قافلے سے بچھڑا غم ۔۔۔ رشید امجد

 

قدموں کے نشان شہر کی ناف تک تو آتے دکھائی دیتے ہیں، آگے پتہ نہیں چلتا۔ بس ایک خراٹے لیتا سناٹا ہے کہ چوکڑی مارے بیٹھا ہے اور وہ جو قافلہ سے بچھڑ گیا ہے، شہر کے بیچوں بیچ اکیلا کھڑا سوال پہ سوال کئے جا رہا ہے۔ سنسان سڑکیں اور ویران گلیاں اس کے سوال سن کر بِٹر بِٹر دیکھتی ہیں اور خالی جھولیاں اس کے سامنے الٹ دیتی ہیں۔

منظر یہ ہے۔۔۔

دکانوں میں چیزیں سجی ہیں، کاؤنٹر کھلے پڑے ہیں، لیکن آدمی نظر نہیں آتے۔

ہوٹلوں میں میزوں پر کھانے کی چیزیں ترتیب سے رکھی ہیں، لیکن نہ کوئی کھانے والا ہے، نہ کھلانے والا۔

بس سٹاپ خالی پڑا ہے، بس کھڑی ہے، انجن سٹارٹ ہے، لیکن نہ ڈرائیور ہے نہ کنڈیکٹر، نہ کوئی سواری۔

سڑک پر کاروں، بسوں اور سکوٹروں کی لمبی قطار ہے، انجن سٹارٹ ہیں، لیکن آدمی کوئی نہیں۔

اس شہر کے لوگ کہاں گئے ہیں؟ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے اور بڑے چوک کی طرف چل پڑتا ہے۔

اشارہ بند ہے، سرخ بتی زبان باہر نکالے ہانپ رہی ہے۔

تو یہ ٹریفک اسی طرح بند رہے گی، لیکن لوگ۔۔۔ لوگ کہاں گئے ہیں؟

شاید گھروں میں بند ہیں؟

دستک

خاموشی

دستک۔۔۔ کوئی ہے؟

خاموشی

وہ دروازہ کھول کر اندر چلا جاتا ہے، باورچی خانے میں چولہا جل رہا ہے، دیگچی میں سالن پک رہا ہے لیکن کوئی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ ڈرائنگ روم، بیڈ روم، سٹور، کہیں بھی کوئی نہیں۔

یا خدا یہ کیا طلسم ہے کہ گھر سجے سجائے، دکانیں بھری پُر ی، سڑکیں کاروں، بسوں اور سکوٹروں سے ٹھسا ٹھس، لیکن آدمی کوئی نہیں۔ خوف اس کے بدن پر رینگنے لگتا ہے۔

وہ بغیر کسی ارادے کے، بغیر کسی سمت کا تعیّن کئے دوڑ پڑتا ہے۔

دوڑتا رہتا ہے۔۔۔ ہانپنے لگتا ہے تو رُک جاتا ہے، یہ تو کوئی سکول ہے۔

شاید یہاں کوئی ہو۔۔۔ یہاں ضرور کوئی ہو گا۔

کوئی ہے؟

کوئی ہے۔۔۔ کوئی ہے؟ اس کی اپنی آواز چاروں طرف سے اس پر ٹوٹ پڑتی ہے، وہ نڈھال ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔۔۔ بہت دیر اسی طرح کھڑا رہتا ہے، پھر اپنے آپ کو اکٹھا کر کے آگے بڑھتا ہے۔۔۔ کلاس روم میں ڈیسکوں پر بستے کھلے پڑے ہیں، کاپیاں کھلی ہیں، بلیک بورڈ پر سوال لکھا ہوا ہے، لیکن نہ پڑھانے والا موجود ہے نہ پڑھنے والے، ایک گہری چپ ہے۔

یا خدا یہ کیا جادو ہے۔۔۔ لوگ اس شہر سے کہاں گئے ہیں؟

ہلکی سی آہٹ ہوتی ہے

کون۔۔۔ اس کے اندر تجسّس کی پو پھٹتی ہے،

آہٹ قریب محسوس ہوتی ہے، ہلکی سی چڑچڑاہٹ۔۔۔ ایک چوہا گردن باہر نکالتا ہے، چوہا آہستہ سے سامنے آتا ہے، چند لمحے اس کی طرف دیکھتا ہے، پھر دوڑتا ہوا سامنے کے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے۔

تو کیا شہر کے سارے لوگ چوہے بن کر زمین کے نیچے چلے گئے ہیں؟

منظر وہی ہے۔

سڑکوں پر کاریں، بسیں، سکوٹر اور سائیکل اپنی روانگی کی حالت میں ہیں، لیکن نہ کوئی چلانے والا ہے، نہ سفر کرنے والا، بس انجن چل چل کر آپ ہی آپ بوڑھے ہوئے جا رہے ہیں۔

گھروں میں چولہے جل رہے ہیں، سالن اور روٹیاں پک رہی ہیں، لیکن نہ کوئی کھانے والا نہ کھلانے والا۔

ہوٹلوں کی میزوں پر کھانے سجے ہوئے ہیں لیکن۔۔۔

دفتروں میں فائلیں میزوں پر کھلی پڑیں ہیں، لیکن کرسیاں خالی ہیں۔

تو کیا شہر کے سارے لوگ چوہے بن کر زمین کے نیچے چلے گئے ہیں، تو کیا اسے بھی۔۔۔ اسے بھی۔۔۔

کوئی چیز اس کے اندر اُچھلتی ہے۔

بانسری کی مدھم آواز آہستہ آہستہ ابھرتی ہے اور لمحہ بہ لمحہ تیز ہونے لگتی ہے۔ کونوں کھدروں سے چوہے سیلاب کی طرح اچھل اچھل کر باہر نکلتے ہیں اور بسوں، کاروں، سکوٹروں، گھروں، دفتروں، ہوٹلوں اور درس گاہوں میں پھیل جاتے ہیں۔ بانسری کی آواز اب چاروں طرف پھیل گئی ہے۔۔۔

رکی چیزیں دفعتاً چل پڑی ہیں۔

اس کے پیٹ کی گہرائیوں میں کوئی چیز اچھلتی ہے اور پھسلتی ہوئی اس کے حلق میں آن اٹکتی ہے۔ وہ منہ کھول کر اسے اگل دینا چاہتا ہے، لیکن اچھلتی شے باہر نہیں نکلتی، اندر ہی اندر اُچھلتی رہتی ہے۔ وہ چیختا ہے، چیخ آدھی باہر نکلتی ہے اور منجمد ہو جاتی ہے۔

آدھی اندر، آدھی باہر۔

حلق میں اٹکی شے اندر ہی اندر گھومتی ہے۔

وہ اچھل اچھل کر منہ سے بے ہنگم آوازیں نکالتا ہے۔

اردگرد کھڑے لوگ ہنستے، تالیاں بجاتے ہیں اور جیبوں سے سکے اور نوٹ نکال نکال کر اس کے سامنے پھینکتے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے