ایک دِستوپِئن ( dystopian) معاشرے میں ۔۔۔ شافع قدوائی

 

آرویلِئن ساخت (Orwellian structure) پر تشکیل شدہ، مشرف عالم ذوقی صاحب کا تازہ ترین ناول ’مرگ انبوہ‘ ایک ایسی ‘حیرت زدگی’ کا احساس کراتا ہے جو ایسے ملک میں رہنے سے پیدا ہوتی ہے جو خرید و فروخت کی تجارت کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔

اردو میں شاندار، جاندار اور جاذبِ قرات ناولوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پھر بھی، شاید ہی کسی ناول نگار نے اس طرح کے دِستوپِئن (dystopian مستشار، حیرت انگیز) معاشرے کا تنقیدی محاسبہ کیا ہو، جہاں اینڈرائڈ آلات (Android appliances) صارفین کے تیار کردہ مواد اور تفریح میں روز افزوں دلچسپی پیدا کرتے ہوں۔

ایسی دنیا کے خطروں کو، جہاں تاریخ محض اعداد و شمار کی مستقل تازہ کاری کی صورت بن کر رہ گئی ہو، ایک دِستوپئن ( dystopian حیرت انگیز ) ناول ہی ایک کثیر السطح داستان کی صورت میں سامنے لا سکتا ہے، جو یٹوپیا (مثالی دنیا) کے بر عکس ایک ایسی خیالی دنیا کی داستان ہو جہاں ہمارے تمام خوفناک خواب سچ ہو جاتے ہیں۔

اس دِستوپِئن فِکشن نے ”اینیمل فارم” (Animal Farm)، 1984)، "بریو نیو ورلڈ "(Brave New World)، "فیرین ہائٹ ۴۵۱”(Fahrenheit, 451)، "دی ہینڈ میڈس ٹیل” (The Handmaid’s Tale) جیسے شاہ کار دیے ہیں۔ مشہور و معروف اور جوشیلے اردو ناول نگار مشرف عالم ذوقی صاحب نے حیرت انگیز ناول نگاری کے میدان میں غالباً اردو کے پہلے حیرت انگیز ناول کے طور پر اپنے ناول "مرگِ انبوہ” (Holocaust, Mass Death) کی صورت میں اپنی بھر پور تخلیقی صلاحیت کے نقش ثبت کر دیے ہیں جس نے برّ صغیر میں ہل چل مچا دی ہے۔

اوروِیلئن ساخت (Orwellian structure) پر تشکیل شدہ مشرف عالم ذوقی صاحب کا تازہ ترین ناول ایک ایسی حیرت زدگی کا احساس کراتا ہے جو ایسے ملک میں رہنے سے پیدا ہوتی ہے جو خرید و فروخت کی تجارت کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔ آج کا معاشرہ تکنیکی سے چلنے والا معاشرہ بن گیا ہے جہاں لوگ جسمانی لذتوں اور حسّیاتی تسکین کے متلاشی رہتے ہیں۔ اوروِیلئن کہاوت (Orwellian adage) "سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور دوسروں سے زیادہ برابر ہیں” کی قبولیتِ عام نے بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک اور نا انصافی کو روا کر رکھا ہے۔ اس صورت حال نے مشہور و مقبول ناول نگار کو ترغیب دی کہ وہ سمجھے کہ کس طرح بار بار کہی گئی "اچھے دن” کی بات ہر سطح پر ناقابلِ برداشت تکلیفیں اور تباہ کن زوال کا سبب بن جاتی ہے۔

پانچ ابواب میں بڑی مہارت سے سے تقسیم ناول، بہت ٹٹولی گئی قومیت کے گہرے معانی و مطالب کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ ناول اپنی ابتدا سرویشور دیال سکسینہ کی کویتا سے کرتا ہے، جو یوں ہے "دیس کاغذ پر اُکیرا نقشہ نہیں /ایک لڑکے کا قتل، ایک عورت کی موت، گولیوں سے داغے گئے آدمی کا جسم /سرکار ہی نہیں پورے دیس کے لئے خطرناک ہے /اگر یہ دھرتی تمہارے خون میں آگ کی طرح نہیں دوڑتی ہے تو تمہیں مان لینا چاہیے کہ تم بنجر ہو چکے ہو /تمہیں سانس لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔” شروع میں ذوقی صاحب اسٹیو جَوبس ( Steve Jobs) کا حوالہ دیتے ہیں جس کے لئے زندگی کی اہم ترین ایجاد موت تھی، جس نے ان سبھی تضادات کو خود میں سمو لیا جو نئی نسل کے انوکھے فلسفے کی تشکیل کرتے ہیں۔

ایک بیس سالہ طالب علم پاشا مرزا ہے۔ وہ ینگستان ( youngistan) کا فخریہ رہائشی ہے جو جنسیاتی محرکات میں ملوث اور خود ساختہ سچائی کی زندگی گزارنے والا ہے۔ اقدار کا دردناک انحطاط، انفرادیت کے نقصان اور تکنیکی پر مستقلاً انحصار، بچوں کو اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں پریوں و دیو زادوں ( goblins) کی کہانیاں نہیں بلکہ مہلک کھلونوں کی اور جان جوکھم میں ڈالنے والے شرارتوں کی بھر مار ہے۔

یہاں ہر ایک فرد ٹوتھ پیسٹ، کرکٹ بال، فٹ بال، فوری تیار نوڈلس (instant noodles) پیزا ( pizza) جیسی صارف شئے بن گیا ہے اور مطابقت کے خطرات سے دوچار۔

پاشا مرزا اور اس کا دوست ریمنڈ الومیناتی (illuminati) کی طرف رغبت محسوس کرتے ہیں جو بری روح سے طاقت پاتے ہیں۔ ان کے لئے موت سب سے دلکش فنتاسی ( fantasy) ہے اور بلیو وھیل گیم ( Blue Whale Games) انہیں پُر لطف اور پُر جوش تجربات عطا کرتے ہیں۔ پاشا، ریمنڈ، گریسی، پُنیت، سارہ جہاں گیر، قصور وارانہ اعترافات کو دھندلا نہیں ہونے دیتے۔ پھر بھی ان کے قول و فعل ان کے غصے، تناؤ، امتیازی سلوک، انتشار، امید و مایوسی کو ایک کثیر السطری داستان سے جوڑ دیتے ہیں جو ان میں غیض و غضب اور افسوس بھر دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سنسنی اور تکلیف بھی پہنچاتے ہیں۔ ان میں سے بہتیرے، تباہیوں میں اپنی زندگی تلاشتے ہیں اور اپنے والدین اور خاندان کے ساتھ لمبی جدائی انہیں مشکل سے ہی جھنجھوڑ پاتی ہے۔

ذوقی صاحب نے، جو مجلسِ فروغِ اردو ادب ایوارڈ، دوحہ جیسے قابلِ قدر انعام و اعزاز سے نوازے گئے ہیں، ایک ایسی حکومت کی سخت تنقیدی گرفت کی ہے جو انسانیت مخالف، حراساں کرنے والی اور شدید دبانے والی ہے۔ ماب لِنچنگ کو مشکل سے ہی حد سے زیادہ سنگین معاملہ سمجھا جاتا ہے۔

بعد کے ابواب، "جہاں گیر مرزا کی ڈائری”، "موت کا سامنا”، "مرگِ انبوہ” اور "نیند میں چلنا” (پاشا مرزا کی کہانی کا آخری حصہ) معاشرے کی روز مرّہ زندگی کو گہرائی سے درشاتے ہیں جہاں فاشزم اور سرمایہ دارانہ نظام نے جِنگواِزم (gingoism) کا کُل طاقتی ہالہ بنا لیا ہے۔ ایک مخصوص کمیونٹی کی دل چیر دینے والی کہانیاں ذوقی صاحب کے ساری دنیا کے خاموش کئے گئے اور بے آسرا کئے گئے لوگوں کے تئیں کمیٹمینٹ کو درشاتا ہے۔

مصنف نے بڑی شدت سے ایسی متشدد کہانیاں اکٹھی کیں جو خود سے تعلق اور اجنبیت دونوں کا شدت سے اظہار کرتی ہیں۔ مصنف کے لئے ہر جگہ موجود جادوگر کا مرتب کردہ موجودہ سیاسی منظر نامہ، ایک ایسا کثیر جہتی معاملہ ہے جو جذباتی تجربے کی طغیانی کا مادّہ رکھتا ہے۔ یہ ایسے رستے زخموں کے بارے میں ہے جو ابھی تک نہیں بھر پائے ہیں۔

ناول کی تھیم کو بتاتے ہوئے ذوقی صاحب فرماتے ہیں ‘مرگِ انبوہ’ ایک بیٹے اور اس کے باپ کے ارد گرد کی کہانی ہے۔ یہ جنریشن گیپ کے بارے میں ہے جہاں گمبھیر بد ظنی چھوٹی تُرشیوں پر حاوی ہو گئی۔ ویلین ہیرو بن گیا، بے گناہ مجرم بن گئے۔ کیا صرف اورہان پامُک ( Orhan Pamuk) اور اروندھتی رائے ہی اس سیاسی ڈرامے پر لکھنے کے مجاز ہیں؟ ” نہیں، ذوقی کو بھی وسائل ایجاد (resourceful inventiveness) کرنے کا ایک ممیز ادراک ودیعت ہے جس نے انہیں ایسے دھڑکنیں تیز کرنے والے اور دلچسپ ڈیسٹوپئن ناول سامنے لانے دیا جو اردو فکشن میں نئی پگڈنڈی کو چلانے کے لئے مقدر ہو چکا ہے۔

—–شافع قدوائی صاحب کے مضمون ‘In a dystopian society’ کا ترجمہ از مسعود بیگ تشنہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے