غزلیں ۔۔۔ شہر یار

 

میں نے جس کو کبھی بھلایا نہیں

یاد کرنے پہ یاد آیا نہیں

 

عکس مہتاب سے مشابہ ہے

تیرا چہرہ تجھے بتایا نہیں

 

تیرا اجلا بدن نہ میلا ہو

ہاتھ تجھ کو کبھی لگایا نہیں

 

زد میں سرگوشیوں کی پھر تو ہے

یہ نہ کہنا تجھے جگایا نہیں

 

باخبر میں ہوں تو بھی جانتا ہے

دور تک اب سفر میں سایہ نہیں

٭٭٭

 

 

یہ کیا ہوا کہ خموشی بھی گنگنانے لگی

گئی رُتوں کی ہر اک بات یاد آنے لگی

 

زمینِ دل پہ کئی نُور کے منارے تھے

خیال آیا کسی کا تو دھُند چھانے لگی

 

خبر یہ جب سے پڑھی ہے خوشی کا حال نہ پوچھ

سیاہ رات تجھے روشنی ستانے لگی

 

دلوں میں لوگوں کے ہمدردیاں ہیں میرے لئے

میں آج خوش ہوں کہ محنت مری ٹھکانے لگی

 

برا کہو کہ بھلا سمجھو، یہ حقیقت ہے

جو بات پہلے رلاتی تھی اب ہنسانے لگی

٭٭

تفہیم، اپریل تا جون ۲۰۱۲ء، مدیر: خالد کرار

٭٭٭

 

غزل۔۔۔ ظفر اقبال

 

مسائل بڑھ گئے ہیں، گفتگو ہونا ضروری ہے

ہمارا آپ کا اب روبرو ہونا ضروری ہے

 

محبت کی ذرا سی تھرتھری کافی ہے دونوں کو

نہ میں ہونا ضروری ہے نہ تو ہونا ضروری ہے

 

خصائل تجھ میں ہوں گے خوب روؤں کے بہت لیکن

کوئی اپنا تمہارا رنگ و بو ہونا ضروری ہے

 

کسی صورت کوئی کلسِ سوارِ خواب ظاہر ہو

کہیں سر میں غبار آرزو ہونا ضروری ہے

 

ہیں اس جیسی بہت شکلیں کچھ اس سے خوب تربھی ہیں

مگر میرے لئے وہ ہو بہو ہونا ضروری ہے

 

نکل بھاگے نہ وہ، یوں اس کو گھیرے میں لئے رکھیں

کہ ساری رات اس کے چار سُو ہونا ضروری ہے

 

اب اس کی دھمکیوں کا تو اثر مجھ پر نہیں ہوتا

سو میرے ساتھ اس کا دوبدو ہونا ضروری ہے

 

تلاش اس بے نشاں کی اس قدر آساں بھی مت سمجھیں

کہ اپنا کم سے کم بھی کوبکو ہونا ضروری ہے

 

ظفر، ان آنسوؤں کا رنگ بدلے گا کبھی، لیکن

کچھ اس سے پیش تر دل کا لہو ہونا ضروری ہے

٭٭

ادب ساز، شمارہ ۲، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء، مدیر نصرت ظہیر

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے