غزلیں ۔۔۔ ایوب خاور

 

طلسمِ اسمِ محبت ہے در پئے درِ دل

کوئی بتائے اب اِس کا کرے تو کیا کرے دل

 

فسونِ جنبشِ مژگاں نہ پوچھئے، سرِراہ

پکارتے ہی رہے ہم ارے! ارے! ارے دل!

 

پھر اُس کے بعد ہمیں یہ بھی تو نہیں رہا یاد

نظر گِری ہے کہاں، کھو گیا کہاں زرِ دل

 

قدم قدم پہ ترا غم ہے خیمہ زن مری جاں

ہُمک بھرے بھی تو آخر بتا! کہاں بھرے دل

 

یہ کُنجِ لب، یہ خمارِ وصال اپنی جگہ

مگر جو ہجرِ مسلسل بپا ہے برسرِ دل!

 

یہ توُ جو مہر بہ لب ہے تو کس لیے خاورؔ

یہ دیکھ کیا ہے تہہِ دل، ہے اور کیا سرِ دل

٭٭

 

 

چمن سمیٹ کے رنگِ قبا میں رکھتا ہوں

مہک تمھاری دلِ گل ادا میں رکھتا ہوں

 

کسی کے ہاتھ لگے اور نہ کوئی چھو پائے

وہ ایک سم جسے رقصِ انا میں رکھتا ہوں

 

میں اک قدم تری دہلیز سے اُٹھاتا ہوں

تو دوسرا قدم اوجِ خلا میں رکھتا ہوں

 

تمھارے جھوٹ، تمھارے ہی منہ پہ دے ماروں

یہ حوصلہ دلِ بے دست و پا میں رکھتا ہوں

 

بجھا سکے تو بجھا دے کہ میری عادت ہے

دیا جلا کے ہمیشہ ہَوا میں رکھتا ہوں

 

ہتھیلیوں پہ اُگاتا ہوں پھول صحرا کے

سراب چھان کے صحن وفا میں رکھتا ہوں

 

وہ اور ہیں جنھیں قدموں کی دھول جانتا ہوں

تمھیں تو خیر میں حیرت سرا میں رکھتا ہوں

 

عدو بھی تم ہو، عداوت بھی تم، عدالت بھی

اِسی لیے تمھیں خوفِ خدا میں رکھتا ہوں

 

گماں میں رکھتی ہے تم کو اگر ستم صِفتی

یقین میں بھی تو روزِ جزا میں رکھتا ہوں

٭٭

 

 

کس موج میں ہے راہ سے بھٹکا ہوا دریا

صحرا کی طرح دل میں اُترتا ہوا دریا

 

اے حُسنِ دلِ آرا کبھی توُ نے بھی ہے دیکھا

پلکوں تلک آ آ کے پلٹتا ہوا دریا

 

ہم جس کی بپھرتی ہوئی موجوں میں رواں تھے

دیکھا ہے پھر اِک بار وہ دیکھا ہوا دریا

 

سینے میں اُتر جانے کو بے تاب ہے کتنا

جنگل کی خموشی کو نگلتا ہوا دریا

 

اِک دن تیری آنکھوں کے کناروں سے بہے گا

بادل کی طرح دل سے لپٹتا ہوا دریا

 

اِک وحشتِ بے نام نہیں چھوڑتی دل کو

اک ہجر ہے اور ریت کا اُڑتا ہوا دریا

 

کیا جانئے، کس رنگ میں، کس گھاٹ لگے گا

یہ سنگ و شجر روند کے جاتا ہوا دریا

 

پھر حرفِ رگِ دل کی تہوں میں سے نکل کر

آیا ہے سرِ چشم اُمڈتا ہوا دریا

٭٭

 

 

کوئی کیا دیکھ پائے گا یہ پامالی مرے دل کی

سخن سازی مرے دل کی، بھری خالی مرے دل کی

 

یہ زخمِ نارسائی گرچہ گہرا بھی ہے، کاری بھی

بچائے گی مگر مجھ کو، کہن سالی مرے دل کی

 

ابھی تو صورتِ مجنوں سرِ صحرا بھٹکتا ہے

تم آؤ گے تو لوٹ آئے گی خوش حالی مرے دل کی

 

دلِ پر خوں ابھی تک ورطۂ حیرت میں گم سُم ہے

کچھ اس انداز سے کاٹی گئی جالی مرے دل کی

 

یہ رمزوں اور کنایوں میں کبھی ظاہر نہ ہوتا تھا

مگر تم نے یہ کیسے رمز ہتھیا لی مرے دل کی

 

یہ عشق و آگہی کم بخت بھی اک مستقل شے ہے

بہت بوجھل سی رہتی ہے سبک سالی میرے دل کی

 

ابھی تو سانس چلتی ہے، یہ آنکھیں نَم بھی رہتی ہیں

اب آگے کیا دکھائے گی زبوں حالی مرے دل کی

 

یہ ضربِ درہم و دینار کی ہے کار فرمائی

کئی نسلوں کے دل تک جائے گی لالی ،میرے دل کی

٭٭

جدید ادب، جرمنی، مئی جون ۲۰۱۰ء، مدیر: حیدر قریشی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے