میں کیوں لکھتا ہوں ۔۔۔ رشید امجد

 

’’اور جس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں نے اُس کو حقیقتاً پہچان لیا ہے، اُس نے اپنے وجود کو معروف کے وجود سے بھی زیادہ عظیم اور بزرگ تر کر لیا، کیونکہ جو شخص کسی چیز کو اُس کی حقیقت کی تہہ تک پہنچ کر پہچان لیتا ہے وہ دراصل اُس چیز سے بھی زیادہ قوی ہو جاتا ہے‘‘ حسین بن منصور حلاج کا یہ قول ’’طواسین‘‘ میں درج ہے۔ لکھنا بھی ایک اظہار ہے اور اس اظہار کی توفیق اُسی کو حاصل ہوتی ہے جو حقیقت کو پہچان لیتا ہے، مجھے لکھنے کا دعویٰ نہیں، اپنے تئیں میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں حقیقت کو اس کی تہہ تک پہنچ کر پہچاننا چاہتا ہوں۔ یہ نامعلوم کی تلاش ایک ایسا سفر ہے جس میں اپنا آپ گم ہو جاتا ہے۔ زماں کیا ہے اور مکاں سے پہلے وہ کس صورت میں تھا؟ وہ جو دور سرمئی دھند میں کہیں چھپا بیٹھا ہے، کیا ہے اور کون ہے؟ میرا اس سے تعلق کیا صر ف خالق اور تخلیق کا ہے یا اس اسرار میں، میرا بھی کوئی کردار ہے، یہ وہ سوال ہیں جو مجھے لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔

اظہار ایک بنیادی شے ہے، ہر وجود اپنا اظہار چاہتا ہے اور اس اظہار کے لیے مختلف وسیلے تلاش کرتا ہے۔ میرا وسیلہ لفظ ہے چنانچہ میں لفظوں کو جوڑ کر وہ جملہ بناتا ہوں جو میرے باطن کو منکشف کرتا ہے۔ یہ ایک طویل ریاضت ہے، جس کا پہلا مرحلہ اپنے آپ کو جاننا ہے۔ اپنی شناخت اور پہچان کہ اس کے بعد ہی اگلا سفر شروع ہوتا ہے۔ سفر صرف خارجی نہیں ہوتا، خارجی سفر میں تو درمیانے یا اچھے درجے کا سفر نامہ ہی ہاتھ آ سکتا ہے، ایک سفر اندر کا بھی ہے، بہت ہی پر اسرار لمحہ لمحہ، قدم قدم چلتے جانا اور اس تجربے کو لفظوں کی مالا میں پُر و کر تخلیق بنا لینا، یہی لکھنے کی بنیاد ہے۔

میرے خواب، خواہشیں اور بے تاب تمنائیں وہ سامان ہیں جن سے میں لکھنے کا اہتمام کرتا ہوں۔ اور یہ میرے باطن سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور خارج سے بھی، خارج سے یوں کہ میں جس معاشرے میں رہتا ہوں، اس کے مسائل و معاملات میرے بھی ہیں۔ ان میں بہتری کی تمنا اور آئیڈیل کے خواب میری تحریروں میں آدرش بنتے ہیں، لیکن میرا دائرہ صرف خارج تک محدود نہیں، میرے اندر بھی ایک دنیا موجود ہے اور اُس کے سوالات مختلف ہیں۔ میری شناخت کی دو سطحیں ہیں جن کے اظہار کیلیے میں لکھتا ہوں، اول یہ کہ اس معاشرے میں، میں کہاں کھڑا ہوں، کس طبقہ کا فرد ہوں اور اس طبقاتی تضاد کے ظلم سے خود کو اور اپنے عہد کو کیسے بچا سکتا ہوں۔ اس طبقاتی معاشرے میں کیا میری شناخت صرف میرا شناختی کارڈ نمبر ہے، یا میں اس معاشرے میں کہیں اور بھی وجود رکھتا ہوں۔ یہ میری تحریروں کا سماجی اور سیاسی پس منظر ہے، میں بار بار کیوں فتح کر لیا جاتا ہوں میری رائے کہاں ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے؟ میں اپنی لکھتوں میں اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اسی لیے لکھتا ہوں، لیکن یہ میرے ہونے کا خارجی لمحہ ہے، میری شناخت کا ایک داخلی اور باطنی لمحہ بھی ہے اور و ہ یہ کہ میں کون ہوں؟ اس عظیم کائنات میں میرا وجود کیا معنی رکھتا ہے، میں ہوں بھی یا نہیں، یہ دائرہ در دائرہ سچ کا سفر کہاں ختم ہوتا ہے، ایک لمحہ ہے جہاں سر گشتگی اور تحیر کے سوا کچھ نہیں، جو راز ہے وہ راز ہی ہے۔ میں اس لیے بھی لکھتا ہوں کہ یہ راز مجھ پر منکشف ہو جائے اور اس انکشاف سے مجھے جو مسرت اور سرشاری ملتی ہے میں اپنے قاری کو اس میں شریک کرنا چاہتا ہوں، اسی لیے تو میں نے خرقہ اتار کر قلم سنبھال لیا ہے کہ سچ کی کوئی زبان، کوئی انداز، کوئی بھیس لباس نہیں ہوتا۔

میں عام شخص کے لیے نہیں لکھتا، میرا قاری مجھے خود تلاش کرتا ہے، میری لذتوں میں وہی شریک ہو سکتا ہو جو میرے تجربے کی اسراریت کو محسوس کر سکتا ہے۔ میں کہانی جوڑتا نہیں، ٹکڑے اکٹھے نہیں کرتا۔ کہانی ایک خیال کی طرح میرے ذہن میں آتی ہے اور تخلیقی عمل سے گزر کر ایک وحدت کی طرح کاغذ پر بکھر جاتی ہے۔ میں اس کے لیے لفظ تلاش نہیں کرتا، یہ خیال اپنے لفظ خود لے کر آتا ہے، میری تخلیقی دنیا بہت سوں سے مختلف ہے، میرا تخلیقی عمل بھی مختلف ہے۔ میں جو کچھ لکھتا ہوں یہ میری باطنی واردات ہے۔ ا س میں میرا ماحول اور معاشرہ بھی آ جاتا ہے کہ بہر حال میں اس کا ایک فرد ہوں، لیکن میں اپنی پہچان ایک سماجی ماہر کے طور پر نہیں کرانا چاہتا، میں ایک تخلیقی فنکار ہوں اور جہاں فن آئے گا وہاں تکنیک بھی ہو گی۔ تکنیک اور فن ہو گا تو اسلوب بھی آئے گا یہ سب مل کر جو کچھ بنائیں گے اسے دو جمع دو چار کی طرح نہیں سمجھا جا سکتا، اس کی تفہیم کا طریقہ مختلف ہو گا۔

میں اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے اپنے ہونے کا احساس رہے، یہ میری مجبوری نہیں میرا اظہار ہے کہ اظہار کے بغیر کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا، جو وجود رکھے گا وہ اس وجود کا احساس بھی کرائے گا۔ جیسا میں نے کہا میرے اظہار کا ذریعہ لفظ ہے، میں لفظوں کو جوڑ جوڑ کر اپنے آپ کو منکشف کرتا ہوں۔ معاشرے میں میرا سفر ناک کی سیدھ میں نہیں، جو کچھ نظر آتا ہے میرے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے، جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو یہ تجربہ میری کہانی میں ایک خارجی معنویت پیدا کرتا ہے، اسے سماج سے جوڑتا ہے اور اس میں روح عصر اور جدید حسیت پیدا کرتا ہے۔ میرا باطنی سفر پیچ در پیچ ہے کہ یہاں کوئی منزل نہیں، ایک سرمئی دھند ہے جس میں چلتے رہنا، چلتے ہی رہنا، ایک مبہم سی سچائی، ایک ایسا تجربہ جسے بیان کرنے کے لیے علامت اور استعارہ کی ضرورت پڑتی ہے، در حقیقت یہی میری کہانی کا اثاثہ ہے۔ یہ میری کہانی کا باطن ہے۔ اس کی اندرونی معنویت، جو اسے ماورائے عصر بناتی ہے۔

لکھنا۔۔۔ ادب لکھنا ایک پیچیدہ عمل ہے، ایک ایسا تخلیقی پراسیس جسے قطعیت کے ساتھ بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ خیال کس عمل سے گزرتا ہے اور کیونکر ایک فن پارے کی صورت اختیار کرتا ہے، اس کے بارے میں قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے، اور اس سے بھی زیادہ مشکل اس سوال کا جواب ہے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں؟ بس میں لکھتا ہوں کہ مجھے لکھنا آتا ہے، شائد نہیں، یہ جواب مکمل نہیں۔ میں لکھوں نہ تو اور کیا کروں کہ مجھے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ اظہار کے راستے تو آدمی ڈھونڈ ہی لیتا ہے، اس لیے یہ بھی کوئی مناسب جواب نہیں تو پھر کوئی کیوں لکھتا ہے؟ شہرت کے لیے، کسی آدرش کی تکمیل کے لیے، صرف اپنی ذات کے اظہار کے لیے۔۔۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب باتیں مل کر وہ اکائی بناتی ہیں جو لکھنے کا محرک ہوتی ہے۔ جس طرح کسی اچھے فن پارے کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جا سکتا، کہ اچھا فن پارہ صرف خیال یا صرف اسلوب یا صرف تکنیک یا صرف جذبے کی بنیاد پر اچھا نہیں ہوتا بلکہ یہ سب جب ایک تناسب سے ایک اکائی میں ڈھل جاتے ہیں تو بڑا فن پارہ وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح لکھنا بھی ایک مکمل عمل ہے۔ لکھنے والا اپنے سماجی عمل سے بھی وابستہ ہوتا ہے اور اس سے ماورا ایک اور حقیقت کو بھی تلاش کر رہا ہوتا ہے اگر وہ صرف سماجی اظہار تک محدود رہ جائے تو دوسرے درجے کا حقیقت نگار بن جائے گا، جس کے لیے سادہ بیانیہ ہی کافی ہے لیکن اگر وہ سماجیات کے ساتھ ساتھ اَن دیکھے کو بھی دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے عمل میں پیچیدگی آ جائے گی جس کے اظہار کے لیے علامت اور استعارے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اب یہ ہر لکھنے والے کا اپنا ظرف اور استطاعت ہے کہ وہ اپنے آپ کو کہاں رکھنا چاہتا ہے اور کن میں مقبول ہونا چاہتا ہے۔

لکھنے کے لیے ایک اضطراب اور بے چینی بہت ضروری ہے، یوں بھی نفس مطمئنہ کس کو ملا ہے، کشف کے بڑے سے بڑے تجربے کے بعد بھی ایک کسک، ایک بے چینی تو موجود رہتی ہے، لکھنا بھی ایک مکاشفہ ہی ہے۔ لکھنے والا مطمئن ہو جائے تو صورتِ حال کا غلام بن جاتا ہے، اس کے اندر دربار داری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اپنے لفظوں سے وہی کام کرتا ہے جو بھانڈ اپنی حرکتوں اور پھبتیوں سے کرتا ہے۔ تفریح اور حظ آفرینی میں ایک فرق ہے۔ لکھنے والا اپنی تحریر میں خود موجود ہوتا ہے۔ میں اپنے ہر کردار کے اندر بھی ہوں اور اس سے باہر بھی۔ ایک اضطراب مجھے لیے لیے پھرتا ہے۔ کسی ان دیکھے، نامعلوم کی تلاش میں، یہ اضطراب ختم ہو جائے تو میرے اندر کا لکھنے والا مر جائے گا۔ کہتے ہیں کوئی درویش ہمیشہ یہ دعا مانگتا تھا کہ ’’اے خدا مجھے مضطرب رکھ‘‘ کسی نے کہا، ’’تو عجب شخص ہے، لوگ خدا سے اطمینان مانگتے ہیں اور تو اضطراب کا طالب ہے۔‘‘ درویش بولا، ’’یہ اضطراب ہی تو میرے ہونے کی دلیل ہے‘‘ سو میں بھی ہمیشہ اضطراب کی دعا مانگتا ہوں کہ میرا بے چین ہونا، میری تحریروں کی زندگی ہے۔ میرے عہد کے جو لکھنے والے بے چینی کی دولت سے عاری ہیں، وہ قصیدے لکھ رہے ہیں، لطیفے سنا رہے ہیں اور تالیاں پٹوا رہے ہیں، ان میں اور شو بز کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں، ان کی زندگی سٹیج پر پردہ گرنے تک محدود ہے۔ اس لیے ہر لکھنے والے کو انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ ویسے انتخاب کا مرحلہ تو ہر لمحے موجود ہوتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق چلنے کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ غالبؔ اگر ذوقؔ کی راہ پر چلتے تو وقتی شہرت تو ضرور مل جاتی لیکن پھر وہ بھی اس طرح کے مصرعے کہتے:-

؎ شیر سیدھا تیرتا ہے وقتِ رفتن آب میں

وہ اس دکھ کا اظہار نہ کرتے

؎ گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

لیکن وقت سب سے بڑا نقاد ہے اس کی چھلنی میں سے گزر کر غالبؔ ہی زندہ رہتا ہے، ہر لکھنے والے کو اس نکتہ پر غور کرنا چاہئیے۔

میں اس لیے لکھتا ہوں کہ اپنا اظہار چاہتا ہوں، اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں میں زندہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک آدرش کی تکمیل چاہتا ہوں کہ کبھی تو وہ غیر طبقاتی آئیڈیل معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں میں اور مجھ ایسے سب سر اٹھا کر چل سکیں گے، ہمیں کوئی فتح کرنے والا نہیں ہو گا، ہماری رائے کی اہمیت ہو گی۔ یہ خواب سہی، میری بے تاب تمنائیں سہی، لیکن میری تحریروں کا اثاثہ یہی خواب اور یہی تمنائیں ہیں۔ میں تو درویش بننا چاہتا تھا لیکن اس کا ظرف نہ تھا، دنیا دار اس لیے نہ بن سکا کہ دنیا داری کا سلیقہ نہ تھا، سو میں نے لکھنے والے کا بھیس اپنا لیا ہے کہ اپنا تماشا دیکھوں اور دوسروں کا بھی۔

’’ازل سے ابد تک ایک خواب، ایک پر اسرار سرمئی دھند جس میں کچھ دکھائی دیتا ہے کچھ نہیں، اور میں جو وجود اندر وجود ایک چھوٹا سا جرثومہ ہوں کائنات کی وسعتوں کو دریافت کرنے چلا ہوں، عظمت کی یہ تلاش انا کی تسکین کے سوا اور کیا ہے؟‘‘

’’میں ہوں۔۔۔‘‘ یہی میرے لکھنے کا جواز ہے!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے