غزلیں ۔۔۔ غالب عرفان

شعور، پیاسا سمندر ہے، کیا کیا جائے

یہ کائنات کا منظر ہے، کیا کیا جائے

 

نفس نفس میں مقّید ہوا کا رخ بن کر

حیات، میرا مقدر ہے، کیا کیا جائے

 

نگاہ دیکھ نہ پائی ہے، آج تک جس کو

وہ میری روح کے اندر ہے، کیا کیا جائے

 

بلا رہا ہے، جو آئینے میں نیا چہرہ

مری پہنچ سے بھی باہر ہے، کیا کیا جائے

 

دراڑ پڑ گئی مٹی میں ہونٹ خشک ہوئے

زمین ویسی ہی بنجر ہے، کیا کِیا جائے

 

دا نہ ہو سکا، عرفانِ فکر کا جو قرض

مرے شعور کا محور ہے، کیا کِیا جائے

 

 

 

عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے

آئینے کے باہر بھی آس پاس ہم ہی تھے

 

جب شعور انسانی رابطے کا پیاسا تھا

حرف و صوت علم و فن کی اساس ہم ہی تھے

 

فاصلوں نے لمحوں کو منتشر کیا تو پھر

اعتبار ہستی کی ایک آس ہم ہی تھے

 

مقتدر محبت کی شکوہ سنج محفل میں

خامشی کو اپنائے پر سپاس ہم ہی تھے

 

خواب کو حقیقت کا روپ کوئی کیا دیتا

منعکس تصور کا انعکاس ہم ہی تھے

٭٭٭

 

 

گھر کی دیوار پہ پھیلا ہوا جالا دیکھوں!

لوٹ کر آؤں تو دروازے پہ تالا دیکھوں

 

کیا تجسّس ہے کہ صفحات میں ڈھونڈوں خود کو

پھر بھی ہر سطر میں تیرا ہی حوالہ دیکھوں

 

ایک تاریخ کے اوراق الٹتا جاؤں!

ایک تہذیب کا عُنصر تہہ و بالا دیکھوں

 

اپنی پہچان کی خاطر میں وہاں جاؤں اور

آئینہ خانے میں اک عکس نرالا دیکھوں

 

تیرے جلوے کے لئے عمر گزاروں لیکن

دور سے چہرہ نما نور کا ہالا دیکھوں

 

گھٹ گئی ہے جو یہاں ذات کے پیراہن میں

شہرِ عرفاں ؔ میں وہی قدر دو بالا دیکھوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے