مٹی کے بُت ۔۔۔ عباس خان

 

مدثر کو اس کے والدین نے ہر طرح سے سمجھایا، دوستوں نے منت سماجت کی اور پڑوسیوں نے کوشش کی لیکن اُس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، اُس نے سب کو دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ وہ اللہ وسائی سے شادی نہیں کرے گا۔ جب وجہ پوچھی جاتی تو وہ بتاتا کہ وہ اُس کوپسند نہیں۔ اُس کی پسند کا معیار معلوم کیا جاتا تو وہ کہتا کہ وہ خوبصورت نہیں

اطہر کواس کا عزیز ترین دوست ہونے کا دعویٰ تھا۔ ایک دن تنگ آ کر اس نے اُس کو اپنے ہاں بلایا۔ اُس کو اپنے بیڈروم میں بٹھا کر دروازے کو اندر سے تالہ لگا دیا اور کہا کہ اُس کی شادی کے متعلق فیصلہ ہو جانے کے بعد اس کو وہاں سے نکلنے دے گا۔ گفتگو شروع ہوئی۔ بات حسب سابق خوبصورتی پر پہنچی۔ مدثر نے کہا کہ وہ خوبصورت نہیں ہے لہٰذا وہ اس سے شادی نہیں کرے گا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اُس کے نزدیک خوبصورتی کا معیار کیا ہے تو اُس نے بتایا کہ وہ خوبصورتی کی تعریف کرنے سے قاصر ہے۔ اُس کا خوبصورتی کا معیار یہ ہے کہ دل و دماغ پر خود بخود چھا جائے اوراس کے سحر سے آزادی حاصل نہ کی جا سکے۔ اطہر نے کمرے میں رسالوں کا انبار لگا رکھا تھا۔ اُن رسالوں کے سرورقوں پر چھپی ہوئی تصویریں اس نے اس کو دکھانی شروع کر دیں۔ شاید کسی تصویر میں اس کا معیار مل جائے۔ اُس کی ناک ہر وقت بہتی رہتی ہو گی۔ یہ ہر وقت لپڑ لپڑ کھاتی رہتی ہو گی۔ یہ ہر مرد سے داد حاصل کرنا چاہے گی۔ یہ بہت مغرور ہو گی۔ یہ بہت لڑاکا ہو گی۔ جب رسالے ختم ہو گئے تو اطہر دنیا کی چند خوبصورت ترین ایکٹرسوں کی تصویریں اس کے سامنے لایا اُن سب کو اس نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ لفظ ایکٹریس اور لفظ خوبصورتی آپس میں متضاد ہیں۔ جو عورت خود نمائی کی اتنی شوقین ہو اور ہر ایک کے ساتھ فٹ ہو جاتی ہو وہ کبھی خوبصورت نہیں کہی جا سکتی۔ تھک ہار کر آخر اس نے کہا اللہ وسائی اس کی منگیتر ہے اور ظاہر اً اُس میں کوئی خامی نہیں مگر وہ اس کی پسند نہیں۔ کسی اور لڑکی کی طرف اشارہ کرنے سے بھی وہ قاصر ہے تاکہ اللہ وسائی کی جگہ اس کی بیوی بنانے کا سوچا جا سکے، اس کا خوبصورتی کا معیار بھی قابل فہم نہیں۔ معیار معلوم ہو تو کم از کم لاہور کالج آف آرٹس والوں کو کہہ کر اس کے اس معیار کے مطابق ایک بت بنوا کر اس کو دے دیا جائے جسے وہ بیوی کی جگہ گھر میں رکھ کر روحانی تسکین حاصل کرتا رہے۔ وہ اب جا سکتا ہے۔ وہ اس موضوع پر آئندہ اس سے بات نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر اُس نے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ مدثر نے اس کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنی مجبوری کے حوالے سے اس سے معذرت کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔

اس کے ایک اور عزیز ترین دوست ریاض نے اپنے طور پر کوشش کی۔ ریاض کا خیال تھا کہ تمام عورتیں یکساں طور پر بے وقوف ہوتیں ہیں لہٰذا انتخاب کیسا، جو بھی ملے اس سے شادی کر لینی چاہیے۔ مرد کا مقدر اس زمین پر موجود عورت ہی بنائی گئی ہے کسی دیگر خطے سے کوئی مخلوق آنے سے رہی۔ ریاض نے دنیاوی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا اللہ وسائی اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ وہ اس کی بچپن سے منگیتر ہے۔ وہ اس کے چچا کی بیٹی ہے۔ وہ گھریلو کام کاج میں سگھڑہے۔ وہ پڑھی لکھی اور صحت مند ہے۔ وہ با کردار اور نماز روزے کی پابند ہے۔ اس کی سادگی کو جدت میں بدل دیا جائے تو وہ مدثر کا دل موہ لے گی۔ سادگی سے مراد اس کی وضع قطع کی سادگی تھی۔ وہ طبیعت کی اتنی سادہ نہیں تھی۔ وہ زمانے کے نشیب فراز کو بخوبی سمجھتی تھی۔ وہ چنانچہ اللہ وسالی کی ماں کے پاس پہنچا اس کی ماں کو اس نے سمجھایا۔’’خالہ جی! اس دنیا میں خوبصورتی کا کوئی عالمی معیار نہیں ہر علاقے کا اپنا اپنا معیار ہے ہر خطے میں موجود انسانوں کی شکلیں تقریباً جدا جدا ہیں۔ ایک کے نزدیک جو خوبصورت ہے وہ دوسرے کے نزدیک نہیں ہے۔ معیار کیا ہے ذاتی پسند وناپسند ہے۔ مدثر ٹھیک کہتا ہے وہ خوبصورتی کی تعریف کرنے سے قاصر ہے۔ خوبصورت وہ ہے جو چپکے سے خود بخود دل پر اثر انداز ہو جائے۔ دیکھا جائے تو ہر لڑکی اپنی خوبصورتی کا معیار آپ ہے۔ اس معیار کو معلوم کرنا ضروری ہے۔ آجکل کے ہیر ڈریسرز، درزی، سلمنگ، ہاؤسز والے اور بوتیکوں والے خوبصورتی کے معیار معلوم کرانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ چنانچہ ان کی مدد سے اللہ وسائی کو تلاش کرے۔ وہ جب اس کی حالت کو بدلیں گے تو پتہ چلے گا کہ اللہ وسائی کس حد تک خوبصورت ہے۔ جب اس کی سادگی بدل جائے تووہ ترغیبات کاسہارا لے، وہ کس طرح مدثر کو اپنی طرف راغب کرے۔ یہ فن اس کو آج کل ایڈوٹائزنگ کمپنیاں سکھائیں گی۔

اللہ وسائی کی والدہ نے اس کے مشورے پر عمل کیا۔ اس نے سب سے پہلے اللہ وسائی کا نام بدلا۔ اس کا نام روشنی معبد رکھا۔ اس نام میں جدت، رومانیت، پاکیزگی، اور شعریت بدرجہ اتم سمجھے گئے۔ اس کے بعد اللہ وسائی کو شخصیت سنوارنے والوں کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ شخصیت سنوارنے والے درزی، حجام اور ماہرین تیاری دلہن تھے ان کے ہاتھوں اللہ وسائی کی خوب لش پش ہو گئی۔ ان سے وقتی طور پر فارغ ہو جانے کے بعد ہمہ قسم کی ایڈ ورٹائزنگ کرنے والی کمپنیوں کے عملی پروگرام اللہ وسائی کو دکھائے گئے۔ آخر اللہ وسائی کو ہر زبان کی تقریباً کچھ وہ فلمیں دکھائی گئیں جن سے عورت مرد کا دل موہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو اس کو مدثر پر چھوڑ دیا گیا۔

اللہ وسائی طبعاً جدید تراش خراش کی دلدادہ نہیں تھی، نیز اس بات کو بھی پسند نہیں کرتی تھی کہ ہونے والے خاوند کو اپنی طرف مائل کرنے کا ذمہ خود لے۔ اس کی زیادہ تر پرورش دیہاتی ماحول میں ہوئی اور اسی ماحول کے آداب میں وہ اطمینان محسوس کرتی تھی۔ اس نے یہ سب کچھ محض مدثر کی خاطر برداشت کیا۔ اس بے چاری نے چنانچہ جب مدثر پر ڈورے ڈالے تو مطلوبہ معیار پیدا نہ ہو سکا۔ بالکل ہماری فلموں والے محبت کے مناظر جیسی صورت حال پیدا ہو گئی۔ اس بات نے مدثر کو اور دل برداشتہ کیا۔

کسی لڑکے کو شادی کی طرف مائل کرنے کے اور بھی حربے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت بڑا جہیز، لڑکی کے نام جائداد، پیسہ یا لڑکی کے والدین کی سماجی وسیاسی پوزیشن۔ ان امور کی مدثر کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں تھی ورنہ کچھ لوگ اللہ وسائی کے والدین کو ان کی طرف توجہ دینے کا کہتے۔

ایک آخری دلیل رہ گئی تھی جو مدثر کے ماموں نے اس کے سامنے پیش کی۔’’بیٹے! اس دنیا میں رشتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ مذہب آب و ہوا اور گھر وغیرہ، گھرانہ تو بلکہ ہمارے معاشرے کی بنیاد ہے۔ جب رشتوں کی اہمیت مسلم ہے تو پھر یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ تم عمر بھر شادی نہ کرو۔ جب شادی کرنی ہے تو بروقت کرو۔ عمر گزری جا رہی ہے۔ اللہ وسائی نہ سہی کوئی اور تمہاری پسند کی لڑکی سہی کوئی فیصلہ ضرور کرو۔‘‘

اس دلیل نے اس کو متاثر کیا۔ اس کو خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ اس نے اگر شادی کرنی ہے تو جلد از جلد کرے کیونکہ عمر گزری جا رہی ہے۔ بڑھاپے کی شادی تماشہ ہوتی ہے تعلق نہیں۔

مدثر ایک متمول گھرانے کا فرد تھا۔ اس کا والد ایک ٹرانسپوٹر تھا، اس کا ایک چچا علاقے کاسیاسی سربراہ تھا جب کہ دوسرا چچا آنکھوں کی بیماریوں کا بہت بڑا ڈاکٹر، اس نے ایم۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کر لینے کے بعد اس نے تجارت کے پیشے کو اپنایا۔ اس نے قالینوں کے کاروبار کو شروع کیا۔ اس کا کام خوب چمکا۔ وہ والدین سے ہٹ کر بذات خود بہت خوش حال تھا۔ اللہ وسائی اس کے چچا کی بیٹی تھی جو کہ علاقے کا سیاسی سربراہ تھا۔ مدثر میں کوئی قابل ذکر خامی نہیں تھی۔ وہ با شعور تھا۔ وہ ہر ایک کے ساتھ اخلاق اور ہمدردی سے پیش آتا تھا۔ دنیاوی معاملات میں پوری سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ چال چلن کے لحاظ سے وہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ والدین کا فرمانبردار تھا۔ اس نے کبھی کوئی مسئلہ نہیں پیدا کیا تھا۔ بس شادی کے معاملے میں وہ اٹک گیا تھا۔

ایک دن اپنی سوچوں اور دوسروں کے تقاضوں سے تنگ آ کر اس نے مسئلے کو فوراً ’’نپٹانے‘‘ کا پروگرام بنایا۔ کس اور ملک کی لڑکی سے شادی کرنے کا پروگرام اس کو خارج از امکان نظر آیا ہے۔ وہ کافی عمر رسیدہ ہو گیا ہے دنیا گھومنے میں اتنا وقت لگ سکتا ہے کہ وہ بالکل بوڑھا ہو جائے۔ گا اس صورت حال میں شادی صرف اپنے ملک کی لڑکی سے ہونی چاہیے۔ لڑکی کو تلاش کرنے چنانچہ وہ ملک کے مختلف شہروں کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ سب سے پہلے اس نے اس اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جانا تھا جہاں لڑکیاں پڑھتی ہیں۔

ابتداء کراچی سے ہوئی۔ جس دن وہ کراچی پہنچا اس دن کراچی میں انگلینڈ اورپاکستان کی ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ کھیلا جا رہا تھا۔ تماشائیوں کے رش کی وجہ سے کسی ہوٹل میں اس کو ٹھہر نے کی جگہ نہ ملی۔ تنگ آ کر ریلوے کے ایک ویٹنگ روم میں اس نے پناہ لی، وہاں سے بھی اس کو ہٹا دیا گیا۔ ریلوے کا وہاں کا ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ایک اچھا انسان تھا۔ اس کو جب پتہ چلا کہ وہ کس مشکل میں ہے تو اس نے اسے اپنے بنگلے میں ٹھہرنے کی پیش کش کر دی۔ اس نے وہ پیش کش قبول کر لی۔

ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ایک دن کی رفاقت کے بعد جب اس کی کچھ بے تکلفی ہوئی اور باتوں کاسلسلہ چل نکلا تو اسے پتہ چلا کہ کہ وہ خاندانی طور پر بہت ہی امیر انسان ہے۔ اس کی شادی نہیں ہوئی۔ اکیلے پن کو دور کرنے کے لئے وہ ملازمت کرتا ہے۔ شادی کے نکتے میں مدثر نے دلچسپی لی۔ عام طور پر تین قسم کے انسان شادی نہیں کرتے۔ وہ لوگ جو اپنے نصب العین کے پیچھے اس شدت سے پڑے ہوئے ہوں کہ انہیں شادی کا خیال ہی نہ آئے، دوسرے آوارہ ترین یا وہ جنہیں کوئی لڑکی ملتی نہیں۔ اس کے ذہن میں شادی نہ کرنے والوں کی ایک چوتھی قسم بھی تھی اور وہ تھی بیمار لوگوں کی۔ اس نے دانستہ اس قسم کا ذکر نہ کیا کہ وہ اس بات کا برا نہ منائے۔

’’آپ نے شادی کیوں نہیں کی‘‘ اس نے بے ساختہ پوچھا۔

پسند کی لڑکی کی تلاش کی وجہ سے … سپر نٹنڈنٹ نے جواب دیا۔

’’آپ کو کیا لڑکی نہ ملی؟‘‘ اس نے زور سے کہا۔

’’ملی تھی‘‘ اس نے آہ بھر کر کہا۔

’’کیا وہ لڑکی آپ سے شادی کرنا چاہتی تھی؟ مدثر نے پھر اضطراب کے عالم میں بلا توقف پوچھا،

’’آپ کہتے ہیں کیا وہ لڑکی مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، میں کہتا ہوں کہ اس کو تو مجھ سے عشق تھا وہ دنیا کی ایک کامل ترین لڑکی تھی، میں زندگی میں کئی لڑکیوں سے ملا ہوں۔ لیکن وہ سب کو تاہ اندیش، کم حوصلہ، جذباتی اور خطاؤں کی پتلیاں تھیں۔ میں نے ان کو دیویاں بنا کر دل کے طاقچوں میں سجائے رکھا وہ مگر اوندھے منہ ان طاقچوں سے نیچے آ گریں۔ ان میں در اصل دیوی بننے کی اہلیت ہی نہیں تھی۔ جس لڑکی کی میں بات کرتا ہوں وہ تو اس تمام دھرتی کے لیے راحت کی پیغام بر تھی، اس میں حسد، بغض، کینہ اور غرور نام کو نہیں تھے۔ میری ہر خطا کو معاف کر دینے والی، میرے والدین، بہنوں، بھائیوں، دیگر رشتہ داروں اور دوستوں کو اتنا چاہنے والی جتنا میں خود چاہتا ہوں، ہر رنج و الم میں میرے ساتھ قدم ملا کر چلنے والی، لباس، رہن سہن اور خوراک کے معاملے میں میری ہم نوا ذہنی سطح پر ایسے جیسے کوئی وسیع المشرب عالم…‘‘

اس کی بات جاری تھی کہ مدثر خاموش نہ رہ سکا۔ اس نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے اس سے بے ساختہ پوچھا ’’آپ نے اس لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

’’وہ مجھے خواب میں ملی۔‘‘ جواب آیا۔

کچھ وقت کے لیے دونوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔ مدثر یہ جواب سن کر سکتے میں آ گیا جب کہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اس خواب میں کھو گیا۔ اس کے بعد مدثر کا دل کسی شئے میں نہ لگا۔ اپنے میزبان کو الوداع کہہ کروہ سیدھا واپس اپنے گھر آیا اور اللہ وسائی سے شادی کے لیے ہاں کر دی۔

٭٭

عکاس انٹرنیشنل، اسلام آباد، شمارہ ۲۲، مدیر: ارشد خالد

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے