غزل ۔۔۔ وزیر آغا

 

عمر کی اس ناؤ کا چلنا بھی کیا،رُکنا بھی کیا

کِرمکِ شب ہوں مِرا جلنا بھی کیا،بجھنا بھی کیا

 

اک نظر اُس چشمِ تر کا میری جانب دیکھنا

آبشارِ نور کا پھر خاک پر گرنا بھی کیا

 

زخم کا لگنا ہمیں درکار تھا،سو اُس کے بعد

زخم کا رِسنا بھی کیا اور زخم کا بھرنا بھی کیا

 

تیرے گھر تک آ چکی ہے دُور کے جنگل کی آگ

اب ترا اس آگ سے ڈرنا بھی کیا،لڑنا بھی کیا

 

در دریچے وا مگر بازار گلیاں مُہر بند

ایسے ظالم شہر میں جینا بھی کیا،مرنا بھی کیا

 

تجھ سے اے سنگِ صدا،اس ریزہ ریزہ دور میں

اک ذرا سے دل کی خاطر دوستی کرنا بھی کیا

٭٭

عکاس انٹرنیشنل، اسلام آباد، شمارہ ۱۰، مدیر: ارشد خالد

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے