اُلٹی قوس کا سفر۔۔۔ رشید امجد

 

جب سارے کالے طوطے ایک ایک کر کے اپنے گھونسلوں سے اُڑ گئے تو میں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ میرے ساتھ وہ دو بھی تھے جنہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ وہ سر جھکائے چپ چاپ میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ کالے طوطوں کی سیٹیاں ہمارے لیے راستوں کی لکیریں بچھا رہی تھیں اور آسمان پر سیاہی مائل پھیلی ہوئی دھند دھیرے دھیرے نیچے اتر رہی تھی۔ یکبارگی میں نے ان متعدد راستوں کو اور پھر مڑ کر ان دونوں کی جانب دیکھا اور چیخ کر کہا۔

’’ہاں مجھے اعتراف کر لینا چاہئے کہ میں راستوں کی پہچان کھو چکا ہوں۔‘‘

دونوں نے جھکائے ہوئے سر اوپر اٹھائے۔

میں نے کہا، ’’راستوں سے میرے رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘

میں نے کندھے پر اٹھائے ہوئے بوجھ کو ٹٹولا۔ اس کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ چکے تھے۔ میرے ٹٹولنے پر بھی اس میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔ ہم نے اسے کئی دنوں کی مسلسل کوششوں کے بعد قابو میں کیا تھا۔ ہم بہت دنوں سے اس کی تاک میں تھے لیکن وہ کسی طرح قابو میں ہی نہ آتا تھا، ہمیشہ اپنے آپ کو سبزے میں چھپا لیتا۔ تب ہم نے اس کے کچھ ساتھیوں کو ورغلا کر سبزے کو کٹوانا شروع کیا۔ جب ساری پناہ گاہیں ٹوٹ گئیں اور سارے لہلہاتے کھیت دھوئیں کی زد میں آ گئے تو وہ ہمارے سامنے آ گیا۔ اب چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی۔ وہ چپ چاپ کھڑا سہمی نظروں سے راستہ تلاش کر رہا تھا۔ تب دھوئیں کی لکیر کٹے ہوئے کھیتوں سے بلند ہوئی۔ دھوئیں کی لکیر دیکھ کر اسے جھر جھری سی آئی۔ دفعتاً لکیر نے اس پر حملہ کر دیا۔ وہ خوف زدہ ہو کر اسی جھنڈ کی طرف بھاگ پڑا جہاں ہم گھات لگائے بیٹھے تھے۔ دھوئیں کی لکیر اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ وہ درختوں سے چند قدم کے فاصلے پر رُک گیا۔ میں نے پھندے کو دونوں ہاتھوں سے دبا کر اس کی مضبوطی کا اندازہ کیا اور اپنی جگہ سے ایک قدم آگے کھسک آیا۔ دھوئیں کی لکیر قریب آ چکی تھی۔ وہ اس سے چھپنے کے لیے نیچے جھکا ہی تھا کہ اسی وقت میں نے پھندا پھینکا، پھندے کی گرفت میں آتے ہی وہ تڑپ کر اُچھلا لیکن میں نے اپنی جگہ سے جست لگا کر اسے دبوچ لیا۔ وہ دونوں تھیلا لے کر جھنڈ سے باہر آئے اور ہم نے اسے تھیلے میں بند کر لیا۔ آخری وقت تک وہ اچھلتا رہا لیکن جوں ہی تھیلے کا منہ بند ہوا، اس کی ساری مدافعت ختم ہو گئی۔ دھوئیں کی لکیر اپنی جگہ سے نکل کر واپس چلی گئی۔ میں نے تھیلے کو کندھے پر رکھا اور ہم اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔

کالے طوطوں کی قطاریں دور جا کر نقطوں میں بدل چکی تھیں اور ہم تینوں راستے کے بیچوں بیچ کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ سیاہی مائل دھند دھیرے دھیرے گہری ہوتی چلی جا رہی تھی اور راستے دھندلانے لگے تھے۔ دفعتاً ایک آواز چاروں طرف پھیل گئی۔ ایک مدھم سی نسوانی آواز، کوئی عورت کسی کو پکار رہی تھی۔ آواز سنتے ہی ہم سنبھل گئے۔ میں نے بوجھ کو مضبوطی سے تھاما اور چل پڑا۔ آواز مسلسل ہمارا پیچھا کر رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آواز دینے والا سرپٹ بھاگا چلا آ رہا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ آواز کے دائرے ہمارے گرد اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے۔ جوں جوں آواز قریب آنے لگی، ہمارے قدموں کی رفتار تیز ہو گئی اور پھر ہم تقریباً تقریباً دوڑنے لگے، جوں جوں آواز قریب آنے لگی، تھیلے میں بھی حرکت شروع ہو گئی اور وہ آہستہ آہستہ ہاتھ پیر مارنے لگا۔ میں نے تھیلے کے منہ پر گرفت مضبوط کر لی۔ آواز اب بہت قریب آ گئی تھی اور الفاظ دھند کے سحر سے نکل کر صاف سنائی دینے لگے تھے۔ کوئی عورت پکار رہی تھی۔ آواز کی قربت کے ساتھ ساتھ تھیلے میں بھی حرکت بڑھ گئی تھی۔ میں رک گیا اور مڑ کر چیختے ہوتے ہوئے بولا۔

’’اے عورت تو کون ہے؟ اور کیوں ہمارے پیچھے پیچھے چلی آتی ہے؟‘‘

ایک لمحہ کے لیے خاموشی چھا گئی، پھر تاریکی کا سینہ چیرتی ایک آواز اُبھری۔

’’اسے چھوڑ دو۔ اسے مجھے واپس کر دو۔‘‘

میں نے چیخ کر کہا، ’’یہ ناممکن ہے۔ تو واپس چلی جا۔‘‘

ہم نے پھر رفتار تیز کر دی۔

وہ مسلسل چیختی رہی، ’’اسے چھوڑ دو۔ اسے مجھے واپس دے دو۔‘‘

میں رک گیا اور چیختے ہوئے بولا۔

’’واپس چلی جا۔ ہم اسے واپس نہ کریں گے۔‘‘

جواباً ایک سسکی ابھری، چند لمحوں کے توقّف کے بعد بولی۔

’’آخر تم اسے کیوں لیے جا رہے ہو؟‘‘

’’ہم اسے کیوں لیے جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے خود سے سوال کیا۔

’’کیوں؟‘‘

پھر میں نے باری باری ان دونوں سے پوچھا۔

’’آخر ہم اسے کیوں لیے جا رہے ہیں۔‘‘ میں بڑبڑایا۔ میں نے باری باری ان دونوں کو دیکھا اور تھیلے کو ٹٹولتے ہوئے اس سے پوچھا۔

’’تمہیں معلوم ہے ہم تمہیں کیوں لیے جا رہے ہیں؟‘‘

لیکن وہ بھی چپ رہا۔

وہ پھر گڑگڑائی، ’’اسے مجھے دے دو۔ میں منت کرتی ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔‘‘

میں نے چیخ کر پوچھا، ’’تمہیں معلوم ہے ہم اسے کیوں لیے جار ہے ہیں۔‘‘

وہ جواباً چپ رہی۔

میں نے کہا، ’’اگر تمہیں معلوم ہے تو بتاؤ۔‘‘

وہ پھر بھی چپ رہی۔

میں نے دونوں نے کہا، ’’اسے بھی معلوم نہیں۔‘‘

اور ہم دوبارہ چل پڑے۔

دھند اب اتنی گہری ہو چلی تھی کہ ہم اب سب سایوں میں بدل گئے تھے۔ ہمارے اپنے قدموں کی چاپ اور پیچھے آنے والی سسکیاں خاموشی کا سینہ چیر رہی تھیں۔ وہ کبھی دوڑنے لگتی کبھی رک جاتی اور چیخ چیخ کر اسے پکارتی۔ ہم یوں ہی چلتے چلتے ندی کے کنارے پہنچ گئے۔ میں نے اوپر سے دیکھا۔ دور ہوتے ہوئے نقطے اب نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ ہم تینوں ایک دم ہراساں ہو گئے۔ آواز بہت قریب آ چکی تھی۔ پہلے وہ دونوں اترے پھر میں نے بوجھ کو سنبھال کر پہلا قدم اتارا۔ جونہی میرے قدموں نے پانی کو چھوا، اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور کہنے لگی،

’’میں کہتی ہوں، رک جاؤ، مت لے جاؤ اسے۔‘‘

اس کی چیخ سنتے ہی تھیلے میں ایک دم ہل چل مچ گئی اور وہ میرے کندھے سے اچھل کر کنارے پر جا گرا۔ میں تیزی سے اس کی طرف لپکا۔ لیکن میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہ تھیلے کا منہ کھول کر باہر آیا اور سہمی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس کے باہر نکلتے ہی دونوں چیخنے لگے۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ بھنور میں پھنس چکے تھے اور رفتہ رفتہ ڈوب رہے تھے۔ میں کچھ دیر انہیں دیکھتا رہا۔ پھر اس کی طرف دوڑا۔ وہ کنارے پر سہما ہوا حیران حیران مجھے دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی دوڑتی ہوئی قریب آ گئی اور ہانپتے ہوئے بولی،

’’چھوڑ دو اسے، اسے مجھے واپس کر دو۔‘‘

اسی وقت اس کی نظریں اس پر پڑیں۔ آواز سن کر وہ بھی مڑا۔ وہ قریب آ گئی اور اس کی پشت پر کھڑے ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر میری طرف دیکھے بغیر بولی،

’’تم کہاں چلے گئے تھے۔۔۔ مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے۔‘‘

میں دم بخود گھٹنے گھٹنے پانی میں کھڑا دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

’’میری بانہیں کب سے تمہارے لیے بے تاب ہیں۔‘‘ اس نے جھک کر اسے بازوؤں میں سمیٹ لیا اور وہ سہمے ہوئے رستہ بھولنے والے بچے کی طرح اس کی گود میں سمٹ گیا۔ میں خاموشی سے آگے آیا اور جھک کر تھیلا اور پھندا اٹھا لیا جو اُس کے پاؤں میں پڑا تھا۔ پھر میں نے تھیلے کو کاندھے پر رکھا اور پھندے کو ہلاتے ہوئے پانی میں اتر گیا۔

کچھ دیر بعد جب دھند چھٹنے لگی تو میں نے اسے دیکھا، وہ اسی طرح مجھے بازوؤں میں لیے کھڑی تھی۔

میں نے کہا، ’’مجھے معاف کر دو۔‘‘

اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔ میں نے کہا، ’’مجھے معاف کر دو۔ میں تم سے الگ ہو ہی نہیں سکتا۔ میرا تمہارا رشتہ اٹوٹ انگ ہے۔‘‘

اس کی آنکھوں میں مسکراہٹوں کے دئیے جل اٹھے اور میرے شانوں پر اس کے بازوؤں کا دباؤ بڑھ گیا۔

میں نے جھک کر اس کے پاؤں چھوئے۔ اس کا اَنگ اَنگ مہک اٹھا۔ وہ میرے چاروں طرف پھیل گئی اور اپنی سوندھی سوندھی خوشبوؤں اور لہلہاتے سبزوں کے ساتھ میرے گرد ناچنے لگی۔ میں نے لمبے لمبے سانس لے کر اس کی سوندھی سوندھی خوشبوؤں کو سینے اور سبزے کو آنکھوں میں سمیٹ لیا۔ دھند چھٹ چکی تھی اور راستہ نظر آنے لگا تھا۔ میں نے ایک بار پھر جھک کر اس کے پاؤں چھوئے اور آہستہ آہستہ واپس چل پڑا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے