غزلیں ۔۔۔ نشتر خانقاہی

 

ہیبت جلال کس کو، کس کو جمال حیرت

سر سے نکال وحشت، دل سے نکال حیرت

 

معمول کے مطابق لمحے رواں دواں ہیں

لیکن ٹھہر گئی ہے شامِ زوال حیرت

 

سیکھی نہیں جہاں سے شاید جہاں شناسی

حیران ہے ابھی تک چشم غزال حیرت

 

دنیا سے ہے زیادہ حیرت کدہ وہاں کا

آدم بحق عقبیٰ، عقبیٰ کمال حیرت

 

مستی و سرخوشی ہے، اک لمحے کا کرشمہ

ہجراں کا درد عادت، تیرا وصال حیرت

 

تسخیر ہو چکا ہے ماہِ شبِ تحیّر

لیکن مری محبت تیرا جمال حیرت

 

دل منعقد کرے ہے، جشن نشاط پہروں

غنچہ دہن تصور، دستِ خیال حیرت

٭٭٭

 

 

 

 

کیوں ہے پانی کی طلب جان سے جانے والو

آب بھی تیغ میں ہے پیاس بجھانے والو

 

سانس لیتے ہیں کئی اور زمانے مجھ میں

مجھ میں جھانکو تو اِسی ایک زمانے والو

 

کیا ہوا؟ کس لئے کافور ہوئی ہیں آنکھیں

کیا نہ لوٹو گے کبھی؟ چھوڑ کے جانے والو

 

ڈھونڈلو اور کسی شخص کی ویراں نیندیں

مجھ کو اب چھوڑ بھی دو خواب میں آنے والو

 

جستجو، قریۂ موزوں کی، تعجّب، حیرت!

کوفہ کوفہ ہے زمیں، جشن منانے والو

 

خود مجھے جھوٹ سی لگتی ہے کہانی اپنی

بس کرو، اس کو مری یاد دلانے والو

٭٭

ادب ساز، شمارہ ۱، اپریل تا جون ۲۰۰۶ء، مدیر نصرت ظہیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے