غزلیں ۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی

 

(جمیلہ فاروقی کی رحلت پر)

 

اس کو وداع کر کے، میں بے قرار رویا

مانند ابر تیرہ، زار و قطار رویا

 

طاقت کسی میں غم کے سہنے کی اب نہیں ہے

اک دل فگار اٹھا، اک دل فگار رویا

 

اک گھر تمام گلشن، پھر خاک کا بچھونا

میں گور سے لپٹ کر دیوانہ وار رویا

 

تجھ سے بچھڑ کے میں بھی اک خاک ہو گیا ہوں

’تربت پہ تیری آ کے‘ میرا غبار رویا

٭٭٭

 

 

پتھر کی بھوری اوٹ میں لالہ کھلا تھا کل

آج اس کو نوچ لے گئیں دو بچیاں جناب

 

آنکھوں میں روشنی کی جگہ تھا خدا کا نام

پاؤں تڑا کے مر رہے جاتے کہاں جناب

 

ہم برگ زرد سبز خلاؤں میں چھپ گئے

ہم کو ہوائے سرد تھی سنگ گراں جناب

 

بوسے کے داغ سے ہے منور جبیں مگر

جلتی پڑی ہے شمع سی پیاسی زباں جناب

 

کالی زمیں پہ چھنتی دریچوں سے روشنی

باہر تو جھانکئے ہے انوکھا سماں جناب

 

نیلی چمکتی دھوپ تو بکتی نہیں کہیں

ہم کس کے ہاتھ بیچ دیں لفظ و بیاں جناب

٭٭٭

 

محفل کا نور مرجع اغیار کون ہے

ہم میں ہلاک طالع بیدار کون ہے

 

ہم اپنے سائے سے تو بھڑک کر الف ہوئے

دیکھا نہیں مگر پس دیوار کون ہے

 

ہر لمحہ کی کمر پہ ہے اک محمل سکوت

لوگو بتاؤ قاتل گفتار کون ہے

 

گھر گھر کھلے ہیں ناز سے سورج مکھی کے پھول

سورج کو پھر بھی مانع دیدار کون ہے

 

پتھر اٹھا کے درد کا ہیرا جو توڑ دے

وہ کج کلاہ بانکا طرح دار کون ہے

٭٭٭

 

 

دیکھیے بے بدنی کون کہے گا قاتل ہے

سایہ آسا جو پھرے اس کو پکڑنا مشکل ہے

 

رگ ہر لفظ سے رستے ہوئے خوں سے گھبرا کر

میں جو خاموش رہا سب نے کہا ”تو جاہل ہے”

 

تجربہ دل میں رہے تو کھلے آنسو بن بن کر

اور کاغذ پہ چھلک جائے تو شمع محفل ہے

 

جو بھری دنیا کی سنگین عجائب نگری میں

اپنا سر آپ نہ پھوڑے وہ جہنم واصل ہے

 

لب دریا کو ملانے کا طریقہ کیا ہو گا

دونوں جھکتے ہیں مگر بیچ میں دریا حائل ہے

٭٭٭

 

 

دن بھر کی دوڑ رات کے اوہام وسوسے

ٹھنڈی سلونی شام کی خوش بو میں ڈھل گئے

 

کردار قتل کرنے لگے لوگ یوں کہ ہم

اپنے ہی گھر میں بیٹھ کے آوارہ بن گئے

 

رقص نسیم موت تھا ہر چند مختصر

دریا کے منہ پہ پھر بھی اچھل آئے آبلے

 

نازک ہے مثل ماہ مگر سرمئی بدن

اے جاں تجھے یہ کس نے دیئے غسل آگ کے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے