غزل ۔۔۔ ندا فاضلی

 

پھر گویا ہوئی شام پرندوں کی زبانی

آؤ سنیں مٹی سے ہی مٹی کی کہانی

 

واقف نہیں اب کوئی سمندر کی زباں سے

صدیوں کی مسافت کو سناتا تو ہے پانی

 

اترے کوئی مہتاب کہ کشتی ہو تہہ آب

دریا میں بدلتی نہیں دریا کی روانی

 

کہتا ہے کوئی کچھ تو سمجھتا ہے کوئی کچھ

لفظوں سے جدا ہو گئے لفظوں کے معانی

 

اس بار تو دونوں تھے نئی راہوں کے راہی

کچھ دور ہی ہم راہ چلیں یادیں پرانی

٭٭

شبخون، آخری شمارہ، شمارہ ۲۹۳ تا ۲۹۹، جون تا دسمبر ۲۰۰۵ء، مدیرہ: عقیلہ شاہین

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے