اختر الایمان ۔۔۔ شمس الرحمٰن فاروقی

 

اختر الایمان کی زندگی کا بڑا حصہ اگر ناقدری میں نہیں تو نقادوں کی توجہ کے فُقدان میں گذرا۔ سنہ 1940 اور اس کے آس پاس کے تمام نوجوانوں کی طرح اختر الایمان بھی شروع میں ترقی پسند، یا یوں کہیں کہ ترقی پسندوں کے ساتھ تھے۔ اس زمانے کی نظموں میں بھی اختر الایمان کے یہاں ’سماجی شعور‘، ’طبقاتی کشمکش‘ یا ’انقلاب‘ وغیرہ کا بہت ذکر نہیں ملتا لیکن جلد ہی انھوں نے محسوس کر لیا کہ ان کا مزاج، یا شاعری ہی کا مزاج، اس طرح کے پروگرام زدہ اندازِ سخن کو نہیں قبول کرتا۔ فیض کو وہ بہت پسند کرتے تھے، لیکن راشد کا اثر ان کے یہاں زیادہ تھا (اگرچہ انھیں راشد کے یہاں ایک طرح کی ’بلند آہنگی‘ انھیں پسند نہ تھی، کیوں کہ خود ان کے کلام میں تقریباً شروع سے گفتگو اور خود کلامی کا رنگ نمایاں تھا۔) پھر، فیض کے مقابلے میں راشد اور میرا جی کے وہ زیادہ قائل تھے۔

بیدار بخت نے ’باقیاتِ اختر الایمان‘ کے نام سے اختر الایمان کی نثر و نظم کے بہت سارے بھولے بسرے نمونے شائع کر دئیے ہیں۔ ان میں ڈائری کے کئی ورق بھی ہیں۔ یہ ڈائری انھوں نے بہت کم لکھی اور اکثر اندراجات کے درمیان کئی کئی برس کا وقفہ ہے۔ زیادہ تر ذاتی اور فلم اسٹاروں کی باتیں ہیں، لیکن کہیں اختر الایمان شاعر بھی جھلک اٹھتا ہے۔ فیض کے بارے میں اوکتاویو پاز (Octavio Paz) کے حوالے سے ایک بات اختر الایمان نے اپنی ڈائری کے اندراج مورخہ ۱۱ نومبر 1968 میں لکھی ہے اور فیض کی شاعری پر خود بھی بڑے نکتے کی باتیں لکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

’’[شام لال کے گھر ایک ملاقات کے دوران] آکٹیویو پاز۔۔۔ نے کہا کہ فیض کی شاعری اٹھارویں صدی [کی] شاعری معلوم ہوتی ہے، جو کہ ہے بھی۔ فیض کے لوازماتِ شاعری تمام غزل کے ہیں اور لب و لہجہ حافظ کا ہے۔ چونکہ غزل کی شاعری بہت جلد سمجھ میں آ جاتی ہے، ایک تو اس وجہ سے، دوسرے انداز ہے بھی شگفتہ اور رومانی‘‘۔

اختر الایمان بہت جلد ہی ترقی پسند تصوراتِ ادب سے دور ہو گئے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا کہ وہ اپنے زمانے کی تمام مروج شاعری سے نالاں ہو گئے۔ 6 مارچ 1946 کے اندراج میں یہ عبارت بھی ہے:

’’گھر آن کر کچھ دیر ’ساقی‘ پڑھتا رہا۔ پرچے میں جو نظمیں نظر سے گذریں، سب کی سب لچر تھیں۔ یہ ہماری شاعری کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ دماغی اعتبار سے سب کھوکھلے معلوم ہوتے ہیں‘‘۔

اختر الایمان کو اس بات کا احساس تھا کہ ادب سے جو تقاضا وہ کرتے ہیں وہ دوسروں کی توقعات اور ادب سے دوسروں کے تقاضے سے بالکل مختلف ہیں۔ ہمارے یہاں کے ترقی پسند نظریہ ساز ہر چند کہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ’ادبیت‘ کو ’مقصدیت‘ پر قربان نہ کیا جائے، لیکن ’ادبیت‘ اور ’مقصدیت‘ میں وہ خوشگوار توازن کیوں کر پیدا ہو کہ بہترین نتائج پیدا ہوں، اس باب میں ان کا کوئی مشورہ، کوئی نسخہ نہ تھا۔ ادھر اختر الایمان کو شروع سے تلاش تھی کہ شاعر کو اپنی بات کہنے کے لیے پورا اور کھلا ہوا میدان ملنا چاہیے۔ وہ غزل کے مخالف تھے اور تمام عمر غزل کے مخالف رہے اور اس کے وجوہ بھی انھوں نے اکثر بیان کیے۔ لیکن ان کے تمام دلائل کی تہ میں بات یہی تھی کہ غزل کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کی بنا پر غزل کے شاعر کو اپنی بات پوری طرح، اور اپنے داخلی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ نہیں بیان کر سکتا۔ اوپر ہم ان کا یہ بیان بھی دیکھ چکے ہیں کہ غزل کی شاعری بہت جلد سمجھ میں آ جاتی ہے۔

غزل کے بارے میں اختر الایمان کی رائے سے مجھے اتفاق نہیں، شاید کسی کو بھی نہ ہو گا لیکن ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کو اختر الایمان کے نظریۂ شعر کی روشنی میں رکھ کر دیکھیں۔ پھر ہم یہ سمجھ سکیں گے کہ غزل سے ان کا اختلاف زیادہ تر اس وجہ سے تھا کہ غزل کے مضامین سب مانوس اور جانے پہچانے ہیں، اس لیے جلد سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ شاعر کو اپنی بات کہنے کا موقع کم ملتا ہے۔ غزل کی دوسری کمزوری در اصل اسی سے پیدا ہوتی ہے، کہ اگر بات کو شاعر کے عندیے کے مطابق پوری وسعت دے کر کہا جائے تو وہاں نظم کا سہارا لیے بغیر بات نہیں بن سکتی۔

اختر الایمان اگر ایک نظم کو مکمل کرنے میں مدتِ مدید لگا سکتے اور اسے پھر بھی مسترد کر سکتے تھے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے خیال میں وہ نظم ان تمام باتوں کو اس وسعت کے ساتھ نہیں ادا کر سکی تھی جو ان کا منشا تھا۔ انھیں اس بات کی پروا نہیں تھی کہ وہ جلد از جلد ایسا کلام دنیا کے سامنے پیش کر سکیں جسے قبولِ عام کی سند مل جائے۔ ان کے مزاج میں کچھ بے نیازی تھی تو اس سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔ انھیں اس بات کی فکر نہ تھی کہ کوئی ان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ بیدار بخت سے ان کی ایک گفتگو جو ان کے انتقال کے بعد ’شب خون‘ میں شائع ہوئی، اس لحاظ سے بہت توجہ انگیز ہے کہ اس میں انھوں نے اپنے بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں جنھیں وہ عام طور پر ظاہر کرنا، یا بیان کرنا پسند نہ کرتے تھے۔ (شاید اسی وجہ سے انھوں نے بیدار بخت سے اس کی اشاعت کی مناہی کر دی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد میرے اصرار اور بیگم سلطانہ ایمان کی اجازت سے ’شب خون‘ میں وہ گفتگو شائع ہوئی اور اب ’باقیاتِ اختر الایمان‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔)،ایک جگہ اختر الایمان نے کہا:

’’چالیس پچاس برس تک ادب میں کسی نے میرا نام بھی نہیں لیا۔ میں نے تو کسی کو گالی نہیں دی۔۔۔ ارے بھئی اگر گالی دینی ہوتی تو اس وقت دیتا جب جوان تھا، جب خون زیادہ گرم تھا۔ گالی دینا تو میرے مزاج میں ہے ہی نہیں‘‘۔

یہ محض سلیم الطبعی نہیں، چھچھورے پن سے اجتناب بھی ہے اور اس کی بڑی وجہ خود پر اعتماد ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور میں وہ کام اپنی بساط بھر خوبی سے کر رہا ہوں۔ لوگ جو بھی کہنا چاہیں کہیں۔ یا نہ کہنا چاہیں، نہ کہیں۔ بیدل:

گفتم سخنے لیک پس از کسبِ کمال

خواہی فہمید چوں نہ خواہی فہمید

سنہ 1994 میں ماہنامہ ’آجکل‘ (مدیر محبوب الرحمن فاروقی) کے اختر الایمان نمبر کے لیے ان کا انتخاب تیار کرتے وقت میں نے چند باتیں کہی تھیں۔ انھیں یہاں دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

اختر الایمان کی مدتِ شعر گوئی کو دیکھتے ہوئے ان کا کلام بہت زیادہ نہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اختر الایمان جتنا کہتے ہیں اس سے بہت کم دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ انھوں نے بیدار بخت سے بیان کیا کہ پہلے مجموعے ’گرداب‘ میں صرف تیئیس نظمیں شامل ہیں، حالاں کہ اس وقت ان کے پاس ڈیڑھ سو نظمیں تھیں۔ انھوں نے بیدار بخت سے یہ بھی کہا کہ ’’ایک لڑکا‘‘ کو مکمل کرنے میں انھوں نے اٹھارہ سال لگائے لیکن پھر بھی، ان کا موجودہ کلام اتنا کم بھی نہیں کہ دو تین دن میں اسے بغور پڑھ کراس کا انتخاب تیار کرنا ممکن ہو۔ یہ بات بھی ہے کہ اختر الا یمان کے کلام میں تفکر اور تامل کا عنصر غالب ہونے کے باعث ان کی اکثر نظمیں بار بار پڑھی جانے کا تقاضا کرتی ہیں بلکہ اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اختر الایمان کے بہ ظاہر سرسری، غیر تکلفاتی لہجے سے دھوکا کھا کر ہم ان کی بعض اہم نظموں کو بھی سرسری گذر جانے کے لائق سمجھ لیتے ہیں اور اصل صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ نظم کو رک رک کر، سوچ سوچ کر پڑھیں تو اس میں گہرائیاں دریافت ہوں۔ اختر الایمان کو اکثر یہ شکایت بھی رہی کہ لوگ ان کا کلام توجہ سے نہیں پڑھتے۔ میرا خیال ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اختر الایمان ’’روایتی‘‘،’’شگفتہ‘‘ اور ’’نفیس‘‘ زبان سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ احتراز ان کے عام قاری کو فوری طور پر ان سے برگشتہ کر دیتا ہے۔

ان سب باتوں کی بنا پر اختر الایمان کا انتخاب بنانا مجھے بہت مشکل معلوم ہوا۔ موجودہ انتخاب کے سلسلے میں جگہ کا مسئلہ بھی تھا کہ طویل نظموں کی گنجائش نہ تھی۔ اختر الایمان اگر چہ مختصر نظم میں کمال رکھتے ہیں، لیکن وہ ہمارے زمانے کے ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں جو نسبتاً طویل نظم میں بھی اپنی قوت برقرار رکھتے ہیں۔ (کیوں نہ ہو، جب وہ ایک ہی طویل نظم پر اٹھارہ برس صرف کر سکتے ہیں۔) جگہ کی تنگی کے پیشِ نظر میں نے متوسط طوالت کی صرف دو نظمیں انتخاب میں رکھی ہیں، لہٰذا یہ انتخاب طویل نظموں کی حد تک نامکمل ہے۔ بعض لوگوں کو ’’ایک لڑکا‘‘ کی عدمِ موجودگی شاق گذرے گی لیکن اس نظم کی غیر معمولی شہرت کے پیشِ نظر مجھے یہ بہتر معلوم ہوا کہ اس کی جگہ دو چار مختصر نظمیں شامل کر لی جائیں۔ میرا خیال ہے کہ اکثر لوگوں کو ’’ایک لڑکا‘‘ اگر پوری نہ سہی تو کہیں کہیں سے ضرور یاد ہو گی، جب کہ اس انتخاب میں شامل بعض مختصر نظمیں ان کے حافظے یا نظر میں شاید نہ ہوں۔

اختر الایمان نے ’’سر و سامان‘‘ کے بعد 1990 کے آغاز تک جو کہا ہے وہ ’’زمین زمین‘‘ نامی مجموعے میں شامل ہو چکا ہے۔ یہ مجموعہ ابھی بہت کم لوگوں کی نظر سے گذرا ہو گا لیکن جگہ کی تنگی نے مجھے اس کی صرف تین نظموں پر اکتفا کرنے پر مجبور کیا۔’’زمین زمین‘‘ کے بعد بھی اختر الایمان کا کچھ کلام ادھر ادھر شائع ہوا۔ میں نے متفرق جگہوں پر مطبوعہ کلام کو انتخاب میں نہیں رکھا ہے، ورنہ ’’عزم‘‘ جیسی نظم شاید ضرور شامل ہوتی۔ اگر مزید نظمیں شامل کرنا ممکن ہوتا تو میں ایک متوسط طویل نظم ’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ اس انتخاب میں ضرور رکھتا۔ اس نظم پر 1989 کی تاریخ پڑی ہے، اور لہجے کے حاکمانہ رنگ، آواز کی صلابت، مصرعوں کے در و بست، ان کے توازن، لفظیات میں تکلف یا ’’شاعرانہ زبان‘‘ کے التزام کے بجائے تقریباً شاہانہ بے پروائی، اور معاصر دنیا کی سطحیت، خامی اور خام کاری اور مادہ پرستی پر احتجاج اور برہمی، یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ پچھتر برس کی عمر میں اختر الایمان کی شاعری نہ صرف یہ کہ زوال آمادہ نہیں ہے، بلکہ اس میں نئی قوت کا امکان پیدا ہو رہا ہے۔’’نئی قوت‘‘ سے میری مراد اختر الایمان کے رنگِ کلام میں طنز کے ساتھ، جو پہلے سے موجود رہا ہے، تحقیر کا عنصر شامل ہو رہا ہے۔ ایک طرح کا پیغمبرانہ لہجہ ہے جس میں زمانہ اور ابنائے زمانہ کے کھوکھلے پن سے ہمدردی یا اس پر رنج کے بجائے عدمِ دل چسپی کا دھوکا ہوتا ہے کہ جو ہو رہا ہے، وہ ان لوگوں کی حماقتوں اور خود غرضیوں کا کڑوا پھل ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں وہ پھل کھانے پر مجبور نہیں ہوں۔

اس طرح کی عدمِ تعلقی صرف رشیوں، منیوں اور تارک الدنیا فقیروں کو نصیب ہوتی ہے۔’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ کا آغاز ملاحظہ ہو:

 

کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ و سال سے ناپتے ہیں

گوشت سے، ساگ سے، دال سے ناپتے ہیں

خد و خال سے، گیسوؤں کی مہک، چال سے ناپتے ہیں

صعوبت سے، جنجال سے ناپتے ہیں

یا اپنے اعمال سے ناپتے ہیں

مگر ہم اسے عزمِ پامال سے ناپتے ہیں

 

ایک لمحے کے لیے گمان ہوتا ہے کہ نظم کا بنیادی وزن بحرِ متقارب کے سالم رکن فعولن سے عبارت ہے۔ لیکن کچھ ہی دور چلنے پر پتہ چلتا ہے کہ بنیادی وزن بحر متدارک کا سالم رکن فاعلن ہے۔ بحر کوئی بھی مقرر کی جائے، جگہ جگہ شروع یا آخر میں ایک دو حرف کم یا زیادہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن یہ اختر الایمان کے تسامحات نہیں ہیں، اور نہ عجزِ نظم کا ثبوت ہیں۔ یہ اسی لاپروائی، اسی تحقیر، اسی عدم دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں میں نے جس کا اوپر ذکر کیا۔ دنیا اور دنیا والے اب متکلم کی سطح سے اس قدر نیچے ہیں کہ وہ ان کے چھوٹے موٹے ضوابط کی پروا نہیں کرتا۔ آج کوئی نہیں جو اختر الایمان کی طرح کثیر الصوت لہجے میں نظم شروع کر سکے۔ مندرجۂ بالا اقتباس کا ہر مصرع مختلف انداز رکھتا ہے۔ ہر مصرعے میں طنز اور ہمدردی مختلف تناسب سے ملائے گئے ہیں۔ آخری مصرعے میں طنز کے اوپر تلخی اور تلخی کے اوپر المیہ وقار حاوی آ گئے ہیں۔ مجموعی تاثر بیان کنندہ یا متکلم کے دل میں موجزن تحقیر کی لہر کا ہے۔ دوسرے مصرعے کا غیر تکلفاتی انداز، استعارے اور پیکر کا غیر متوقع گہرا رنگ، طنز پر تحقیر کی بالا دستی، ان سب چیزوں نے ان مصرعوں کے بہ ظاہر سپاٹ بیان کو اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا ہے۔

’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ اور اس نوع کی دوسری نظمیں اختر الایمان کی غیر معمولی انفرادیت کی دلیل ہیں۔ ان نظموں کی پہلی قوت اس بات میں ہے کہ ان سے وہ نتیجے نہیں نکل سکتے جو متوقع، رسم بند اور سیدھی لکیر والے طریقِ کار کو کام میں لانے والی نظموں سے نکالے جا سکتے ہیں، یا نکل سکتے ہیں۔ فیض صاحب کی اکثر نظمیں اس طریق کار کی مثال ہیں۔ اختر الایمان ہمیں چونکانے کی خاطر نظم نہیں کہتے، اور نہ وہ روز مرہ قسم کی ’’تحیّر خیزی‘‘ کو کام میں لاتے ہیں۔ ہر نظم میں ان کی فکر مختلف پیچ و خم سے گذرتی ہے اور قاری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ہر موڑ پر ٹھہر کر سوچے کہ اسے اس نظم کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا ہے۔ مثلاً ’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘ جو نظم کے شروع میں زندگی کو عزمِ پامال سے ناپنے کی بات کر رہا تھا، تھوڑی دیر میں کچھ اور کہتا ہوا سنائی دیتا ہے:

میں اس زندگی کی بہت سی بہاریں غذا کی طرح کھا چکا ہوں

پہن اوڑھ کر پیرہن کی طرح پھاڑ دی ہیں

اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اگر یہ بیان صحیح ہے تو شروع والے بیان کو کیا قیمت دی جائے؟ یا ایسا تو نہیں کہ دو الگ الگ لوگ ہیں اور الگ الگ بات کہہ رہے ہیں؟ نظم کے مختلف حصوں میں الگ الگ لہجے سنائی دیتے ہیں، لیکن بولنے والا شاید ایک ہی ہے۔ یا ایسا ہے کہ بولنے والا شاعر خود ہے اور وہ اپنے مختلف تجربات اور کیفیات کو اپنے اوپر منطبق کر کے ڈرامائی کردار کی طرح ہم سے (یا اپنے آپ سے؟ ) گفتگو کر رہا ہے۔ نظم ختم ہوتے ہوتے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا ہی اس کی متکلم ہے، نظم کا لہجہ جس تحقیر، عدمِ تعلق، اور دوری سے عبارت ہے، اس کا ہدف ہم سب ہیں۔ ہم سب اپاہج گاڑی کے آدمی ہیں۔ لیکن ایک فرق بھی ہے، اب شاعر/ متکلم ہمیں یہ بھی جتاتا ہے کہ یہ دوری اور بے تعلقی در اصل نظامِ حیات کے چلانے والوں، یعنی کائنات کے کارکنانِ قضا و قدر میں اور متکلم/شاعر میں مشترک ہے۔ پھر اچانک یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مشینی طور پر، یا نباتات کی سطح پر زندہ رہنے کا یہ احساس کسی المیہ کیفیت کا آئینہ دار ہے، محض احتجاج کا نہیں۔ نظم کے آخری مصرعے ہیں:

 

ہم بھی کیوں نہ خدا کی طرح یوں ہی چپ سادھ لیں

پیڑ پودوں کی مانند جیتے رہیں

ذبح ہوتے رہیں!

وہ دعائیں جو بارود کی بو میں بس کر

بھٹکتی ہوئی زیرِ عرش بریں پھر رہی ہیں

انھیں بھول جائیں

زندگی کو خدا کی عطا جان کر ذہن ماؤف کر لیں

یاوہ گوئی میں یا ذہنی ہذیان میں خود کو مصروف کر لیں

ان میں مل جائیں جو زندگی کو

گوشت سے، ساگ سے، دال سے ناپتے ہیں

مہ و سال سے ناپتے ہیں

اپنا ہی خون پینے لگے ہیں

چاک دامانیاں غم سے سینے لگے ہیں

 

لہجے کی ان پیچیدگیوں اور نظم کے ان غیر متوقع الجھاووں میں نظم سازی کی طرز گذاریاں یعنی Strategies بھی شامل ہیں۔ یعنی یہ سب یوں ہی نہیں ہو گیا بلکہ شاعر کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ نظم کو جتنی سطحوں پر تکلم میں لایا جا سکے، اتنا ہی اچھا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ نظم چکنی اور براہِ راست نہ ہو، بلکہ کھردری، بالواسطہ اور تہ دار ہو۔

یہ تو کوئی کہنے کی بات نہیں ہے کہ اختر الایمان کی شاعری غور اور فکر کی طلب گار ہے لیکن یہ بات ضرور کہنے کی ہے کہ بعض نقادانِ سخن نے بھی ان سے شکوہ کیا کہ آپ کی نظمیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہ بات انھوں نے اس انٹرویو میں بھی کہی ہے جو ’شب خون‘ میں 1998 میں شائع ہوا لیکن کیا یہ بات ہمارے تنقیدی شعور اور ہمارے طرزِ قرأت کے لیے افسوس کی بات نہیں کہ ہم شاعر سے شکایت کریں کہ آپ کی نظم سمجھ میں نہیں آتی، لیکن ہم خود اس کی نظموں پر غور سے گریز کریں؟ بعض حالات میں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اختر الایمان کا کلام راشد اور میرا جی سے بھی زیادہ غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہے۔

’سوغات‘ کے جدید نظم نمبر میں اختر الایمان کی کچھ نظموں پر تجزیہ شائع کیا گیا تھا۔ اس نمبر میں شامل تمام نظموں کی طرح ان نظموں کے شاعر کا نام تجزیہ نگار سے مخفی رکھا گیا تھا۔ ایک سیدھی سادی نظم ’نیا شہر‘ کے بارے میں تجزیہ نگار نے تین باتیں کہیں۔ اول تو یہ کہ نظم کا ’خیال تو عمدہ ہے‘ لیکن شاعر نے ’نظم کے اسلوب (Diction) کی طرف پوری توجہ نہیں دی ہے‘، اور ’بعض اشعار تو صحافتی انداز کے حامل ہیں۔‘ تجزیہ نگار کے خیال میں ’نظم کا مرکزی نکتہ یہ ہے فرد اپنے گھراورسماج کے بندھنوں میں جکڑا ہوا ہے۔۔۔ [وہ] آزاد منش آدم ہے جو۔۔۔ ہر قسم کے بندھنوں اور رشتوں کو پرے پھینک دینا چاہتا ہے۔‘ تجزیہ نگار نے نظم کا بنیادی خیال ہی نہیں سمجھا، اور نہ اس بات پر غور کیا کہ شاعر کا ’اسلوب‘ پہلے ہی مصرعے سے کھردرا، بیانیہ اور ڈرامائی ہے۔ اس نے ’شعریت‘ سے بالقصد اجتناب کیا ہے، اس حد تک، کہ پہلی قرأت میں یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ نظم پابند ہے اور مقفّیٰ ہے۔

اس نظم کے تجزیہ نگار کی شہرت شاعر کی حیثیت سے بھی بہت تھی، لیکن معلوم ہوتا ہے یہاں انھوں نے اپنی تنقیدی نظر کو دھندلا ہی رکھنا چاہا۔ یہ تو عام طور پر شاعر کے ساتھ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی نظم کا تجزیہ کرنے بیٹھتا ہے تو وہ زیرِ بحث نظم میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر وہ نظم اس نے کہی ہوتی تو وہ اس کے نفسِ موضوع (یا مرکزی خیال) کو کس طرح، یعنی کس نقطۂ نظر سے دیکھتا۔ ایسا ہی کچھ شاید یہاں بھی ہوا ہے۔ اب ضروری ہے کہ ہم بھی اختر الایمان کی زیرِ بحث نظم دیکھ لیں

 

نیا شہر

 

جب نئے شہر میں جاتا ہوں وہاں کے در و بام

لوگ وارفتہ سراسیمہ، دکانیں بازار

بت نئے راہنماؤں کے پرانے معبد

حزن آلود شفا خانے مریضوں کی قطار

تار گھر ریل کے پل بجلی کے کھمبے، تھیٹر

راہ میں دونوں طرف نیم برہنہ اشجار

اشتہار ایسی دواؤں کے ہر اک جا چسپاں

اچھے ہو جاتے ہیں ہر طرح کے جن سے بیمار

اس نئے شہر کی ہر چیز لبھاتی ہے مجھے

یہ نیا شہر نظر آتا ہے خوابوں کا دیار

شاید اس واسطے ایسا ہے کہ اس بستی میں

کوئی ایسا نہیں جس پر ہو مری زیست کا بار

کوئی ایسا نہیں جو جانتا ہو میرے عیوب

آشنا، ساتھی، کوئی دشمن جاں دوست شعار

 

تجزیہ نگار نے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ نظم کا مرکزی خیال نہ صرف جدید شاعری، بلکہ تمام ہند۔ فارسی شاعری (یعنی سبک ہندی کی شاعری) میں رواں دواں ہے۔ انھوں نے اگر عرفی کا یہ شعر سنا ہوتا تو اختر الایمان کی یہ نظم انھیں بالکل واضح اور شفاف لگتی:

بد نامی ما شہرۂ عالم شدہ شادیم

کیں ملک غریب است کس از مردم مانیست

اختر الایمان کی نظم میں شہر تو ویسا ہی ہے جیسے کہ شہر ہوتے ہیں: بد صورت، ہر طرح کی برائی اور جھوٹ سے لدا ہوا۔ لیکن متکلم اس شہر میں اجنبی ہے۔ یہاں کوئی ایسا نہیں جس کی ذمہ داری اس کے اوپر ہو، کوئی اس کی اچھائی برائی سے واقف نہیں، نہ کوئی دوست نہ دشمن۔ یہی وجہ ہے کہ نیا شہر اسے اپنے ’خوابوں کا دیار‘ نظر آتا ہے۔

ایک مدت ہوئی اختر الایمان نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ میری نظم میں علامت کی کارفرمائی ہوتی ہے، اگر اسے غور سے نہ پڑھا جائے تو اس کے معنی واضح نہ ہوں گے۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنی نظم ’’قلوبطرہ‘‘ کی مثال دی تھی۔ یہ نظم ان کے پہلے مجموعے ’’گرداب‘‘ (1943) میں شامل تھی، اب اس کی تخلیق کوستر برس سے اوپر ہو رہے ہیں۔ اسے یہاں نقل کرنا اور اس پر تھوڑی سی گفتگو کر لینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا

 

قلوبطرہ

 

شام کے دامن میں پیچاں نیم افرنگی حسیں

نقرئی پاروں میں اک سونے کی لاگ

رہگذر میں یا خراماں سرد آگ

یا کسی مطرب کی لے، اک تشنۂ تکمیل راگ

ایک بحر بے کراں کی جھلملاتی سطح پر

ضو فگن افسانہ ہائے رنگ و نور

نیلے نیلے دو کنول موجوں سے چور

بہتے بہتے جو نکل جائیں کہیں ساحل سے دور

چاند سی پیشانیوں پر زر فشاں لہروں کا جال

احمریں اڑتا ہوا رنگ شراب

جم گئی ہیں اشعلۂ صد آفتاب

گردنوں کے پیچ و خم میں گھل گیا ہے ماہتاب

عشرت پرویز میں کیا نالہ ہائے تیز تیز

اڑ گیا دن کی جوانی کا خمار

شام کے چہرے پہ لوٹ آیا نکھار

ہو چکے ہیں ہو رہے ہیں اور دامن داغدار

اس کا زریں تخت سیمیں جسم ہے آنکھوں سے دور

جامِ زہر آلود سے اٹھتے ہیں جھاگ

چونک کر انگڑائیاں لیتے ہیں ناگ

جاگ انطونی محبت سو رہی ہے جاگ جاگ

 

یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظیات کے لحاظ سے یہ نظم کچھ کچھ راشد اور کچھ اقبال کی یاد دلاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہیئت کی سطح پر اختر الایمان نے یہاں بھی وہی کام کیا ہے جو 1989 کی نظم (’’اپاہج گاڑی کا آدمی‘‘) میں کیا تھا۔ پہلے تو یہ توقع ہوتی ہے کہ ہر بند کا پہلا مصرع چار رکنی اور بقیہ مصرعے سہ رکنی ہوں گے، جیسا کہ پہلے بند کے تین مصرعوں میں ہے۔ لیکن فوراً ہی ہم دیکھتے ہیں کہ بند کا چوتھا مصرع بھی چار رکنی ہے، اور آئندہ بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے۔ یعنی اس نظم کے ہر بند کا پہلا اور چوتھا مصرع چہار رکنی اور بقیہ مصرعے سہ رکنی ہیں۔ اب ہیئت یوں بنی ہے:

ایک چار رکنی مصرع؛دو سہ رکنی مصرعے؛ دو چار رکنی مصرعے؛ دو سہ رکنی مصرعے؛ دو چار رکنی مصرعے؛ دو سہ رکنی مصرعے؛ دو چار رکنی مصرعے؛ دو سہ رکنی مصرعے؛ دو چار رکنی مصرعے؛ دو سہ رکنی مصرعے؛ ایک چار رکنی مصرع۔

صاف ظاہر ہے کہ نظم کی دائروی ہیئت میں کچھ معنی پنہاں ہیں۔ اختر الایمان کے قول کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس ہیئت کو زمانی، یا وقت کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ جو ہو چکا ہے، وہی پھر ہو گا۔ قلوپطرہ پھر خودکشی کرے گی، انٹونی پھر دیر سے پہنچے گا۔ یہی علامتی معنی نظم کے ہر بند میں کسی نہ کسی نہج سے بر آمد ہوتے ہیں۔ محبت اور موت دونوں ایک ہیں، اور یہ وحدت بار بار ہمارے سامنے آتی ہے۔

اس وقت سے لے کر اب تک اختر الایمان کے یہاں کئی اہم تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں۔ مثلاً، اب وہ شعوری طور علامتی یا استعارہ اختیار کرنے کے بجائے پوری نظم میں استعاراتی، یا اسطوری فضا تیار کرتے ہیں۔ یعنی اب ان کی نظم کسی مرکزی علامت کے گرد قائم ہونے کے بجائے خودایسا نظام بن جاتی ہے جو زندگی کی حقیقت کو سمجھنے یا سمجھانے کا کام کرتا ہے۔ اس طرح دیکھیں تو ان کی مشہور نظم ’’باز آمد‘‘ در اصل وقت کے گذرنے اور چیزوں کے بدلنے کا مرثیہ ہے۔ نظم یوں شروع ہوتی ہے:

 

تتلیاں ناچتی ہیں

پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں

جیسے اک بات ہے جو

کان میں کہنی ہے خاموشی سے

اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات

 

دھوپ میں تیزی نہیں

ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے

دست شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا

[اور مرے شانوں کو اس طرح ہلا جاتا ہے

جیسے میں نیند میں ہوں]

 

منظر میں لطیف خنکی اور طرب آمیز تحرک ہے۔’’بڑی عمر کی محبوبہ‘‘ میں شاید تھوڑا سا طنز، یا عمر کے اتار کا احساس ہے، لیکن ہر چیز اپنی جگہ پر اچھی ہے۔ اس وقت ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ تتلیاں اور پھول، دونوں ہی چند روزہ ہیں بلکہ اس سے بھی کم ہیں۔ اور تتلی تو بہر حال اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کی تلاش میں بہت جلد کہیں اور نکل جائے گی۔ اس وقت تو نظم ہمیں ایک طرح کا فریب دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ براؤننگ (Robert Browning) کے بد نام گیت Pippa Passes کے الفاظ میں:

 

The year’s at the spring,

And day’s on the morn;

Morning’s at seven;

The hill-side is dew pearled;

The lark’s on the wing;

The snail’s on the thorn;

God’s in his heaven–

All’s right with the world!

سب کچھ خوب، بہت ہی خوب ہے لیکن کھیل کود، چہل اور ہنسی کا یہ ماحول نظم کے نصف اول تک ہی بر قرار رہتا ہے۔ متکلم کو اپنے بچپن کی محبت اور محبوبہ (جس کا نام ’’حبیبہ‘‘ بھی کچھ معنی رکھتا ہے) کی تلاش ہے۔ جب وہ کہیں نظر نہیں آتی تو:

 

میں کبھی ایک کبھی دوسرے جھولے کے قریں جاتا ہوں

ایک ہی کم ہے، وہی چہرہ نہیں

آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں کسی سے بڑھ کر

کیوں حبیبہ نہیں آئی اب تک؟

 

لڑکیاں ہنسنے لگتی ہیں کہ یہ شخص کس قدر بے خبر ہے۔ وہ اسے بتاتی ہیں کہ اس کا تو بیاہ بھی ہو گیا، بڑی دھوم دھام سے بارات آئی تھی۔ متکلم کچھ محجوب، کچھ اداس، آگے کو بڑھ جاتا ہے، اپنی یادوں میں گم۔ اچانک:

بھیڑ ہے بچوں کی چھوٹی سی گلی میں دیکھو

ایک نے گیند جو پھینکی تو لگی آ کے مجھے

میں نے جا پکڑا اسے، دیکھی ہوئی صورت تھی

کس کا ہے؟ میں نے کسی سے پوچھا۔

یہ حبیبہ کا ہے، رمضانی قصائی بولا

وہ ننھی سی لڑکی جو متکلم کی ہمجولی اور غیر شعوری (یا شاید شعوری) سطح پر اس کی محبوبہ (حبیبہ؟ ) تھی، اب امتدادِ زمانہ کے ساتھ خود ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔ اس خبر کا بیان کرنے والا رمضانی قصائی وقت کی علامت ہے جو ہمیں اس المناک امتداد کی خبر دیتا ہے۔ لیکن لفظ ’’قصائی‘‘ کی معنی خیزی کو ہمیں اس بات سے غافل نہ کرنا چاہیے کہ حبیبہ کے بچے میں حبیبہ کی جھلک ہے۔ متکلم نے اس بچے کو کبھی دیکھا نہ تھا، لیکن اس کی صورت ’’دیکھی ہوئی صورت‘‘ تھی۔ متکلم یہ نہیں کہتا کہ اس کی صورت حبیبہ سے مشابہ تھی، وہ کہتا ہے کہ صورت ’’دیکھی ہوئی‘‘ تھی۔ ماضی کسی نہ کسی لمحے میں حال بھی بن سکتا ہے۔ لیکن وقت ایک سفاک اور بے خیال فاعل ہے۔ وقت کو اس بات کا احساس نہیں کہ اس کے ہاتھوں کن کن چیزوں کا خون ہوتا رہتا ہے۔ رمضانی قصائی کو خیال بھی نہیں کہ اس کے اس مختصر جملے ’’یہ حبیبہ کا ہے‘‘ میں کتنی باتوں اور کتنی چیزوں کا خون پنہاں ہے۔

جیسا کہ میں اوپر کہا، اب اختر الایمان کے یہاں علامت سے زیادہ اسطور کا رنگ نظر آنے لگا ہے۔ اب ان کی نظمیں نئے زمانے کا اسطورہ معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا کھردرا، بہ ظاہر بے کیف رنگ رائے لکنسٹائن (Roy Lichtenstein) کی مصوری کی یاد دلا تا ہے۔ یعنی جس طرح لکٹنسٹائن اخباری کامک (comic) کے سادہ رنگ اور کامک جیسے سادہ، اکہری ڈرائنگ کے طریقے استعمال کر کے اپنی تصویر کو جدید حقیقت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا تھا اور یہ کہتا ہوا نظر آتا تھا کہ جدید زمانے میں حقیقت ہی اتنی ہے کہا سے کامک کے سپاٹ، دو سمتی، چپٹے اشخاص اور اشیا کے ذریعے ظاہر کر سکتے ہیں، اسی طرح اختر الایمان بھی ہمارے زمانے کی سطحی، نقلی متانت اور سچائی سے عاری زندگی کو بیان کرنے کے لیے ایسی زبان اور ایسا لہجہ اختیار کرتے ہیں جو آج کی زندگی کو ہمارے سامنے مجسم کر دیتا ہے۔ اور یہ کام انفرادی تشبیہوں، استعاروں اور پیکروں سے زیادہ پوری نظم کے لہجے کے توسط سے عمل میں آتا ہے۔

مثال کے طور پر، اختر الایمان کی نظم ’’خمیر‘‘ میں کوئی ایسی ترکیب نہیں استعمال کی گئی جس سے ظاہر ہو سکے کہ شاعر/متکلم کو اس بات کی پریشانی یا فکر ہے کہ معاصر دنیا کے جھوٹ، نا ہمواری، معاصر لوگوں کی نا معتبری، معاصر نظامِ حیات کے تضادات وغیرہ کے اظہار کے لیے پیکر، یا استعارہ یا علامت وضع ہو تو کیسے ہو اور کس طرح کی علامت یا استعارہ ہو؟ شاعر/متکلم بالکل غیر متفکر، بدن کو ڈھیلا چھوڑے ہوئے، آرام کرسی پر متمکن شخص معلوم ہوتا ہے۔ یا پھر خارجی طور پر وہ روزمرہ زندگی جینے میں مشغول ہے لیکن داخلی طور پر دنیا، اور دنیا والوں کے تضادات اور اعمال و نتائج کے بارے میں ذہن کے خود کار عمل کے ذریعے محاسبے میں مشغول بھی ہے۔ وہ کسی کو ملزم نہیں ٹھہراتا، کیوں کہ وہ خود بھی اس نظامِ حیات سے الگ نہیں ہے جو اس کی تنقیدی نظر کے نشانے پر ہے۔ اس صورتِ حال، یا نظامِ حیات و کائنات کے اس رنگ ڈھنگ کے لیے وہ کسی کو بالخصوص ذمے دار کہا ہو گا، یے گہد کوُڈی ہو ہو ٹھہرانے، اور خود کو الگ کرنے کا ریا کارانہ عمل نہیں کرتا۔ وہ دوسروں پر شک کرتا ہے تو خود کو بھی معرض سوال میں لاتا ہے۔ یہ پوری نظم نقل ہونے کا تقاضا کرتی ہے:

 

خمیر

 

گلاب کیکر پہ کب اگے گا

کہ خار دونوں میں مشترک ہے

میں کس طرح سوچنے لگا ہوں

مجھے رفیقوں پہ کتنا شک ہے

یہ آدمیت عجیب شے ہے

سرشت میں کون سا نمک ہے

کہ آگ، پانی، ہوا، یہ مٹی

تو ہر بشر کا ہے تانا بانا

کہاں غلط ہو گیا مرکب

نہ ہم ہی سمجھے، نہ تم نے جانا

غریب کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں

ہوا تولد تو شاہزادہ

بلند مسند کے گھر پیادہ

ولی کے گھر میں حرام زادہ

متکلم کا مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے خمیر کے اجزا تو تمام انسانوں میں مشترک ہیں تو پھر تمام انسان ایک جیسے کیوں نہیں؟ اور پھر ایسا کیوں ہے کہ اچھے سے برا پیدا ہوتا ہے؟ یہ مسئلہ فلسفے میں بھی ہے اور تصوف میں بھی۔ مولانا روم نے مثنوی میں اس پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔ ہمارے یہاں ’’اولیا کے گھر شیطان‘‘ مشہور کہاوت ہے جو انسانی زندگی اور سرشت کے تضاد اور تقدیرِ انسانی کے تضاد کو روشنی میں لاتی ہے۔ مولانائے روم معاملے کو سلجھانے اور اس کی عقلی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری کہاوت ایک نہ سمجھ میں آنے والے معاملے کو روز مرہ کی سطح پر لا کر قابلِ فہم نہیں تو قابلِ قبول بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اختر الایمان کی نظم نہ تو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی اس تضاد کو قبول کرنے کی سفارش کرتی ہے:

کہاں غلط ہو گیا مرکب

نہ ہم ہی سمجھے نہ تم نے جانا

تخلیقی سطح پر اختر الایمان کا کمال یہ ہے کہ وہ تضاد کو اور وسیع کر دیتے ہیں۔ اولیا کے گھر پیدا ہونے والے شیطان کے لیے مصیبت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنا تشخص اس تقدس کے ماحول میں کس طرح بر قرار رکھے۔ لیکن اگر غریب کے گھر میں رئیس صفت، یا رئیس کے گھر میں مزدور صفت بچہ پیدا ہو تو دونوں کے لیے یکساں اذیت و صعوبت ہے۔ بنیادی مسئلہ صرف جینیاتی حادثے کا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ جب دنیا میں اتنی بہت سی چیزیں اصلاً، اور آغاز ہی سے ایک دوسرے کی مخالف ہیں، اور یہ تخالف یا تبا ین انسانی صورتِ حال کا حصہ ہے، تو پھر انسان کے لیے راہ فلاح (یا فرار) کہاں ہے؟

گلاب کیکر پہ کب اگے گا

کہ خار دونوں میں مشترک ہے

اب مسئلہ یہ ہو جاتا ہے کہ ’’آدمیت‘‘ کی کیا تعریف ہو؟ اور انسان کس چیز پر فخر و مباہات کرے جب وہ فضلِ ربانی یا Graceسے بھی محروم ہو چکا ہے؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو ولی کے گھر میں حرام زادہ تولد نہ ہوتا۔ نظم لفظ ’’حرام زادہ‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ یہ لفظ بعض طبائع پر گراں گذر سکتا ہے۔ لیکن ذرا سا بھی غور کریں تو نظم کی روح اسی لفظ میں ہے۔ اس لفظ میں اصل کی کم اصلی، مزاج کا جہل اور کجی، اور خود اس اولاد کے ولد الحرام ہونے کا تصور، یہ سب باتیں یکجا ہیں۔

کھردرے پن کے ذریعے اختر الایمان صرف یہ فائدہ نہیں حاصل کرتے کہ وہ پڑھنے یا سننے والے کو متوجہ کر لیتے ہیں اور وہ چونک کر نظم پر از سرِ نو غور کرنے لگتا ہے۔ ان کا کھردرا پن (یا ’’نفیس‘‘ تحریر لکھنے سے ان کا انکار) در اصل دو اور باتوں کا اعلان کرتا ہے۔ اول تو یہ کہ نظم کو ’’سجانے‘‘، اس میں نام نہاد لطافت،’’شاعرانہ پن‘‘ وغیرہ پیدا کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نظم اس صورتِ حال کا احاطہ کر سکے جس نے شاعر کو بر انگیخت کیا ہے۔ نظم کے ذریعہ فوٹو گرافی ہر گز مطلوب نہیں، لیکن یہ ضرور مطلوب ہے کہ جس اخلاقی یا جذباتی صورتِ حال کا نظم میں بیان ہے، اس پر لفاظی کے پردے نہ ڈالے جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اختر الایمان ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ ’’شاعرانہ/غیر شاعرانہ‘‘ وغیرہ اصطلاحیں بے معنی ہیں۔ اگر بعض اسلوب اس لیے ’’شاعرانہ‘‘ ٹھہرتے ہیں کہ وہ تجربے اور مشاہدے کے نوکیلے پن کو برداشت نہیں کر سکتے، یا اس کا تحمل نہیں کر سکتے، توایسے اسالیب کو، بلکہ ایسی شاعری کو ترک ہی کر دینا بہتر ہے۔ ہمارے یہاں شاعرانہ/غیر شاعرانہ اسلوب اور طریقِ کار وغیرہ کی بحث اب زیادہ نہیں اٹھتی لیکن اختر الایمان کی نظمیں پھر بھی بعض اوقات اس قدر غیر متوقع طور پر گفتگو اور مکالمے کے قریب آ جاتی ہیں کہ پروفیسر قسم کے لوگ جو شاعری نہیں پڑھتے، صرف تنقید پڑھتے ہیں، چکر میں پڑ سکتے ہیں کہ شاعری اور نثر کو کس طرح الگ الگ کیا جائے۔ یہ چند مثالیں دیکھیے:

 

کمبخت گھڑی نے جان لے لی

ٹک ٹک سے عذاب میں ہے جینا

جب دیکھو نظر کے سامنے ہے

احساس زیاں نے چین چھینا (’گھڑی‘‘)

 

زمیں جو سب کا مامن ہے

یہ گویا ارضِ ناکس ہے

اسے قحبہ سمجھ کر لوگ استعمال کرتے ہیں

کوئی والی نہیں وارث نہیں اس کا

کوئی مجنوں نہیں عاشق نہیں اس کا (’’ارضِ ناکس‘‘)

 

سیاسی رہنما منبر پہ چڑھ کر

زبوں حالی کی مانگیں گے معافی

گلا پھاڑیں گے ہمدردی میں ان کی

کہیں گے ووٹ دو اللہ شافی (’توازن‘‘)

اختر الایمان کہتے ہیں کہ ہمارے تصورِ شعر کو غزل نے خراب کیا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہماری ’’شاعری کے ساتھ بڑی مشکل یہ پیش آئی ہے کہ وہ اب تک غزل کی فضا سے نہیں نکلی۔‘‘ وہ تقاضا کرتے ہیں کہ ’’کوئی صنفِ سخن ہو، اس میں وسعت کی گنجائش ہونی چاہیے اور زبان کا استعمال ایسا ہونا چاہیے کہ پہلے جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں اضافہ بھی ہو اور زبان اپنے وسیع تر معنوں میں استعمال ہو سکے۔‘‘ اختر الایمان کی دوسری بات بالکل صحیح ہے لیکن اگر ہمارے یہاں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو متحفظ، محتاط اور ’’شریفانہ‘‘ زبان اور لہجے کو شاعری پر حاوی کرنا، یا حاوی رکھنا چاہتے ہیں، تو اس کا الزام غزل پر نہیں، بلکہ ’’تغزل‘‘ کے اس جھوٹے تصور پرجاتا ہے جو ہمارے یہاں مغربی (یا جدید کارانہ) تصورات کے زیرِ اثر بیسویں صدی کے شروع میں رائج ہوا تھا۔ وہ زمانہ ایسا تھا کہ چہل، ٹھٹھول، ہنسی تو دور رہی، خود کلامی اور ڈرامائی انداز کو بھی ’’تغزل‘‘ کے باہر قرار دیا جانے لگا تھا۔ ایک طرف تو یہ تھا کہ:

شعر در اصل ہیں وہی حسرت

سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

اور دوسری طرف یہ تھا کہ داغ کے حسبِ ذیل شعر کے ظریفانہ انداز کو ’’سفیہانہ‘‘ کہہ کر غزل کے باہر بتایا جا رہا تھا:

میت پہ میری آ کے دل ان کا دہل گیا

تعظیم کو جو لاش مری اٹھ کھڑی ہوئی

’’تغزل‘‘ کی اصطلاح ہم لوگوں نے انگریزی کی دیکھا دیکھی وضع کی۔ وہاں اگر کبھی Lyric اور Lyricism کی قدر دریافت ہوئی تھی تو ہم لوگوں نے جواب کے طور پر اپنے یہاں’’غزل‘‘ کو Lyric کا مرادف قرار دے لیا اور Lyricism کے لیے ’’تغزل‘‘ کی اصطلاح گھڑ لی اور چوں کہ ہمارا خیال تھا کہ Lyric میں ہر چیز بڑی میٹھی، شائستہ اور ’’دلی جذبات‘‘ کے اظہار پر مبنی ہوتی ہے، لہٰذا Lyricism یا ’’تغزل‘‘ میں بھی یہی کیفیت ہونی چاہیے۔

کم لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ’’تغزل‘‘ کی اصطلاح ہمارے کلاسیکی تذکروں میں موجود نہیں۔ کیا اردو، کیا فارسی، غزل کی تمام روایت ’’تغزل‘‘ سے بے خبر ہے۔ اور آج مغرب میں بھی یہ حال ہے کہ Lyricکا لفظ صرف فلمی گانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اب کوئی مغربی نقاد کسی شاعر کے یہاں Lyricism نہیں ڈھونڈتا۔ لیکن ہمارے نظریہ ساز صاحبان اب بھی Lyricism اور ’’تغزل‘‘ کا اکتارا بجائے جا رہے ہیں۔ شاعری کی زبان (یا خود زبان) کی اس غلط تفریق کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختر الایمان اور راشد جیسے سنجیدہ شعرا کو غزل سے شکایت پیدا ہوئی۔ اور وہ چیزیں بھی جو پرانی شاعری میں عام ہیں، ہمارے لئے ممنوعہ، بلکہ معتوب ٹھہرا دی گئیں۔ اور جو چیزیں بالکل سامنے کی تھیں، انھیں ترک کر دیا گیا۔ اس طرح شاعری کسی زندہ اور توانا حقیقت کے بجائے محض ممنوعات کی فہرست بن گئی۔ وہ لفظیات جسے اختر الایمان نے ’کنوار پن کی خوشبو‘ کا حامل ٹھہرایا ہے اور جسے جے۔ ایم۔ سنگ (J۔M۔ Synge) نے بہت پہلے ’’عام بول چال کی خوشبو اور اس کا آہنگ‘‘ بتایا تھا، ہماری شاعری سے غائب ہونے لگی۔ فیض کی شاعری کی مقبولیت نے ہمارے یہاں شاعری کو صرف سجے سجائے، چمکتے ہوئے شیشۂ آلات اور فرش فروش سے آراستہ دیوان خانے کی چیز بنا ڈالا۔ ہر وہ فقرہ، ہر وہ پیکر، ہر وہ استعارہ، جو ’’طبائعِ نازک‘‘ پر گراں گذرے، فیض کے یہاں مفقود ہے۔

ایسے ’’محفوظ‘‘ لہجے پر پالے پوسے ہوئے ادبی معاشرے کو میرا جی کی شدید درون بینی، پیکروں سے متمول ان کی زبان، حواسِ خمسہ کی دولت سے مالا مال شاعری، اور راشد کی بین الاقوامی فضا، ان کی فارسی آمیز زبان، ان کے بے دھڑک موضوعات، بھلا کہاں اچھے لگ سکتے تھے؟ اختر الایمان کا تو معاملہ اور بھی مختلف ہے، کہ وہ بہ ظاہر ’’فن کارانہ توانگری‘‘ سے عاری ہیں۔ ان کے یہاں جگمگاتے ہوئے الفاظ، فارسی ترکیبیں، چونکا دینے والے استعارے نہیں۔ لیکن ان کی بہ ظاہر بے رنگی ہی ان کی رنگا رنگی ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، اختر الایمان کو اس بات کا دکھ رہا ہے کہ ان کو سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ اور اسی دکھ نے انھیں غزل کی روایت اور لفظیات کا شاکی بنا دیا ہے۔ لیکن قصور غزل کی روایت اور لفظیات کا نہیں، ہماری ادبی تہذیب کا ہے جس نے غلط بنیادوں پر شاعری کی زبان کا ڈھانچا تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ مجید امجد اور اختر الایمان ان توقعات کو پورے نہیں کرتے جنھیں ’’تغزل‘‘ کی توقعات کہا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میرا جی کو تو خیر جنسی الجھنوں کا مریض کہہ کر ٹال دیا گیا، لیکن مجید امجد اور اختر الایمان جیسے شعرا نظر انداز کیے گئے اور انھیں اپنے قاری کے لیے جدید نسل کا انتظار کرنا پڑا۔ راشد تو پھر بھی اچھے رہے کہ مجتبیٰ حسین کے اس الزام کے باوجود کہ ان کے یہاں ’’ناسخیت‘‘ ہے (گویا ناسخیت کوئی خراب بات ہے)، راشد کو فارسیت سے شغف اور ان کی نظم کے بالکل نمایاں مفکرانہ رنگ نے بالکل مسترد ہو جانے سے بچائے رکھا۔

انجمن ترقی اردو نے 1943 میں ’’انتخابِ جدید‘‘ کے نام سے جدید شاعری کا ایک انتخاب شائع کیا تھا۔ آل احمد سرور اور عزیز احمد اس کے مرتب تھے۔ اس کے دیباچے میں عزیز احمد نے لکھا:

’’اس مجموعے کا معیار میں نے یہی قرار دیا کہ صرف ایسی نظمیں شامل کی جائیں جو کسی طرح بیسویں صدی کے خیالات کا مظہر ہوں (یا ان کا رد عمل پیش کریں) اور نظموں کا معیار یہ ہو کہ اگر کسی غیر زبان میں ترجمہ کی جائیں تب بھی زبان سے قطع نظر ایک خاص چیز ہوں‘‘۔

مندرجہ بالا دعووں میں پہلا تو غیر ادبی ہے، اور دوسرے کے پیچھے یہ خواہش (بلکہ تمنا) کار فرما ہے کہ جدید اردو ادب اور سب کچھ تو ہو لیکن اردو ادب نہ رہے۔ ان باتوں پر بحث اور کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ اس وقت یہ کہنا مقصود ہے کہ اس مجموعے میں ساغر نظامی، اثر صہبائی اور اصغر گونڈوی تو ہیں، میرا جی، اختر الایمان اور مجید امجد نہیں ہیں۔ آج کا قاری اس بات کو ہرگز قبول نہ کرے گا کہ ساغر نظامی، اصغر گونڈوی اور اثر صہبائی کے یہاں تو بیسویں صدی کے خیالات (یا ان کا رد عمل) موجود ہے اور اختر الایمان، میرا جی اور مجید امجد اس صفت (اگر یہ کوئی صفت ہے) سے محروم ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آل احمد سرور اور عزیز احمد جیسے قاری شعر فہم نہیں تھے۔ اس کے باوجود اگر انھوں نے اختر الایمان، میرا جی اور مجید امجد کو نظر انداز کیا تو اس کی یہی وجہ تھی کہ ان کی شاعری اپنے وقت سے آگے کی چیز تھی۔

ایسا نہیں کہ اختر الایمان کا ڈرامائی اور بے تکلف گفتگو کے آہنگ پر مبنی لہجہ شروع کی نظموں میں بھی اتنا ہی واضح تھا جتنا آج ہے۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے شعرا پر حالی اور آزاد کی بنائی ہوئی شعریات کا کچھ اثر (زبان کی حد تک) تو تھا ہی، اور یہی وجہ ہے کہ میرا جی حلقۂ ارباب ذوق سے ایک حد تک الگ دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اس زبان کو مکمل طور پر مسترد کرتے تھے جس کی بنیاد حالی اور آزاد وغیرہ کی ’’نیچرل شاعری‘‘ نے ڈالی تھی۔ لیکن اختر الایمان کے یہاں شروع شروع میں کچھ متانت، احتیاط، یا ’’شائستگی‘‘ کے انداز تھے۔ فرق صرف یہ ضرور ہے کہ جہاں حلقے کے شعرا (یا کم از کم میراجی) نظم کے متکلم اور شاعر کو ایک قرار دیتے تھے اور ہر نظم کو لا محالہ شاعر کے ذاتی تجربات کا اظہار سمجھ کر پڑھتے تھے (اس کی تفصیل میراجی کی بے مثال کتاب ’’اس نظم میں‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے)، اختر الایمان کے کلام میں شروع ہی سے اپنے موضوع سے تھوڑی بہت دوری، یا ڈرامائی فاصلہ نظر آتا ہے۔ مثلاً ’گرداب‘ (1943) کی ایک نظم ’’محرومی‘‘ اور ’’تاریک سیارہ‘‘ (1952) کی ایک نظم ’’محبت‘‘ کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

 

تو بھی تقدیر نہیں درد بھی پائندہ نہیں

تجھ سے وابستہ وہ اک عہد وہ پیمانِ وفا

رات کے آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا

خواب انگیز نگاہیں وہ لب درد فریب

ایک افسانہ ہے جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا

(’’محرومی‘‘)

 

صرف تبدیل ہوتی ہوئی روشنی کی جھلک زندہ ہے

صرف حسنِ ازل اور حسنِ ابد کی مہک زندہ ہے

صرف اس طائرِ خوش نوا کی لہک زندہ ہے

ایک دن آئے گا تو بھی مر جائے گی میں بھی مر جاؤں گا

(’’محبت‘‘)

 

دوسری نظم میں موضوع سے شاعر کا ڈرامائی فاصلہ زیادہ نمایاں ہے۔ یہاں نہ تو متکلم اور شاعر کو متحد قرار دینا ضروری ہے اور نہ مخاطب کو شاعر /متکلم کی محبوبہ سمجھنا ضروری ہے۔ ’’محرومی‘‘ میں پہلا مصرع نظم کو ذاتی واردات سے الگ نکال لے جاتا ہے۔ دونوں نظموں میں لا شخصیت (یعنی اپنی شخصیت سے الگ کھڑے ہو کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش) نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود، ان نظموں پر حلقۂ اربابِ ذوق کا اثر صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ابھی ان نظموں کے اسلوب میں وہ ٹھن ٹھناہٹ نہیں ہے جو جلی، تپائی ہوئی، سیاہی مائل سخت اینٹ میں ہوتی ہے۔ ان نظموں میں وہی گلابی سرخی ہے جو نیم پختہ اینٹ میں ہوتی ہے۔ یہ نظمیں اس طرح کی چوٹ یا shock نہیں پہنچاتیں جو مثلاً بعد کی نظموں ’خمیر‘ ؛ ’کارنامہ‘ ؛ ’مفاہمت‘ ؛ ’لوگو، اے لوگو‘ وغیرہ کا خاصہ ہے۔ تقابل کے لیے یوسف ظفر کی مشہور نظم ’’وادیِ نیل‘‘ کا اقتباس ملاحظہ ہو:

 

کہ میں ہوں وہ موت کا مسافر

ترے شبستاں کے چور دروازے سے گذر کر

جو اپنی منزل پہ آ گیا ہے

وہ لوگ جو رو رہے ہیں مجھ کو

کہ میں نے خود موت کو پکارا ہے تیری خاطر

وہ لوگ کیا جانیں زندگی کو

انھیں خبر کیا کہ موت ہر لحظہ ان کی ہستی کو کھا رہی ہے

انھیں خبر کیا کہ زندگی کیا ہے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں زندگی کو

کہ آج کی شب یہ زندگی میری زندگی ہے

یہ زندگی ہے مری جسے میں نے آج کی شب

ترے مسرت کدے میں لا کر

ابد سے ہم دوش کر دیا ہے

اجل کو خاموش کر دیا ہے

 

اس بات سے فی الحال قطع نظر کرتے ہیں کہ یوسف ظفر کے یہاں غیر ضروری الفاظ کی کثرت ہے، اور الفاظ کی غیر ضروری تکرار بھی ہے لیکن نظم کا متکلم بہت سے بہت کوئی روایتی قسم کا ’’رومانی‘‘ ہیرو معلوم ہوتا ہے۔ وہ تجربہ کار اور تفکر انگیز نہیں، بلکہ سیدھا سادہ بھولا بھالا نوجوان ہے جو فریب خوردہ ہے اور اسی فریب کو وہ معرفت سمجھتا ہے۔ یہ نظم فوری طور پر اختر الایمان کی نظم ’’محبت‘‘ سے موازنے کا تقاضا کرتی ہے۔’’محبت‘‘ اختر الایمان کی اچھی نظموں میں ہے، لیکن بہترین نظموں میں نہیں۔ اس کے باوجود ہم فوراً دیکھ سکتے ہیں کہ ’’محبت‘‘ کا انداز زیادہ پر اعتماد ہے اور روایتی ’’رومانیت‘‘ سے دور ہے۔ اس کا متکلم زیادہ با تمکین، زیادہ تجربہ کار ہے۔ انسان کی تقدیر یہی ہے کہ اسے اور تمام انسانی اشیا کو موت کے گھاٹ اترنا ہے۔ اس انجام پر ’’محبت‘‘ کے متکلم کو خوف و ہراس کچھ نہیں۔ یوسف ظفر کی نظم کا متکلم بلند بانگ دعووں اور ظاہری جوش و خروش کے باوجود کوئی نا بالغ (یعنی ذہنی طور پر نابالغ) شخص ہے۔ اختر الایمان کی نظم کا متکلم موت کو انگیز کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ یوسف ظفر کی نظم کا متکلم جس شے کے لافانی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے (زندگی جو ابد سے ہم دوش ہے اور جس نے اجل کو خاموش کر دیا ہے) وہ اس قدر غیر قطعی اور موہوم ہے کہ ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ وہ محض خیالی، اور فرضی تسکین کا دھوکا ہے۔ اختر الایمان کے متکلم کی آواز میں وزن اور وقار ہے، وہ کسی رومانی فریب کا شکار نہیں ہے۔ ان کا متکلم ’’حسنِ ازل اور اور حسنِ ابد‘‘ یعنی شاعر کی نظم، یا مغنی کے نغمے وغیرہ کے بارے میں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے، لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے، کیوں کہ خود متکلم اور اس کی معشوقہ دونوں ہی موت کی آغوش میں جانے ہی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ پھر ان کی شاعری اور نغمہ کس کام کا؟ رہا ’’حسنِ ازل اور اور حسنِ ابد‘‘، تو اس کی مہک کا ذکر عجز نظم نہیں ہے تو وہ محض لفاظی ہے، اس سے کسی کو یوں بھی کچھ ملنا نہیں، کہ خوشبو نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ ٹھہرتی ہے۔ اور ’’حسنِ ازل اور حسنِ ابد‘‘ تو یوں ہی تجریدی اور موہوم چیز ہیں۔ ان سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔

اختر الایمان جس لہجے کے لیے بجا طور پر مشہور ہیں، وہ کسی پختہ کار اور غیر جذباتی متکلم کا لہجہ ہے جس میں تشکیک کی کارفرمائی اکثر ہے، لیکن جو ’’اعلیٰ اردو‘‘ کی فارسی آمیز چمک دمک سے عاری ہے۔ ڈرامائی، طنزیہ، لیکن خود ترحمی اور چھچھورے پن سے بالکل خالی یہ لہجہ صرف اس معنی میں ڈرامائی نہیں ہے کہ اختر الایمان کی اکثر نظمیں ڈرامے کے مکالمے کی طرح بولی جا سکتی ہیں۔ یہ بات تو ہے ہی، لیکن اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ اختر الایمان کا متکلم کوئی ایک شخص نہیں معلوم ہوتا، اور وہ متکلم خود شاعر اختر الایمان بھی نہیں۔ شاعر اختر الایمان تو شاید ہی کسی نظم میں، حتیٰ کہ ان کی بظاہر اپنی سوانح سے متاثر نظم ’’ایک لڑکا‘‘ میں بھی ہمارے سامنے نہیں آتا۔ اس معاملے میں وہ راشد سے مختلف ہیں، کیونکہ راشد اپنی اکثر نظموں میں پر جوش، معاملے (یا موضوع) سے پوری طرح دست و گریباں، اور ذاتی احساس کی گرمی سے دمکتے ہوئے، اور کسی شعلے کی طرح بر افروختہ، یا کسی شمشیر برہنہ کی طرح سب کو چکا چوند کرتے نظر آتے ہیں۔ راشد صاحب نے بار بار اس خیال کی تردید کی ہے کہ ان کی نظمیں ان کی ’’سوانح حیات‘‘ نہیں ہیں۔ اور یہ بات بالکل درست ہے، لیکن یہ بات پھر بھی ہے کہ وہ اپنی نظم کے موضوع، یا اپنے تجربے اور خیال سے پوری طرح گتھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر انگریزی لفظ لکھا جائے تو راشد صاحب کے روئیے کو اپنی نظم کے ساتھ Fully engaged کہا جائے گا۔

اختر الایمان کا لہجہ کہیں کہیں راشد سے ملتا ہوا دکھائی دیتا ہے (خاص کر شروع کی نظموں میں، جیسا کہ ’’قلوبطرہ‘‘ سے ظاہر ہے)۔ اور ان کی موجودہ نظموں میں راشد کے رویّے کی جھلک کہیں کہیں نظر آ جاتی ہے: وہی معاصر دنیا کا شدید احساس، اور اس احساس کو بیان کرنے کی سعی میں ہلکے یا گہرے طنز آمیزش، کلام میں وہی زور اور عدمِ انفعالیت، جو راشد کا بھی خاصہ ہیں لیکن اختر الایمان کا لہجہ سپاٹ، بہ ظاہر کسی جذبے سے عاری، اور ’’غیر نفیس‘‘ ہے۔ ان کے یہاں راشد کی طرح کی تزئینی کیفیت نہیں ہے۔ راشد کے خال خال استثنا کے علاوہ ان کے اسلوب کی مثال نہیں لائی جا سکتی۔ وہ کسی مکتب، یا کسی شاعر کے پیرو نہیں ہیں اور وہ خود کسی مکتب کے بانی بھی نہیں ہیں۔ ان کا اسلوب ایسا ہے جس کی نقل نہیں ہو سکتی۔ (ممکن ہے اس میں ان کے لہجے کی ڈرامائیت کو بھی قابلِ لحاظ دخل ہو۔) ویسے، عام شعرا تو ان کی تکلف اور فارسیت سے عاری لفظیات ہی سے بدک جائیں گے اور جو ذرا زیادہ با ہمت ہیں، وہ بھی ان کے خشک اور کھردرے لہجے سے گھبرا اٹھیں گے۔

آج (یعنی 1994 میں، جب اس مضمون کے کئی حصے لکھے گئے تھے) اختر الایمان ہمارے سب سے بڑے، سب سے زیادہ با مرتبہ شاعر ہیں۔ اور یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ ان کے معاصر دو بڑے شعرا میں فیض اور سردار جعفری میں رومانیت پوری طرح جاری و ساری تھی۔ رومانیت سے میری مراد محض عشقیہ مضامین سے دلچسپی نہیں، بلکہ کسی آدرش پر اعتقاد ہے، اورایسا اعتقاد جو شاعر کو کسی اور نقطۂ نظر، کسی اور امکان، کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مجید امجد اور میرا جی بھی رومانی نہیں ہیں، کیونکہ وہ کسی آدرش کی (اندھے یا اندھا دھند) پابندی نہیں کرتے۔ شروع کی چند نظموں کے سوا راشد کے یہاں بھی عشقیہ (یا جنسی) نظمیں خال ہی خال ہیں۔ اختر الایمان نے شروع شروع میں کچھ عشقیہ نظمیں کہیں لیکن وہ بہت جلد اس انداز سے اکتا گئے۔ ہمارے زمانے کے بڑے شعرا نے عشقیہ نظمیں بہت کم کہی ہیں لیکن کسی نے بھی وہ تکلف سے عاری اور گفتگو کے لہجے کے قریب انداز نہیں اختیار کیا جو اختر الایمان کا خاص نشان ٹھہرا ہے۔ کسی کے بس میں زبان اس طرح اور اس حد تک ہے ہی نہیں کہ وہ اختر الایمان کا حریف ہو سکے۔

اختر الایمان کے یہاں شگفتگی، یا زندگی سے لطف اندوزی کے احساس کا فقدان ہے۔ اس کے بجائے ان کے یہاں فریب شکستگی، معاصر انسان سے مایوسی، خود غرضی اور جارحیت اور تشدد سے معاصر انسان کے لگاؤ کے خلاف رنج اور برہمی نمایاں ہیں۔ یہ برہمی کبھی کبھی شدت اختیار کر کے نفرت کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ لیکن یہ نفرت کسی حکیم اخلاقیات، کسی واعظ، یا کسی ناصح کی نہیں۔ اکثر تو خود شاعر (اور نظم کا متکلم تو یقیناً) ہی اس کا ہدف معلوم ہوتا ہے۔ یہ متکلم ایسا شخص ہے جس نے کبھی دنیا میں امن، عافیت، محبت اور یگانگت کی امید کی تھی۔ یہ امید پہلے آرزو میں بدلی اور پھرشکست آرزو کی تلخی میں بدل گئی۔ اختر الایمان نے وقت کو سب سے بڑے مجرم کی شکل میں دیکھنا چاہا، کہ شاید اس طرح معاصر انسان اس فرد جرم سے بچ سکے جو تاریخ بے شک اس پر عائد کرے گی۔ لیکن یہ آخری امید بھی جاتی رہی اور اختر الایمان کی حالیہ شاعری میں خودانسان کے مجرم ہونے کا احساس بہت شدید ہو گیا ہے۔ گذشتہ تیس برس میں اختر الایمان کی شاعری (اور شاید شخصیت بھی) خیالی آدرشوں کی امید افزائیوں سے بہت جلد گذر کر انسانی وجود کی بے رنگی اور زندگی میں کم کوش احتیاط پر رنج کے اظہار کی راہوں سے ہوتی ہوئی کرب ناک تلخی اور مستقبل سے مایوسی کی منزل تک پہنچی ہے (اگر اسے منزل کہا جا سکے۔) ان کی شاعری کا یہ سفر ہمارے زمانے کی تاریخ پر ایک درد ناک حاشیہ ہے۔ اب انھیں عارضی مسرت بخشنے والی چیزیں بھی اپنے گرد و پیش میں بہت کم نظر آتی ہیں۔

اقبالؔ نے اس صدی کے شروع میں شاعری شروع کی تھی۔ ان کے کم و بیش ساتھ ساتھ منظرِ عام پر آنے والے شعرا میں کم ہی ایسے ہیں جن کا نام لوگوں کو خالص ادبی وجوہ کی بنا پر یاد رہا ہے۔ حسرت موہانی، یگانہ، عزیز لکھنوی، سرور جہان آبادی، فانی، چکبست، سیماب اکبر آبادی یہ فہرست اس سے آگے بمشکل ہی بڑھ سکے گی۔ اور صاف نظر آتا ہے کہ اقبال ان سب سے میلوں بلند تر ہیں، بلکہ اقبال کے ساتھ ان کا کوئی با معنی موازنہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اقبال اس معنی میں خوش نصیب تھے کہ ان کے معاصروں میں دور دور تک بھی کوئی ان کے مقابل آنے کی اہلیت نہ رکھتا تھا۔ ان کے برخلاف، اختر الایمان کی نسل کو اقبال کے بعد آنے والی تمام نسلوں میں سب سے زیادہ توانا، با صلاحیت اور کامیاب نسل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ فیض، میرا جی، راشد، سردار جعفری، مجید امجد، اختر الایمان، یہ سب 1910 سے لے کر 1915 کے درمیان پیدا ہوئے۔ ان کا آپسی تعلق اور تقابل اور تناسب ایسا تھا کہ یہ سب ہی صلاحیت اور لیاقت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔ جہاں اقبال کے سامنے کوئی مدِ مقابل نہ تھا، وہاں 1910 سے 1915 کے درمیان صرف پانچ برسوں کی مدت میں متولد یہ شعرا ہر اعتبار سے ایک دوسرے کے مقابل آ سکتے تھے۔ اختر الایمان کی نسل کو اپنی شناخت بنانے اور اپنی حیثیت کو قائم کرنے سے اقبال سے بہت زیادہ مشکل پیش آئی۔ اس پر طرہ یہ کہ اختر الایمان کا سفر (شاید مجید امجد کو چھوڑ کر) بقیہ معاصروں میں سب سے زیادہ تنہا تھا اور با اثر، فیشن ایبل حلقوں سے دور تھا۔ اختر الایمان نے بدلتے ہوئے فیشنوں کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا۔ ترقی پسندوں نے غزل سے اصولی اختلاف کیا تھا، لیکن پھر کسی اصولی مفاہمت یا نظری دلیل کے بغیر انھوں نے غزل کو اختیار بھی کر لیا۔ اختر الایمان نے جو نظم کو اپنا شعار بنایا تو آخر تک وہ اسی پر قائم رہے۔

جس زمانے میں ترقی پسندی کا ہجوم اور ’’عوامی شاعری‘‘ کا غلغلہ خراب شاعری کو کاندھوں پر اٹھائے اٹھائے گھوم رہا تھا، اختر الایمان نے کنجِ خمول سے قدم باہر نہ نکالا۔ جب جدیدیت کا دور دورہ ہوا اور جدید شعرا نے اختر الایمان کو اپنا بزرگ، پیش رو اور اہم استاد کہا اور ان کے بارے میں تحریر و تقریر کا سلسلہ شروع ہوا، تو بھی اختر الایمان نے قبولیتِ عام کے شوق میں آ کر اپنا رنگ نہ بدلا اور نہ ہی محفلوں اور سیمیناروں میں اپنا رنگ چوکھا کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی انھوں نے اپنی نظم گوئی کی رفتار کچھ تیز کی۔ شہرت کی خاطر ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرنے والوں کے اس دور میں کسی شاعر کا صرف شاعری کے بوتے پر پچاس پچپن برس تک گرم رہنا اور آخر کار خود کو منوا لینا اس کے برحق ہونے کی دلیل ہے۔

اختر الایمان نے ایک غیر مطبوعہ نظم چار مسودوں کی شکل میں چھوڑی ممکن ہے وہ ابھی اس پر مزید محنت کرتے۔ یہ چاروں مسودے ’’کلیات اختر الایمان‘‘ مرتبہ سلطانہ ایمان اور بیدار بخت (دہلی، 2000) شامل کیے گئے ہیں۔ میں انھیں وہاں سے نقل کرتا ہوں، کچھ تو یہ دکھانے کے لیے کہ اختر الایمان اپنی نظموں پر کس قدر محنت کرتے تھے، اور کچھ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ اس نظم کے آخری مسودے کو اختر الایمان کا آخری بیان قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا

 

ایک نظم

(پہلا مسودہ)

 

میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں

مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر، رسولوں پر

کتابوں پر جو وقفے وقفے سے آتی رہیں ان پر

 

ایک نظم

(دوسرا مسودہ)

 

میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں

مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر، رسولوں پر

کتابوں پر، ہدایت کے لیے بھیجی ہیں جو تو نے

جزائے خیر و شر پر، حشر پر، جس دن اٹھوں گا میں

ردائے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے

یہ زیرِ ناف گھونسہ مارنے کی کیا ضرورت تھی

یہ شیطاں کیوں کھڑا ہے راہِ روکے، تخلیق کے دن سے

 

بلا عنوان

(تیسرا مسودہ)

 

میں تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں

مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر

رسولوں پر ہدایت کے لیے بھیجے ہیں جو تو نے

میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں

تری اقلیم کے سارے اصولوں پر

کتابوں پر ہدایت کے لیے بھیجی ہیں جو تو نے

جزائے خیر و شر پر، حشر پر، جس دن میں اٹھوں گا

ردائے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے

 

حمد

(چوتھا مسودہ)

 

میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں

مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر، رسولوں پر

تری اقلیم کے سارے اصولوں پر

ہوا میں گیت گاتے خوش نما رنگیں پرندوں پر

بھنور کی بات سن کر کھلکھلاتے ہنستے پھولوں پر

نگارِ صبح کی رعنائی، بادِ مشکبو کی انجمن سازی

زمیں کی وسعتوں میں رقص کرتے ان بگولوں کی

دلاتے یاد ویرانوں میں ان سرکش جوانوں کی

جو جہد للبقا کے ہر سمند باد پا کی باگ موڑیں گے

جزائے خیر و حشر پر، حشر پر، جس دن میں اٹھوں گا

ردائے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے

یہ زیرِ ناف گھونسہ مارنے کی کیا ضرورت تھی

کھڑا ہے راستہ روکے ہوئے شیطان کیوں تخلیق کے دن سے

30 مارچ 1994

 

نوٹ: اوقاف بعینہٖ وہی ہیں جو ’’کلیات‘‘ میں ہیں، اور اغلب ہے کہ وہ اختر الا یمان ہی کے اختیار کردہ ہوں گے۔

ظاہر ہے کہ نظم ابھی مکمل نہیں ہے۔ اس کی آخری شکل کے بارے میں قیاس لگانا غیر ضروری ہے اور اسی وجہ سے اس نظم کا تجزیہ بھی غیر ضروری ہے۔ یہ بات، کہ اختر الایمان اپنی شاعری پر کس قدر محنت کرتے تھے، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں۔ اور یہ بات بھی میں نے پہلے ہی آپ کے گوش گذار کر دی ہے کہ اس نظم کو اختر الایمان کا آخری بیان کہا جا سکتا ہے، لیکن بیان بہر حال نامکمل ہے۔ میر سے لے کر اقبال اور اختر الایمان اور راشد تک سب کو خدا سے شکوہ رہا ہے لیکن ہر ایک کا شکوہ اپنے طرز کا تھا، کسی کو کسی سے مطابقت نہیں۔ مجھے تو میر کا شکوہ سب سے بھر پور، سب سے زیادہ معنی خیز، اور شعری اعتبار سے سب سے زیادہ مکمل لگتا ہے، شاید اس وجہ سے دو مصرعوں میں بہت لمبی بات کہہ دینے کا ہنر میر سے بہتر ہم میں سے کسی کو نہ آیا۔ علامہ شبلی نے فارسی کے ہندوستانی تازہ گو شعرا کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی خصوصیت تھی کہ وہ بہت لمبی چوڑی بات کو لپیٹ کرد و مصرعوں میں بیان کر دیتے تھے۔ میر بھی سبک ہندی کے شاعر ہیں، لیکن ان کی صفت یہ بھی ہے کہ فارسی کے تازہ گو شعرا (اور اردو میں غالب) جب بات کہتے تھے تو ذہن فوراً متوجہ ہو جاتا تھا کہ بھلا کیا حیرت انگیز، یا خیال انگیز بات کہی! میر کا انداز بہت فریب کارانہ ہے۔ وہ بہ ظاہر سرسری کہہ کر نکل جاتے ہیں اور سننے والے یا پڑھنے کو خیال بھی نہیں آتا کہ کیسی گہری بات کہہ دی گئی ہے۔ میرؔ کا شعر ہے، دیوان اول:

کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں

کہ بزمِ عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

اختر الایمان شاید خدا کو نہیں، شیطان کو برہم کن محفلِ حیات بتانا چاہتے ہیں، لیکن شیطان بہر حال بندۂ خدا ہے، اور تمام بندہ ہائے خداساری برائی اور ساری خباثت کا منبع ہیں۔ اختر الایمان کے لہجے میں کوئی شکایت، کوئی برہمی نہیں، لیکن کوئی فلسفیانہ موشگافی بھی نہیں۔ حیات اور کائنات کا معما کسی کی عقل سے حل نہیں ہو سکا ع:

کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را

لیکن جو اقبال نے کہا تھا، وہ بھی اختر الایمان کو منظور نہ تھا:

نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی

جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی

آخری زمانے کی ایک نظم میں اختر الایمان زندگی، اور نہ صرف زندگی بلکہ اس سارے ہنگامۂ ہائے و ہو سے بیزار، یا آزردہ نظر آتے ہیں۔ ملک قمی کا شعر ہے:

با کم از آشوب محشر نیست می ترسم کہ باز

ہم چو شمع کشتہ باید زندگی از سر گذشت

اس کو میر، اور شیخ مبارک آبرو نے بھی کہا ہے:

زندگانی تو ہر طرح کاٹی

مر کے پھر جیونا قیامت ہے

میر نے اس سے بڑھ کر کہا ہے (دیوان اول) :

خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر

ہم کو جیا بار دگر چاہیے

ان تینوں شعرا کے یہاں زندگی از سرِ نو کرنے سے انکار اس وجہ سے ہے کہ ایک زندگی ہی کون بڑی کامیاب اور پر تعیش تھی کہ دوسری کو قبول کیا جائے؟ میر نے البتہ زندگی ہی کی حقیقت کو ناقابل قبول ٹھہرایا ہے۔ اب اختر الایمان کی نظم ملاحظہ ہو

 

ماضی استمراری

 

ہم جہانگیر، جہاندار تھے کب

خسرو عصر، بڑے اہل سبب

آسماں اوڑھا، زمیں کا بستر

پھیلا رہنے دیا اوروں کے لیے

سانس تو لیتے رہے، یاد نہیں کیسے جیے

دیکھنا اب جو مری خاک پلٹ کر آئے

اور کسی طرح مرے جینے کا سامان بنے

جس طرح پہلے کیا، ویسے ہی کرنا لوگو

اپنے دروازے کبھی کھولنا مت میرے لیے

 

نظم کا ابہام ہمیں کچھ تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔ متکلم شروع میں تو یہ کہتا ہے کہ میں نے زندگی میں کچھ حاصل نہ کیا۔ وہ خسرو عصر اور اہل سبب میں نہ تھا، لیکن وہ جی تو گیا۔ زمین کے ذخائر اور وسائل اس نے اوروں کے لیے چھوڑے، لیکن وہ آسمان تو اوڑھتا رہا (یعنی کسی عارفانہ نہج سے زندگی گذارتا رہا)۔ پانچویں مصرعے میں کوئی اور بات نظر آتی ہے۔ شاید یہاں سے دوسرا متکلم نظم میں داخل ہوتا ہے۔ اور یہ متکلم پہلے والے سے کچھ مختلف زندگی گذارتا رہا ہے۔ اسے یاد بھی نہیں کہ زندگی کیسے اور کیسی گذری۔ اور یہی متکلم وہ ہے جسے واپسی کا خدشہ بھی ہے۔ پہلی بار وہ کسی نہ کسی طرح جی گیا تھا، حالاں کہ دنیا کے دروازے اس پر کھولے نہیں گئے تھے (جیسے کہ فرانز فانن Franz Fanon کے وہ لوگ جنھیں وہ: The wretched of the earth کہتا ہے۔) مگر پھر بھی اسے واپسی کا خوف ہے اور اچانک ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ متکلم تو کسی اور ہی زبان میں بات کر رہا ہے: وہ تو اس حدیث کی بات کو دہرا رہا ہے جس کی رو سے اللہ دنیا والوں سے کہے گا کہ میں تمھارے دروازے پر گیا لیکن تم نے مجھے لوٹا دیا۔ (اور یہی ہر بار ہو گا۔ عنوان ’’ماضی استمراری‘‘ میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔) نظم عجب پر اسرار اور پر ہیبت سا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ اختر الایمان کی ذاتی آواز کچھ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہے اور دو کے علاوہ کوئی تیسرا متکلم بھی در آتا ہے اور وہ کچھ اور کہتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ انسانی زندگی کا المیہ شاید یہی ہے کہ آوازوں کے ہجوم میں آواز ٹھیک سے نہیں سنائی دیتی۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر متکلم صرف ایک ہے، تو پھر یہ نظم شاعر کا المیہ، اور اس طرح تمام دنیا کے فنکاروں کا المیہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا انھیں کبھی قبول نہیں کر سکتی۔ قبول کرنا تو در کنار، وہ انھیں جاننا بھی پسند نہیں کرتی۔ صائب کا کیا عمدہ شعر ہے:

ز تیرہ روزی اہلِ سخن بود روشن

کہ نیست آبِ حیاتے بغیر آب سخن

آبِ حیات کچھ نہیں ہے، صرف آب سخن ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ سخن کا زمانہ ہمیشہ تاریک رہتا ہے۔ آب حیات کے چشمے کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ جہاں ہے وہاں انتہائی تاریکی ہے۔ اختر الایمان کی نظم کو بھی ایک طرح شکوے کی نظم کہہ سکتے ہیں، لیکن اس شکوے میں برہمی کا تموج اور طنز کی تلخی بھی ہے، کہ اصولِ زیست یہی ہے کہ جو شخص بھی مادی افادہ پرستی کی بات نہ کرے وہ دنیا کے لیے بے مصرف ٹھہرایا جائے گا۔ میر صاحب اپنے پیچ دار شعر پر فخر کرتے ہوں گے لیکن جس شعر سے پیچ یا پیچ کش کا کام نہ لیا جا سکے وہ فضول محض ہے۔

اختر الایمان کا ایک شعر مجھے لڑکپن کے زمانے سے یاد ہے:

اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا

تاکہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں

یہ شعر اختر الایمان کے کسی مجموعے میں نہیں ہے۔ میں نے کسی رسالے میں پڑھا ہو گا یا کسی نے مجھے سنایا ہو گا (یہ امکان زیادہ قوی ہے)۔ اب ’باقیاتِ اختر الایمان‘ سے معلوم ہوا کہ جس نظم میں یہ شعر ہے اس کا نام ’تنہائی‘ ہے۔ یہاں فیض کی نظم ’تنہائی‘ کا خیال آنا فطری ہے، کچھ اس وجہ سے بھی کہ اختر الایمان کے شعر میں بھی ایک محزونی ہے، ایک طرح کی خاموشی ہے لیکن فیض کی نظم بہت مختصر اور استعاروں سے بھری ہوئی اور مبہم ہے۔ فیض کی کمزوریاں اس میں بھی نمایاں ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے نظم انتہائی خوبصورت ہے اور حافظے میں پیوند ہو جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اختر الایمان کی نظم خود بہت اچھی نہیں ہے اور ذہنی اور جذباتی اعتبار سے کچھ خام لگتی ہے۔ لیکن جگہ جگہ ایسے زبردست پیکر چمک اٹھتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے:

دن کے بستر پہ ہیں دھبے سے ریا کاری کے

اور مغرب کی فنا گاہ میں پھیلا ہوا خون

دبتا جاتا ہے سیاہی کی تہوں کے نیچے

اختر الایمان کا یہ سنگ دل، کھردرا لہجہ زندگی بھر ان کی شاعری کو توانائی پہنچاتا رہا۔ عمر کے ساتھ رومانی حزن گھٹتا رہا اور صلابت و قوت بڑھتی گئی۔ اختر الایمان نے اس نظم کو غالباً اسی لیے کسی مجموعے میں نہ رکھا کہ ایک تقریباً ضرب المثل شعر کے باوجود نظم میں وہ قوت نہ تھی جو اوپر نقل کردہ مصرعوں کو سہار سکے۔ میر کی طرح ’ناسازی‘ اور ’خشونت‘ رومانی پلپلے پن سے دور بھاگتی ہے۔ ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘ صرف ایک سطح پر رومانی نظم ہے، ورنہ در حقیقت یہ انسانی تنہائی کے کائناتی المیے کی تصویر ہے۔ ایسی تصویر بنانے کے لیے فیض نہیں، راشد بھی نہیں، اختر الایمان جیسا بے باک اور کھری بات کہنے والا شاعر درکار تھا۔

 

نوٹ: اس مضمون کے کچھ حصے 1994 میں، کچھ 2012 میں، کچھ 2015 میں اور کچھ 2016 میں لکھے گئے تھے۔ اب اسے یہاں نظرِ ثانی کے بعد پیش کیا گیا ہے۔ موجودہ صورت میں یہ مضمون غیر مطبوعہ ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے