تو۔۔۔یہ زندہ ہیں؟ بالکل زندہ۔ ان کے خون کی گرمی، ان کی سانسوں کی دھڑکن، میں یہاں سے بھی سن سکتا ہوں!‘‘

کلپنا اچانک بول اٹھی:’’مہاراج، اور یہ پانی کا چشمہ، یہ مچھلیاں، جو آپ کے سامنے ہیں، یہ زندہ نہیں ہیں کیا؟ کیا آپ کی مت بالکل ہی ماری گئی ہے؟‘‘ وہ تھوڑی سی ہنسی ہنس کر بولی،’’شاید ابھی کچھ زیادہ سفر نہیں کیا ہے۔ عالم کو آپ نے بہت کم دیکھا ہے۔‘‘ اچانک وہ بپھر کر بولی،’’ہاں، اسی زندگی نے تو مجھے تباہ کر ڈالا۔ آپ کس خیال میں ہیں اور کس دنیا کے باسی ہیں؟‘‘

کلپت رشی نے یہ سب شاید سنا ہی نہیں۔ وہ کہہ رہے تھے،’’میں نے اسے تکلم اور ذہن پر بھی قادر تصور کیا تھا۔ دل دماغ اور تمامی اعضائے رئیسہ تو تھے ہی۔ لیکن مجھے یہ خبر نہ تھی، یا شاید تھی، لیکن میں لوبھ کی شدت میں اس بات کو نظر انداز کر گیا تھا کہ اگر دل ہے تو جہاں وہ سارے جسم میں خون دوڑاتا ہے، وہاں وہ جذبات اور درد اور تقاضا بھی پیدا کرتا ہے۔ سب کچھ جانتے ہوئے میں اس دل میں جو گوشت کا لوتھڑا ہے اور اس دل میں فرق کرنا بھول گیا تھا جو انسان کو انسان بناتا ہے، جسے کمی، زیادتی، روح کی بھوک اور جسم کی پیاس کا بھی احساس ہوتا رہتا ہے۔‘‘

کلپنا کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن کلپت رشی پر اس وقت وہ عالم طاری تھا کہ دیو اور راکھشس بھی مداخل ہونے کی جرأت نہ کرتے۔

میری آنکھیں دیکھتے ہی وہ بولی:’’میں کون ہوں؟‘‘

مجھے جواب نہ پڑا تو اس نے دوسرا سوال کر دیا:’’میرا نام کیا ہے؟‘‘

’’تمھیں میں نے بنایا ہے۔ تمھارا ابھی کوئی نام نہیں ہے۔‘‘

’’اس کی پیشانی پر ناراضی کی شکن نظر آئی تو میں نے بے سوچے سمجھے کہہ دیا، تم کلپنا ہو۔‘‘

’’اچھا تو پھر آپ کون ہیں۔ ہیں بھی کہ نہیں؟‘‘

’’میں ہوں، لیکن میرا کوئی نام نہیں ہے۔ باپ ماں نے اگر کوئی نام مجھے دیا تھا تو میں اسے بھول چکا ہوں۔‘‘

’’اچھا، اگر میں کلپنا ہوں تو آپ کلپت ہیں۔‘‘ وہ جھٹ بولی۔’’حساب برابر ہوا۔‘‘

’’کلپت بھی اچھا نام ہے۔ میں نے کچھ تذبذب کے بعد اس کی پسند کو اپنی پسند بنا لیا۔‘‘

’’مجھے کیا کرنا ہو گا؟ میں کس لیے بنائی گئی ہوں؟‘‘

’’تمھارا کوئی کام نہیں۔ تم اس غار کو اپنی موج خرام سے روشن کرو، اپنے تبسم سے شفق گوں کرو، اپنی آواز سے چرند و پرند کو، اور مجھے بھی مسحور کرو۔‘‘

’’مجھے یہ سب کچھ نہیں آتا۔‘‘ وہ اٹھلا کر بولی۔’’نہ مجھے کھانا پکانا آتا ہے، نہ میں آپ کی چادر میں پیوند لگا سکتی ہوں، نہ میں رات کو گیت سنا کر آپ کو سلا سکتی ہوں۔ اور گانا تو مجھے بالکل ہی نہیں آتا۔‘‘

’’ٹھہرو، ذرا ٹھہرو۔ موسیقی میں تمھیں دکھاؤں گا، تمھاری آواز کو پرندوں کی چہچہاہٹ سے، ٹھنڈی ہواؤں سے ہم آہنگ ہونا، میں تمھیں سکھاؤں گا۔ تمھیں بس میرے لیے رونق حیات بننا ہے۔‘‘

اب کلپنا سے نہ رہا گیا۔’’جی ہاں، آپ نے مجھے سب کچھ سکھایا، سب کچھ بنایا، لیکن کبھی محبت کی نگاہ سے مجھے نہ دیکھا۔۔۔‘‘

’’محبت کی نگاہ؟‘‘ کلپت رشی نے کچھ متعجب ہو کر پوچھا۔

’’آپ دماغ کی، دل کی، حقیقت جانتے ہیں۔ ابھی آپ نے خود ہی کہا۔ پھر اس دل کے تقاضے بھی جانتے ہوں گے۔‘‘ کلپنا تیز لہجے میں بولی۔’’مجھے کسی کی بھی رونق حیات نہیں بننا۔ میری بھی کوئی زندگی ہے؟ میری زندگی کی رونق کون بنے گا؟ کون بن سکتا ہے؟ کیا میں کوئی بے جان کھلونا ہوں؟‘‘

اب کلپنا کے آنسو ندی کی طرح بہہ رہے تھے۔ وششٹھ تو ایک طرف رہے، کلپت رشی کو بھی لب کھولنے کی جرأت نہ تھی۔

’’آپ نے اتنا کچھ گیان حاصل کیا لیکن یہ نہ جانا کہ چاہت کے بغیر کچھ نہیں؟ مجھے چاہنے والا تو کوئی آپ نے بنایا نہیں۔ اور کیوں بناتے؟ آپ کو اپنی دلبستگی کے لیے گڑیا بنانی تھی تو کچھ اور بناتے۔ آپ نے ادھوری مخلوق پیدا کر دی اور اسی پر آپ کو تسخیر فطرت کا، تسخیر کائنات کا جنون تھا؟ نہیں، معاف کیجئے گا، آپ تو تخلیق کائنات کا دعوی رکھتے تھے؟‘‘

وششٹھ رشی کو لگا، وہ اچانک نیند سے بیدار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے آنکھیں مل کر دیکھا۔ سب کچھ تو ویسا ہی تھا، وہیں تھا۔ لیکن انھیں یہ وہم کیوں ہو رہا تھا جیسے کچھ بدل گیا ہے، یا بدلنے ولا ہے؟ یوگ وششٹھ (جس کے نام سے انھوں نے اپنا نام مستعار لیا تھا، یعنی ان کے دونوں نام مستعار تھے) میں تو لکھا ہے کہ کہ سب کچھ انسان کے ذہن میں ہے اور وہ حقیقت، یا وہ وجود، جو انسان اپنے ذہن میں اور پھر اپنے ذہن سے پیدا کرتا ہے، اس میں پہاڑ کی ایسی چوٹیاں، ایسے کوہسار بھی ہیں جو لچک دار ہیں۔ انھیں بڑھایا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ ایک اتھاہ، بے انت سلسلہ ہے جس میں سب کائناتیں لپیٹی پڑی ہوئی ہیں۔ تو کیا یہ پیاز کے چھلکے کی طرح ہیں، یا پیاز کے چھلکے ہی ہیں؟ مگر یہ کلپنا تو سمجھتی ہے کہ سب کچھ حقیقی ہے۔ ایک میں ایک بندھا ہوا یا مدغم نہیں ہے۔ ہر انسان اپنی جگہ پر حقیقی ہے۔ مگر مجھے کیا خبر، مجھے کیا علم؟ ابھی تو میں نے وامن اوتار کا پہلا قدم بھی نہیں پورا کیا ہے۔ میں تو راہ میں کہیں معلق ہوں۔ یوں کہیں کہ میں ابھی نیند ہی میں ہوں۔ میں تو ابھی نیند اور خواب کے علاقے کی طرف قدم زن بھی نہیں ہوا ہوں۔ کلپنا اور کلپت جن اسرار سے واقف ہیں، مجھے ان کی بھنک بھی نہیں مل سکی ہے۔ کلپنا کو تو کلپت نے بنایا ہے، یہ بات وہ خوب جانتی ہے۔ لیکن مجھے کس نے بنایا، اس سوال کے جواب کا سایہ بھی مجھ تک ابھی نہیں پہنچا۔ مجھے کلپت نے اپنی قوت کے بل بوتے پر کھینچ بلایا تھا۔ لیکن مجھے لگتا ہے یہ سفر بھی۔۔۔

مگر کچھ بدل ضرور گیا ہے، مجھے یقین ہے۔ یا میں ہی کچھ بدل گیا ہوں؟ کچھ نہیں، بہت کچھ۔ وامن وششٹھ نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ کیا کوئی نیا شخص ادھر آنے والا ہے؟ کیا وہ کلپت رشی سے بھی زیادہ قوتوں کا مالک ہے؟ مگر کیا کلپت رشی کی قوتیں ان کے لیے مخصوص ہیں، اور یا ہر ایک میں مشترک ہیں؟ اور قوت ہے کیا؟ کیا نجات اور نروان کی راہ، جسے یوگ وششٹھ میں موکش پایہ (راہ آزادی) کہا گیا ہے، سب کے لیے ہے؟ یعنی کیا ہم میں سے کوئی بھی اس راہ پر چل سکتا ہے اگر اسے راہ کا سرا، یعنی اس کا پہلا قدم، معلوم ہو؟ لیکن یہ موکش کیوں لازم ہے؟ ہمیں کس نے یہاں (یا کہیں بھی) قید کیا اور پھر نجات کی راہ ڈھونڈنے پر مکلف کیا؟ کیا کلپت رشی کو نجات کی راہ مل گئی ہے؟ اور کلپنا کو؟

ابھی وہ ان سوالوں میں الجھے ہوئے تھے کہ انھوں نے دیکھا، کلپنا کے سر کے چاروں طرف کچھ آگ کے سے شعلے ہیں۔ کیا یہ کلپنا کے سر سے اٹھ رہے ہیں؟ یا کوئی نئی آگ ہے؟ چشم زدن میں انھیں ایسا محسوس ہوا کہ چشمے میں پانی کی لہریں نہیں ہیں، آگ کی لپٹیں ہیں۔ اور یہ لپٹیں شعلہ بن کر ہر طرف لپک رہی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ شعلے گویا زندہ ہو کر غار میں ہر طرف دوڑنے لگے۔ غار کے آخری سرے پر جو آسمان تھا، (یا جو چھت تھی؟ ) اس پر جگمگانے والی، ڈرانے والی، بے چین کر دینے والی ساری دنیائیں، سب دشت و صحرا، سب سمندر اور سب آسمان، جلنے لگے۔ صرف کلپت رشی اور کلپنا اپنے اپنے دھیانوں میں غرق تھے گویا کچھ بدلا ہی نہیں ہے۔ یا شاید انھیں آگ کی گرمی ابھی تک پہنچی نہیں ہے۔

وامن وششٹھ نے لڑکھڑاتے ہوئے قدم پیچھے ہٹائے۔ وہ آگ شاید ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ نہیں، سارے شعلے ابھی اسی غار تک محدود تھے۔ اچانک انھوں نے محسوس کہ ان کے اندر سے کچھ کم ہو گیا ہے۔ انھوں اپنے جسم کو ٹٹولا۔ کنڈلنی، جسے وہ ہمیشہ کردھنی کی طرح کمر سے باندھے رہتے تھے، وہ سانپ غائب تھا۔

جیسے کسی نے دن دہاڑے ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی ہو۔ انھیں آگ کی گرمی اور اس کی چمک تو محسوس ہو رہی تھی، لیکن انھیں نظر کچھ نہ آتا تھا۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ غار کے باہر ہیں یا اندر ہیں۔ ایک مرتبہ انھیں ایسا لگا کہ وہ آگ غار سے باہر نکل کر ان کے وجود پر مسلط ہونے والی ہو۔ انھوں نے گھبرا کر ایک اور قدم پیچھے ہٹایا اور اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ کیا یہی انجام ہے؟ کیا اسی کو نجات، نروان، موکش کہتے ہیں۔

نہ معلوم کتنی دیر ہو گئی تھی۔ انھوں نے ہمت کر کے آنکھیں کھولیں تو وہاں کچھ بھی نہ پایا۔ آگ نے سب نگل لیا تھا، یا خاک کر دیا تھا اور کوہستانی برفیلی ہوا اچانک گرم آندھی بن کر سب کچھ اڑا لے گئی تھی؟ نہ کلپنا نہ کلپت رشی، نہ وہ پانی کا چشمہ، نہ وہ مچھلیاں۔ نہ وہ خاک نہ پتھریلی چٹانیں، نہ غار کی گہرائیاں، حد نظر تک ایک اونچی پہاڑی تھی جو دور کسی ڈھلان میں گم تھی اور وہ نہر وجود، جو اس سب کا منبع تھی؟ وہ خود سے شرمندہ ہوئے۔ انھیں اپنے ہی وجود کے سرچشمے کا پتہ نہ تھا، اور اب وہ ناگ بھی انھیں چھوڑ گیا تھا۔ انھیں کسی اور وجود کے حق یا باطل ہونے کا سوال اٹھانے کا حق ہی کیا تھا؟

ایک زمانے میں انھیں صوفیوں کے بعض حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔ ان میں سے ایک صوفی کا قول تھا کہ ہر آن وجود ہے اور ہر آن فنا ہے۔ تو پھر ایسی صورت میں کسی مقررہ ذات کے سرچشمے کی تلاش فضول تھی۔

وششٹھ رشی نے تھکے ہوئے قدموں سے نیچے اترنا شروع کیا۔ اب وہ سبزہ زار تھا نہ آبشار، نہ وہ سرو اور دیودار کے پیڑ۔ راستہ ناہموار تھا، جیسا کہ پہاڑوں میں ہوتا ہی ہے۔ وہ ذرا اور نیچے اترے، موسم کچھ گرم ہو چلا تھا۔ غار کے آس پاس تو سرد ترین موسم تھا اور غار کے ذرا اوپر ہر جگہ برف بندی تھی۔ یہاں سورج تو ابھی نہیں دکھائی دیتا تھا لیکن آسمان دور تک نیلا تھا۔ وہ اترتے گئے۔ دفعۃً انھیں شک ہوا کہ کہیں کوئی چیز چمک رہی ہے۔ ادھر اُدھر تو کچھ بھی نہ تھا۔ اوپر اونچا پہاڑ تھا۔ نیچے، جہاں وہ کھڑے ہوئے تھے، دشوار گذار گھاٹیاں اترتی چلی گئی تھیں۔ انھوں نے ہمت کر کے بائیں طرف کی کگر پر سے جھانکنا چاہا۔ ان کا سر چکرانے لگا۔ نہیں، کچھ بھی نہ تھا۔ پھر انھوں نے دو قدم اتر کر دائیں جانب دیکھا۔ ہرا سنہرا رنگ چمک رہا تھا۔ انھوں نے نظریں جمانے کی کوشش کی اور دیکھا کہ بہت کچھ نیلا رنگ بھی تھا۔ یہ تو مور تھا۔ وہی مور تو نہیں جو کلپت رشی نے بنایا تھا؟ عام طور پر مور اتنی بلندی پر نہیں پائے جاتے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ وہی مور تھا، کسی بنا پر اس کی قوت پرواز ختم ہو گئی تو وہ گھاٹی کے شگاف میں اتر گیا۔ غالباً دم لینے کے لیے۔ لیکن پھر وہ اس شگاف سے باہر نہ آ سکا، شاید پر پھیلا کر اڑ جانے کی جگہ نہ تھی۔ کیا کلپنا اور مچھلیوں سے بھری نہر کی طرح وہ مور بھی کلپت رشی کی راہ پر چلنے پر مجبور ہو گیا تھا؟

وامن وششٹھ کے گالوں پر دو قطرے بہہ نکلے۔ دھند ہر طرف بہت تیزی سے چھائی جا رہی تھی۔ بھاری دل کے ساتھ انھوں نے ٹٹول ٹٹول کر قدم رکھنا آغاز کیا۔ تھوڑی دیر بعد دھند نے انھیں بالکل پوشیدہ کر لیا۔

 

-پس نوشت-

سنہ ۲۰۱۹ء میں محمد حسن عسکری کی پیدائش کو سو سال ہو گئے۔ میں نے یہ افسانہ (یا آپ چاہیں تو اسے کوئی اور نام دے لیں) عسکری صاحب کو خراج عقیدت کے طور پر لکھنا شروع کیا تھا، لیکن جیسے جیسے افسانہ صورت پذیر ہوتا گیا، مجھے محسوس ہوا کہ عسکری صاحب اسے پسند نہ کرتے، کیا افسانے کے طور پر کیا کسی طرح کی تمثیلی تحریر کے طور پر۔ لیکن مجھے تو لکھنا وہی تھاجس کا تقاضا میرے دل دماغ میں تھا۔ کئی نشستوں میں یہ افسانہ مکمل ہوا۔ اب جیسا بھی ہے، آپ کے سامنے ہے۔

اس افسانے کے محرکات میں اقبال کا بہت سا کلام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے اقبال سے کہاں اور کس طرح استفادہ کیا ہے، وہ سب کچھ افسانے میں نمایاں نہیں۔ اور آج کے اقبال پرست دور میں تو شاید بالکل نہ دکھائی دے، البتہ سر نامے کے طور پر ’بال جبریل‘ کا ایک شعر ضرور پہچانا جا سکے گا۔

فوری محرکات میں سب سے نمایاں ایرک ہنٹنگٹن (Eric Huntington) کی ایک کتاب اور اس پر میرے دوست ڈیوڈ شلمین (David Shulman) کا تبصرہ ہے جو ’نیو یارک ریویو آف بکس‘ میں شائع ہوا تھا۔ ہنٹنگٹن کی کتاب یونیورسٹی آف واشنگٹن پریس نے شائع کی ہے اور اس کا نام ہے:

Creating the Universe, Deppctions of the Cosmos in Himalayan Budhism

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب ہمالیائی بدھ مت میں رائج کونیات (Cosmology) سے بحث کرتی ہے۔ میں نے اسے جستہ جستہ پڑھا۔ اس میں بہت سی باتیں ایسی ملیں جو جدید انسان کی ذہنی الجھنوں اور داخلی کشاکش کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور در حقیقت دعوت فکر بھی دیتی ہیں۔

اس افسانے میں بہت کچھ میری اختراع ہے۔ جس طرح سے بھی پڑھیں، یہ افسانہ ہی ہے۔ افسانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ میں اسے محمد حسن عسکری کی روح کی خدمت میں خراج عقیدت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔

شمس الرحمٰن فاروقی

٭٭٭

تشکر: اشعر نجمی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی، جو ان کی مرتبہ کتاب، ’وہ جو چاند تھا سرِ آسماں‘ (اثبات پبلی کیشنز، ممبئی) میں شامل کردہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے