تماشا ۔۔۔ منشا یاد

 

اندھیرے کا طویل سفر طے کرنے کے بعد وہ سورج طلوع ہونے تک دریا کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔

کنارے پر جگہ جگہ ادھ کھائی اور مری ہوئی مچھلیاں بکھری پڑی ہیں۔ چھوٹا کہتا ہے۔

’’یہ لدھروں کی کارستانی لگتی ہے ابا۔‘‘

’’ہاں پتر۔‘‘ بڑا کہتا ہے۔ ’’یہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ مچھلیاں مار مار کر جمع کرتے رہتے ہیں مگر کھاتے وقت آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور شکار کو خراب اور ایک دوسرے کو لہولہان کر دیتے ہیں۔‘‘

’’یہ اتنی ساری مچھلیاں!‘‘ چھوٹا کہتا ہے۔ ’’ایک رات میں اتنی مچھلیاں مارتے ہیں۔۔۔ تو دریا مچھلیوں سے خالی نہ ہو جائے گا؟‘‘

’’اگر لدھروں کی تعداد بڑھتی رہی تو ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘

وہ سامان رکھ کر کنارے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس پار دیکھتے ہیں۔ بستی۔۔۔ جہاں انہیں پہنچنا ہے اس کی مسجد کے مینار صاف نظر آتے ہیں مگر اس تک پہنچنے کے لئے پل ہے نہ کشتی۔۔۔ وہ پریشان ہو کر دریا کی طرف دیکھتے ہیں۔ دریا ہر جگہ سے ایک جیسا گہرا اور چوڑا ہے۔ بڑا کچھ دیر تامل کرتا ہے پھر کہتا ہے:

’’اللہ کا نام لے کر ٹھل پڑتے ہیں پتر۔‘‘

’’جیسے تمہاری مرضی ابا۔‘‘

’’اگر ڈوب گئے تو‘‘

’’تو آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔‘‘

’’تو کافی ہوشیار ہو گیا ہے جمورے‘‘ بڑا ہنستے ہوئے کہتا ہے۔

’’تمہارا چیلا جو ہوا ابا۔‘‘

’’ضرور ٹھل پڑتے پتر۔‘‘ بڑا کچھ دیر سوچنے کے بعد کہتا ہے۔ ’’مگر مجھے رات والا خواب یاد آ رہا ہے۔‘‘

’’کیسا خواب۔۔۔ ابا؟‘‘

’’بہت ڈراؤنا خواب تھا پتر۔‘‘

’’کیا دیکھا تھا ابا؟‘‘

’’میں نے دیکھا جمورے کہ بہت بڑا مجمع ہے۔ میں تماشائیوں کے درمیان کوڈیوں والے کو گلے میں ڈالے کھڑا ہوں۔ بچے تالیاں بجاتے اور بڑے زمین پر بچھی چادر پر سکے پھینک رہے ہیں کہ اچانک کوڈیوں والا جسے میں نے تمہاری طرح لاڈ پیار سے پالا ہے، میری گردن میں دانت گاڑ دیتا اور اپنا زہر انڈیل دیتا ہے۔‘‘

’’پھر کیا ہوا ابا؟‘‘

’’پھر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے لوگوں کے چہرے دھندلا جاتے اور آوازیں ڈوب جاتی ہیں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں موت ایسی نیند کے اندھے کنوئیں میں نیچے ہی نیچے گرتا چلا جا رہا ہوں۔ ڈوبتے ڈوبتے رہی سہی طاقت جمع کر کے چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکی میں آواز کا تیر پھینکتا اور تمہیں پکارتا ہوں۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’پھر میں اپنی ہی چیخ کی آواز سن کر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آدھی رات کا وقت ہے۔ چاند ڈوب چکا ہے۔ کتے رو رہے ہیں اور اوس سے بوجھل ہوا اداس اداس پھر رہی ہے۔‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’پھر میں نے دیکھا کہ تم ٹھنڈ کی وجہ سے سمٹے ہوئے ہو۔ میں نے تمہارے اوپر چادر ڈال دی جیسے اکھاڑے میں تمہارے گلے پر چھری چلانے اور تمہیں دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ڈالا کرتا ہوں۔ مگر رات کے اس اداس پہر میں مجھے اپنا چادر ڈالنے کا یہ انداز بہت ہی نحس معلوم ہوا اور نیند اڑ گئی۔‘‘

’’بس!۔‘‘ چھوٹا کہتا ہے۔ ’’اس سے تم نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ ہمیں دریا میں نہیں اترنا چاہیے۔‘‘

’’ہاں پتر۔ آج کا دن ہمارے لئے اچھا نہیں ہے۔‘‘

وہ ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ جاتا اور سستانے لگتا ہے۔ چھوٹا ابھی تک تازہ دم ہے۔ دوڑ دوڑ کر ٹیلوں پر چڑھتا اترتا ہے اور اچانک پکارتا ہے۔

’’ابا پل۔۔۔ مجھے پل دکھائی دے رہا ہے۔ زیادہ دور نہیں ہے۔‘‘

’’پل کا نام سن کر بڑے کے بوڑھے جسم میں زندگی کی تازہ لہر دوڑ جاتی ہے وہ اٹھ کر بھاگتا ہوا ٹیلے پر آتا ہے اور اس طرف کو دیکھتا ہے جدھر پانی بہتا ہے۔ پھر خوش ہو کر کہتا ہے۔ ’’ہاں پل زیادہ دور نہیں۔۔۔ مگر راستہ دشوار گزار ہے۔‘‘

’’کوئی بات نہیں ابا۔‘‘

دونوں اپنا اپنا سامان اٹھا لیتے اور دریا کے ساتھ ساتھ چلنے لگتے ہیں۔ راستہ مشکل ہے۔ بہت سے نشیب و فراز۔ ٹیلے اور کھائیاں۔ ندی نالے۔ گھنا جنگل۔ خاردار جھاڑیاں اور پاؤں لہولہان کر دینے والی دوب۔۔۔ مگر وہ چلتے رہتے ہیں۔ چلتے رہتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ساتھ دوسرے کنارے پر بستی کی مسجد کے اونچے مینار بھی چلتے رہتے ہیں۔ چلتے چلتے وہ تھک جاتے ہیں۔ صبح سے دوپہر ہو جاتی ہے مگر پل اب بھی اتنا ہی دور نظر آتا ہے جتنا اس وقت نظر آتا تھا جب وہ چلے تھے۔ بڑا کہتا ہے۔

’’عجیب بات ہے جمورے۔۔۔ پل آگے ہی آگے چلتا جاتا ہے۔‘‘

’’اور بستی بھی ابا‘‘ چھوٹا کہتا ہے۔ ’’مینار ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘

’’عجیب بات ہے جمورے۔‘‘

’’بہت ہی عجیب ابا۔‘‘

’’یہ کوئی اسرار ہے پتر۔‘‘

’’میرا خیال ہے ابا‘‘ چھوٹا کہتا ہے۔ ’’ہم ہر روز لوگوں سے مخول کرتے ہیں آج ہمارے ساتھ مخول ہو رہا ہے۔‘‘

’’اللہ خیر کرے۔‘‘

چلتے چلتے دوپہر ڈھلنے لگتی ہے۔ وہ چل چل کر نڈھال ہو جاتے ہیں۔ دریا کا گدلا پانی پی پی کر ان کے ہونٹوں پر پپڑیاں جم جاتی ہیں خاردار جھاڑیوں سے الجھ الجھ کر لباس تار تار ہو جاتا اور پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں۔ مگر پل اور بستی کے مینار اب بھی اتنے ہی فاصلے پر نظر آتے ہیں۔

’’رک جا پتر‘‘ بڑا کہتا ہے۔ ’’اس پار والی بستی تک پہنچنا شاید ہمارے مقدر میں نہیں ہے ہم اس آگے ہی آگے چلتے ہوئے پل تک کبھی نہ پہنچ پائیں گے۔‘‘

’’پھر کیا کریں ابا؟‘‘

’’واپس چلتے ہیں پتر؟‘‘

’’نہیں ابا۔ واپس جا کر کیا کریں گے۔ ہماری منزل تو اس پار کی بستی ہے اور پھر ابا۔۔۔ واپس پلٹ جانا مردوں کا کام نہیں ہے۔‘‘

’’ہاں پتر۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ ہماری تو زنانیاں بھی دریا کی بپھری ہوئی لہروں سے نہیں ڈرتیں۔۔۔ کچے گھڑوں پر ٹھل پڑتی ہیں۔‘‘

’’واہ ابا۔۔۔ کیا بات کہی ہے۔۔۔ چلو ٹھل پڑتے ہیں۔‘‘

’’نہیں پتر۔۔۔ تم تھک جاؤ گے۔۔۔ اور پھر ہمارے پاس سامان ہے۔‘‘

’’تم میری فکر نہ کرو ابا۔۔۔ اور سامان کا کیا ہے وہاں جا کر نیا بنا لیں گے۔‘‘

بڑا کوئی جواب نہیں دیتا۔ سامان نیچے رکھ کر دریا کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ پھر گانے لگتا ہے:

’’نیں وی ڈوہنگھی تلہ پرانا شینھاں تاں پتن ملے۔‘‘

(ندی گہری اور کشتی پرانی ہے اور گھاٹ پر شیروں کا پہرا ہے)

چھوٹا لقمہ دیتا ہے۔ ’’میں وی جانا جھوک رانجھن دی نال میرے کوئی چلے۔‘‘

(مجھے بھی محبوب کی بستی پہنچنا ہے، کون میرے ساتھ چلے گا)

اچانک کتوں کے بھونکنے اور مویشیوں کے ڈکرانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

’’یہ آوازیں؟‘‘ چھوٹا کہتا ہے۔ ’’اس جنگل بیابان میں؟‘‘

’’میرا خیال ہے یہاں قریب ہی کوئی آبادی ہے کوئی دوسری بستی۔‘‘

’’ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

’’پتر کیوں نہ آج کی رات یہیں اس بستی میں گزار لیں۔ صبح سویرے تازہ دم ہو کر چلیں گے۔‘‘

’’جیسے تمہاری مرضی ابا۔‘‘

بڑا کچھ دیر سوچتا رہتا ہے پھر آوازوں کے تعاقب میں چلنے لگتا ہے چھوٹا پلٹ پلٹ کر دریا کے اس پار والی بستی کی طرف دیکھتا اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ دریا کا کنارا لحظہ لحظہ دور ہوتا جاتا ہے اور وہ چھوٹی سی ایک بستی کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔

اچانک بڑا ٹھٹک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور بیری کے درخت کی طرف دیکھ کر کہتا ہے۔ ’’یہ کیا تماشا ہے جموریا۔‘‘

جمورا بیری کی طرف دیکھتا ہے۔ زمین سے مٹی کا ڈھیلا اٹھا کر مارتا ہے پھر زمین سے بیر اٹھا کر چکھتا اور تھوک دیتا ہے۔

’’تمہارا شک ٹھیک ہے ابا۔۔۔ دھرکونے (نبولیاں) ہی ہیں کڑوے زہر‘‘

’’رب خیر کرے۔ بیری کے ساتھ دھرکونے۔‘‘ بڑا کہتا ہے۔ ’’کوئی اسرار ہے پتر۔‘‘

چھوٹا کوئی جواب نہیں دیتا۔ آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتا رہتا ہے۔ بڑا پوچھتا ہے۔

’’کیا دیکھ رہے ہو پتر ابابیلیں ہیں‘‘

’’ہاں ابا۔۔۔ پورا لشکر ہے۔‘‘

’’دانہ دنکا ڈھونڈھ رہی ہوں گی پتر۔‘‘

’’کیا پتہ کچھ اور ڈھونڈھ رہی ہوں ابا۔‘‘

’’اور کیا پتر؟‘‘

’’ہاتھیوں کو ابا۔‘‘

’’نہیں پتر۔۔۔ یہ وہ ابابیلیں نہیں ہیں۔ یہ تو ہاتھیوں پر بیٹھ کر چہچہانے اور چوگ بدلنے والی ابابیلیں ہیں۔‘‘

’’یہاں سے نکل چلیں ابا۔۔۔ یہ ٹھیک جگہ نہیں ہے۔‘‘

’’رب خیر کرے گا پتر۔‘‘ بڑا کہتا ہے۔ ’’کچھ دھندا کر لیں۔ رات بسر کر کے صبح سویرے نکل چلیں گے۔‘‘

’’جیسے تمہاری مرضی ابا۔‘‘

بستی میں داخل ہوتے ہی وہ ایک کھلی جگہ پر سامان رکھ کر آس پاس کا جائزہ لیتے ہیں۔ پھر چھوٹا زمین پر چادر بچھا کر اس کے ایک کونے پر بیٹھ جاتا ہے اور بڑا بانسری اور ڈگڈگی نکال کر بجانے لگتا ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے بچے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ دونوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔ بڑا چھوٹے کی طرف دیکھ کر سر ہلاتا ہے جیسے کہہ رہا ہو۔

اب رات بسر کرنے کا اچھا بندوبست ہو جائے گا۔

بڑا بانسری اور ڈگڈگی بجاتا رہتا ہے، جب تھک جاتا ہے تو کہتا ہے۔

’’پتر جموریا۔۔۔ یہ بستی بھی عجیب ہے۔ ڈگڈگی بجاتے بجاتے میرا بازو شل ہو گیا ہے اور بانسری میں پھونکیں مارتے مارتے میرا اندر سکھناں (خالی) ہو گیا ہے مگر ابھی تک کسی بالغ مرد یا عورت نے جس کے کھیسے میں پیسے ہوں ادھر کا رخ نہیں کیا۔‘‘

’’کیا پتہ ابا۔‘‘ چھوٹا کہتا ہے۔ ’’یہاں کے لوگ بہرے ہوں یا انہوں نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہو۔‘‘

’’وہ کیوں پتر۔‘‘

’’وہ اس لئے ابا۔۔۔ کہ جب بندہ کبھی بھی خیر کی خبر نہ سنے تو آہستہ آہستہ اس کا دل اکا سننے ہی سے اچاٹ ہو جاتا ہے۔‘‘

’’واہ جمورے تو نے سبق خوب پکایا ہوا ہے، اچھا یہ بتا تجھے کیسے پتہ چلا کہ ان لوگوں نے کبھی خیر کی خبر نہیں سنی۔‘‘

’’میں نے ان نیانوں (کم سنوں) کی صورتوں سے اندازہ لگایا ہے ابا۔‘‘

’’تو بہت ہوشیار ہو گیا ہے جمورے۔‘‘

’’تمہارا چیلا جو ہوا ابا۔‘‘

’’واقعی پتر۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سارے یتیم ہیں۔‘‘

’’مجھے تو ایسا لگتا ہے ابا جیسے انہوں نے اپنے باپوں کو شہر بدر کر دیا ہوا ہے۔‘‘

’’شاید ہم غلط جگہ آ گئے ہیں۔‘‘

’’ہاں ابا۔‘‘

’’دیکھ نا پتر۔۔۔ ساری بستی میں کوئی ایک بھی بالغ مرد عورت نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ سب بھی ہماری طرح دوسری بستیوں میں تماشا دکھانے گئے ہوں گے۔‘‘

’’پھر تو ان کی واپسی کا انتظار ضرور کرنا چاہئے ابا۔‘‘

’’کیوں پتر۔‘‘

’’یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ بڑے مداری ہیں یا تم؟‘‘

’’نہیں جموریا مجھے ان بچوں سے خوف آنے لگا ہے۔ عجیب سے بچے ّہیں۔‘‘

’’تو پھر یہاں سے چلتے ہیں ابا۔‘‘

’’ہاں پتر۔۔۔ چلے جانا ہی اچھا ہے مگر تو ذرا ان چھوٹوں سے یہ تو پوچھ ان کے بڑے کہاں ہیں؟‘‘

’’ہم خود بڑے ہیں۔‘‘ مجمع میں سے ایک بچے کی آواز آتی ہے۔ ’’کیا ہم تمہیں چھوٹے نظر آتے ہیں؟‘‘

بڑا اور چھوٹا چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور ابھی اپنی حیرت پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ چھوٹی عمر کا ایک اور بچہ نہایت پختہ لہجے میں کہتا ہے۔

’’منشی ٹھیک کہتا ہے۔۔۔ تم لوگ جلدی جلدی کھیل دکھاؤ اور اپنی راہ لو۔۔۔ ہم ایسے لوگوں کو جو خود کو ہم سے بڑا سمجھتے ہوں بستی میں زیادہ دیر رکنے کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘

’’تو کیا اس بستی میں پورے قد کا کوئی آدمی نہیں رہتا۔‘‘

’’ہم رہنے ہی نہیں دیتے۔۔۔‘‘ ایک بچہ ہنس کر کہتا ہے۔ ’’ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔‘‘

’’تو یہ بستی؟‘‘ بڑا ہکلا جاتا ہے۔

’’ہاں یہ بستی۔۔۔ یہ ہماری بستی ہے اور میں یہاں کا سردار ہوں۔ لیکن تم وقت ضائع نہ کرو۔ اگر تم نے کوئی اچھا کرتب دکھایا تو ہم تمہیں ضرور انعام دیں گے۔۔۔ چلو تماشا دکھاؤ۔‘‘

’’ابھی تو ہم خود دیکھ رہے ہیں۔‘‘ چھوٹا کہتا ہے۔

’’تمیز سے بات کرو لڑکے۔‘‘ سردار غصے سے کہتا ہے۔ ’’ورنہ!‘‘

’’ارے۔‘‘ چھوٹا ہنستا ہے۔ ’’تم تو واقعی سردار کے بیٹے لگتے ہو۔‘‘

’’سردار کا بیٹا نہیں۔۔۔ میں خود سردار ہوں۔‘‘

’’ہاں ہاں۔۔۔ یہ سردار ہے۔‘‘ بہت سی آوازیں آتی ہیں۔ چھوٹا ہنستا چلا جاتا ہے پھر بڑے کے قریب آ کر کہتا ہے۔

’’میرا خیال ہے ہم بونوں کی بستی میں آ گئے ہیں۔‘‘

’’مداری۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے۔‘‘ سردار چلا کر کہتا ہے۔ ’’یہ ہمیں بونے کہتا ہے اس بدتمیز بچے کو چپ کراؤ، ورنہ بستی سے نکل جاؤ۔‘‘

بڑا ششدر کھڑا چاروں طرف دیکھتا ہے۔ پھرآہستہ سے کہتا ہے۔

’’جمورے چپ ہو جا۔۔۔ یہ کوئی اسرار ہے۔‘‘

’’کیا اسرار ہے ابا۔۔۔ یہ بچے۔‘‘

’’یہ بچے نہیں ہیں پتر۔‘‘ بڑا اس کی بات کاٹ کر کہتا ہے۔

’’پھر کیا ہیں ابا؟‘‘

’’غور سے دیکھ جمورے۔۔۔ ان کے بال سفید ہیں اور ان کے چہروں پر جھریاں ہیں ان کی عمریں زیادہ ہو گئی ہیں مگر ان کے ذہن نابالغ رہ گئے ہیں۔ یہ نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘‘

’’عجیب بات ہے۔‘‘

’’بہت ہی عجیب پتر۔۔۔ رب خیر کرے۔‘‘

اچانک چند بچے بہت سی چارپائیاں اور مونڈھے اٹھائے آتے ہیں اور سردار بچے سمیت بہت سے دوسرے تماشائی بچے ان چارپائیوں اور مونڈھوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سردار تحکمانہ لہجے میں کہتا ہے۔

’’کھیل شروع کیا جائے۔‘‘

بڑا پریشان ہو کر تماشائیوں پر ایک نظر ڈالتا ہے۔ پھر تھیلے میں سے چیزیں نکالنے لگ جاتا ہے۔

سب سے پہلے وہ تین گولے نکال کر زمین پر رکھتا ہے پھر انہیں تین پیالوں سے ڈھانپ دیتا ہے۔ کچھ پڑھ کر پھونک مارتا اور باری باری سارے پیالے اٹھا کر دکھاتا ہے۔ گولے غائب ہو چکے ہیں۔

وہ تماشائیوں کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھتا ہے مگر وہ تالیاں نہیں بجاتے، داد نہیں دیتے، چپ چاپ کھڑے رہتے ہیں۔

پھر وہ پیالوں کو اوندھا کر کے باری باری اوپر اٹھاتا ہے اب ہر پیالے کے نیچے ایک ایک گولہ دکھائی دیتا ہے وہ دوبارہ سردار اور دوسرے تماشائیوں کی طرف دیکھتا ہے مگر وہ اب بھی خاموش رہتے ہیں۔

پھر وہ جیب سے ایک روپے کا سکہ نکالتا ہے ایک کے دو اور دو کے چار بناتا ہے اور کہتا ہے:

’’مہربان۔۔۔ قدردان۔۔۔ میں جادوگر نہیں ہوں۔ یہ محض ہاتھ کی صفائی ہے جادوگر ہوتا تو یہاں نہ ہوتا گھر میں بیٹھا سکے بنا رہا ہوتا۔‘‘

’’ہمیں معلوم ہے تم کھیل دکھاؤ۔‘‘ سردار اسے ٹوکتا ہے۔

’’تو پھر تم خود ہی میدان میں آ جاؤ۔‘‘ جمورا طنز کرتا ہے۔

’’مداری۔۔۔ یہ لڑکا!‘‘ سردار غضب ناک ہو جاتا ہے۔

’’میں معافی چاہتا ہوں سردار۔‘‘ بڑا کہتا ہے اور اشارے سے جمورے کو خاموش رہنے کی تلقین کرتا ہے اور باری باری بہت سے کھیل دکھاتا ہے۔ خالی گلاس پانی سے بھر جاتا ہے اور بھرا ہوا گلاس اوندھا کرنے سے پانی نہیں گرتا۔

مٹھی میں بند کر کے نکالنے سے رو مال کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔ جلتا ہوا سگریٹ نگل کر کانوں کی طرف سے دھواں نکالتا ہے۔ کوڈیوں والے سے ڈسواتا اور اسے گردن میں ڈال لیتا ہے۔ منہ کے راستے پیٹ میں خنجر اتار کر نکال لیتا ہے۔

مگر سردار سمیت کوئی تماشائی تالی نہیں بجاتا داد نہیں دیتا۔ وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ پھر اعلان کرتا ہے۔

’’اب آخر میں میں جمورے کے گلے پر چھری چلاؤں گا اور اسے ذبح کر کے دوبارہ زندہ کر دکھاؤں گا۔‘‘

سردار سمیت سارے تماشائی زور زور سے تالیاں پیٹتے ہیں۔ وہ بے حد حیران ہوتا ہے۔ عام طور پر تماشے کے آخر میں جب وہ اس کھیل کا اعلان کیا کرتا ہے تو بہت سے تماشائی اس کھیل کو ناپسند کرتے اور اسے منع کر دیتے ہیں۔ مگر پتا نہیں یہ کیسے سفاک تماشائی ہیں کہ چھری چلانے کی بات سن کر تالیاں پیٹنے لگے ہیں۔

وہ جمورے کو زمین پر لٹاتا ہے اس کے اوپر اسی طرح چادر ڈالتا ہے۔ جیسے ہمیشہ ڈالا کرتا ہے۔ پھر تھیلے میں سے چھری نکال کر اس کی دھار پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہے:

’’صاحبان۔۔۔ قدر دان۔۔۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری نہیں چلا سکتا۔۔۔ نہ ہی اللہ کے پیغمبروں کے سوا کسی میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہو سکتا ہے۔۔۔ یہ سب کچھ ایک کھیل ہے۔۔۔ نظر کا دھوکہ۔۔۔ اس پاپی پیٹ کی خاطر۔‘‘

’’ہمیں معلوم ہے۔‘‘

’’ہم جانتے ہیں۔‘‘

’’باتوں میں وقت ضائع نہ کرو۔‘‘ سردار کہتا ہے۔

’’چھری چلاؤ۔۔۔‘‘ ایک طرف سے آواز آتی ہے۔

’’چھری چلاؤ۔۔۔ چھری چلاؤ۔‘‘ تماشائی شور مچاتے ہیں۔

وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتا اور جمورے کے قریب آ کر چھری چلاتا ہے۔

تماشائی زور زور سے تالیاں پیٹتے اور سیٹیاں بجاتے ہیں، سکے پھینکتے اور بکرے بلاتے ہیں اور جمورے کے دوبارہ زندہ ہونے کا کھیل دیکھے بغیر کھسکنے لگتے ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے سارا پڑ خالی ہو جاتا ہے۔

وہ جمورے کو آواز دیتا ہے۔ ’’اٹھ پتر۔۔۔ پیسے جمع کر۔‘‘

مگر جمورا کوئی جواب نہیں دیتا۔

وہ گھبرا کر چادر ہٹاتا ہے۔ کیا دیکھتا ہے کہ جمورا خون میں لت پت ہے اور اس کی گردن سچ مچ کٹی پڑی ہے۔ اس کی چیخیں ساری بستی میں گونجنے لگتی ہیں۔

٭٭

ادب ساز، دہلی، شمارہ ۲، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء، مدیر: نصرت ظہیر

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے