چار درویش اور ایک کچھوا ۔۔۔ سید کاشف رضا

 

(ایک ابتدائی اقتباس)

ابتدائیہ: راوی کا بیان

 

 

پتہ نہیں کب انسانوں نے یہ طے کیا تھا کہ کہانی کو بیان کرنے کے لئے کسی نہ کسی راوی کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ مگر ایک کہانی کو ایک راوی کیسے بیان کر سکتا ہے؟ کہانی تو ہر سمت سے دکھائی دیتی ہے تو پھر اس کے بیان کے لئے ایک عدد راوی کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ پھر بھی میں ایک راوی ہوں، اپنے تمام تر محدودات کے ساتھ صرف ایک راوی۔ میرے پاس کہانی کو بیان کرنے کے لئے ایک زبان ہے، انسانوں کی زبان۔ لیکن میں انسانوں کی طرح گوشت پوست سے محروم ہوں۔ انسانوں کی زبان حاصل کر لینے کے سبب میں زیادہ تر انسانوں ہی کے احساسات و جذبات کے اظہار پر قادر ہوں اور اس کے لئے معانی کا خواستگار بھی۔ مجھے نہیں معلوم کسی ستارے یا درخت نے کوئی زبان ایجاد کی ہے یا نہیں۔ اور اگر کی بھی ہے تو اس کی مدد سے میں انسانوں سے، یا انسانوں کی بات کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا تھا۔

پتہ نہیں کب انسانوں نے یہ طے کیا تھا کہ کہانی کو کہیں نہ کہیں سے، وقت کے کسی نہ کسی نقطے سے شروع ہونا چاہیے۔ سو مجھے بھی ایک کہانی کی نہ کسی لمحے سے شروع کرنی ہے۔ لیکن کہانی کسی ایک ہی لمحے سے شروع کیسے ہو سکتی ہے؟ کوئی کیسے نہ بتائے کہ کہانی کے پہلے لمحے سے پہلے کے مراحل نے کہانی پر کوئی اثر ڈالا یا نہیں ڈالا؟ اور کوئی کیسے نہ بتائے کہ کہانی کے اختتام کے بعد کہانی کیوں کر چلتی رہی؟ لیکن میں راوی ہوں اور راوی کے پاس وقت محدود ہوتا ہے؟ محدود نہ بھی ہو تو سامع اور قاری کو صبر کی تاب تو ایک حد تک ہی ہوتی ہے نا۔ راوی کو اپنی کہانی کہیں نہ کہیں سے شروع کر کے کہیں نہ کہیں ختم کرنا ہی پڑتی ہے۔ میں خود ایک سامع بھی رہا ہوں جسے یہ جاننے کی جستجو بھی رہی ہے کہ شہرزاد کے ساتھ ایک ہزار دوسری رات کو کیا ہوا؟ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میں اپنے ہر سامع میں کہانیوں کے لئے ایسی لذت کی توقع نہیں رکھ سکتا۔

پتہ نہیں کب انسانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ایک کہانی میں ایک یا دو یا تین یا سو یا ہزار کردار ہی ہوں گے۔ جہاں سے میں اس کہانی کو دیکھ رہا ہوں وہاں سے میں یہ بھی دیکھ سکتا ہوں کہ اس کہانی کے کروڑوں کردار ہیں اور کروڑوں ہی راوی۔ یہ سب اس کہانی کے سامع اور قاری بھی ہیں، بلکہ سامع اور قاری تو وہ کروڑوں بھی ہیں جو ان کی کہانی کو بنتے بگڑتے دیکھ رہے ہیں۔ اور شاید وہ نباتات و جمادات، وہ جانور اور وہ حشرات الارض جو انسان کی زبان نہیں جانتے۔ ایک راوی کے طور پر میں اس کہانی کو صرف خود ہی بیان کرنے کا حق محفوظ رکھتا تھا۔ پھر بھی جہاں سے میں اس کہانی کو دیکھ رہا ہوں وہاں سے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس کہانی کو ان کروڑوں راویوں میں سے بھی کچھ کی زبانی بیان کرنے دیا جائے جن پر کہانی بیت رہی ہے۔

میرے سامنے میرے پانچوں مرکزی کردار اپنی اپنی کہانیوں کی پوٹلیاں اٹھائے موجود ہیں۔ میرے ذرا سے اشارے کے منتظر، کہ میں ان پوٹلیوں میں سے زندگی کے رنگ برنگے ٹکڑے نکال کر انہیں دیکھنا دکھانا شروع کر دوں۔ اس مرحلے پر اگر میں انھیں اپنے ارادے سے آگاہ کر سکوں تو اپنی اپنی کہانی سے آگاہ ہونے کے باوجود ان میں سے ہر ایک شاید یہ دیکھنے کے لے پر شوق ہو گا کہ میں نے ان کی کہانی میں سے کون سے ٹکڑے منتخب کیے ہیں اور انہیں کیسے بیان کرتا ہوں۔ محدود لفظوں اور محدود سے وقت کے درمیان ان کی زندگیوں کے رنگ برنگے ٹکڑوں کو کیسے توڑتا موڑتا اور جوڑتا ہوں کہ وہ ایک ایسی کہانی کی صورت نظر آنے میں جو کوئی نہ کوئی کلیت، اکائی، یا معنی رکھتی ہو، یا کم از کم اس کی کوشش تو ہو۔

لیکن یہ پانچوں کردار آپ کے سامنے بھی تو موجود ہیں۔ تو چلیے ان کی کہانی کو ایک ایسا دسترخوان سمجھئے جس پر میں آپ کو بھی دعوت اڑانے کی پیشکش کر رہا ہوں۔ میں ان کی پوٹلیوں میں سے زندگی کے جو رنگ برنگے ٹکڑے نکالوں، ان میں سے کچھ کو منظور کیجے اور کچھ کو مسترد، اور منظور شدہ ٹکڑوں کو توڑ موڑ اور جوڑ کر ہر کہانی کو خود ہی ترتیب دینے اور اپنے طور پر دیکھنے دکھانے کی کوشش کر دیکھئے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہو گی کہ آپ کی جوڑی ہوئی کہانی آپ کی کہانی ہو گی اور میری جوڑی ہوئی کہانی میری کہانی۔ یہ سوال پھر بھی باقی رہے گا کہ یہ پانچوں کردار اگر اپنی کہانی خود کہہ سکنے پر قادر ہوتے تو کیسی کہانی کہتے۔

جہاں سے میں اس کہانی کو دیکھ رہا ہوں وہاں کہانی کو بیان کرنے کے طریقے شہرزاد کی اپنے بادشاہ کے ساتھ بتائی ہوئی راتوں سے بھی زیادہ ہیں۔ مجھے تو کوئی حاتم طائی بھی نہیں مل سکا جسے میں اپنے سات چھوڑ کسی ایک سوال کے سلسلے میں بھی زحمت دے سکتا اور جو مجھے اس کہانی کے پیچ و خم سے گزرنے میں مدد دے سکتا۔ سو میں کہانی بیان کرنے کے طریقوں کے ساتھ ساتھ اپنے سوالوں کے سلسلے میں بھی پر یقین نہیں۔ ایک سامع کے طور پر اپنی جوع البقر جیسی حرص سے آپ کو آگاہ کر چکا۔ بس مجھ کو ایک حریص راوی بھی سمجھ لیجیے جس نے بیان کے ہر ہر طریقے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا ہو مگر جو ان میں سے چند ہی کے استعمال کو ممکن کر سکتا ہو۔

ایک حریص راوی کو کسی حریص سامع سے زیادہ کسی کی تلاش نہیں ہوتی۔ میری اس حرص میں آپ بھی شریک ہو جائیں تو مل جل کر دعوت اڑانے کا سا مزہ آ جائے۔ لیکن اگر آپ بوفے میں بھی سنگل پلیٹ لے کر پڑ رہنے کے قائل ہیں اور کہانی کے صرف ایک ہی کردار سے یگانگت محسوس کر سکتے ہیں تو کہانی میں صرف اپنے پسندیدہ کردار سے متعلق تفصیلات ڈھونڈتے جایئے۔ ہو سکتا ہے میں نے باقی تمام کردار کسی ایک ہی کردار کی کہانی بیان کرنے کے لئے لکھے ہوں۔ لیکن کیا معلوم وہ کردار ہو کون سا؟ کیا عجب ہے کہ وہ کردار وہی ہو جسے آپ کچھ کچھ پسند کرنے لگے ہیں۔

کہانی میں چار انسان ہیں اور ایک کچھوا۔ آپ نے دیکھا ہے کبھی کوئی کچھوا؟ نہیں دیکھا تو دیکھیے، اور دیکھنا نہیں چاہتے تو پہلی فرصت میں اس سے صرف نظر کر جائیے۔ جب یہ اور کسی کو نظر نہیں آتا تو آپ کو بھی کیوں نظر آئے؟ آپ نے اپنے ذہن میں کہانی کی جو ترتیب قائم کر رکھی ہے، اس پر اس کا چنداں اثر نہیں پڑے گا۔ کہانی میں آپ میرے مخاطب نہیں ہیں، آپ دعوت میں میرے ساتھ شریک ہیں۔ اس کہانی پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی راوی کا، یا کسی کردار کا۔ ایک کردار کی کہانی پڑھتے پڑھتے اگر آپ اس میں آنے والے کسی دوسرے بنیادی کردار کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو جھٹ اس کردار کے نام سے شروع ہونے والے باب میں چلے جایئے۔ اگر آپ کو متنجن پسند ہے تو وہ ادھر اور بھی رکھا ہوا ہے۔ جائیے، جا کر شوق فرمایئے۔ جیسے آپ گوگل یا کسی اور سرچ انجن پر کسی کے بارے میں پڑھتے ہوئے کوئی نام دیکھتے ہیں تو اس نام کو کلک کر کے اسی کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

آفتاب، جاوید، بالا، اقبال محمد خاں اور ایک کچھوا۔ میرے سامنے میرے پانچوں بنیادی کردار اپنی تمام تر زندگیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ لیکن مجھے آپ کو ان کی پوری پوری زندگیوں کی کہانیاں نہیں سنانی۔ میں ان کی زندگی کے وہی حصے منتخب کر سکا ہوں جو ان کی یا ان سے جڑے ہوئے کسی اور کردار کی شخصیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ میرے سامنے تو ایسا ہے جیسے ان پانچ کرداروں کے بارے میں پانچ کہانیاں لکھی ہوئی پڑی ہوں اور مجھے اب ان میں سے اپنے مطلب کی کہانی نکالنی ہو۔ میرے لئے تو ایسا ہے جیسے کسی ناول نگار نے ان کرداروں کی کہانیاں لکھ کر نتائج قاری پر چھوڑ دیے ہوں اور میں کسی متجسس (اور ظاہر ہے حریص) قاری کی طرح ان نتائج کی کھوج میں نکل کھڑا ہوا ہوں۔ اور ناول نگار کون ہے؟ شاید خدا۔ شادی فطرت کے ازلی اور ابدی قوانین کا کوئی پیچیدہ سلسلہ، کیا خبر؟

 

میں ان تجربہ کار راویوں پر رشک کرتا ہوں جو اپنی کہانی بڑی ترتیب سے بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ افسوس، میں ان جیسا ماہر نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ میں چیزوں سے بہت جلد بور ہونے لگتا ہوں۔ ایک سیدھی سادی کہانی آپ کو سناتے ہوئے آپ سے پہلے میں خود ہی بور ہو جاتا، اس لئے میں نے کہانی کو ایک سرے سے نہیں بلکہ کئی سروں سے پکڑنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ مجھے یہ بھی کہنے دیجے کہ اس کہانی کا کوئی ایک سرا ہے ہی نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ بہت سنجیدہ چیزیں بھی مجھے بور کرتی ہیں، اس لئے جہاں جہاں واقعات زیادہ سنجیدہ ہوتے چلے جاتے تھے وہاں آفٹر تھاٹ کے طور پر میں نے ان سے چھیڑ خانی بھی کی ہے اور ان کی حد سے بڑھتی ہوئی سنجیدگی کا مضحکہ بھی اڑایا ہے۔ آپ بھی تو کہانی پڑھتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں سوچے ہیں۔ ابھی بھی تو سوچ رہے ہیں نا؟ میں نے بھی ایسی باتیں سوچ لیں، اور بہت سی باتیں کر بھی لیں تو کیا ہوا؟

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور منصفی کرو۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے