خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ۔۔۔ رحمن عباس

 

اقتباس

 

“If you had died young , I would have asked you to get life۔ But you lived long۔ So I shall ask you to come again the way you came before”

Things Fall Apart- Chinua Achebe

               ٭

 

مؤذن نے تکبیر پڑھی اور لوگ جمعہ کی نماز کے لئے صف میں کھڑے ہو گئے۔ عبد السلام کالشیکر بھی کھڑا ہو گیا۔ اس کے سر پر ٹوپی نہیں تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ امام نے سورۂفاتحہ شروع کی تو اس کے کان میں کھجلی ہوئی۔ اس نے کان کھجایا۔ کان کھجاتے ہی اسے یاد آیا کئی دنوں سے وہ کان صاف کرنے کے بڈس خریدنا بھول رہا ہے۔ اس نے خود سے کہا آج وہ ضرور خریدے گا۔ اسی دوران اس کی نظر مسجد کی دیوار پر لگی گھڑی پر گئی جس میں ایک بج کر پینتیس منٹ ہو رہے تھے۔ اس نے فوراً اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا جس میں ایک بج کر پینتالیس منٹ ہو رہے تھے۔ وقت کی یہ تفاوت اس پر گراں گزری۔ اس نے سوچا مسجد کی گھڑیاں اکثر پیچھے کیوں رہتی ہیں۔ اس خیال پر وہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہتا تھا لیکن عین اسی وقت ایک موٹی سرخ چینوٹی نے اس کے انگوٹھے پر رینگنا شروع کیا۔ اس نے ہلکے سے چار پانچ بار پیر جھٹکا تا کہ چینوٹی گر جائے۔ چینوٹی رینگتے ہوئے اس کی ایڑی تک پہنچ گئی۔ ابھی وہ اس آفت پر قابو پانے میں کامیاب ہوتا کہ اس سے لگ کر جو نمازی کھڑا تھا اس نے آنکھیں ترچھی کر کے ایک نظر اس کو گھور کر دیکھا۔ ان دونوں کی آنکھیں ملیں تو اس نے آنکھوں کے اشارے سے عبد السلام کو احساس دلایا کہ اس کا دھیان امام صاحب کی طرف ہونا چاہیے۔ تذبذب میں اس نے گردن جھکائی۔ دوبارہ چینوٹی پر اس کی نظریں مرکوز ہوئیں، جس نے اسے عجیب الجھن میں ڈال دیا تھا۔ بالآخر اس نے دھیرے سے اپنا ایک پیر اٹھا کر دوسرے پیر سے رگڑا اور اس ابلیسی چینوٹی سے نجات پائی۔

سورۂ فاتحہ ختم ہوئی اور آمین کا شور بلند ہوا۔ اس نے بھی بہ آوازِ بلند آمین کہا۔ جوں ہی اس کی زبان سے آمین ادا ہوا ایک دبیز مسکراہت اس کی چہرے پر پھیلی۔۔۔ در اصل اسے امینہ یاد آ گئی تھی۔ طالبِ علمی کے زمانے میں وہ کالج کے عقبی حصے کی جھاڑ یوں میں اسے یہ کہہ کر لے جا یا کرتا تھا کہ پیار کی باتیں ایسی جگہ بیٹھ کر کرنا چاہیے، جہاں فطرت کے علاوہ ان کی گفتگو کوئی اور نہ سن سکے۔ امینہ گیارھویں جماعت میں اس کی کلاسمیٹ تھی۔ امینہ کی یاد کے ساتھ اس کا سراپا اس کی نگاہوں میں روشن ہو گیا جس میں گداز، کیف اور شرارے ہم آہنگ تھے۔ پھر نماز کب، کس طرح ختم ہوئی، اسے کچھ خبر نہ رہی۔ بس امینہ کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کے لذّت بھرے ذائقے اسے یاد آتے رہے۔ نماز ختم ہونے کے بعد امام صاحب نے دعا شروع کی۔ جس میں بار بار مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کی اللہ سے استدعا تھی۔ جانے کیوں اس وقت اسے ہنسی آ گئی جسے وہ کسی طرح روک نہ سکا۔ اس کے چہرے سے یوں بھی عیاں تھا کہ وہ دعا مانگنے میں امام کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ اس کی نظریں امام پر مرکوز تھیں۔ اچانک اسے بچپن کے دنوں کے وہ امام صاحب یاد آ گئے جو اکثر مکتب ختم ہونے کے بعد اس کے دوست نظیر عمر شیخ کو پیر دبوانے کے لئے مسجدمیں روک لیتے تھے۔ امام صاحب بنگالی تھے اور عموماً لنگی پہنے رہتے تھے۔ نظیر عمر شیخ پیر دباتے دباتے، امام صاحب کی چھڑی کے ڈر سے، ان کی لنگی میں چھپنے لگا۔ پھر کئی برسوں تک امام صاحب کے پان جس میں ’ایک سو بیس‘ تمباکو کی تیز بو شامل ہوتی تھی، نظیر کی چھاتی سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی رہی۔ مکتب میں پڑھنے والے کچھ دوستوں نے عبد السلام کو یہ بھی بتایا تھا کہ نظیر عمر شیخ کے بدن سے امام صاحب کے سر میں لگائے جانے والے زیتون کے تیل کی مہک بھی آتی ہے۔ ایک دوست نے راز دارانہ انداز میں اس کو بتایا تھا کہ ایک دن اس نے نظیر کے کان میں کچھ کہنا چاہا تو اس کے کان سے عطر جنت الفردوس کی خوشبو آ رہی تھی۔ یہ وہی عطر تھا جس کا پھاہا امام صاحب اپنے بائیں کان میں لگائے رکھتے تھے۔ امام صاحب نے بچوں سے یہ بھی کہا تھا کہ عطر کا استعمال کرنا افضل ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ نظیر یسّرنا القران سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ ایک دن اس کے جی میں کیا آیا کہ اپنے کپڑے ایک تھیلی میں ٹھونس کر وہ گھر سے نکلا اور بمبئی نمبر۸ کی بھول بھولیاں میں کھو گیا۔ نظیر کا اس طرح یکایک غائب ہونا ایک معمہ تھا۔ عبد السلام نے نظیر عمر شیخ کا ذکر اپنی نجی ڈائری میں صرف ایک بار کیا ہے۔ چند برسوں بعد نظیر کے یکایک غائب ہونے کا عقدہ اس پر کھل گیا تھا۔

یاد کے اس ٹکڑے کے ساتھ ہی عبد السلام کے دعا کے لےا اٹھے ہاتھ اس کے چہرے پر گر گئے۔ ایک افسردگی اس کی روح میں کروٹ لینے لگی۔ وہ اٹھا اور احاطۂ مسجد سے باہر نکل گیا۔

 

٭٭

عبد السلام ’انجمن یاد گارانِ مسلمین‘ میں بطورِ انگریزی معلم بر سرِ روزگار تھا۔ جہاں مذہبی اقدار کے فروغ کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ طالبات کے لےی اسکارف لازمی تھا۔ لڑکے کبڈی کے کھیل میں بھی ٹوپی سر سے اتارنے کی گستاخی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ عبد السلام کو اس وقت بہت حیرانی ہوتی جب دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے سروں پر سفید وسیاہ ٹوپیاں، بازوؤں پر اماموں اور پیروں کے تعویذ اور ضامن بندھے ہوتے۔ ایسے وقت وہ سوچتا : اب خدا کس کو جتائے گا؟ کیا خدا کنفیوژ ہو گا؟ پھر وہ خود کو سمجھاتا کہ خدا طاقتور کے ساتھ ہو جائے ہو گا کیوں کہ طاقت کی معنویت سے خدا سب سے زیادہ واقف ہے!

اسکول کے تدریسی اسٹاف میں دو مرد اور پندرہ خواتین تھیں۔ خواتین ٹیچریں گھر سے برقعہ اوڑھ کر آتیں اور اسکول میں اتار دیتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹاف روم میں گرمی زیادہ ہوتی ہے۔ عبد السلام کا خیال تھا کہ ان میں سے بعض خود بھی اسٹاف روم کی گرمی کا سبب ہیں۔ مرد ٹیچروں کے لب و لہجہ میں نسائیت در آئی تھی۔ دونوں حضرات ماشا اللہ باریش تھے اس لئے جنسی تشخیص فوراً ہو جاتی تھی۔ خالی وقتوں میں وہ مذہب کے زوال کے اسباب، مسلماناں ہند کی تعلیمی پسماندگی اور فسادات میں پولس کی جانب داری ایسے موضوعات پر خواتین ٹیچروں سے ہم کلام رہتے۔ خواتین ٹیچریں سلائی بنائی میں مصروف یا پھر وڑا سموسا کھاتے یا بیاضیں چیک کرتے ہوئے ان کی باتوں کو بہ غور سنتیں۔ سب کو عبد السلام سے شکایت تھی کہ وہ ان سنجیدہ اور گراں قدر موضوعات پر ہونے والی بات چیت میں حصّہ نہیں لیتا۔ وہ اخبار یا کسی کتاب میں ڈوبا رہتا یا مسکراتا رہتا۔ لیڈیز ٹیچر یں اس بات پر متفق تھیں کہ انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اردو میڈیم طلبہ کے مقابلے، لکھنے پڑھنے کی مہارت جلدی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی بناء پر انھوں نے اپنے بچوں کو انگریزی اسکول میں تعلیم دلوانا مناسب سمجھا تھا۔ یہ واحد یکسانیت ان خواتین میں تھی ورنہ دوسرے تمام موضوعات پر ان میں اختلاف پایا جاتا تھا۔

وقت کی کمی، کام کا بوجھ، تنخواہ سے روپے بچانے کے ایسے طریقے جس پرساس اور نندیں معترض نہ ہوں، ، شوہر سے اپنی فرمائشوں کی تکمیل کے نسخے، کنڈوم جائز ہے یا حرام؟ انگریزوں اور یہودیوں کی بنائی ہوئی ربڑ جیسی اس شئے سے مزہ کم ہوتا یا زیادہ اور اس کی ایجاد کے پس پردہ کوئی صیہونی سازش تو نہیں ہے؟وغیرہ ایسے موضوعات تھے جن پر اکیلے میں وہ خوب بحث کرتیں اور حسب عادت کبھی ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتیں۔ جن کے شادی کے بعد معاشقے چل رہے تھے، وہ راز داری میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتیں کہ انھیں اپنے عاشق پر کتنا خرچ کرنا چاہیے؟ کن ہوٹلوں میں سستے کمرے ملتے ہیں؟ کون سے ہوٹل شہر سے دور ہیں؟ اورگیزم میں کس کو مزہ زیادہ آیا ہے؟ ساتھ ہی ساتھ شبِ قدر اور شب معراج میں کتنی نفل تو نے پڑھی اور میں نے کتنے روزے رکھے ان کے عام موضوعات تھے۔

عبد السلام اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ لیڈیز ٹیچریں زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اور انبساط کشید کرنے کے عمل سے گزر ر ہی ہیں جبکہ مرد ٹیچرز انفرادی شخصیت کو تحلیل کر کے، فراموش کر کے، سب کی طرح بن جانے کے عمل میں گرفتار ہو کر رفتہ رفتہ بے شخص اور بے ضر ر آدمی میں بدل رہے ہیں۔ وہ اس بات پر حیراں ہوتا کہ ان کے ملبوسات بھی ایسے ہوتے کہ کہیں سے انفرادیت کا عنصر نہ جھلک پائے۔ ’’سماج اور معاشرے کے مطابق رہنے کے عمل نے بیشتر مرد ٹیچروں کو گانڈو آدمی بنا دیا ہے۔‘‘ یہ عبارت اپنی نوٹ بک میں اس نے تحریر کی، پھر کچھ دیر اس پر غور کیا اور گانڈو لفظ کو کاٹ د یا۔ اس کے جگہ ’غیر آدمی‘ لکھا۔ اس نے اس لفظ کو اس لے کاٹا تھا کہ نوٹ بک اسٹاف روم میں رکھی رہتی تھی اور اسے خدشہ تھا کہ اگر کوئی ٹیچر ورق گردانی کرے گا تو خواہ مخواہ برا دل برداشتہ ہو جائے گا۔ عبد السلام کا خیال تھا کہ ٹیچر ایک ایسا جانور ہے جس کی اپنی نہ کوئی شناخت ہے، نہ ذات۔ وہ ہمیشہ سب کے جیسا، سارے مذہبی تہوار منانے والا، سرکاری اجلاس میں جامدو ساکت بیٹھنے والا، دوسروں کے فارم بھرنے والا، اور الیکشن یا مردم شماری میں کلرکوں کے کام آنے والا انسٹرومنٹ بن گیا ہے۔ ٹیچر اس کے مشاہدے میں ایک ایسی پر جاتی تھی جس کے کیمیاء میں احتجاج، غصے، اور بغاوت کا کوئی نشان نہیں تھا۔

 

٭٭

عبد السلام کی تعلیم و تربیت بمبئی میں ہوئی۔ وہ ایک متوسط طبقے اور روایتی طور پر خود کو مذہبی تصور کرنے والے گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے باوجود مذہب کے معاملات میں اس کے خیالات کو پوری طرح سمجھنا دشوار ہے۔ کبھی وہ مذہب کے متعلق حد درجہ سنجیدہ نظر آتا اور کبھی ایسا لگتا مذہب اسے ایک لبادہ نظر آتا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ باطن کی نمائش کے حق میں نہیں تھا۔ لیکن اس کے جن خیالات سے اس کے قریبی دوست واقف تھے۔ ان میں یہ باتیں شامل تھیں کہ اس کا خیال تھا کہ وہ جس عہد میں جی رہا ہے، اس میں مذہب ذات کے اسفل ترین چہرے کو چھپانے کا ایک وسیلہ ہے۔ نمائش پسند لوگوں کا ہتھیار ہے۔ مذہب افراد کے اچھے برے ہونے کا پیمانہ نہیں ہے۔ بے عقل اور غیر منطقی فکر کے حامل افراد مذہب کی جمالیات کو سمجھ نہیں سکتے۔ وہ لوگ جو جنس اور حسن کی معنویت سے آشنا نہ ہوں خدا سے مربوط نہیں ہو سکتے؟

 

٭٭

دوسری جانب یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ معمولی سی بیماری بھی اس پر سایہ کرتی تو وہ مسجد کا رخ کرتا اور اللہ سے دعا کرتا: ’یا اللہ ترے بارے میں غلط غلط سوچتا رہا۔۔ کیا تو اس کی سزا دے رہا ہے؟ میں جو کچھ سوچتا ہوں وہ میرا دماغ سوچتا ہے۔ میں کیا کروں؟ دماغ کی ساخت تو نے بنائی ہے۔ تری مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا پھر دماغ کیا کر سکتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں تیرے خلاف سوچنے پر۔۔۔ (وہ غور کرنے والے انداز میں سوچتا) تو ہی مجھے اکساتا ہے۔؟ جیسے تو نے ابلیس کو ترے خلاف محاذ کھلنے کی توفیق دی تھی۔ سب تیرا گیم ہے۔ اچھا اب میں ترے بارے میں غلط نہیں سوچوں گا۔۔۔ لیکن توفیق تجھے دینا پڑے گی۔ دعا کے بعد خوشی خوشی مسجد سے باہر نکلتا۔ دل میں فتح مندی کا احساس بیدار ہوتا تو پان کی دکان سے ماوا بنواتا۔ ’بھولا، کتری سپاری، اسٹار مار کر‘۔

ماوا منہ میں ڈالتا اور ادھر ادھر ٹہلتا رہتا۔ ٹوپی سر سے نہیں اتارتا۔ محلّے کے لوگوں سے سلام دعا کرتا ہوا بازار میں بھٹکتا پھرتا۔ کچھ دیر بعد جب اپنی ترنگ میں لوٹ آتا تو سوچتا : میں جس کو مخاطب کر کے اتنی باتیں کر رہا تھا۔۔ وہ ہے بھی یا نہیں۔۔ یا بس میرا وہم ہے؟ آدمی کیا کر سکتا ہے۔۔۔ مجبور جو ہے۔۔ کچھ توقف کے بعد سوچتا : خدا نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں۔۔ لیکن اگر نکالا؟۔۔۔ وہ کچھ دیر اور خدا کے وجود پر غور کرتا پھر کہتا : خیریت اسی میں ہے کہ اس کے خلاف نہ جاؤ ( پھر چاہیے جو کرو) جیسے سبھی کرتے ہیں۔۔ لیکن ہر بار اس موڑ پر آنے کے بعد وہ نفی میں سر ہلاتا اور خود کلامی کا اختتام اس خیال پر کرتا : اگر میں بھی سبھی کی طرح ہو گیا تو بچا کیا۔۔۔ نہیں نہیں میں نفس کے ساتھ فریب نہیں کر سکتا۔ ’میں صرف اپنی نفس کا اظہار ہوں‘۔ (اس کی نجی ڈائری کا ذیلی عنوان یہی ہے۔)

 

٭٭

عبد السلام کے مطابق خدا سب کی ڈھال ہے اور چوری چوری چپکے چپکے سب کے ساتھ تھوڑا بہت وقت گزار لیتا ہے۔ توگڑیا، اڈوانی، اور مودودی کا خدا ہے۔ اسامہ، صدام اور ملا عمر کا خدا ہے۔ جارج بش، پوٹن، اور ٹونی بلیرکا خدا ہے۔ میڈونا، مادھوری دکشت اور کرشمہ کپور کا خدا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ آدمی سوچتا ہے جب تک دوسرے اسے احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے وہ بے آدمی ہے۔ اسی احساس کو برداشت کرنے کی صفت انسانی ذہین نے ابھی ایجاد نہیں کی ہے۔

’’انسان خدا سے کٹ کر خود کو دریافت کرنے کی اجتماعی کوشش کم از کم مزید ۵ ملین برسوں تک نہ کر پایے۔ یا شاید کبھی نہ کر پایے۔ مگر انسان خدا سے جڑا بھی تو نہیں رہتا۔ وہ خدا کو شلوار کی طرح پہن لیتا ہے۔ تلک کی طرح لگا لیتا ہے یا ٹوپی کی صورت اوڑھ لیتا ہے۔ یا مزار کی صورت اس کے گرد قوالیاں منعقد کرتا ہے۔ خدا کو استعمال کرتا ہے، اپنے آپ کو سماج میں مناسب مقام دلوانے کے لئے، قبولیت کے لئے۔ گویا صحرائے زندگی میں خدا ایک چادر ہے جو ہمارے سروں پر ہمیشہ رہے۔ ڈر ہے اس سایے سے باہر نکلتے ہی دھوپ کی تمازت سے ہمارے دلوں کے نرم ریشے تحلیل ہو جائیں گے۔‘‘

اپنے پہلے ناول ’غیر مطبوعہ‘‘ اب ’آدمی کی سوانح عمری‘ کے مسودے میں مندرجہ بالا پیراگراف اس نے لکھا تھا۔ لیکن جو ایڈیشن شائع ہوا اس میں یہ پیرا گراف نہیں ہے۔ مسودے میں ہی اس نے اس پیرا گراف کو کاٹ دیا تھا۔ اسے ڈر تھا اس کے مذہبی دوست (جو خود ادیب تھے) اس کی ان باتوں سے ناراض ہو جائیں گے۔ اس پیرا گراف کو کاٹ کر اس نے حاشئے پر سرخ سیاہی سے لکھا تھا : ’’میں تیرے بارے میں وہ باتیں بھی دوسروں کو نہیں بتا سکتا جو تو خود چاہتا ہے میں انھیں بتا دوں۔‘‘

 

٭٭

عبد السلام کبھی خدا سے بے پناہ عقیدت کا اظہار کرتا اور کبھی اس پر برانگیختہ ہوتا۔ طیش اور غصے سے کبھی اس کے فیصلوں اور غلط جماعت کے ساتھ ہونے پر تنقید کرتا۔ پھر سوچتا : ’یار جب تو ہے ہی نہیں، تو میں تجھ پر اتنے الزام کیوں لگاتا ہوں؟ میری مت ماری گئی ہے؟‘ پھر مسکراتا اور کہتا: ’’سن! اب اگر ہے، تو میری سر پھری باتوں کا مجھ سے انتقام مت لینا۔‘‘ ایسے جملے وہ آسمان کی جانب دیکھ کر دل ہی دل میں ادا کرتا۔

اس کی خود کلامی پر جب کوئی اس سے پوچھتا: ’کیا ہوا بھئی؟‘

جواب دیتا ’ربّ باری سے فریادِ مغفرت کر رہا ہوں۔ اللہ تمہیں بھی بے حیائی اور برائی سے بچائے۔‘

جیسے ہی پوچھنے والا شخص گزر جاتا۔ وہ مسکراتا اور کہتا۔۔ ’’اِنَّ للہ۔۔۔ راجعون۔‘‘

 

٭٭

ایک دفعہ کا واقعہ ہے جب اس کی خدا برہمی پہلی اور آخری بار اس کے ایک طالب علم پر عیاں ہو گئی۔ ہوا یوں تھاکہ اسکول کی پکنک کسی پہاڑی مقام پر گئی ہوئی تھی۔ وہاں ایک آبشار سے پانی دھاڑ دھاڑ گر رہا تھا۔ طلبہ اور اساتذہ سب موج مستی میں مگن تھے۔ عبد السلام ایک پیڑ کے سایے میں بیٹھا اپنی ایامِ جوانی کی اس پکنک کو یاد کر رہا تھا جس میں شہلا نامی ایک لڑکی کو وہ ایسے ہی کنج میں درختوں کے پیچھے لے جا کر محوِ کلام عشق تھا۔ اس شام کے پر شہوت منظر اس کے دماغ کی اسکرین پر ماضی کے کھنڈر ات سے نکل کر ابھی جلوہ گر ہونے ہی والے تھے کہ ایک طالبِ علم جو اکثر اس سے سنجیدہ موضوعات پر غیر سنجیدہ سوالات پوچھا کرتا تھا، قریب آیا اور پوچھ بیٹھا :’سر یہ آبشار میں پانی کدھر سے آتا ہے؟‘

اس کی زبان سے ایک تلخ اور دلبرداشتہ کر دینے والا جملہ ادا ہوا۔ لڑکا تلملایا اور فوراً وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ عبد السلام کو کچھ دیر بعد اپنے رویے پر ندامت بھی ہوئی پر خدنگ جستہ اور زبان سے ادا ہوا جملہ دونوں کا حساب کسی نہ کسی دن ادا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں وہ بہت دیر تک اپنی سابقہ معشوقہ کو دل کی بھول بھولیاں میں ڈھونڈتا رہا مگر اس نے مراجعت نہیں کی۔ ہاں! البتہ اس دن کے بعد سے عبد السلام اس طالبِ علم سے نظریں چراتا رہا۔ اسے نظر انداز کرتا رہا۔ لیکن کمبخت!وہ طالب علم بھی جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا، جب کبھی جمعہ کی نماز میں اسکول کی مسجد سے عبد السلام کو باہر آتے دیکھ لیتا چشم زدن میں، کسی جن کی طرح اس کے سامنے وارد ہوتا اور کہتا: ’’سر۔۔ سلام۔۔ وعلیکم۔۔‘‘ کبھی کبھی رحمت اللہ بھی جوڑ دیتا۔ عبد السلام کو ایسا لگتا یہ سلام اس لڑکے کے منہ سے نہیں بلکہ انتقاماً اسی مقام سے آ رہا ہے جہاں سے آبشار آتا ہے۔

 

٭٭

جہاں تک میں نے معلومات اکٹھا کی ہے اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ باگ عبد السلام کو پسند کیا کرتے تھے۔ وہ خاصا انسان دوست شخص تھا۔ آشفتہ حال صرف اس وقت ہوتا جب کسی انتہائی کم درجہ آدمی کی مبالغہ آمیز تعریف اس کے سامنے کی جاتی۔ کسی تعلیمی جلسے میں ایک محترمہ کے منہ سے دوران تقریر ادا ہوا ’سابق صدر جناب عبدالکلام جتنے عظیم سائنسداں ہیں اتنے ہی با کمال شاعر بھی ہیں۔‘ عبد السلام سے رہا نہیں گیا۔ وہ سٹیج پر گیا۔ اس نے خاتون سے مخاطب ہو کر کہا ’بڑی بی! عبد الکلام کی انگریزی شاعری ایسی ہی ہے جیسی اردو میں تابڑاہیم چاشک کی۔ مجمع قہقہہ بردار ہو گیا حتیٰ کہ وہ محترمہ بھی ہنس پڑیں۔ (تابڑاہیم چاشک کی وفات چند روز قبل ہی ہوئی تھی۔ وہ بمبئی کے ایک مقامی تاجر تھے جن کو شاعری کا بھی چسکا تھا۔ حالانکہ وہ انتہائی کمزور شاعر تھے لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ وہ عہد حاضر کے غالب ہیں۔ ) اسی واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ عبد السلام کے حوالے سے ممبئی شہر کے علمی حلقوں میں مشہور تھا۔ اس کے ایک استاد افسانہ نگار ایک رسالے کے مدیر بھی تھے۔ عبد السلام کو اپنے استاد کی افسانہ نگاری شاید نا پسند تھی۔ بہت ہی خاص دوستوں میں سے کسی نے اس سے پوچھا کہ ’استاد کی افسانہ نگاری کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘ بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا : ’’چھوتیا افسانہ نگار ہے۔‘‘ ہفتے پندرہ دن میں بات عبد السلام کے استاد تک پہنچ گئی۔ ایک ادبی جلسے میں استاد کے سامنے وہ حاضر تھا۔ کسی سے کہہ رہا تھا کہ ان سے ملئے یہ میرے استاد ہیں۔ استاد کو غصہّ آ گیا اور اونچی آواز میں بولے، ’’منہ پر استاد کہتے ہو اور پیچھے چھوتیا۔ خود استاد ہو گئے ہو کچھ تو شرم کرو۔‘‘

چند افسانہ نگار اور شاعر ارد گرد جمع ہو گئے۔ عبد السلام نے استاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: ’’سر! میں آپ کو چھوتیا کیسے کہہ سکتا ہوں۔ کیا آپ چھوتیا ہیں؟‘‘ اس پر مجمع ہنس دیا۔ استاد کچھ سمجھے نہ سمجھے، مسکراتے ہوئے ایک طرف ہو گئے۔ عبد السلام نے زیرِ لب کہا: ’سچ مچ کس قدر چھوتیا آدمی ہے۔ ۲۰۰۳ء تک لفظ ’’چھوتیا‘‘ ممبئی میں کم فہم آدمی کے لےا استعمال ہوتا تھا۔ اس واقعے کے بعد لوگ شرارتاً عبد السلام کے استاد کا نام اس لفظ کی جگہ استعمال کرنے لگ گئے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں عبد السلام کو اس واقعے پر افسوس ہوتا رہا۔

 

٭٭

رمضان کا مہینہ اس کے لے رحمتوں بھرا نہیں بلکہ اذیتوں بھرا ہوتا۔ روزہ نہیں رکھتا تھا لیکن پورا دن روزہ داروں کی سی حالت بنائے رہتا۔ دل میں افسوس کرتا کہ کاش میں انھیں بتا دیتا کہ میں بھوکا ہوں روزہ دار نہیں ہوں۔ گھر پر رہتا تو دن بھر کھاتے پیتے رہتا اور مغرب کی اذان سے ذرا پہلے دستر خوان پر بیٹھ جاتا۔ والدہ کے ساتھ دعا پڑھ کر روزہ کھولتا اور بھائیوں کے ساتھ بلڈنگ سے نیچے اترتا۔ اس کے بھائی مسجد کی طرف جاتے، یہ پان والے کی دکان پر پہنچ جاتا۔ ’’ایک بھولا، کچی سپاری، اسٹار مار کر۔‘‘

دکان والا پوچھتا ’سر روجے کیسے جا رہے ہیں؟

تو جواب میں کہتا۔ ’’اس سال تو معلوم ہی نہیں پڑ رہے ہیں۔‘‘

پان منہ میں ڈال کر دل میں کہتا :کس سالے کو معلوم نہیں پڑ رہے ہیں؟پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچتا، اس مہینے اگر شیطان کو تو قید کرتا ہے تو پھر مجھے گمراہ کون کر رہا ہے؟شاید تو ہی نہیں چاہتا کہ میں روزے رکھوں۔ اگر تیری یہی مرضی ہے، تو مجھے روزے رکھنے کی توفیق کیوں کر نصیب ہو؟ ویسے رکھ بھی لیتا تو کچھ نہیں بگڑتا۔ اسکول میں اتنے گھنٹے تو یوں بھی بھوکا رہتا ہوں۔ کچھ دیر بعد اپنی ہی بات کا کاٹتے ہوئے کہتا :کیا پاگل پن ہے۔ بھوکا رہنے سے تو خوش ہو جاتا؟ تو اتنا بے وقوف نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتا تو نا؟ہاں مگر بھوکا رہنے سے میرا ہاضمہ ٹھیک ہو جائے گا۔ کئی فائدے ہیں روزہ رکھنے میں۔۔ نکسٹ ٹائم رکھوں گا۔ تری خاطر نہیں بلکہ اپنے ہاضمے کی خاطر۔ مگر وہ دن کبھی نہ آیا۔ پچاسویں سالگرہ کے دوسرے روز اسے متواتر پیچش ہوئے، تب ڈاکٹر سے کہا : ’سب جانتا ہوں، ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ کاش سالے روزے رکھ لیتا۔‘ پھر آسمان کی جانب دیکھ کر ملتجیانہ لہجے میں کہا : ’اتنے نحیف آدمی سے اتنا شدید انتقام۔‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے