علی اکبر ناطق کا ناول ’کماری والا’ ۔۔۔ شاہد صدیقی

 

علی اکبر ناطق اردو ادب کی اقلیم میں داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی شہہ نشین تک جا پہنچا۔

اس کا ابتدائی تعارف اس کی شاعری اور افسانے تھے۔ دونوں اصناف میں اس نے اردو کے قارئین کو چونکا دیا تھا۔ اس کے اسلوب میں ایک تازگی اور نیا پن تھا۔ اردو ادب کے نقاد حیران تھے کہ یہ نووارد کون ہے جس نے ان کی ’’سرپرستی‘‘ کے بغیر شہرِ ادب کے مکینوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔

یہ 2014ء کی بات ہے ان دنوں میں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی لاہور سکول آف اکنامکس میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز اور ہیومینٹیز کے ڈین کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ ان دنوں ڈاکٹر سعیدالرحمٰن بھی میرا رفیقِ کار تھا جو انگلش ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتا تھا۔ سعید ایک دلآویز شخصیت کا مالک ہے۔ کتابوں کا رسیا اور دانش بھری گفتگو کا شناور۔

ایک روز میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ سعید کا فون آیا کیا آپ آ سکتے ہیں ایک مہمان آ رہے ہیں آپ کو مِل کر خوشی ہو گی۔ سعید کا آفس میرے دفتر سے کچھ فاصلے پر Environmental Studies کے شعبے میں تھا۔ وہیں ناطق سے پہلی ملاقات ہوئی۔ انہیں دنوں اس کا ناول ’نولکھی کوٹھی‘ شائع ہوا تھا۔ لیکن ابھی تک اس کی رونمائی نہیں ہوئی تھی۔ اس روز ہم نے ’نولکھی کوٹھی‘ کی غیر رسمی رونمائی کی۔ میں نے اپنے آفس سے پھولوں کا گلدستہ منگایا اور ناطق کو اس کے پہلے ناول کی مبارک باد کے ساتھ پیش کیا۔ شاید اس محفل میں ہمارے دوست ناصر مبارک بھی شریک تھے۔ اس روز ناطق نے اپنی نظم ’سفیرِ لیلیٰ‘ سنائی جو اپنے خیال، ٹریٹ منٹ اور امیجز کے حوالے سے اردو نظم کے ذخیرے میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ 2014ء میں ہی میں میری تقرری بطور وائس چانسلر علامہ اقبال یونیورسٹی میں ہو گئی۔ یوں تو میرے چار سالہ قیام کے دوران علامہ اقبال یونیورسٹی میں بے شمار سیمینارز، کانفرنسز، اور لٹریچر کارنیوال ہوئے۔ لیکن ان سرگرمیوں کی ابتدا علی اکبر ناطق کے ناول ’نولکھی کوٹھی‘ کی تقریب رونمائی سے ہوئی یہ اس ناول کے حوالے سے پہلی اہم تقریب تھی جس میں حاضرین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ’نولکھی کوٹھی‘ کی اشاعت سے پہلے ناطق کا تعارف ایک کہانی کار اور شاعر کا تھا۔ لیکن ’نولکھی کوٹھی‘ کی اشاعت کے بعد اس کا نام معتبر ناول نگاروں میں شامل ہو گیا۔ لیکن ناطق کا تخلیقی وفور اب ایک اور سمت کی تلاش میں تھا۔ اسلام آباد ہی کی بات ہے۔ ایک روز مجھے دعوت نامہ ملا کہ ناطق کی اقبال کی شاعری کے حوالے سے تنقید کی کتاب کی تقریبِ رو نمائی ہو رہی ہے۔ جس پر میں نے اظہارِ خیال کرنا ہے۔ اس روزہ پتہ چلا کہ ناطق نے تنقید کے میدان میں بھی قدم رکھ دیا ہے وہ ایک یادگار تقریب تھی۔ جس میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے شریک تھی۔

جوں جوں ناطق اپنی کامیابیوں کے در کھولتا جا رہا تھا۔ اسی رفتار سے پیشہ ور نقادوں کے چوباروں کی کھڑکیاں اس پر بند ہوتی جا رہی تھیں۔ لیکن اس نے اپنا رشتہ براہِ راست اپنے قارئین سے جوڑ لیا تھا۔ ہاں چند بڑے لکھنے والے ایسے تھے جنھوں نے اس کی تعریف میں کبھی بخل سے کام نہ لیا اور دل کھول کر اسے دادِ سخن دی۔ ان میں سرِ فہرست شمس الرّحمٰن فاروقی، آصف فرخی اور فہمیدہ ریاض کے نام شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنی مختصر مدت میں ادب کی مختلف اصناف میں لکھنا اور اس میں درجۂ کمال تک پہنچنا صرف علی اکبر ناطق کے حصے میں آیا ہے۔ اس کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے نامساعد حالات کو پچھاڑ کر ادبی بیساکھیوں کا سہارا لے بغیر اپنے زورِ قلم سے ادیبوں کی صفِ اوّل میں شامل ہو گیا۔

ناطق کی تازہ ترین تصنیف ’کَماری والا‘ ہے جسے بُک کارنر کے گگن شاہد اور امر شاہد نے حسبِ روایت بہت محبت اور دُلار سے شائع کیا ہے۔ ’کماری والا‘ ایک ضخیم ناول ہے جس کے موضوعات ہماری ارد گرد کی زندگی سے لےح گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ موضوعات تو ایسے ہیں جن کا تذکرہ ہمارے معاشرے میں شجرِ ممنوعہ ہے۔ موضوعات کی ایک طویل فہرست ہے جس میں شدت پسندی، بیوروکریسی، مسنگ پرنسز، منشیات، استحصال، ٹارگٹ کلنگ، معاشی مسائل، فیکٹریوں میں مزدوروں کا استحصال، ذخیرہ اندوزی، محبت، ہوس، گروہی اختلافات، زمین کے جھگڑے، غربت، انتقام، کرپشن، مقدمے، قتل، اور فلمی دنیا اور این جی اوز کی شامل ہیں۔

’کماری والا‘ کی کہانی کا Narrator ضامن علی ہے۔ جس کی عمر کہانی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔ یوں یہ کہانی کئی برسوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ کہانی کی Narrative Technique فلیش بیک کی ہے۔ ناول کا پہلا باب در اصل کہانی کا کا آخر آخر ہے۔ جہاں ناول کا مرکزی کردار ضامن شاد بیگم سے ملنے جا رہا ہے۔ ناول کا Locale پنجاب کے مختلف علاقے ہیں۔ ہاں کچھ دنوں کے لے ناول کا مرکزی کردار کراچی بھی جاتا ہے۔ ناول کے کرداروں میں عدیلہ کا کردار اہم ہے جس کی ساری زندگی غموں، دکھوں اور آزمائشوں کی کہانی ہے جب وہ پیدا ہوئی تو اس کی ماں درد سے تڑپتی ہوئی مر گئی تھی۔ انیسہ کا کردار بھی عدیلہ کی طرح ایک مظلوم، بے بس، اور اُداس ماں کا ہے جس کے مقدر میں عمر بھر کا رونا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار‘زینی‘ ہے جو عمر میں ضامن سے بڑی ہے اور جس کے سحر میں ضامن ایک عمر گرفتار رہتا ہے پھر یہ سحر زینی کی بیٹی شنرا کے روپ میں ڈھل کر ضامن کے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ متوازی چلنے والی کہانی تین بھائیوں احمد بخش، اللہ بخش اور صادق بخش اور ان کے بچوں کی ہے۔ یہ ہوسِ زر کی عبرت انگیز داستان ہے جس میں اپنے ہی اپنوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہیں۔

’کماری والا‘ کی زبان سلیس اور پُر اثر ہے جس میں کہیں کہیں مقامی کرداروں کی پنجابی کا آہنگ بھی ہے۔ تشبیہوں اور استعاروں میں تازگی اور امیجز کی تراش خراش ناطق کی تخلیقی صلاحیتوں کی دلیل ہے۔ کہیں کہیں تو نثر اور شعر کی حدیں ایک دوسرے سے گلے ملتی نظر آتی ہیں۔‘‘کَماری والا“ اپنے موضوع، زبان اور ٹریٹ منٹ کے حوالے سے ایک اہم ناول ہے جس میں وقت کی رو اندر اور باہر کی دنیاؤں کی کایا کلپ کرتی نظر آتی ہے۔ گاؤں کا معصوم لڑکا ضامن وقت کی لہروں میں بہتا ہوا اب زمانے کے مختلف روپ دیکھ چکا ہے۔ وقت کی یورش میں کیسے کیسے ہنستے کھیلتے کردار ازل کی وادی میں اتر گئے ہیں۔ گاؤں کے ہرے بھرے درخت جو پرندوں کی آماجگاہ تھے ڈیولپمنٹ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ یہ عروج سے زوال کا عبرت انگیز سفر ہے۔ ناول کی کہانی کا آغاز سربلند درختوں اور ہرے بھرے کھیتوں سے ہوتا ہے اور اختتام پیپل کے ان زرد پتوں پر ہوتا ہے جن سے جواں مرگ شنرا کی قبر ڈھک گئی ہے۔ لیکن اسی پیپل کی ایک شاخ پر کہیں سے اڑتی ہوئی سرمئی چڑیا آ کر بیٹھ جاتی ہے جو اپنی آواز اور جاذبیت میں شنرا سے کم نہیں۔ یہ چڑیا در اصل امید کا استعارہ ہے جس سے زندگی قائم اور جینے کی آرزو باقی ہے۔ امید اور رجائیت کا یہی استعارہ اس ناول کا پیغام ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے