تسبیح کے دانے ۔۔۔ محمد حامد سراج

 

یہ ایک دیو کی کہانی ہے

اسے بڑی عمر کے لوگ بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن کہانی پڑھنے کے دوران آداب ملحوظ خاطر رہیں کیوں کہ اب دادی ماں کہانی نہیں سنایا کرتی ہیں ہم نے بڑی مشکل سے دادی ماں کو اس بات پر رضا مند کیا ہے کہ بچپن میں وہ ہمیں سجو دیو سفید کی کہانی لحاف میں بیٹھ کر سنایا کرتی تھیں اب ہمارے بچوں کو بھی سنائیں۔ دادی ماں کا کہنا ہے میرے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں باتونی بہت ہیں۔ ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے۔ کہانی سنانے کے دوران یہ اپنی لایعنی باتوں کی اتنی پیوند کاری کرتے ہیں کہ کہانی کا تسلسل برقرار نہیں رہتا۔ مجھے کہانی کا گم شدہ سرا تلاش کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ ذہن پر زور دے کر بمشکل سرا پکڑتی ہوں۔ دیو سفید میرے قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔

ہم نے دادی ماں سے پوچھا دیو سفید کیسے آپ کے قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔

بیٹا یادداشت کمزور ہو گئی ہے۔ ضعیفی نے گرفتار کر رکھا ہے۔

دادی ماں جیسے ایک طاقت ور ملک نے کمزور ممالک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

بچے تو بچے تم بڑے بھی بولنے سے باز نہیں آتے۔

سارے بچوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات دادی ماں سے دیو سفید کی کہانی سنی جائے۔ انہیں دیو سفید سے زیادہ حسن بانو سے دلچسپی تھی جو اس دیو کی قید میں تھی۔ کہانی میں ایک بادشاہ تھا۔ نام تھا اس کا شاہ بہرام اور وہ تھا کہانی کا مرکزی کردار۔

کہا ہے نا۔۔۔ ہم نے دادی ماں کو کہانی سنانے پر بڑی مشکل سے رضامند کیا ہے۔

کہانی سننے سے پہلے بچوں نے کچھ فیصلے کیے۔

ٹیلیویژن بند رہے گا۔ کمپیوٹر پر گیم اور کارٹون نہیں چلیں گے۔ کہانی کے دوران بولنے پر پابندی کو بنیادی شرط قرار دیا گیا۔ اور یہ بھی طے پایا کہ آج بتیاں گل کر کے لالٹین کی روشنی میں کہانی سنی جائے۔

ایک شرارتی بچے نے کہا

دادی ماں امریکہ سے ڈرتی ہیں کہ کہیں وہ ہم پر بھی حملہ نہ کر دے اس لیے بلیک آؤٹ کر کے لالٹین کی روشنی میں کہانی سنائی جائے گی۔۔۔ ہی ہی ہی ہی

دادی ماں نے یہ باتیں سن لیں نا۔۔۔ تو حسن بانو کی کہانی ادھوری رہ جائے گی۔

لگتا ہے تمہیں حسن بانو سے کچھ زیادہ ہی عشق ہو گیا ہے۔

کیوں نہ ہو۔۔۔ اسے دیو کی قید سے آزادی تو دلانی ہے۔۔۔ قید آخر قید ہوتی ہے۔

پہلے ہم کون سے آزاد ہیں۔۔۔؟

فلسفہ اور تاریخ نہ جھاڑو۔ لالٹین صاف کرانے کا بندوبست کرو۔

اتنے میں دادی ماں کی آواز سنائی دی۔ ’’بہو لالٹین صاف کرا دی ہے۔‘‘

ہو رہی ہے اماں جی۔۔۔

گھر میں کوئی طاقچہ نہیں تھا لالٹین صاف کر کے میز پر سجا دی گئی۔ وہیں ایک پیتل کا پرانے وقتوں کا مرصع لیمپ بھی رکھا ہوا تھاجس میں مٹی کے تیل کی بجائے اب زیرو کا بلب جلتا تھا۔ اسے وقت کی رفتار نے ڈیکوریشن پیس بنا دیا تھا۔

رات کے کھانے پر بھی موضوع دیو سفید ہی تھا۔ کھانا کھا کر سب دادی ماں کے گرد جڑ کر بیٹھ گئے۔ دادی ماں کے چہرے پر نورانی ہالہ تھا۔ سفید لباس میں ان کا تقدس اور ابھر آیا تھا۔ تسبیح سرہانے رکھ کر ابھی انہوں نے کہانی شروع بھی نہیں کی تھی کہ ان کی پوتی بولی۔

دادی ماں۔۔۔ ہوم ورک تو ہم نے سکول سے آتے ہی کر لیا تھا۔ آپ نے اسی وقت کہانی سنا دی ہوتی۔

بٹیا۔۔۔ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔

دادی ماں۔۔۔ مسافر اب پیدل نہیں بلکہ بسوں کاروں ٹرینوں اور جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔

بس ہو گئی کہانی۔۔۔ ایک پوتا جھلایا۔

مت ڈانٹو اسے۔۔۔ تمہاری چھوٹی بہن ہے۔

اگلے وقتوں کی بات ہے۔ ملکِ فارس میں ایک بادشاہ تھا۔ نام تھا اس کا شاہ بہرام۔ اللہ نے اس پر حُسن انڈیل دیا تھا۔ اس کی سلطنت بڑی وسیع و عریض تھی ہر طرف اس کے انصاف اور رحمدلی کا ڈنکا بجتا تھا۔ ایک بار بادشاہ اپنے مصاحبین کے ہمراہ سیر کو نکلا، سیر میں شکار بھی شامل تھا۔ پہلا پڑاؤ ایک جنگل میں تھا۔ جنگل میں اترتے ہی خیمے لگا دیے گئے۔ تخت بچھا دیا گیا۔ باورچی قناتیں لگا کر انواع و اقسام کے کھانے تیار کرنے لگے۔ کھانوں کی اشتہا بھوک کو اور سِوا کرتی تھی۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا رقص وسرود سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ناگاہ ایک سفید گھوڑا آسمان سے اترا۔ نگاہ اس پر ٹھہرتی نہ تھی۔ مصاحب اس کی طرف دوڑے وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ سب نے اپنی سی کوشش کر دیکھی اور تھک ہار کر بیٹھ گئے۔

بادشاہ نے خود گھوڑے کی طرف قدم بڑھائے۔ گھوڑے نے گردن جھکا دی۔

تالیوں کے شور میں مصاحبین نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ گھوڑا آپ کے لیے بھیجا ہے۔

بادشاہ اس پر سوار ہوا۔ گھوڑا دلکی چال چلنے لگا۔ مسرور بادشاہ اس کی پشت پر کر و فر سے بیٹھا تھا۔ گھوڑے نے میدان میں دو تین چکر کاٹے تالیوں کی گونج بڑھتی گئی۔ تالیوں کی گونج کے ساتھ گھوڑے کی رفتار بھی بڑھنے لگی اچانک ایک چکر میں اس نے فضا میں جست بھری اور اڑا۔ مصاحبین دیکھتے رہ گئے اور گھوڑا سوار سمیت نظروں سے غائب ہو گیا۔

میرے خیال میں رائٹ برادران نے پرندوں کی بجائے گھوڑوں کی کہانیوں سے ہی ہوائی جہاز بنانے کا آئیڈیا لیا ہو گا۔۔۔ دادی ماں کا پوتا بولا۔

چپ۔۔۔ کہانی کے دوران بولنے کی ممانعت ہے۔۔۔ دادی ماں کی پوتی بولی

عجیب بات کہی تم نے۔۔۔ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا گھوڑا ہمارے بادشاہ سلامت کو اغوا کر کے اپنے ملک لے گیا اور تم کہتی ہو بولنے کی ممانعت ہے اب سائینس کا عہد ہے وہ ہمارے بادشاہ سلامت کے دماغ میں کوئی Chip فٹ کر دے پھر کیا ہو گا۔۔۔؟

بڑی مشکل سے بچوں کی ماں نے انہیں چپ کرایا۔ بچوں کو دادی ماں کا تو سرے سے ڈر تھا ہی نہیں دادی ماں کا کہنا تھا کہ بلاوجہ جھڑکنے، ٹوکنے اور سزا دینے سے بچوں کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے اور ان کی شخصیت کا تار و پود بکھر جاتا ہے۔

گھوڑا ایک طلسماتی دنیا میں جا اترا۔ باغات، نہریں، جھرنے، فوارے، سبزے کی روشیں، پرندوں کے چہچہانے کی سریلی آوازیں، جنتِ ارضی کا نمونہ تھا۔ بادشاہ عالمِ تحیر میں تھا۔

گھوڑے نے جون بدلی۔ اب بادشاہ کے سامنے ایک دیو ہیکل بلا کھڑی تھی۔

شاہ بہرام۔۔۔ اس کی آواز گونجی، زمین تھرائی۔۔۔ میرا نام دیو سفید ہے۔ یہ میری سلطنت ہے۔ میری طاقت کا اندازہ تمہیں ہو گیا ہوگا۔ میں من موجی ہوں۔ جس ملک میں چاہوں لمحوں میں جا پہنچتا ہوں جس کو چاہوں اٹھا لاؤں مجھے کوئی روکنے والا نہیں مجھے جو پسند آ جائے اسے اٹھا کر اپنی سلطنت میں شامل کر لیتا ہوں۔ تم بھی مجھے پسند آئے اور میں نے تمہیں اٹھانے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا اور آج میں بہت خوش ہوں۔ تم میرے ہو۔ میری سلطنت میں رہو، راج کرو۔ میری مانو گے تو ساری عمر سکھی رہو گے۔ میں تمہیں مالا مال کر دوں گا۔ اپنے خزانوں کے منہ تم پر کھول دوں گا۔

لو۔۔۔ یہ لو۔۔۔ اس باغ کی کنجیاں۔۔۔ اس نے کنجیاں شاہ بہرام کی طرف پھینکیں

تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ آرام سے رہو۔ جہاں چاہو گھومو پھرو۔ لیکن ایک بات کا خیال رہے۔ ہماری دنیا تمہاری دنیا سے مختلف ہے۔ تم پسماندہ اقوام میں سے ہو۔ ہم دیو ہیں ہمیں حکومت کرنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ ہمارے کچھ اصول ہیں۔ تم بھی سن لو۔ ہمارے سامنے سر اٹھانے کی جرات نہ کرنا۔ ہمارے راز جاننے کی کوشش بھی تمہیں مہنگی پڑے گی۔ ایک راز ہے، سر بستہ۔! اس باغ کے مشرقی سمت ہم نے سونے اور چاندی سے ایک محل تعمیر کیا ہے۔ کیوں تعمیر کیا ہے۔۔۔؟ یہ با ت تمہارے لئے خارج از بحث ہے۔ تم نے اس باغ میں قدم نہیں دھرنا۔۔۔ ان چابیوں کے گچھے میں ایک چابی سونے کی ہے۔

یہ کہہ کر دیو سفید نے اڑان پکڑی اور غائب ہو گیا

دادی ماں۔۔۔ پھر آگے کیا ہوا۔۔۔؟

مجھے الائچی منہ میں رکھ لینے دو۔

دادی ماں الائچی منہ میں رکھنے سے کیا ہوتا ہے۔۔۔؟

منہ خشک نہیں ہوتا۔۔۔ تم سوال بہت کرتے ہو۔۔۔ دادی ماں نے کہا۔

گریٹ دادی ماں۔۔۔ لائٹ آن کر دوں۔۔۔ لالٹین کی روشنی میں دم گھٹ رہا ہے۔

تم جانتے ہی ہو حالات خراب ہیں ایمرجنسی چل رہی ہے۔ کسی وقت بھی حملہ ہو سکتا ہے۔ اندر باہر بلیک آؤٹ ضروری ہے۔۔۔!

خوش بختو۔۔۔ یہ اندر کا بلیک آؤٹ کیا ہوتا ہے۔۔۔ دادی ماں نے پوچھا

دادی ماں۔ روح کا چراغ بجھ جائے نا تو اندھیرا ہو جاتا ہے۔ اور پھر سارے فیصلے اندھے ہوتے ہیں۔

اگر در اندازی کی رفتار یہی رہی تو کہانی ایک سال میں بھی مکمل نہیں ہو گی۔

چپ۔۔۔ بھئی۔۔۔ مکمل چپ۔۔۔ اب نہیں بولنا۔

جی دادی ماں۔۔۔ تو آپ کہہ رہی تھیں۔۔۔’’بی باون‘‘ نے اڑان پکڑی۔

ہیں ں ں ں ں ں ں۔۔۔ یہ نگوڑا ’’بی باون‘‘ کیا ہوتا ہے؟

دادی ماں آپ ہی تو کہہ رہی تھیں۔۔۔’’دیو سفید نے اڑان پکڑی اور غائب ہو گیا‘‘

اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ یہ دیو کا انگریزی نام ہے۔ چھپن سال گزر گئے ہماری ذہنی غلامی نہ گئی۔

شاہ بہرام نے وہاں بسرام کیا۔

ایک دن اس کے من میں تجسس نے انگڑائی لی اور اس نے سونے چاندی کے محل کی سیر کا ارادہ باندھا۔ پہلے وہ ہچکچایا۔۔۔ ڈرا، لیکن خواہش غالب آ گئی۔ جب وہ محل میں داخل ہوا تو تحیر سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں

یا خدا۔۔۔ یہ میں زمین پر ہوں یا جنت میں آ نکلا ہوں۔ ایسے مناظر تو دیکھے نہ کبھی سنے۔۔۔!

وہ قدم قدم آگے بڑھا۔ تالاب میں پانی کی لہریں یوں انگڑائیاں لے رہی تھیں کہ ان سے موسیقی کی مدھر تانیں بہہ کر سماعت میں رس گھولتی تھیں۔ وہ ایک لہر کو چھو کر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ سارے لمس اپنے اندر اتار لینا چاہتا تھا۔ وہ ابھی پانی کے لمس میں ہی کھویا تھا کہ اچانک اس نے ایک کشادہ چاندی کی روش پر تین پریاں دیکھیں۔ وہ تالاب کی سمت ہی آ رہی تھیں۔ وہ اوٹ میں ہو گیا۔ دو پریوں نے اودے پیلے رنگ کا اور ایک پری نے سرخ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔ وہ سرخ لباس والی اپنے حسن میں یوں یکتا تھی کہ چاند بھی مقابل رکھا جائے تو ماند پڑ جائے۔ وہ لباس اتار کر تالاب میں اتر گئیں۔ پانی میں رنگ بھر گئے۔ شاہ بہرام دبے پاؤں آگے بڑھا اور سرخ پری کا لباس چرا لیا۔ یہ وہی لباس تھا جو پریوں کو اڑنے میں معاون ہوتا ہے۔

کتنی دیر وہ نہاتی اور ایک دوسرے پر پانی اچھالتی رہیں۔ تالاب سے نکل کر جب انہوں نے لباس دیکھا تو غائب۔۔۔ ان کی آنکھوں میں خوف اتر آیا۔ انہوں نے باغ کا کونا کونا چھان مارا۔

اودے پیلے لباس والی لڑکیوں نے تھک کر کہا کہ ہم تو چلیں اور پرواز کر گئیں۔

سرخ پری زیرِ دام آ گئی تھی۔

دادی ماں کی کہانی قدم قدم پر رزلٹ آؤٹ کر رہی ہے۔۔۔ ایک پوتے نے انگڑائی لے کر کہا۔

واہ۔۔۔ واہ۔۔۔ دادی ماں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیو سفید اتنا چالاک تھا کہ اس نے ہر کسی کو پھانسنے کے لیے الگ الگ نیٹ ورک پھیلا رکھا تھا۔ گھوڑے کا روپ، کہیں باغات کا جھانسہ، تالاب اور کہیں دھونس دھاندلی۔۔۔! لیکن اصل مقصد صرف انسانوں اور پریوں کو پھانسنا تھا۔

یعنی یہ اس کا مشغلہ تھا۔۔۔ دوسرے پوتے نے مونگ پھلی کا خالی شاپر ڈسٹ بِن میں پھینکتے ہوئے کہا۔

کہانی میں چائے کا وقفہ۔۔۔۔!

دادی ماں نے کہا، بچوں کو اونگھ آ رہی ہے۔ بہو چائے بنا لاؤ۔

سرخ پری پریشان تھی۔۔۔

اس نے آواز لگائی۔۔۔ تم جِن ہو۔۔۔ انسان، بھوت پریت یا کوئی اور مخلوق؟ میرے سامنے آؤ۔۔۔!

شاہ بہرام نے اوٹ سے انسانی لباس اس کی جانب پھینکا۔

لباس پہن کر وہ شاہ بہرام کے سامنے تھی۔۔۔ شاہ بہرام کبھی آسمان پر بادلوں کی اوٹ میں سے نکلتے چھپتے چاند کو دیکھتا تو کسی لمحے سرخ پری کو اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔؟

تم کون ہو۔۔۔؟

میں شاہ بہرام ہوں۔

میں بد قسمت حسن بانو ہوں۔

بد قسمت کیوں۔۔۔؟

دیو سفید نے مجھے اسیر کرنے کے لیے یہ سارا جال پھیلایا۔ میں اس کے ہاتھ نہ آئی۔ ابھی وہ آئے گا۔ زندہ تم رہو گے نہ میں۔۔۔! ایک ہی راستہ ہے

کون سا۔۔۔؟

تم مجھے میرا لباس لوٹا دو تاکہ میں شہرِ پرستان کو پرواز کر جاؤں۔

یہ تو ممکن نہیں۔

ضد نہ کرو۔۔۔ وہ بہت طاقت ور ہے۔

دیو سفید مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ میرا دوست ہے۔

وہ کسی کا دوست نہیں۔۔۔ بس اپنے مفادات کا دوست ہے۔ اسے دوست دشمن کی تمیز ہی نہیں وہ اپنے مفادات کے لیے سب کو کچا چبا جاتا ہے۔ شاہ بہرام کی ضد کے سامنے حسن بانو نے ہتھیار ڈال دیے اور ایک لائحۂ عمل طے کیا کہ دیو سفید کا سامنا کیسے کرنا ہے۔۔۔!

لحاف، بچے اور دادی ماں۔۔۔ چائے آ گئی۔ داستان تھوڑی دیر کے لیے سانس لینے کو رُکی اور بچوں کی منطق چل پڑی۔

ہماری دادی ماں کا ارادہ گوانتاناموبے جانے کا ہے۔

یہ صوبہ بلوچستان کا کوئی علاقہ ہے۔۔۔ دادی ماں نے معصومیت سے پوچھا۔

دادی ماں۔۔۔ اچھی اچھی دادی ماں۔۔۔ یہ علاقہ بھی دیو سفید کی سلطنت میں آتا ہے۔

دادی ماں روٹھ گئی اور کہانی سنانے سے انکار کر دیا۔

تم بس انٹر نیٹ اور کیبل پر بیٹھا کرو۔۔۔ وہی تمہارا قبلہ کعبہ ہے۔ نماز نہ روزہ۔۔۔ میں نے کتنی بار نماز کی تاکید کی تمہارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ پکی حدیث ہے میرے نبی سوہنےﷺ کی۔ بالکل پکی۔ بخاری شریف میں لکھی کھڑی ہے کہ جو صبح کی نماز کے لیے نہیں اٹھتا شیطان اس کے کان میں پیشاب کر جاتا ہے اور سارا دن نحوست چھائی رہتی ہے۔

چپ کیوں ہو گئے ہو۔۔۔؟ دادی ماں نے پوچھا

دادی ماں۔۔۔ وہ۔ بات یہ ہے۔۔۔ اس کے ایک پوتے نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

بولو۔

میں ایک دن مطالعہ کر رہا تھا۔ ایک نفسیات دان ہے ’’ژونگ‘‘۔۔۔ اس نے لکھا تھا کہ جو لوگ صبح سویرے نہیں اٹھتے، سورج نکل آنے پر بھی سوئے رہتے ہیں انہیں کسلمندی ایسا گھیرتی ہے کہ وہ سارا دن اپنے آپ کو تھکا تھکا اور نڈھال محسوس کرتے ہیں۔

یہی تو نحوست ہے۔ موئے سونگ کی بات تمہاری عقل میں آ گئی۔

دادی ماں۔۔۔ سونگ نہیں ژونگ۔۔۔!

جو بھی نام ہے اس کی باتیں تمہارے دل کو بڑی لگتی ہیں۔

کہانی بار بار کٹ رہی تھی شہر کے اس گنجان آباد علاقے کی بجلی کی طرح جہاں تاروں کا الجھاؤ مسٔلہ پیدا کرتا ہے۔

فیصلہ کیا گیا اب جو بھی دخل اندازی کرے گا اسے نکال باہر کیا جائے گا۔

مونگ پھلی کے بعد اب چلغوزے ان کی زد میں تھے۔

چائے کی بھاپ سے کہانی اٹھی۔

میں کہہ رہی تھی۔۔۔ شاہ بہرام کی ضد کے سامنے حسن بانو نے ہتھیار ڈال دیے اور ایک لائحۂ عمل طے کیا کہ دیو سفید کا سامنا کیسے کرنا ہے۔۔۔!

آندھی آئی۔۔۔ اس میں سے دیو سفید برآمد ہوا۔

اس نے دیکھا شاہ بہرام بے ہوش ہے تو اس کے اپنے ہوش اڑ گئے۔

وہ اس کے ارد گرد گھومنے لگا۔

بول۔۔۔ بول میرے دوست۔۔۔ تجھے ہوا کیا ہے۔۔۔؟ کس غم نے تجھے آ لیا ہے۔۔۔ بول میں تیرے لیے کیا کروں۔۔۔؟ تو تو میرا دوست ہے۔۔۔!

بڑی دیر بعد شاہ بہرام نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔ اور دھیرے سے کہا

حسن بانو۔۔۔!

حسن بانو کا نام سن کر دیو سفید چکرایا، دھڑام سے گرا اور بے ہوش ہو گیا

ایکسیلنٹ۔۔۔ گویا اس پر بم گرا۔ بہترین موقع تھا شاہ بہرام اور حسن بانو کے پاس انتقام لینے کا افسوس عاقبت نا اندیشوں نے گنوا دیا۔

دادی ماں نے الائچی منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اب بولے تو تھپڑ بھی لگے گا۔

ہاں دادی ماں۔۔۔ بولنے والوں کو تھپڑ لگنے چاہئیں۔

یہ کہانی ادھوری رہے گی۔

جن کہانیوں پر مسلسل بمباری کا عمل جاری ہو وہ کیسے مکمل ہو سکتی ہیں۔۔۔؟

تم اپنی رائے زنی کی بمباری بند کرو۔

بچوں کی ماں نے سب کو چپ کرایا۔۔۔

اب اٹھو۔۔۔ سارے۔ وضو کر کے عشاء کی نماز ادا کرو پھر کہانی۔۔۔!

دادی ماں اس دن تو آپ نے کہا تھا عشاء کی نماز کا وقت صبح صادق تک ہوتا ہے۔ آج اول وقت میں پڑھ لو اس کا اپنا الگ ثواب ہے۔ کہانی ختم ہوئی تو تم سب بستروں میں جا سر دو گے۔

دیو سفید چکرایا، دھڑام سے گرا اور بے ہوش ہو گیا۔

اب شاہ بہرام اور حسن بانو کے سر بن آئی کہ یہ کیا ہو گیا۔۔۔؟

سو طریقے آزمائے تب کہیں جا کر دیو سفید کو ہوش آیا۔

اس کا رنگ زرد تھا۔

نڈھال لہجے میں دیو سفید نے یہ اعتراف کیا کہ حسن بانو کی تلاش اور تمہاری اس خواہش کی تکمیل میرے بس کا روگ نہیں۔ یہ سارے جال میں نے اسے پھانسنے کو بچھائے ہیں۔ لیکن وہ زیرِ دام نہیں آئی۔

حسن بانو دہشت گرد ہے اس لیے ہاتھ نہیں آ رہی۔ دیو سفید بیچارے کو اپنا جان کا خطرہ ہے۔

بہت ہو گئی۔۔۔

کہانی ختم۔۔۔!

گریٹ دادی ماں۔ گریٹ دادی ماں۔۔۔ ویری سوری۔۔۔ اب پکا وعدہ۔ ہم مسلمان حکمرانوں کی طرح بالکل نہیں بولیں گے۔۔۔ آپ کہانی مکمل کریں۔

حسن بانو زیرِ دام آ گئی ہے۔۔۔ شاہ بہرام نے کہا۔

کیسے۔۔۔؟

دیو نے ساری کتھا سنی اور شاہ بہرام کا اس سے نکاح کر دیا۔

زندگی پھر جنت ہو گئی۔

ایک دن حسن بانو نے دیکھا کہ شاہ بہرام کا چہرہ اترا ہوا ہے اور وہ اداس ہے۔

تم اداس کیوں ہو۔۔۔؟

وطن کی یاد ستا رہی ہے۔ بیوی بچے یاد آرہے ہیں۔ عوام کا درد بے چین کر رہا ہے۔ میرے بعد وہ لٹیرے وزراء کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ جانے وہاں زندگی کن عذابوں سے گزر رہی ہو گی۔

دیو سفید کے سامنے درخواست رکھی گئی۔

اے بادشاہوں کے بادشاہ۔۔۔ ہمیں وطن لوٹنے کی اجازت دی جائے۔

ایک عرصہ غور و خوض میں گزر گیا۔ حسن بانو کی ضد تھی کہ پہلے شہرِ پرستان جایا جائے۔ وہاں سے پھر شاہ بہرام کی سلطنت کی طرف رختِ سفر باندھا جائے۔ پریشانی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کسی کو بھی پرستان کا

رستہ معلوم نہ تھا۔ اپنی تمام تر طاقت کے باوجود دیو سفید بھی اس شہر کی تلاش میں ناکام رہا تھا۔ حالاں کہ وہاں کے خزینوں کے قصے سن سن کر وہ ہمیشہ چڑھائی کے منصوبے ترتیب دیتا رہتا تھا۔

دیو سفید نے اپنے چاروں بھائیوں کو مدعو کیا۔

دیو سفید کے کہنے پر پانچوں بھائی سر جوڑ بیٹھے۔ ان میں دیو زرد گرد، دیو جرموس، دیو فرموس اور دیو روپرس شامل تھے۔ سب سے کہا گیا کہ وہ اپنی سلطنت میں ڈھنڈورچی سے اعلان کا کہیں کہ کہیں کوئی ایسا شخص ہو جسے شہرِ پرستان کا رستہ معلوم ہو۔۔۔

ڈھنڈورچیوں نے گلی گلی صدا لگائی۔

ایک ضعیف العمر دانشور نے عندیہ دیا کہ اسے رستہ معلوم ہے لیکن پہلے اسے شاہ بہرام کی زیارت کرائی جائے۔ کیوں کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک نجات دہندہ آئے گا۔ دانشور اتنا ضعیف تھا کہ پلکیں لٹک کر بینائی میں حائل تھیں۔ اس بوڑھے دانشور دیو کی پلکیں کھولنے کے لیے بڑے بڑے درخت گرا کر شہتیر بنائے گئے۔ پلکوں کے نیچے شہتیر لگا کر انہیں اوپر اٹھایا گیا۔ بینائی کچھ بحال ہوئی اس نے شاہ بہرام کی زیارت کی اور کہا۔

شہرِ فارس کی مغربی سمت ایک کالا پہاڑ ہے اس میں ایک سرنگ رستہ بناتی ہے۔ سرنگ کا سفر تاریک اور تھکا دینے والا ہے۔ میں شاہ بہرام کو ایک چراغ دوں گا۔ جس سے نہ صرف تاریکی چھٹ جائے گی بلکہ ہر قدم اور ہر مشکل گھڑی میں وہ شاہ بہرام کے کام آئے گا۔

پانچوں دیو دانشور کی باتیں انہماک سے سن رہے تھے۔

بچے اونگھنے لگے تھے۔

شاید انہیں نیند نے آ لیا تھا۔۔۔؟

کیا وہ جاگ رہے تھے۔؟

یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔۔۔

کیوں کہ دادی ماں کے ہاتھ میں جو تسبیح تھی اس کا تاگہ ٹوٹ گیا تھا اور دانے گود میں بکھر گئے تھے۔

بہو نے کہا۔۔۔ ماں جی۔۔۔ بچے سو گئے ہیں انہیں مت جگائیں۔

لیکن بہو کیوں۔۔۔؟

جاگ بھی گئے تو کون سے ان کے بھاگ جاگ جائیں گے۔ جاگنے پر بھی انہوں نے اودھم مچانا ہے۔

پانچوں دیو دانشور کیا باتیں انہماک سے سن رہے تھے۔

اور دادی ماں کے ہاتھ میں جو تسبیح تھی اس کا تاگہ ٹوٹ گیا تھا اور دانے گود میں بکھر گئے تھے۔۔۔!

٭٭

(جدید ادب، جرمنی، شمارہ ۹، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء، مدیر: حیدر قریشی)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے