وہ جو چاند تھا سرِ آسماں۔۔۔ عقیل عباس جعفری

شمس الرحمن فاروقی کی یاد میں

 

وہ سات بھائیوں میں سب سے بڑے اور تیرہ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ پڑھنے لکھنے سے دلچسپی ورثے میں ملی تھی۔ دادا حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے اور فراق گورکھ پوری کے استاد تھے۔ نانا محمد نظیر نے بھی ایک چھوٹا سا اسکول قائم کیا تھا جو اب کالج میں تبدیل ہو چکا ہے۔

اسکول کے دنوں میں ہی شاعری سے ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ سات سال کی عمر میں ایک مصرع لکھا:’’معلوم کیا کسی کو میرا حال زار ہےٍ‘‘۔ مگر مدتوں اس پر دوسرا مصرع نہ لگ سکا۔ پہلا ہی شعر مکمل نہ ہوا تو فی الحال شاعری کا پیچھا چھوڑ دیا اور ایک قلمی رسالے ’گلستان‘ کی ترتیب و اشاعت شروع کر دی۔ رسالہ کیا تھا یہ سمجھئے کہ سولہ یا بیس یا چوبیس صفحات کاٹ کر ان پر اپنی ’’تصنیفات‘‘ درج کرتے جاتے۔ والد کی نظر سے یہ رسالہ گزرا تو انہوں نے ٹوکا کہ تم نے بعض اشعار ناموزوں درج کئے ہیں۔ والد نے ہر مصرع کی تقطیع کر کے سمجھایا کہ کہاں غلطی ہوئی ہے۔ فعولن فعولن کی تکرار انہیں اتنی اچھی لگی کہ اسی دم ارادہ کر لیا کہ آئندہ زمانے میں عروضی ضرور بنیں گے۔ میٹرک کے بعد افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز ہوا مگر انہیں نہ اپنے پہلے افسانے کا نام یاد رہا نہ اس پرچے کا جس میں وہ افسانہ چھپا تھا۔ 1949-50ء میں ایک ناولٹ ’’دلدل سے باہر‘‘ تحریر کیا جو معیار میرٹھ میں چار قسطوں میں شائع ہوا پھر نثر کو ہی ذریعہ اظہار بنا لیا۔

یہ تھے ہمارے شمس الرحمن فاروقی۔

 

فاروقی صاحب 30 ستمبر 1935ء کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھ پور سے گریجویشن کرنے کے بعد الٰہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ الٰہ آباد میں وہ ایک عزیز کے یہاں رہتے تھے جن کے گھر سے یونیورسٹی کئی میل دور تھی۔ وہ اکثر پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے، اس وقت بھی ان کے ہاتھ میں کتاب کھلی ہوتی اور وہ ورق گردانی کرتے ہوئے چلتے رہتے۔ وہ زمانہ ہی اور تھا، راستے والے ان کے مطالعے کی محویت دیکھتے ہوئے خود ہی انہیں راستہ دے دیتے۔

الٰہ آباد یونیورسٹی سے انہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا اور اس شان سے کہ یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کی تصویر انگریزی روزنامے امرت بازار پتریکا میں شائع ہوئی تو تمام خاندان والوں نے اس پر فخر کیا۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات اپنی کلاس فیلو جمیلہ خاتون ہاشمی سے ہوئی جو ان کی ذہانت سے بہت متاثر تھیں، یہی جمیلہ ہاشمی بعد میں جمیلہ فاروقی کے نام سے خاندان کی بہو بنیں۔

ایم اے کے بعد شمس الرحمن فاروقی تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے مگر ساتھ ہی مقابلے کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔ 1957ء میں انہوں نے یہ امتحان پاس کیا اور انہیں پوسٹل سروس کے لئے منتخب کر لیا گیا۔ اس کے بعد ان کی پوسٹنگ ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہوتی رہی اور انہیں بیرون ملک سفر کے بھی بہت مواقع میسر آئے۔

اسی دوران شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی مضامین اور تراجم شائع ہونا شروع ہوئے جس نے ادبی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند ادبی تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ ترقی پسند ادیبوں نے فاروقی صاحب کو جدیدیت اور ادب برائے ادب کا علم بردار سمجھ کر انہیں اپنا حریف سمجھنا شروع کیا مگر فاروقی صاحب اپنے محاذ پر ڈٹے رہے۔ ان کی علمیت اور وسعت مطالعہ حیران کن تھی، تجزیہ کاری اور ترکیب کاری کے اوصاف نے ان کی تنقید میں استدلال کا ایک منفرد انداز پیدا کر دیا تھا جس سے ان کے حریف بھی متاثر ہوئے۔

جون 1966ء میں شمس الرحمن فاروقی نے ایک ادبی رسالے ’’شب خون‘‘ کی بنیاد رکھی۔ گو اس رسالے پر ان کا نام بطور مدیر شائع نہیں ہوتا تھا لیکن پورا ادبی دنیا کو علم تھا کہ اس رسالے کے روح و رواں کون ہیں۔ شب خون کے پہلے شمارے پر مدیر کی حیثیت سے ڈاکٹر سید اعجاز حسین کا، نائب مدیر جعفر رضا اور مرتب و منتظم کی حیثیت شمس الرحمن فاروقی کی اہلیہ جمیلہ فاروقی کا نام شائع کیا گیا تھا۔ شب خون کو جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا اور اس نے اردو قلم کاروں کی دو نسلوں کی تربیت کی۔ شب خون 39 برس تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ جون 2005ء میں شب خون کا آخری شمارہ دو جلدوں میں شائع ہوا جس میں شب خون کے گزشتہ شماروں کی بہترین تخلیقات شامل کی گئی تھیں۔

شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی مضامین کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں نئے نام، لفظ و معنی، فاروقی کے تبصرے، شعر غیر شعر اور نثر، عروض، آہنگ اور بیان، تنقیدی افکار، اثبات و نفی، انداز گفتگو کیا ہے، غالب پر چار تحریریں، اردو غزل کے اہم موڑ، خورشید کا سامان سفر، ہمارے لئے منٹو صاحب، اردو کا ابتدائی زمانہ اور تعبیر کی شرح کے نام سر فہرست ہیں تاہم تنقید کے میدان میں ان کا سب سے معرکہ آرا کام ’’شعر شور انگیز‘‘ کو سمجھا جاتا ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں میر تقی میر کی تفہیم جس انداز سے کی گئی ہے اس کی کوئی مثال اردو ادب میں نہیں ملتی۔ اس کتاب پر انہیں 1996ء میں سرسوتی سمان ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ فاروقی صاحب نے ارسطو کی بوطیقا کا بھی از سر نو ترجمہ کیا اور اس کا بہت شاندار مقدمہ تحریر کیا۔

1980ء کے لگ بھگ شمس الرحمن فاروقی کچھ عرصے کے لئے ترقی اردو بیورو سے وابستہ ہوئے، اس وابستگی نے اس ادارے میں نئی روح پھونک دی۔ ان کے دور وابستگی میں اس ادارے نے نہ صرف یہ کہ اردو کے کلاسیکی ادب اور لغات کو از سر نو شائع کیا بلکہ کئی نئی کتابیں بھی شائع کیں۔ اس ادارے کا ایک جریدہ بھی اردو دنیا کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا جس نے اردو کی کتابی دنیا کو آپس میں مربوط کر دیا۔

فاروقی صاحب کی شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا، ان کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں گنج سوختہ، سبز اندر سبز، چار سمت کا دریا اور آسماں محراب کے نام شامل تھے۔ ان کی تمام شاعری کی کلیات بھی ’’مجلس آفاق میں پروانہ ساںٍ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ فاروقی صاحب کو لغت نویسی سے بھی بہت دلچسپی تھی، اس میدان میں ان کی دلچسپی کا مظہر لغات روزمرہ ہے جس کے کئی ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں مگر فاروقی صاحب کا اصل میدان داستان اور افسانہ تھا جس کا اندازہ اس وقت ہوا جب انہوں نے داستان امیر حمزہ پر کام شروع کیا۔ انہوں نے داستان امیر حمزہ کی تقریباً پچاس جلدیں لفظ بہ لفظ پڑھیں اور پھر ان کی معرکہ آرا کتاب ’’ساحری، شاہی، صاحب قرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ 1990ء کی دہائی میں فاروقی صاحب نے فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے چند افسانے تحریر کئے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ افسانے شب خون کے علاوہ پاکستانی جریدے آج میں بھی شائع ہوئے۔ بعد ازاں ان افسانوں کا مجموعہ ’’سوار اور دوسرے افسانےٍ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تب لوگوں نے جانا کہ یہ افسانے فاروقی صاحب کے لکھے ہوئے تھے۔ سوار اور دوسرے افسانے نے فاروقی صاحب کو مائل کیا کہ وہ ہندوستان کی مغلیہ تاریخ کے پس منظر میں کوئی ناول تحریر کریں۔ یہ ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماںٍ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ناول 2006ء میں پہلے پاکستان سے اور پھر ہندوستان سے شائع ہوا۔ اس ناول نے شائع ہوتے ہی کلاسک کا درجہ حاصل کیا۔ اردو کے تمام بڑے فکشن نگاروں، نقادوں اور قارئین نے اس کا والہانہ استقبال کیا جس کا اندازہ اس ناول کے متعدد ایڈیشنز اور تراجم کی اشاعت سے لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت کے مشہور اداکار عرفان خان اس ناول کو پردۂ سیمیں پر منتقل کرنے کے خواہش مند تھے۔ فاروقی صاحب نے انہیں اس بات کی اجازت بھی دے دی تھی مگر افسوس کہ فاروقی صاحب سے پہلے ہی عرفان خان بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ فاروقی صاحب نے اسی اسلوب میں ایک ناولٹ قبض زماں** بھی تحریر کیا۔ یہ بھی بہت مقبول ہوا۔

شمس الرحمن فاروقی کو 2009ء میں حکومت ہند نے پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا جبکہ 2010ء میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز عطا کیا۔ شمس الرحمن فاروقی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی تفویض کی تھی جبکہ انہیں ان کی کتاب ’’تنقیدی افکار‘‘ پر ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ بھی عطا ہوا تھا۔

دو ماہ پیشتر اردو دنیا اس خبر سے بہت مضطرب ہوئی کہ فاروقی صاحب کووڈ 19 کا شکار ہو گئے ہیں۔ انہیں علاج کے لئے دہلی منتقل کیا گیا جہاں گزشتہ ماہ وہ اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے بے حد اصرار پر 25 دسمبر 2020ء کی صبح انہیں واپس الٰہ آباد منتقل کر دیا گیا مگر وہاں پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ خبر سماجی رابطوں کے ذرائع سے فوراً پوری ادبی دنیا میں پھیل گئی۔ ہندوستان، پاکستان اور جہاں جہاں اردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے وہاں اسے خاندان کے کسی بزرگ کی موت کی خبر کی طرح سمجھا گیا۔ ان کی وفات سے اردو ادب ایک بلند قامت ادبی شخصیت سے محروم ہو گیا۔ انہیں ان کی زندگی میں جو شہرت، مقبولیت اور پذیرائی ملی وہ بہت کم افراد کو ملتی ہے مگر وہ اس سے کہیں زیادہ کے حق دار تھے۔

٭٭٭

٭٭’قبض زماں‘ ’سمت‘ کے شمارہ ۳۷ افسانہ نمبر (جنوری تا مارچ ۲۰۱۸ء) میں شائع ہو چکا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے