مدیر کے نام خط ۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی

 

(شمس الرحمن فاروقی نے ریاض الرحمن شروانی، ایڈیٹر ’کانفرنس گزٹ‘، علی گڑھ کو ایک علمی مراسلہ لکھا تھا۔ یہ مراسلہ ان لوگوں کے لیے یقیناً کار آمد ہو گا جو درست زبان لکھنے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔)

 

مارچ 2011 کے‘گزٹ‘ کی فہرست میں فرحت علی خاں صاحب کے مضمون پر نظر پڑی تو دل خوش ہوا کہ اس زمانے میں ایسے لوگ باقی ہیں جنھیں زبان کا درد ہے۔ لیکن جب مضمون پڑھا تو انتہائی رنج ہوا کہ خود خان موصوف کی زبان اغلاط اور غلط فہمیوں سے پر ہے۔ رسالوں میں مراسلہ نگاری میں نے ایک مدت مدید سے ترک کر رکھی ہے۔ اس مضمون کو دیکھ کر میں صرف رنج کرتا اور چپ رہ جاتا لیکن ایک تو اس میں اغلاط بہت ہیں اور اس کا امکان ہے کہ طالب علم یا مبتدی اسے پڑھیں گے تو اور گمراہ ہوں گے اور دوسری بات یہ کہ اس بات پر حیرت ہوئی کہ آپ نے یہ مضمون کسی حاشیے کے بغیر چھاپ دیا۔ لہٰذا یہ چند معروضات پیش کرتا ہوں۔ امید ہے مضمون نگار محترم اور آپ خفا نہ ہوں گے بلکہ میری باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے۔

ارشاد مضمون نگار

1۔ کسی زبان کے حرف و لفظ لکھ لکھ کر روزی پا رہا ہے۔

2۔ بقول علامہ اقبال۔۔۔ آدمیت شود مقام آدمی

3۔ اگر ہمارے پاس، یا صاحب قلم کے پاس علم ہو گا تو ہرگز آدمیت سے نہیں گرے گا۔

میری عرض:

1۔ حرف کے بغیر لفظ نہیں۔ ’لکھ لکھ کر‘ سے ضد اور زبردستی کے معنی نکلتے ہیں جو غالباً مقصود نہیں۔

2۔ اقبال کے شعر کا کوئی محل نہیں۔ دوسرا مصرع نا موزوں اور بے معنی لکھا گیا ہے۔

3۔ ’ہمارے پاس۔۔۔ علم ہو گا۔۔۔ آدمیت سے نہیں گرے گا۔‘ فاعل کچھ اور فعل کچھ ہے۔ ’ہمارے‘ اور ’صاحب قلم‘ میں کیا کچھ فرق ہے؟

علم ایسی شے نہیں جو کسی کے ’پاس‘ ہو۔

’نہیں‘ کی جگہ ’نہ‘ لکھیں۔

’ہرگز آدمیت سے۔۔۔‘ کی جگہ ’درجۂ آدمیت سے ہرگز۔۔۔‘ لکھیں۔

یہ تو پہلے پیرا گراف کے چند جملوں کا حال تھا۔ اب کچھ صریح اغلاط کی نشان دہی کرتا ہوں:

(1) ’آپریٹ کرنا‘ کے بجائے ’کام کرنا‘ یا ’چلانا‘ لکھیں۔

(2)‘رموز و اوقاف کچھ آتا ہی نہیں۔‘ عرض ہے کہ ’رموز‘ اور ’اوقاف‘ الگ الگ نہیں ہیں۔ یہ فقرہ ’رموزِ اوقاف‘ مع اضافت ہے، مع عطف نہیں۔ ’رموز اوقاف‘، یعنی وہ علامات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح کا وقف ہے۔

(3) ’رموز و اوقاف کچھ آتا ہی نہیں، قواعد سے نا بلد ہوتا ہے۔‘ اس جملے میں فاعل نہیں ہے۔

(4) ’اس کی وجہ کئی ہیں‘ کی جگہ لکھیے ’اس کی وجہیں۔۔۔‘

(5) ’استاد توجہ نہیں دیتے، پڑھانے سکھانے پر‘، یہ ہندی کی عبارت ہو گئی۔ اردو میں یوں لکھیے، ’استاد پڑھانے لکھانے پر توجہ نہیں دیتے‘؛ ’سکھانا پڑھانا‘ برے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

(6) ’کالج‘ اور ’یونیورسٹی‘، یہ الفاظ انگریزی سے اردو میں آ گئے ہیں، ان کو سب قبول کرتے ہیں۔ لیکن ’کالجز اور یونیورسٹی لیول‘ ترک کیجیے اور ’کالجوں اور یونیورسٹی کی سطح پر‘ لکھیے۔

(7) ’نمبرنگ میں بیجا رعایت‘ کی جگہ ’نمبر دینے۔۔۔‘ لکھیے۔

(8) ’اقسام اسلوب، وضاحت اور بلاغت جو تحریر کا کمال اور عظمت ہے، وہ قواعد کا ہی رہین منت ہے۔’اگر‘اقسام اسلوب‘ کوئی چیز ہے بھی تو اسے ’تحریر کا کمال اور عظمت‘ کیونکر کہیں گے؟ اور تین فاعلوں (اقسام اسلوب، وضاحت، بلاغت) کے لئے دو جگہ فعل واحد ’ہے‘ لایا گیا ہے۔ ’اقسام اسلوب‘ خود بھی جمع ہے، لیکن پھر بھی فعل واحد رکھا گیا۔

(9) صرف قواعد کو تحریر کے ’کمال‘ اور ’عظمت‘ کا ضامن قرار دیا جائے تو ہر وہ تحریر جس میں قواعد کی پابندی کی گئی ہے اسے کمال اور عظمت کا حامل کہنا ہو گا۔ ایسی صورت میں ان لفظوں کے معنی ہی فوت ہو جائیں گے۔ ’اقسام اسلوب‘ نہیں بلکہ ’اعلیٰ اسلوب‘ کسی تحریر کی خوبی کا ضامن ہو سکتا ہے۔

(10) ’دوڑا گھوڑا میدان میں اور گھوڑا میدان میں دوڑا‘، اس مثال سے کیا ثابت کیا گیا ہے؟

(11) ’سر کو مر جائیں نہ ٹکرا کے اسیران چمن/سر کو ٹکرا کے نہ مر جائیں اسیران چمن‘ کے بارے میں لکھتے ہیں، ’مصرعے دونوں موزوں مگر ایک فصیح، ایک معمولی۔‘ گویا ’فصیح‘ کی ضد ’معمولی‘ ہے۔ بحث تو یہاں قواعد پر ہو رہی تھی، اس میں فصیح اور غیر فصیح کی بحث اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر یہ معاملہ زیر بحث لانا ہی تھا تو تفصیل بیان کرتے۔

(12) خان صاحب لکھتے ہیں: ’مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔ جب کہ بات کرنا تھی لکھنا چاہیے، فعل ہمیشہ مذکر ہوتا ہے۔‘ یہ عبارت بے ربط اور غلط اور مہمل ہے۔ بے ربطی تو صاف ظاہر ہے۔ غلطی یہ ہے کہ ’بات کرنا‘ اور ’بات کرنی‘ دونوں درست ہیں۔ اول الذکر لکھنؤ میں زیادہ رائج ہے اور موخر الذکر دہلی میں زیادہ رائج ہے۔ بہادر شاہ ظفر کا مطلع مہدی حسن صاحب نے مشہور کر دیا ہے ؎

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

یہ قول مہمل ہے کہ ’فعل ہمیشہ مذکر ہوتا ہے۔‘ فعل کا صیغہ مذکر یا مونث ہوتا ہے، فعل میں تذکیر و تانیث کہاں؟

(13) خان موصوف لکھتے ہیں کہ ’رہائش گاہ‘ غلط ہے، صرف ’رہائش‘ کافی ہے۔ لیکن اگر قاعدے ہی پر زور دینا ہے تو ’رہائش‘ بھی غلط ہے۔ اردو میں حاصل مصدر بنانے کا کوئی قاعدہ نہیں۔ لوگوں نے فارسی طریقہ استعمال کر کے ’رہنا‘ سے ’رہائش‘ بنا لیا (حالانکہ اگر فارسی طریقہ درستی سے لگتا تو ’رہائش‘ نہیں بلکہ ’رہش‘ بنتا، جیسے ’رفتن‘ سے ’روش‘)۔ میں خود ’رہائش‘ اور ’رہائش گاہ‘ نہیں بولتا، لیکن اب یہ دونوں اس قدر عام ہو گئے ہیں کہ بہت جلد انھیں درست ہی قرار دے دینا پڑے گا۔

(14) ’سر‘ بکسر اول بمعنی ’فرق‘ یعنی Head پہلے زمانے میں رائج تھا۔ کئی علاقوں (خاص کر اودھ اور بہار) میں اب بھی رائج ہے، اگرچہ پہلے سے بہت کم۔ بہت سے محاوروں میں ’سر‘ بفتح اول کی جگہ بکسر اول ہی مرجح کہا گیا ہے، مثلاً ’سر اٹھانا؛سر میلا ہونا؛سر کٹانا؛سر کٹوانا؛‘ وغیرہ میں ’سر‘ بکسر اول ہی بہتر تھا۔ اب ’سر‘ بفتح اول زیادہ رائج ضرور ہے لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ ’سر‘ بکسر اول درست ہی نہیں ہے۔ اس طرح کی غلط پابندیوں سے طالب علم کی معلومات میں اضافے کے بجائے تخفیف ہو گی۔

(15) ممکن ہے اثر صاحب اپنی پوتی کی زبان سے محاورہ ’سر میں درد ہے‘ سن کے اشکبار ہو گئے ہوں (اس واقعے کو بے سند قبول کرنے میں مجھے سخت تامل ہے)۔ لیکن نئے محاورے بنتے ہی رہتے ہیں اور جب کوئی نیا محاورہ مقبول ہو جائے تو اس سے خوف کھانا بیجا ہے۔ آج کل ’سر میں درد، پاؤں میں درد، دل میں درد‘ وغیرہ جیسے بے شمار محاورے عام ہیں۔ یہ کہنا کہ ’سر دکھ رہا ہے /سر درد کر رہا ہے‘ بولنا چاہیے، کیونکہ درد، سر کے ’اندر‘ نہیں ہوتا، غیر ضروری تکلف ہے۔ ’درد‘ کی جائے وقوع کو ظاہر کرنے کے لیے ’میں‘ نہ صرف عام ہے بلکہ مستحسن بھی ہے۔ مثلاً ’دانت میں درد‘ کہنا ’درد دنداں‘ یا ’دانت دکھنا‘ کہنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ’آنکھ‘ کے ساتھ البتہ ’آنکھ میں درد‘ کچھ کم مستعمل ہے، لیکن غریب نہیں۔ ’آنکھ/آنکھیں دکھنا‘ زیادہ رائج تھا، اب کم ہوتا جاتا ہے۔

زبان کے معاملے میں قیاس نہیں چلتا۔ جوش صاحب کہتے تھے کہ ’آپ کے مزاج کیسے ہیں‘ کہنا غلط ہے کیونکہ ’مزاج‘ تو ایک ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن اسی اعتبار سے ’آپ کے باپ کون تھے‘ کی جگہ ’آپ کا باپ کون تھا‘ بولنا چاہیے کیوں کہ ’باپ‘ تو ایک ہی ہو سکتا ہے۔ ایک عربی داں صاحب نے فرمایا کہ ’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘، ’اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں‘ وغیرہ فقرے مائل شرک اور قابل ترک ہیں کیوں کہ ان سے گمان گذرتا ہے کہ نعوذباللہ، ایک سے زیادہ اللہ ہیں۔ ان سے کوئی پوچھتا کہ ’آپ کے والد کہاں کے تھے‘ جیسے جملے بھی غلط ہونا چاہیے کیونکہ ان سے گمان گذرتا ہے کہ لا حول ولا آپ کے بیک وقت دو باپ ہیں۔

(16) ’پان لگانا‘ اور ’پان بنانا’میں فرق کرنا بھی زبان کی اصل صورت حال سے بے خبری کی علامت ہے۔ ممکن ہے ظہیرالدین علوی صاحب کا خیال رہا ہو کہ صرف ’جوتا‘ لگتا ہے اور ’پان‘ تو صرف بنتا ہے۔ لیکن فرحت علی خان صاحب کی خدمت میں مثنوی ’زہر عشق‘ کا شعر حاضر کرتا ہوں ؎

یاد اپنی تمھیں دلاتے جائیں

پان کل کے لیے لگاتے جائیں

اگر فرحت صاحب کا نقل کردہ واقعہ صحیح ہے تو ظہیر الدین علوی کے خیال میں دوسرا مصرع یوں رہا ہو گا ع

جوتا کل کے لیے لگاتے جائیں

خان صاحب کے بقول، ظہیر الدین صاحب نے فرمایا کہ ’یہاں سوچ سمجھ کر بولو بھائی، یہ لکھنؤ ہے۔‘ لیکن ’پان بنانا‘ کی جو تین اسناد مجھے لغات میں ملیں ان میں سے دو دہلی کی ہیں اور ایک لکھنؤ کی۔ اور ’پان لگانا‘ کی ایک سند جو لغات میں ملی، وہ یہی لکھنؤ کی ’زہر عشق‘ والی سند تھی۔ ’آصفیہ‘ اور فیلن میں ’پان بنانا/پان لگانا‘ دونوں ہیں، سند کوئی نہیں دی لیکن ان لغات میں سند کا التزام نہیں۔ ’نور اللغات‘ میں دونوں محاورے مع سند درج ہیں۔ پلیٹس (Platts) میں بھی دونوں محاورے درج ہیں۔

خان صاحب کے مضمون میں اور بھی اغلاط ہیں، لیکن مثال کے طور پر شاید اتنے ہی کافی ہوں گے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے