مرگ انبوہ ۔۔۔ مشرف عالم ذوقی

 

اقتباس

باب اول : موت سے مکالمہ

 

بلیو وہیل اور پاشا مرزا

 

 

’’اس کھیل میں موت ہے

موت سے زیادہ خوبصورت کوئی فنتاسی نہیں

کیا ہم میں سے کسی کو پتہ ہے کہ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہے؟

سب کچھ ختم یا ایک رقص خلا میں؟

یا ایک نئی دنیا کو ڈسکور کرنا؟

یا کسی بلیک ہول میں پھینک دیا جانا؟

انجوائے،

مجھے موت کے بعد انجوائے کرنا ہے

اور اس لےے زندگی کا سناٹا مجھے اچھا لگتا ہے‘‘

(ریمنڈ نے یہ چند لائنیں اپنے دوست پاشا مرزا کو اس وقت واٹس اپ کیں، جب

اس نے اپنے ڈیڈ کی ڈائری نہیں پڑھی تھی)

 

میں ایک ۲۰ سال کا آج کا نوجوان ہوں

اور مجھے مرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے

— پاشا مرزا

 

(۱)

 

۲۰۲۰ء

ہیلو فرینڈس

میں پاشا مرزا — عمر ۲۰ سال — میں پہلے ہی اقرار کر لوں کہ مجھے کہانیاں لکھنے کا ہنر نہیں آتا۔ میں لکھنا بھی نہیں چاہتا، بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ میں کہانیاں لکھنے والوں کو ایک دم فالتو سمجھتا ہوں — ایسے لوگوں کے لےک میرے دل میں نفرت ہی نفرت ہے۔ ایسے لوگ اپنا اور ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں — اوہ، آپ مسکرا رہے ہیں اور یقیناً یہ مسکراہٹ میرے لےو ہے کہ میں جب لکھنے والوں سے اتنی نفرت کرتا ہوں تو مجھے یہ سب لکھنے کی کیا ضرورت ہے

فرینڈس۔۔۔۔ اس کے لےو آپ کو ذرا سا صبر کرنا پڑے گا اور یقیناً میرے جیسے ہزاروں بچے آپ کے آس پاس بھی ہوں گے آپ ان بچوں کو دیکھ کر بڑے آرام سے میری ذہنیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گھر کے کھانوں پر ناک بھوں چڑھانے والے اور پزا، برگر کو سلام کرنے والے بچے میں ایسے ہی بچوں میں سے ایک ہوں۔ فاسٹ فوڈ کلچر میں آنکھیں کھولنے والا پاشا مرزا، جس کی عمر ۲۰ سال کی ہو گئی ہے۔ لیکن ان ۲۰ برسوں میں میرے پاس ۸۰ سال کے آدمی سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ ممکن ہے میری ممی سارہ جہانگیر کی طرح آپ بھی میری بات پر ہنسیں، تو آپ کو ہنسنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن یقیناً اس بات پر ڈیڈ نہیں ہنستے۔ بلکہ میں کہتا وی آر لائک دس آنلی تو وہ ایک پر اسرار مسکراہٹ دیتے اور کہتے — اُف یور جنریشن فاسٹ فوڈ تمہاری ہر بات نرالی ہے۔ اور تم ہر بات میں ہم سے ہزاروں میل آگے ہو۔

فرینڈس اس سے یہ اندازہ بالکل مت لگائیے گا کہ میں اپنے ڈیڈ کا فین ہوں۔ بلکہ میں وہ ہوں، جس نے ڈیڈ سے سب سے زیادہ نفرت کی ہے لیکن یہ چند سطور لکھتے ہوئے ڈیڈ ایک بار پھر میری آنکھوں کے سامنے آ گئے ہیں — اور ان کی یہ تحریر کہ دیکھو تو مرنے کے بعد بھی میں نے تمہارا پیچھا نہیں چھوڑا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ کہنے سے بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا — اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت یہ سطور لکھتے ہوئے وہ میرے اندر یا تو ہیں ہی نہیں۔ یا ہیں تو برائے نام۔ لیکن ابھی بھی ان کی دو بڑی بڑی آنکھیں میری طرف دیکھ رہی ہیں، اور فرینڈس آپ کو بتاؤں یہ آنکھیں اس وقت بھی اسی طرح بغور میری آنکھوں کو دیکھ رہی تھیں جب میں اچانک ان کے کمرے میں داخل ہوا تھا — ٹھہریے۔ یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ گھر کے اندر، باہری حصے کی طرف ایک بڑا سا کمرہ ہے جو ڈیڈ کا ہے۔ یہ کمرہ کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ اور اسی لے یہ کمرہ مجھے کسی کباڑ خانے جیسا نظر آتا ہے۔ زندگی میں اب تک اگر میری آنکھوں نے سب سے زیادہ کسی چیز کو دیکھا ہے تو وہ کتابیں ہیں۔ بیڈروم سے ڈرائنگ روم اور پاپا کے کمرے تک — کبھی کبھی ڈیڈ ڈائننگ ٹیبل پر ایسی کوئی کتاب چھوڑ دیتے تو اف میرے بدن میں آگ لگ جاتی۔ اور جی چاہتا کہ ایک دن ڈیڈ کی غیر موجودگی میں ان ساری کتابوں کو جلا ڈالوں — خیر جانے دیجئے۔ اس دن اچانک ڈیڈ کمرے میں میری موجودگی کو دیکھ کر چونک گئے تھے۔ مجھے سب کچھ یاد ہے — سامنے ایک ریوالونگ چیئر تھی، جس پر بیٹھے وہ لکھ رہے تھے — میز پر دنیا بھر کی کتابیں کھلی ہوئی تھیں — ریوالونگ چیئر کے پیچھے چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آ رہی تھیں۔۔۔۔ اور جیسے میں اس وقت کتابوں کے جنگل میں آ گیا تھا۔۔۔ اور میرے اندر ہی اندر ایک آگ کوند رہی تھی۔ اس وقت میری عمر کوئی گیارہ یا بارہ برس کی ہو گی۔ میں ہر لمحہ ایک نئی کشمکش سے گزر رہا تھا۔ میری ساری چھٹیاں ضائع چلی جاتی ہیں۔ آخر میرے دوسرے دوستوں کے بھی تو ڈیڈ ہیں۔ وہ اکثر چھٹیوں میں باہر جاتے ہیں۔ کسی مال میں شاپنگ کرتے ہوئے۔ کسی ہولی ڈے ریسورٹ میں چھٹیاں مناتے ہوئے۔ پکنک یا گھر پر ویڈیو گیمز یا انڈور گیمس کے مزے لیتے ہوئے۔ میں نے دیکھا، ڈیڈ کی آنکھیں چشمے سے بغور میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔۔ اور یہی وہ لمحہ تھا، جب میں اچانک چیخ کر بولا تھا۔

’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں بڑا ہو کر آپ کی طرح کہانی لکھوں گا تو یقیناً آپ غلط سوچتے ہیں۔‘‘

ایک لمحے کے لےا ڈیڈ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا تھا۔ لیکن ڈیڈ دوبارہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ لے آئے تھے۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہے تھے

’میرے لےہ یہ دنیا، جس میں ابھی اس وقت میں ہوں — اور ہمیشہ رہتا ہوں، بڑی اور قیمتی ہے — جیسے وہ دنیا تمہارے لےت بڑی اور قیمتی ہونے والی ہے جس دنیا پر آنے والے وقت میں تم حکومت کرو گے اور ابھی یہ بات تمہارے لےے بہت چھوٹی ہے‘

 

میں خاموش ہو گیا تھا۔ اس لے۔ کہ ڈیڈ اس وقت بھی مجھے نہیں سمجھ سکے تھے۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میرے جیسے بچوں کو سمجھنے کے لےے صرف تجربہ اور عمر کافی نہیں ہے۔ بہت سارے لوگوں کی طرح میرے ڈیڈ بھی آج کے بچوں اور ان کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر تھے نفسیات؟ نہیں۔ چونکیے مت صاحب۔ میری عمر ۲۰ سال کی ہے۔ اور اس عمر میں میرا تجربہ آپ یا کسی بھی ۸۰ سال کے آدمی سے کہیں زیادہ ہے۔۔۔۔ اور سامنے والے کی پہچان کے لےچ، خواہ وہ ایک سوئٹ سی لڑکی کیوں نہ ہو، آر پار دیکھنے کا جو عمل رہتا ہے، آپ اسے ہماری طرف سے نفسیاتی تجزیہ کا نام دے سکتے ہیں۔ پزا، برگر، ایپل، لیپ ٹاپ اور فیس بک کی باتیں کرتے ہوئے، ڈیٹنگ اور بریک اپ کے معاملے میں بھی ہم بچے جس گہرائی سے غور کرتے ہیں، آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔

آپ کے لےی یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کے عہد میں آپ یا گاندھی جیسے خیال کے لوگ ہمارا آدرش نہیں ہو سکتے۔ ہم ایک ٹھہری ہوئی ندی کے قائل نہیں۔ ہم زندگی میں آنے والی سنامی کا استقبال کرنے والے نوجوان ہیں۔ اور اسی لے ہمارے آدرش اسٹیو جابس (Steve jobs)، مارک زکربرگ جیسے لوگ ہیں جو انتہائی کم عمری میں ایک بڑی دنیا کو فتح کر کے دنیا کے دو چند بڑے امیروں میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں — دو چند بڑے امیر۔ چونکیے مت۔ ہم آپ کی طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیسہ ہماری ضرورت نہیں ہے، بلکہ پیسہ ہماری بہت ضرورت ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہم ایوریسٹ کی اونچائیوں کو فتح کرتے ہیں، اپنی من پسند کار پر گھومتے ہیں یا میکڈنلڈ میں برگر یا پزا کے کسی نئے آئٹم کا ذائقہ لیتے ہوئے اپنی گرل فرینڈ کو Kiss کرتے ہیں۔

فرینڈس اور یہ وہی وقت تھا جب کوئی ہمیں انٹرنیٹ کے چور دروازے سے مستقبل کو فتح کرنے کے راستے دکھا رہا تھا’دوسروں کی طرف دیکھنے میں وقت مت ضائع کرو‘ اف یہ ہلکی ہلکی داڑھی والا پیارا سا اسٹیو جابس تھا۔ لیکن اس کے کہنے کے باوجود یہ آنکھیں گھر میں بار بار ڈیڈ کے ناقابل برداشت وجود کو دیکھنے کے لےت مجبور تھیں۔ ناقابل برداشت مجھے اب بھی ان لفظوں کے لےو کوئی افسوس نہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت شاید میں ایسا ہی محسوس کرتا تھا۔ اور اسٹیو کے الفاظ بار بار نگاڑے کی طرح میرے کانوں میں گونجتے رہتے تھے

‘ Your time is limited۔ so don’t waste it living someone else’s life۔ Don’t be trapped by dogma- which is living with the results of other people’s thinking۔ Don’t let the noise of other’s opinion drown out your own inner voice۔ And most important, have the courage to follow your heart and intuition۔ They somehow already know what you truly want to become۔ Everything else is secondary۔

اور یہ باتیں کہیں نہ کہیں میری آنکھیں کھول رہی تھیں۔ کیونکہ اسٹیو جابس یا مارک زکربرگ کی طرح میرے یا میری طرح کے کسی بھی بچے کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے — یور ٹائم از لیمیٹڈ۔ اور اسی مختصر وقت میں دوسروں کی طرف نہ جھانکتے ہوئے ہمیں ایک بڑی دنیا کو فتح کرنے کا اعلان بھی کرنا ہے۔ اور اسٹیو جابس کو سیلیوٹ، کہ دنیا کو ایک چھوٹی عمر میں الوداع کہتے ہوئے وہ ہمارے لےا ایک بڑی اور وسیع دنیا کی تصویر چھوڑ گیا — جس نے Apple inc کے سہارے صرف ایک دنیا نہیں، مستقبل کا تصور تک بدل ڈالا۔ مستقبل میں رشتے غیر اہم ہوتے جا رہے تھے ہم خود میں اور کیریئر میں سمٹ رہے تھے۔ لیکن مارک زکربرگ کتنی عجیب بات وہ فیس بک یعنی اپنی ماڈرن سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے ذریعہ ان رشتوں کو ایک زمین فراہم کر رہا تھا۔ جانے انجانے رشتے یہ میڈیا کا نیا چہرہ تھا جسے یوزرس جنریٹیڈ کنٹنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں گلوبل گاؤں کے ہر شعبے سے وابستہ لوگ ہیں اور انہی میں سے ایک میں بھی ہوں

میں پاشا مرزا اب اس یوزرس جنریٹیڈ کنٹنٹ کا ایک حصہ

اور انہی دنوں ایک دھماکہ ہوا تھا ڈیڈ کے کمرے سے آتی ہوئی سرگوشیوں نے مجھے ایک اسپائی بنا دیا تھا۔ ایک جاسوس اور مجھے یہ بتانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ میں ڈیڈ کو ڈیڈ کے سوا کسی اور انسانی رشتے میں نہیں دیکھ سکتا تھا میں نے چھپ کر دیکھنے کی کوشش کی کمرے میں ایک لڑکی تھی۔ اور اس وقت ڈیڈ بری طرح سے اس لڑکی پر جھکے ہوئے تھے میں کانپ رہا تھا۔ جسم میں لرزش تھی۔ میں اپنے کمرے میں آ گیا زور سے دروازہ بند کیا۔ کرسی پر بیٹھ گیا سانس کے چلنے کا عمل تیز تھا۔ ساری دنیا اس وقت مجھے گھومتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ کنپٹیاں جل رہی تھیں سر پھٹا جا رہا تھا میں اس کیفیت میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا تھا۔ کمرے سے اٹیچڈ باتھ روم میں آ گیا۔ شاور کھول لیا آنکھیں اب بھی بند تھیں

وہ عورت اور ڈیڈ شاور کا پانی سر پر گر رہا تھا، لیکن راحت نہیں — میں اس لمحے ڈیڈ کے لےت اتنی شدید نفرت محسوس کر رہا تھا کہ اس نفرت کو لفظوں کا لباس نہیں پہنا سکتا اور اس رات میں نے ایک خوفناک خواب دیکھا ممی مجھے لے کر ایک کمرے میں بند ہیں — میرا سر ممی کے پاؤں پر ہے۔ ممی میرے سر کو سہلاتی ہوئی رو رہی ہیں۔ اور فرینڈس

میرے سامنے اسٹیو جابس اور مارک کھڑے تھے۔ مارک زکربرگ نے ممی کو اشارے سے جانے کے لےک کہا۔ اسٹیو میری طرف مڑے ان کی آنکھیں بغور میری آنکھوں کا جائزہ لے رہی تھیں

’دوسروں کی زندگی میں نہیں جھانکا کرتے‘

’وہ دوسرے نہیں ہیں‘ میں زور سے چیخا تھا

’مارک زکربرگ مسکرا رہے تھے فیس بک پر ہو مگر اتنا بھی نہیں جانتے کہ اتہاس کچھ نہیں ہوتا — اتہاس محض ڈاٹا ہے اور یہ تم پر ہے کہ تم اس ڈاٹا کو کتنا اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہو‘

اسٹیو مسکرائے مارک یہاں سے نہیں اسے بتاؤ، اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ صرف ایک ڈاٹا ہے اور جو کچھ اس نے دیکھا ہے، اسے دیکھے ہوئے بارہ گھنٹے گزر چکے ہیں۔ مائی گاڈ۔ بارہ گھنٹے۔ بارہ گھنٹے کسی بھی ڈاٹا کے پرانا ہونے کے لےب کافی ہیں‘

مارک ہنسے اتنی دیر میں تو نئی تکنالوجی آ جاتی ہے۔ نئے سافٹ ویئر آ جاتے ہیں زندگی میں صرف انہی ڈاٹا بیس کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے کام کے ہوتے ہیں۔ مثال کے لے ہمیں کار خریدنا ہے یا بینک سے لون لینا ہے۔ ہم ڈاٹا بیس پر جاتے ہیں۔ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں۔ ایک سسٹم تمہارے دماغ کا بھی ہے۔ یہاں ان واقعات کو ڈاؤن لوڈ مت کرو جو تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اسٹیو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی — ’ایپل دیکھا ہے۔ سرخ سیب۔ نیوٹن نے اسے زمین پر گرا دیکھا تھا۔ میں نے اسے آسمان پر بٹھا دیا — تمہارے لےن کہ تمہارے لےی صرف تم اہم ہو تم اور تم سے ضرورت رکھنے والے ڈاٹا باقی کی اہمیت نہیں ہے۔‘

اسٹیو اور مارک اوجھل تھے۔ خواب کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا۔ اور فرینڈس سچ یہ ہے کہ اس حادثے کے بعد کئی دنوں تک میں نے ڈیڈ سے کوئی بات چیت نہیں کی۔ بلکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ میں ان کا چہرہ تک دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔

۰۰

فرینڈس میں بڑا ہو رہا تھا اور آپ جانتے ہیں، انسانی بچے اس طرح بڑے نہیں ہوتے جیسے پرندے بڑے ہوتے ہیں۔ جیسے بچپن میں، میں نے ایک گھونسلہ میں گوریا کے بچوں کو دیکھا تھا، پر نکلتے اور آسمان پر اڑتے ہوئے۔ ممی جب چھوٹی عمر میں، مجھے بانہوں میں لے کر جن اور پریوں کی کہانیاں سناتیں تو میں ہنس دیتا۔ پلیز۔ موم مجھ پر رحم کرو اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ممی ڈیڈ کی عمر سے ہماری جنریشن کتنی آگے نکل گئی۔ فنتاسی حقیقت بن گئی اور زندگی کے معنی بدل گئے اور جیسے ایک دن ڈیڈ اپنے کالج کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے میری آنکھوں میں جھانک رہے تھے اور میں ان کی باتیں سنتا ہوا انہیں ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے میں پندرہویں صدی کی کسی سرنگ میں پہنچ گیا ہوں ڈیڈ ہنس رہے تھے

’تب یہ کمپیوٹر نہیں تھے۔ ٹی وی نہیں تھا۔ فریج نہیں تھا گیس کا چولہا نہیں تھا ایئرکنڈیشنڈ بھی نہیں — موبائل تو موبائل، فون بھی نہیں۔ معلوم، بڑی اپیا کی شادی میں بارات لیٹ ہو گئی تو گھر میں صف ماتم چھا گئی۔ کہیں فون نہیں۔ رات کے آٹھ بج گئے تھے۔ پھر ٹیلی فون ایکسچینج کا پتہ چلا۔ اس افراتفری میں رات کے ۹ بج چکے تھے۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہاں کا فون بھی خراب ہے‘

میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس لمحہ میں ڈیڈ کو ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ڈیڈ نہ ہوں کوئی عجوبہ روزگار ہوں میری کیفیت عجیب ہو رہی تھی کیا کوئی دنیا فیس بک اور گوگل سے الگ بھی ہو سکتی ہے — ٹی وی بھی نہیں۔ فریج بھی نہیں۔ اے سی بھی نہیں‘

’بس ایک ڈبا ہوا کرتا تھا ریڈیو سوئچ گھماتے ہی یہ دیر تک عجیب آوازیں دیا کرتا تھا — یہی ہماری تفریح کا کل سامان تھا لیکن تب ہمارے پاس وقت ہوا کرتا تھا۔ اتنا ڈھیر سارا وقت کہ کھیلتے کودتے یہ وقت ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔

لیکن شاید اب ڈیڈ کی آواز گم ہو گئی تھی۔ میں ڈیڈ کی طرف دیکھ رہا تھا

’پھر آپ لوگ جیتے کیسے تھے؟‘

ڈیڈ ایک لمحے کو چونکے — پھر مسکرائے — تب ہم لوگ زیادہ جیتے تھے۔ تب تمہاری طرح یہ دنیا چھوٹی نہیں ہو گئی تھی۔

 

ڈیڈ ان بچوں سے واقف نہیں تھے جنہیں ننھی عمر میں ہی کپڑے، جوتے، کھلونے اور تجسس کے گلوبل بازار نے وقت سے پہلے ہی بڑا کر دیا تھا۔ اس بازار میں پریاں اور جن نہیں تھے۔ یہاں خطرناک کھلونے، خطرناک شرارتیں تھیں اور مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی پریشانی نہیں تھی کہ میں ٹوتھ پیسٹ، کرکٹ کے چمکتے بلے، فٹ بال، میگی، پزا یا برگر کی طرح موجودہ بازار کا ایک حصہ ہوں۔ اور یہ بازار ہمیں نئے طریقے سے دیکھ رہا ہے یا دوسرے لفظوں میں بازار ہمیں اپنے پروڈکٹ کے حساب سے تیار کر رہا ہے اور یہی وہ دور تھا جب اچانک میری خواہشوں نے میرے قد سے زیادہ اپنے پاؤں نکال لےر تھے۔ میری خواہشیں پوری نہیں ہوتیں تو میں چیخ پڑتا لاؤڈ ہو جاتا مثال کے لےم، میرا پی سی پرانا ہو چکا ہے۔ مجھے ایپل کا نیا لیپ ٹاپ چاہیے۔ یا پھر مجھے وہ موٹر سائیکل چاہیے جو دھونی یا جان ابراہم کے پاس ہے۔

’نہیں مل سکتا اتنے پیسے نہیں ہیں ہمارے پاس‘

اور میں زور سے چیختا تھا۔ میرے اسکول کا ہر دوسرا بچہ ہر مہینے نئی بائک استعمال کرتا ہے۔‘

’اپنے ڈیڈ سے کہو۔‘

ڈیڈ کے نام پر میری تیوریاں چڑھ جاتیں — ’میرا لیپ ٹاپ پرانا ہو چکا ہے اور یہ موبائل بھی۔‘

’یہ موبائل تم پچھلے ہفتہ ہی لائے ہو۔‘

’ایک ہفتہ میں سات دن ہوتے ہیں۔‘

’سات دن میں موبائل بدلنے والے بچے امبانیوں کے ہوتے ہوں گے۔‘ ممی چیختیں — پھر ایک آہٹ ہوتی۔ اپنے کمرے سے باہر نکلتے ڈیڈ کو دیکھتا۔ وہ ایک لمحے کے لےں مجھے اور مام کو دیکھتے — یہ وہ لمحہ ہوتا جب ان کی آنکھوں میں غضب کی بے چارگی ہوتی۔۔۔۔۔ اور یقینی طور پر مجھے اس بے بسی اور بے چارگی سے نفرت تھی۔ اور ہمیشہ کی طرح میں ڈیڈ پر غصے بھری نظر ڈالتا۔ زور سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرتا۔ اتنے زور سے مجھے احساس تھا، باہر سیڑھیاں چڑھتا کوئی بھی آدمی اس شور کو محسوس کر سکتا ہے۔

پھر اتنا ہوتا۔ ڈیڈ چپکے سے اپنے کمرے میں بند ہو جاتے اور اس کے بعد وہ نظر آتے تو جیسے خود سے شرمسار ہوتے۔ جیسے وہ اپنے بچوں کی خواہشوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوں میں آتے جاتے، پلٹ کر غصے بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتا اور یہ لمحے میرے لےک فتح کے ہوتے

ڈیڈ میری خواہشوں کو پورا نہ کرنے کے جرم میں ذرا سا جھکے ہوئے محسوس ہوتے

۰۰

ٹکڑے ٹکڑے ان ہزار یادوں کے درمیان میں اس خط کو بھول گیا ہوں جو ممی نے ابھی کچھ دیر پہلے لا کر میرے ہاتھوں میں دیا ہے۔ (اور یقین کے ساتھ کہ میں نے اس سے قبل کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن میں بھی کبھی ڈیڈ کی طرح ان کے ادب کا ایک حصہ ہو سکتا ہوں۔ اور یقین کیجئے کہ جب ان دنوں میں یہ بات میں اپنی ممی سارہ جہانگیر کے سامنے دہرایا کرتا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتیں۔ پھر مجھے دیکھتے ہوئے کہتیں۔

’ابھی سے کچھ بھی کہنا جلد بازی ہے پاشا۔ بچوں کے جسم میں کہیں نہ کہیں ماں باپ کی عادتیں بھی شامل رہتی ہیں۔‘

’میں نہیں مانتا۔‘

’مان جاؤ گے ایک دن۔‘

’سوال ہی نہیں ہے۔ میں کندھے اچکاتا۔ میں نے اس دنیا میں آنکھیں کھولنے کے بعد جس چیز سے سب سے زیادہ نفرت کی ہے، وہ ڈیڈ کا ادب ہے اور تم کہتی ہو کہ‘

ممی نے پھر مسکرانے کی کوشش کی ’شہزادی راستہ بھول گئی اور پھر وہ اسی موڑ پر آ گئی جہاں وہ بے نام شہزادہ کھڑا تھا۔‘

’میں شہزادہ نہیں — شہزادے، شہزادیوں کے دن قصے کہانیوں کی کتاب میں دفن ہو چکے ہیں۔‘

میری آنکھیں کہیں دور نکل گئی تھیں ممنوعہ اور غیر ممنوعہ کی بحث سے یہ نسل نہیں الجھتی۔ ممکن ہے، پہلی نسل والوں کے لےک جو ممنوعہ نہ ہو، اس نسل نے اسے قبول کر دیا ہو ڈیڈ کی طرح ممی بھی اس نسل کو اور اس نسل کی خواہشوں کو نہیں جانتیں۔ یہاں Values بدل گئے ہیں۔ جینے کا نظریہ بدل چکا ہے۔ پرانے زمانے کا بہت کچھ ہمارے لےو ڈسٹ بِن میں ڈالنے جیسا ہے — جیسے ڈیڈ کی کتابیں مجھے کبھی راس نہیں آئیں۔ ہاں اگر کتابیں کما کر دے سکتی ہوں تو آپ چیتن بھگ بنئے نا فلموں میں لکھیے۔ سے لی بریٹی بنیے۔ اور پیسوں کی کھان بن جائیے۔ لیکن ایسا لکھنا جو آپ کے بچوں کو ان کی خواہشوں کے راستے پر تنہا چھوڑ دے، میں ایسی تحریروں کو ایک بیوقوف کے چاند چھونے کے عمل سے زیادہ نہیں مانتا۔ یہ تبدیلیوں کا وقت ہے۔ گیت سنگیت بدل گئے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں جان ابراہم سے لے کر بریٹنی اسپیرس تک ہمارے بیڈ روم میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لے ہماری تہذیب کی کتاب میں سب کچھ Rock ہے۔ اس لےر Cool ہیں ہم۔

ٹھہریے۔

ممی مجھے بلا رہی ہیں میں کیسے سمجھاؤں کہ اس طرح ممی کا آواز لگانا مجھے پسند نہیں ہے۔۔۔۔ اور مجھے معلوم ہے، ممی کی اپنی ایک علیحدہ جذباتی دنیا ہے۔ اور کیسی عجیب بات، ابھی وہ اس جذباتی دنیا سے باہر نہیں نکلی ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے