نوحہ گر ۔۔۔ سلطان جمیل نسیم

 

کسی شریر بچے کی طرح کھڑکی کے ادھ کُھلے پٹ سے ہاتھ بڑھا سورج نے مٹھی بھر دھوپ اس کے چہرے پر پھینکی تو نیند، جو آنکھوں میں پاؤں پسارے پڑی تھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے آنکھ کھولے بغیر سورج کا ہاتھ پرے کر کے کھڑکی کا پٹ بند کیا اور نیند کو تھپکنے لگا مگر اندھیرے اور بند کمرے میں اڑنے والی چڑیا کے مانند نیند بے کل ہو چکی تھی۔ اس احساس کے ساتھ اگر آنکھوں کے روشندان نہ کھولے تو یہ پھڑپھڑاتی ہوئی نیند بے چین کرتی رہے گی۔ اس نے آہستہ آہستہ پلکوں کے پردے اٹھا دیئے۔ ایک انگڑائی لے کر وہ بستر سے اٹھ گیا۔

آنکھوں میں نیند کی ڈالی ہوئی خراشوں پر ٹھنڈے پانی کے دو چار چھینٹے مارے۔ سورج کی بے جا مداخلت سے حلق میں کڑواہٹ سی جو گھل گئی تھی وہ کلیاں کر کے تھوکی …… پھر گیلے ہاتھ بالوں پر پھیرتا ہوا ناشتہ کی میز پر پہنچ گیا۔

تعطیل کے روز اس کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ سارے کاموں کی چھٹی کر دے اور گھوڑے بیچ کر دیر تک سوتا رہے مگر ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا کہ وہ حسب مرضی اٹھے پھر بھی جلدی اٹھ جانے یا اٹھا دیئے جانے پر وہ جھنجھلاتا نہیں تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ہفتے میں یہی ایک دن تو آتا ہے جب مصروفیتوں کے نت نئے زاویوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ورنہ ہر روز تو کام کا ایک ہی آئینہ ہوتا ہے۔ مگر آج…… آج کا دن تو کچھ زیادہ ہی اہم اور ہنگامہ خیز ہے۔ آج کے دن کے لیے تو ہفتہ بھر سے وارننگ دی جا رہی تھی۔ آج اس کی بیٹی کی سالگرہ کا دن ہے۔

ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہی یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کچھ دیر کے بعد ڈرائیونگ بھی کرنا ہے اور گھریلو ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے بیوی کے ساتھ دکان در دکان پھیرے بھی لگانے ہیں کیونکہ آج بڑے صاحبزادے تو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائیں گے کہ ان کا سارا دن ٹی وی کے سامنے کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے گزرے گا۔

ناشتے کی میز پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کو بھی دیکھا جو سب سے بے خبر روئی کے گالے جیسے اس چوزے کے ساتھ کھیل میں مصروف تھا جو دو ہی دن پہلے ضد کر کے خریدا گیا تھا۔

سارے گھر اور خاص طور سے ڈرائنگ روم کی حد سے زیادہ جھاڑ پونچھ سے یہ اندازہ بھی لگایا کہ شاید آج ملاقات کے لیے آنے والے دوستوں کو اپنے بیڈ روم ہی میں بلا کر بٹھانا پڑے گا اور یہی بات ان کے طنزیہ فقروں کا نشانہ بننے کے لیے کافی ہو گی۔

وہ اپنی تمام مجبوریوں اور مصروفیتوں کا خیال کر کے ان ذمہ داریوں اور محبتوں پر مسکرایا جو اس سے وابستہ ہیں اور ان سب نے مل کر اس کی ذات کو اس قدر مجبور، اتنا با اختیار اور ایسا اہم بنا دیا ہے کہ اگر وہ درمیان سے نکل جائے تو سارا گھر…… گھر سے وابستہ تمام رشتے اور واسطے کسی ان بریک ایبل گلاس کی طرح ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ اپنی اہمیت کو محسوس کیا تو چہرے پر طمانیت کا رنگ پھیل گیا۔ اسی خوشگوار کیفیت میں اس نے ایک ہاتھ سے چائے کی پیالی اٹھائی اور دوسرے سے اخبار ……اس کا ہاتھ کانپا اور اچانک لرزہ سا طاری ہو گیا۔ اگر پیالی کو فوراً نہ رکھ دیتا تو چائے چھلک کر اس پر گر پڑتی۔ تنہا تنہا نظریں…… بغیر کسی خیال کے لمحے بھر تک اخبار پر گھومتی رہیں۔

کسی صحرائی علاقے کے عفریت نے ایک ہوائی جہاز کو نگل لیا تھا۔

سیاہ حاشیوں میں لپٹی ہوئی سرخی نے اس کا رنگ پھینکا کر دیا۔ اخبار کے صفحے پر پھیلے ہوئے الفاظ کن کھجورے کی طرح اس کے ذہن پر پنجے گاڑنے لگے۔ تصور اتنی تیزی سے حادثے کے مقام پر پہنچا کہ حالات کی گرد اڑنے لگی۔

فضا کی وسعتوں سے چھین کر جن کو زمین نے اپنے سینے سے لگا لیا تھا اس کا ان سے کوئی رشتہ نہ تھا۔ خون کا نہ جذبات کا…… مگر آدم نسبی کا تعلق تھا۔ مٹی کا رشتہ تھا۔ اور اب وہی مٹی اس کے وجود میں تڑخنے لگی تھی۔

ذہن میں اوپر تلے کئی خیال آئے۔ سر اتنا بوجھل ہوا کہ گردن پر اس کا سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ وہ نڈھال سا ہو کر خاصی دیر تک میز پر کہنیاں ٹکائے۔ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے، اخبار کی بے جان سطروں کو یوں تکتا رہا جیسے صحرا میں بکھری ہوئی لاشوں کو دیکھ رہا ہو اور یہ بات سجھ میں نہ آ رہی ہو کہ اس مرگ انبوہ پر وہ کیا کرے!

اچانک موسیقی کی ایک خاص دھن انگڑائی لے کے اٹھی اور دھوئیں کے مانند سارے گھر پہ چھا گئی۔ آنکھوں کے سامنے اخبار کی سطریں…… کانوں کے ذریعے وجود میں اترنے والا سازوں کا شور…… اس نے محسوس کیا کہ یہ اونچے سر اس کے اندر یوں اترتے جا رہے ہیں جیسے کسی غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے…… اس سے پہلے کہ وہ پھٹ پڑے، اپنی کسی سہیلی سے ٹیلیفون پر باتیں کرتے کرتے اس کی بیٹی ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھ کے چیخی۔

’بھیا! آواز کم کیجئے!‘

میچ شروع ہونے کو تھا اس لیے بیٹے نے ٹی وی کھول دیا تھا اور سارے گھر میں سازوں کی گیند لڑھکتی پھر رہی تھی۔ بیٹی کی بر وقت مداخلت نے غصے کے غبارے میں سے ہوا نکال دی۔ اس نے ایک لمبا سانس لے کر چائے کی پیالی اٹھائی۔ اور گھونٹ گھونٹ کر کے اپنے جذبات پینے لگا۔

دوپہر کے اختتام پر ایک تھکا دینے والی ڈرائیونگ کے بعد جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس وقت بھی سارا گھر مختلف آوازوں سے پٹا پڑا تھا۔ کرکٹ کی کمنٹری، ریڈیو سے فلمی گانے، اور چھوٹے بیٹے کے رونے کی آواز۔ بیوی تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے روتے ہوئے بچے کی جانب لپکی اور اس نے تمام چیزیں لا کر کھانے کی میز پر ڈھیر کر دیں، پھر آگے بڑھ کے ریڈیو کی آواز کم کی۔ بیٹی نے شام کی پارٹی میں کام آنے والی تمام چیزیں اس سامان سے الگ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ابو! شاہدہ آنٹی کا فون آیا تھا۔ ان سے بات کر لیجئے گا۔ ڈائریکٹری کے پہلے پیچ پر میں نے ان کا نمبر پینسل سے لکھ دیا ہے‘‘۔

وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے دل پر ایک بوجھ سا تھا۔ بے نام سا بوجھ، جس نے اس کے سارے بدن پر تھکاوٹ پھیلا دی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے کمرے میں جا کے تمام دروازے بند کر لے اور خاموش لیٹ جائے۔ کوئی اس سے بات نہ کرے اور وہ اس وقت تک اکیلا اپنے کمرے میں آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹا رہے، جب تک ذہن پر چھایا ہوا بوجھ اور بدن سے لپٹی ہوئی تھکاوٹ کم نہیں ہوتی۔ مگر ساری چاہے جانے والی باتیں کہاں پوری ہوتی ہیں۔ تو اس نے بھی شاہدہ کا فون نمبر ملایا۔

شاہدہ نے دو ایک رسمی باتیں کرنے کے بعد پوچھا۔ ’’حامد بھائی! سنبل یاد ہے آپ کو؟‘‘۔

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس نے سوچا کہ اکثر یاد نہ آنے والوں کو بھلانا بھی کتنا مشکل ہوتا ہے۔ پھر آہستہ سے کہا۔ ہاں…… یاد ہے!

’’بے چاری!‘‘۔ شاہدہ نے اتنا کہنے کے بعد آواز کو یکسر تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’آج پلین کے کریش کی خبر پڑھی آپ نے؟ وہ اسی میں تھی‘‘۔

یہ سن کر وہ بوکھلا گیا بلکہ ایک لحظہ کے لیے تو ساکت ہو گیا۔ پھر اس نے سوچا کہ شاہدہ نے یہ خبر سنائی ہے یا سنبل کو نہ بھولنے کی سزا دینے کے لیے دل میں چٹکی لی ہے۔ رسیور کان سے لگا ہوا تھا مگر اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ریڈیو بھی خاموش ہو گیا تھا۔ ٹی وی کا مبصر بھی چپ تھا۔ گھر بھر میں پھیلے ہوئے شور کو سناٹا نگل گیا تھا۔

ہر طرف ہُو کا عالم طاری ہو گیا۔ لمحہ بھر تک کوئی آواز نہیں آئی…… اور تب اس کے وجود میں خاموشی کی گونج اتنی پھیل گئی کہ دم گھٹنے لگا۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھر آئے۔ اس نے نظر اٹھا کے دیکھا۔ چھت سے لٹکا ہوا پنکھا اپنی رفتار سے گھوم رہا تھا۔ دنیا اپنے محور پر گھوم رہی تھی۔ پھر سارا شور امڈ پڑا۔ کان سے لگے ہوئے رسیور میں شاہدہ کے زور زور سے ہیلیو ہیلو کہنے کی آوازسنائی دی۔ ریڈیو کی موسیقی، ٹی وی پر میچ کا ہنگامہ، برتنوں کی کھڑ بڑ، ان ساری آوازوں کو حملہ آور پایا تو آستین سے ماتھے کا پسینہ پونچھ کر، کوئی جواب دیئے بغیر اس نے رسیور رکھ دیا اور پسپا ہو جانے کے انداز میں کرسی پر ڈھے گیا۔ پھر بیٹھے بیٹھے وہ وقت آ گیا کہ اسے اپنا تماشا خود نظر آنے لگا۔

اس نے دیکھا۔

وہ اپنے بیٹے سے یہ پوچھنے کے لیے آگے بڑھتا ہے کہ آج ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر قرآن خوانی کیوں نہیں ہو رہی ہے۔ مگر بیٹے کے قریب پہنچتے ہی وہ اسکور پوچھنے لگتا ہے اور میچ کے بارے میں اس کی رائے معلوم کرنے لگتا ہے۔

وہ اپنی بیٹی کی سالگرہ کی تقریب میں بھی شریک ہوا ہے۔ جب نو عمر لڑکیوں نے کلیپنگ کی ہے تو اس نے بھی بھرپور محبت سے تالیاں بجائی ہیں اور سب کے ساتھ مل کر ہپی برتھ ڈے والا فقرہ لحن کے ساتھ پڑھا ہے۔ تمام بچوں کے بیچ میں بیٹھ کر مسکراتے ہوئے اس نے تصویر بھی اتروائی ہے۔ مصروف بیوی کا ہاتھ بھی بٹایا ہے۔ اور دل کے زخموں سے اٹھنے والے درد پر مسکراہٹوں کے پھائے بھی رکھے ہیں۔

غرض سورج ڈوبنے تک وہ اپنا تماشائی بنا رہا ہے!اپنی اتنی کامیاب اور شاندار اداکاری پر جب اس نے خود کو مبارکباد کا پیغام دیا تب بھی اس کے من میں تاریکی کا بسیرا رہا۔ خوشی کا کوئی جگنو نہیں چمکا بلکہ بجھے دل کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں آیا اور پلنگ پر یوں ڈھیر ہو گیا جیسے سارے دن کی مصروفیت نے اس کے جسم میں تھکن کے کانٹے چبھو دیئے ہوں۔ بے سدھ ہو کر چند لمحے بستر پر گزارنے کے بعد وہ اچانک اٹھ بیٹھا۔

اس کو اپنے دل میں شاہدہ کے فون کی گھنٹی بجتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ذہن میں ہوائی جہاز کی گڑگڑاہٹ گونجی۔ صحرا کی وسعت کو اپنے سینے میں سمٹا ہوا محسوس کیا۔ پھر اسے ایسا لگا جیسے وہ بہت بلندی سے نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ اس کا سانس رکنے لگا کہ ہوا نہ ہو تو دَم نکلتا ہے اور ہوا بہت ہو تو دَم گھٹتا ہے۔ اس نے سوچا کہ جب دَم گھٹ کر نکلتا ہو گا تو آوازیں بھی سینے میں دب کر مر جاتی ہوں گی۔

وہ یہ بھی محسوس کرنے لگا جیسے تیز ہوا میں لپٹی ہوئی آوازوں کے خنجر اسے لہولہان کیے دے رہے ہیں۔ اس احساس کے ساتھ اس کا دل کٹ کر رہ گیا اور وہ اذیت بھری چادر لپیٹ کر ماضی کی قبر میں جا لیٹا۔ وہ تو ہنگاموں کے سمندر میں ڈوب کر ختم ہو چکا تھا۔ رات کی سطح پر اندھیرے کی کشتی ڈول رہی تھی۔ سناٹے نے اپنے بادبان کھول دیئے تھے اور تنہائی کی مہیب لہریں آپس میں ٹکرا کر ایک ہی نام کی تکرار کیے جا رہی تھیں۔ سنبل سنبل سنبل…… اس نام کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ یادوں کے صحرا میں آ نکلا۔ مگر یہاں کیا ہے۔ اس دشت میں تو اب پرچھائیاں بھی نہیں رہی ہیں۔ ہر تحریر مٹ گئی ہے۔ ہر چہرہ چھپ گیا ہے۔ بس آنکھوں میں چبھنے والی ریت رہ گئی ہے۔

جب اسے یہ محسوس ہوا کہ آنکھوں کے ویرانے میں آنسوؤں کی لاش پڑی ہے تو اسے اپنے کمرے میں آنے والے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے بازو اٹھا کے اس لاش کو آستین کے کفن میں لپیٹ دیا۔

بیوی پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ’’کیا بات ہے؟ کمرے میں لائٹ بھی نہیں کی۔ کیا سوچ رہے ہو‘‘۔

اس نے بے پروائی سے کہا۔ ’’کچھ نہیں…… تھک گیا ہوں۔ کیا وقت ہوا ہے؟‘‘۔

’’نو بجنے والے ہیں۔ میں بھی بہت تھک گئی ہوں۔ ذرا سی پارٹی نے کاموں کا ایک انبار لگا دیا ہے۔ سارے برتن دھو دیئے ہیں مگر رکھنے کی ہمت نہیں رہی ہے۔ آپ تھوڑا سا یہ کام اور کر دیجئے کہ اپنے لاڈلے بیٹے کو چپ کرا دیجئے‘‘۔

’’کیوں اس کو کیا ہوا‘‘۔

’’ارے وہ مرغی کا بچہ تھا نا ……وہ مر گیا۔ کمبخت پیچھے پیچھے بھاگتا تھا۔ بس آ گیا پاؤں کے نیچے۔ اسی کے غم میں رو رو کے جان ہلکان کر رکھی ہے‘‘۔ اتنا کہہ کر بیوی آرام کرسی پر نیم دراز ہو گئی۔ وہ ایک لفظ کہے بغیر اٹھا اور پیر گھسیٹتا ہوا چھوٹے بیٹے کے پاس پہنچا جو مرے ہوئے چوزے کے غم میں بیٹھا سسکیاں لے رہا تھا۔

اس نے جھک کر بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا بیٹے نے گردن گھما کے دیکھا اور زور زور سے رونے لگا۔

وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور دلاسہ دیتے ہوئے بولا۔

’’نہیں بیٹے! اس طرح نہیں روتے۔ ہم آپ کے لیے دوسرا چوزہ دلا دیں گے‘‘۔

بیٹے نے باپ کو غم گسار پایا تو اٹھ کے گلے لگ گیا اور ہچکیوں سے رونے لگا۔ کچھ دیر تک وہ بیٹے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر ایک دم پوری گرم جوشی کے ساتھ…… روتے ہوئے بیٹے کو سینے سے لگا کے بھینچ لیا اور خود بھی رونے لگا۔

٭٭

جدید ادب، جرمنی، جنوری تا جون ۲۰۱۲ء، مدیر: حیدر قریشی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے