غزلیں ۔۔۔ مظفرحنفی

 

چار سمتیں ہوں گی پگڈنڈی بدلتی جائے گی

یوں ہی چلتا جا، کوئی صورت نکلتی جائے گی

 

فطرتاً سورج کو جلنا ہے سو جلتا جائے گا

برف اپنے آپ گرمی سے پگھلتی جائے گی

 

ایک ریلے کی کسر ہے ایک جھونکے کی کمی

تا کجا یہ مشتِ خاکستر اچھلتی جائے گی

 

ہاتھ میں زیتون کی ڈالی ہے سر پر فاختہ

اندر اندر خون کی تلوار چلتی جائے گی

 

حسرتِ تعمیر رہ جائے گی مٹھی بھینچ کر

ریت آخر ریت ہے وہ تو پھسلتی جائے گی

 

گردِ شہرت نے مرے چہرے کو دھندلا کر دیا

جس قدر سایہ بڑھے گا دھوپ ڈھلتی جائے گی

 

وادیِ ظلمات میں چھیڑو مظفر کی غزل

روشنی افکارِ تازہ سے ابلتی جائے گی

٭٭٭

 

 

دامن دامن چاک صدف کا، موتی موتی عریاں ہے

صحرا صحرا ریت اڑتی ہے دریا دریا طوفاں ہے

 

میرے اندر کی بے چینی آخر کیسے ظاہر ہو

میں پابستہ اور بگولا صحرا میں سر گرداں ہے

 

چاروں جانب جال بچھائے نقشِ تمنا بیٹھے ہیں

اب جس کے پیروں میں دم ہو یہ تو دشتِ امکاں ہے

 

اس کی خوش بو کیسے آئی وہ تو میرے پاس نہ تھا

اس کا عکس کہاں سے آیا آئینہ خود حیراں ہے

 

جیسے ہاتھوں میں آ جائے آشا کی اک نازک ڈور

برکھارت کی اندھیاری میں ایک ستارا نوراں ہے

 

میں اپنی پہچان کی تختی پیشانی پر جڑتا ہوں

شہر خرابے میں تو یارو سب کا چہرہ یکساں ہے

 

انسانوں کے پاس مظفر انساں کب تک پہنچے گا

اس کی گردِ سفر تو اب تک سیاروں میں رقصاں ہے

٭٭

 

 

 

 

دامن دامن چاک صدف کا، موتی موتی عریاں ہے

صحرا صحرا ریت اڑتی ہے دریا دریا طوفاں ہے

 

میرے اندر کی بے چینی آخر کیسے ظاہر ہو

میں پا بستہ اور بگولا صحرا میں سر گرداں ہے

 

چاروں جانب جال بچھائے نقشِ تمنا بیٹھے ہیں

اب جس کے پیروں میں دم ہو یہ تو دشتِ امکاں ہے

 

اس کی خوش بو کیسے آئی وہ تو میرے پاس نہ تھا

اس کا عکس کہاں سے آیا آئینہ خود حیراں ہے

 

جیسے ہاتھوں میں آ جائے آشا کی اک نازک ڈور

برکھا رت کی اندھیاری میں ایک ستارا نوراں ہے

 

میں اپنی پہچان کی تختی پیشانی پر جڑتا ہوں

شہر خرابے میں تو یارو سب کا چہرہ یکساں ہے

 

انسانوں کے پاس مظفر انساں کب تک پہنچے گا

اس کی گردِ سفر تو اب تک سیاروں میں رقصاں ہے

٭٭

 

 

چار سمتیں ہوں گی پگڈنڈی بدلتی جائے گی

یوں ہی چلتا جا، کوئی صورت نکلتی جائے گی

 

فطرتاً سورج کو جلنا ہے سو جلتا جائے گا

برف اپنے آپ گرمی سے پگھلتی جائے گی

 

ایک ریلے کی کسر ہے ایک جھونکے کی کمی

تا کجا یہ مشتِ خاکستر اچھلتی جائے گی

 

ہاتھ میں زیتون کی ڈالی ہے سر پر فاختہ

اندر اندر خون کی تلوار چلتی جائے گی

 

حسرتِ تعمیر رہ جائے گی مٹھی بھینچ کر

ریت آخر ریت ہے وہ تو پھسلتی جائے گی

 

گردِ شہرت نے مرے چہرے کو دھندلا کر دیا

جس قدر سایہ بڑھے گا دھوپ ڈھلتی جائے گی

 

وادیِ ظلمات میں چھیڑو مظفر کی غزل

روشنی افکارِ تازہ سے ابلتی جائے گی

٭٭

ادب ساز، شمارہ ۲، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء، مدیر نصرت ظہیر

٭٭٭

 

دل میں بنجر ہی بنجر ہے مِٹّی کو نم کرنا ہے

ایک غزل کہہ کر خود اپنا پوسٹ مارٹم کرنا ہے

 

بوڑھا برگد سانسیں روکے دو دن سے ہے سجدے میں

کالے بادل گرَج رہے ہیں کتنا ماتم کرنا ہے

 

صحرا صحرا باج رہا ہے نقّارہ پامالی کا

مجھ کو بھی وحشت کرنی ہے اس کو بھی رَم کرنا ہے

 

جس کُوچے میں دنیا والے انگارے دَہکاتے ہیں

ہم درویشوں کو اس میں ہی رقص دَما دَم کرنا ہے

 

سرکاٹیں یا پاؤں تراشیں لوگو کچھ  تجویز کرو

اُوپر سے فرمان آیا ہے قد اپنا کم کرنا ہے

آج کل، نئی دہلی، ستمبر 2010، مدیر: ڈاکٹر ابرار رحمانی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے