انتہائے کمال سے گوشۂ جمال تک (قسط ۴) ۔۔۔ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

 

سفر نامہ عمرہ ۲۰۱۶ء

 

زیارات سے واپسی پر نمازِ ظہر سے پہلے مسجد نبویﷺ میں پہنچ چکے تھے۔ شاہد گائیڈ کو کہہ چکے تھے کہ بس میں رکھے گئے کھجوروں کے دونوں ڈبے ہوٹل مونا کے مرکزی استقبالیہ پر پہنچا دے۔ یہ کھجوریں مسجد قبلتین کے باہر کھڑے ایک ٹرک سے خریدی گئی تھیں۔ مسجدِ قبا اور مسجد قبلتین میں نوافل تو ادا کر لےق تھے لیکن اس دعا کے ساتھ کہ کم از کم مسجدِ قبا میں ایک مرتبہ پھر نوافل کی ادائگی کا سبب بنا دے۔ کھجور مارکیٹ بھی لے جایا گیا، پچھلی مرتبہ تو دکاندار خریدنے سے پہلے کھلے دل سے کھانے کے لے پیش کرتے تھے اب کی مرتبہ ایسا کچھ نہ تھا۔ بلکہ عجوہ کھجور کی گھر یعنی ہوٹل مونا آنے کے بعد، پیکنگ کھول کر دیکھی گئی تو وہ ایسی سخت، خشک لکڑی کی مانند تھیں کہ جنھیں واپس کرنا پڑا۔

اب ہم مسجدِ نبوی میں سکون سے درود شریف پڑھتے اور دیگر ذکر و وظائف کرتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے لے ہم اپنے ہوٹل نہ جانا چاہتے تھے کہ وقت ضائع ہو گا، لیکن ہمیں حرم نبویﷺ کے قرب و جوار میں کوئی جگہ کھانے کے لےل نہ ملی۔ بہت دل چاہتا تھا کہ گیٹ نمبر ۸ جس کے سامنے بازار تھا، جہاں کھجور یں، جائے نماز، تحائف، پھل اور سب سے بڑھ کر چائے، کافی وغیرہ کے سٹال کی موجودگی بہت مزا دیتی ہے، وہیں کھانے کا بھی کچھ بند و بست ہو جائے۔ پہلے روز بلکہ شب، عشا کے بعد ہم چائے کافی کے متلاشی اس بازار میں گھوم رہے تھے، جاوید بھائی دن میں وہ سٹال دیکھ چکے تھے اس لےہ مشکل نہ ہوئی۔ وہاں پہنچ کر دو چائے کا آڈر دیا گیا جو کہ چینی اور دودھ کے بغیر ہو گی، ایک کافی جس میں دودھ تو ڈالا جائے لیکن چینی نہیں، ایک کپ کافی جس میں دودھ چینی سب کچھ ہو، چائے والا بلکہ چائے والے دونوں چکرا کے رہ گئے کہ ہم سب اپنی اپنی پسندیدہ چائے کافی۔۔۔ لائٹ کافی، سٹرانگ کافی میں کوئی کمی نہ دیکھنا چاہتے تھے اور انھیں مسلسل مشورے دے رہے تھے۔ اگر وہ مکہ کے ہوتے تو یلیٰ معافی کہہ کر ہمیں خاموش کروا دیتے بلکہ بری طرح ڈانٹ دیتے، لیکن یہ مدینہ کے خوش مزاج میزبان تھے اور ہماری فرمائشوں سے لطف لے رہے تھے۔ وہاں سے چائے، کافی اور کیک لے کر سامنے کھلی جگہ پر بنے بنچوں پر بیٹھ کر مزے سے کھاتے پیتے رہے۔ بعد میں ہمارا معمول بن گیا، جب بھی جی چاہتا اسی مقام پر بیٹھ کر چائے کافی پی لیتے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ اسی بازار میں کہیں کوئی کھانے کی جگہ بھی مل جائے لیکن وہاں ایسا کوئی انتظام نہ تھا۔ کھانے کی تلاش میں کبھی گیٹ نمبر ۱۵ سے باہر جاتے تو کبھی گیٹ نمبر ۲۲ سے اور آج بھی کافی تلاش کے بعد کافی دور ایک ایسے ریسٹورنٹ میں پہنچے جہاں انڈونیشینز اور ملائیشینز کھانے زیادہ تھے بہرحال کھانا کھایا اور پچھلے عمرے پر جن پاکستانی ہوٹلز سے کھانا کھایا کرتے تھے انھیں یاد کیا۔

واپسی پر مجھے موبائیل میں سم ڈلوانی تھی لیکن بینک نماز کے وقفے کے لےر بند تھا۔ مسجد نبوی واپس پہنچے اب ہم باب عثمان ۲۵ نمبر گیٹ سے اندر گئے۔ روضہ رسولﷺ جانے کا وقت، وقت سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ عصر کی نماز کے بعد میں اکیلی ہی سم لینے چلی گئی کہ شاہد نے کہہ دیا تھا کہ ہم جو اتنی دور سے گیٹ ۲۲ پر آئیں گے اور پھر تمھیں لے کر اس بنک تک آئیں گے، جگہ پہچان لو یہاں آ کر سم لے لینا۔ تو میں اب سم کے انتظار میں بنک میں بیٹھی تھی باہر بہت لمبی قطار لگی تھی۔ ذرا دیر بعد ہی مڑ کر دیکھا تو شاہد صاحب بھی اندر آتے دکھائی دیے۔ سم لے کر باہر نکلے تو جاوید بھائی کو بھی منتظر پایا، کہ وہ دونوں بھی نماز عصر ادا کرتے ہی نکل آئے تھے کہ تم اکیلی کیسے جاؤ گی۔

باب عثمان میں دروازے کے ساتھ ہی لائبریری موجود ہے، میں اپنی کتابیں ’’عجب اک سلسلہ ہے‘‘ اور ’’دسترس میں آسمان‘‘ دینے کے لےے لے گئی، وہاں موجود منتظمہ نے حسب معمول و عادت بات سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی، وہاں موجود ایک خاتون نے انھیں عربی میں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ اپنی کتابیں اس مکتبہ میں ہدیہ کرنا چاہتی ہیں تو کہنے لگیں کہ ام عائشہ کو دے دیں وہ پڑھ کر اجازت دیں گی تو ہم یہ کتابیں یہاں رکھ لیں گے۔ آپ ایسا کریں کہ یہ کتابیں یہاں رکھ جائیں، وہ آنے ہی والی ہیں۔ لیکن میں نے تو کتابوں سمیت وہاں سے نکلنا بہتر سمجھا کہ عجب اک سلسلہ ہے میں ایک پورا باب انھیں معلمہ سے متعلق تھا۔ اور اب بھی ہم دو تین مرتبہ ان کے وعظ سے مستفید ہو چکے تھے جس میں بہت سے تکرار کے پہلو نکلتے تھے لیکن ہم خوف فسادِ خلق خدا کی بنا پر خاموش رہتے۔

۳۰ نومبر بدھ کے روز مسجد قبا جانے کی نیت تھی کہ کل تو تمام زائرین کے ساتھ گئے تھے، نوافل ادا تو کیے تھے لیکن اس دھڑکے کے ساتھ کہ ہماری وجہ سے دیگر زائرین کو دیر نہ ہو جائے یہ اور بات کہ جب ہم بس میں پہنچے تو بس تقریباً خالی تھی لوگ عبادت و خریداری میں مصروف تھے۔ تو اب ہم نماز فجر کی ادائگی کے بعد گیٹ نمبر سات سے نکل کر اس وین کے متلاشی تھے جو ہمیں سیدھا مسجدِ قبا لے جائے لیکن وہاں تو تمام ڈرائیور حضرات زیارہ زیارہ کا شور مچاتے تھے، صرف قبا جانے کے لےد کوئی آمادہ نہ تھا، دو ایک ٹیکسی والوں سے بات کی وہ منہ مانگا کرایہ چاہتے تھے، ابھی ان سے گفت و شنید جاری تھی کہ ایک وین ڈرائیور مسجد قبا جانے کا مژدہ سناتے ہوئے ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنے لگا اور ہم دو دو ریال فی نفر، اس میں جا بیٹھے۔ اب مرحلہ شروع ہوا وین بھرنے کا، اس نے خاصے آوازے لگائے لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ کہنے لگا میں ذرا دوسرے گیٹ تک چکر لگا لوں وہاں بھی ناکام رہا۔ ہمیں دیر ہو رہی تھی کہ ہم آج مسجد قبا میں زیادہ وقت گزارنا چاہتے تھے ہمیں وہ تسلی دیتا جا رہا تھا کہ میں سیدھا مسجدِ قبا ہی جا رہا ہوں لیکن اس نے پوری مسجدِ نبویﷺ کا بیرونی چکر لگا کر ہماری وہ خواہش پوری کر دی کہ کسی وقت اس مسجد کی چاروں اطراف کا جائزہ لیں گے، کہ حضور پاکﷺ کے عہد مبارک میں مدینے کا رقبہ اتنا ہی تھا جو اب حرم میں سم اچکا ہے۔ مسجد قبا پہنچ کر پہلے ناشتے کا ارادہ کیا تاکہ سکون سے عبادت کر سکیں لیکن وہاں ہمارا روز مرہ کا ناشتہ یعنی نان پراٹھے انڈے سالن کچھ دستیاب نہ تھا، مجبوراً چائے کافی اور ڈونٹس وغیرہ پر گزارا کیا، ایک صاحب تسبیحات کا تحفہ دے رہے تھے انھوں نے مجھے اور ثروت باجی کو تسبیحات دیں۔ اب ہم مسجد قبا کی بالائی منزل پر جاتے تھے، آج نسبتاً کم خواتین تھیں، ہم نے ایک کونہ مختص کیا تحیۃ المسجد کے بعد اسلاف کے ایصالِ ثواب کے لےت اور اخلاف کو ہدیہ کرنے کی نیت سے نوافل کی ادائگی کا آغاز کیا، آدھ گھنٹے بعد صلوۃ التسبیح شروع کی۔ مکہ میں مسجد عائشہ اور مدینہ میں مسجد قبا ہی ہیں جہاں خدائے لا مکاں کے ہم اسیر زمان و مکان بندوں کو حرمین شریفین کے علاوہ جہاں کچھ روحانی بالیدگی کا نامعلوم سا احساس، حاضری میں ہلکی سی حضوری کی کیفیت سے سرشار کرتی اور اپنی ذات و زندگی کی رائگانی کے احساس کو کم کرتی ہیں۔ واپسی پر ٹیکسی لی اور حرم نبویﷺ پہنچے۔

عصر کے بعد ثروت باجی کو ایک خاتون سے محو گفتگو پایا معلوم ہوا کہ حیدرآباد دکن سے تعلق ہے، سکول ٹیچر ہیں۔ میں چاہتی تھی کہ کوئی انڈیا اور بنگلہ دیش کا مناسب بندہ ملا تو اپنی کتابیں وہاں کسی لائبریری میں رکھوانے کے لےا ضرور دوں گی۔ چند منٹوں کی گفتگو میں ہی احساس ہو گیا کہ اس کام کے لےم یہ بہترین ثابت ہوں گی لیکن دیکھا تو میرے تھیلے میں آج صرف ایک ہی کتاب تھی، تاثراتِ حج پر مشتمل ’’دسترس میں آسمان‘‘ انھیں ’’افشاں قدیر کی خدمت میں، بہت محبت کے ساتھ‘‘ لکھ کر پیش کی، اس درخواست کے ساتھ کہ اپنے سکول کی لائبریری میں رکھوا دیں، کہنے لگیں میں آپ کو صاف بتا رہی ہوں میں لائبریری میں بالکل نہیں رکھواؤں گی۔ وہاں جو تھوڑی بہت کتابیں ہیں کبھی کسی نے کھول کر نہیں دیکھیں، میں حج پروگراموں میں شرکت کرتی ہوں۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین کی حسبِ مقدور مدد و رہنمائی کرتی ہوں، تو یہ کتاب مجھے اس سلسلے میں بہت کام آئے گی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کتاب صحیح ہاتھوں میں دی گئی۔

۳۰ نومبر، جمعرات کو روزہ رکھنے کی نیت تھی۔ حدیثِ مبارکﷺ ہے ’’اعمال سوموار اور جمعرات کے دن اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں، چنانچہ مجھے یہ پسند ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں پیش کیے جائیں کہ میں روزے دار ہوں‘‘ رات کا کھانا لیتے ہوئے میری سحری کے لے بھی انتظام کر لیا گیا۔ آج میں نے کہہ دیا تھا کہ میں فجر کے بعد واپس نہیں آؤں گی بلکہ عشا کے بعد واپسی ہو گی۔ فجر کی نماز باب عبد المجید میں ہی ادا کی۔ تسبیح و اذکار کے بعد صلوۃ التسبیح ادا کی اور نو بجے کے بعد بابِ عثمان کی طرف چل دی، ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ روزہ ہے خود کو مشقت سے دور رکھنا ہے لیکن ایک آس تھی کہ شاید روضہ رسولﷺ کی زیارت کی کوئی سبیل نکل آئے، اس آس پر ہر تھکن قربان۔۔ میں باب عبد المجید گیٹ نمبر ۱۳ سے باہر صحن میں نکل آئی ایک طویل مسافت کے بعد بابِ عثمان گیٹ نمبر ۲۵ پر تھی۔ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اس وقت تک تو ریاض الجنۃ کی زیارت کے لےب خواتین کو لے جایا جا چکا ہو گا اور میری باری آنے سے پہلے ہی باب بند ہو چکا ہو گا لیکن ہوا یہ کہ جیسے ہی میں نے قدم اندر رکھا، غالباً یہ اسی روز کی بات ہے یا کسی اگلے روز کی، دروازے پر ہی مجھے ایک شناسا چہرہ نظر آیا، پروین صادق، دروازے پر شرطیاں پڑتال میں مصروف ہوتی ہیں، جی چاہتا ہے ان سے جلدی سے جان چھڑا کر اندر پہنچا جائے۔ پھر بھی میں نے پلٹ کر اس خاتون کی جانب نگاہ کی اور اپنے ہی خیال کی تردید کی۔۔۔ تیزی سے اندر پہنچی

معلوم ہوا کہ ریاض الجنۃ جانے کے لے تمام در وا ہیں، میں بہت تیز تیز قدموں سے اکیلی چلتی جا رہی تھی ورنہ تو جب بھی اس جنت کے گوشے میں جانے کا اتفاق ہوا ایک پر شوق ہجوم ہمراہ ہوا کرتا تھا اور اندر داخل ہونے تک بے شمار وقفے برداشت کرنا ہوتے تھے اور میں آج بالکل آرام کے ساتھ چلتی سبز قالینوں تک پہنچ گئی۔ دل میں شکر الحمد للہ اور زبان پر درود شریف کے کلمات تھے۔ یاد نہیں چھ، آٹھ کتنے نوافل پڑھے، لیکن خوشی و طمانیت کا احساس لےل ریاض الجنۃ سے واپس ہوئی، مجھے باب عبد المجید جانے کے لے ایک طویل فاصلہ طے کرنا تھا لیکن اب میں باب عمرسے اندر داخل ہوئی اور صحن کے اندر ہی اندر چلتی ہوئی باب عبد المجید میں جہاں ہم عمومی طور پر نماز ادا کیا کرتے تھے، پہنچ گئی۔ عصر کے بعد سے ہی افطار کے لے تیاریاں شروع ہو گئیں۔ افطار کے وقت کی گئی دعا کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ وقت مٹھی میں ریت کی مانند پھسلتا جاتا ہے۔ اپنے لےم، بہن بھائیوں کے لےھ، عزیزوں کے لےل اور ان سب کے لےت جن کا خیال اللہ میاں نے دل میں ڈال دیا، بہت دعا کی۔ بھائی خالد جہانگیر کا بیٹا اچانک کمپیوٹر لگاتے ہوئے کرنٹ لگنے سے آخری سفر پر روانہ ہوا۔ گجرات میں تھے تو یہ دل دکھا دینے والی خبر ملی، اسلام آباد پہنچتے ہی ان سے ملنے گئے۔ دائمی جدائی کا صدمہ باپ کے لےھ ناقابلِ برداشت دکھائی دیتا تھا۔ تو سارے عمرے کے دوران، اس کی مغفرت، جسے کبھی دیکھا بھی نہ تھا اور اس کے والد کے صبر کی دعا ہمراہ رہی۔

افطار سے پہلے پہلے کالج، اسلامک یونی ورسٹی، اردو یونی ورسٹی، واہ و گجرات و اسلام آباد و کراچی و دبئی کے ساتھی و عزیز سبھی یاد آتے رہے، دعا مانگنے کا سلیقہ سیکھنا ہو تو ثروت باجی سے، میں تو بس انتہائی بے ترتیبی سے دعا مانگتی ہوں۔ یہی حال تسبیحات کا ہے، بس یہ یاد رہتا ہے کہ درود شریف پڑھنا ہے، وقفے وقفے سے درودِ پاک کا ورد جاری رہتا ہے، دانش نے ایک چھوٹی سی درود شریف کی کتاب دی تھی خواہش ہوا کرتی تھی کہ دن میں کم از کم ایک مرتبہ وہ ضرور پڑھ لوں۔ دعاؤں کی قبولیت کا یقین دعا اور بار بار دعا کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اللہ نے ہماری دعا قبول نہیں کی تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس نے اس دعا کے عوض ہماری کسی برائی کو دور کیا یا کسی نقصان سے بچا لیا۔ جب کوئی بندہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کامل الحیا کو شرم آتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا یا جائے۔ یہاں مجھے ایک بات یاد آئی ہم بہت باتوں کو معمولی جان کر ان پر توجہ نہیں دیتے لیکن وہ اتنی غیر اہم نہیں ہوتیں۔ ایک روز میں ہاتھوں کا پیالہ بنائے دعا مانگ رہی تھی کہ میرے ساتھ بیٹھی ترک خاتون نے میرا دایاں ہاتھ جو میں نے بائیں ہاتھ کے نیچے رکھا ہوا تھا، اٹھا کر اوپر رکھ دیا، مجھے احساس ہوا کہ ایک مرتبہ حج کے موقع پر ایک عربی نے مجھے بائیں ہاتھ میں سیب پکڑے دیکھ کر کہا تھا، یمین، یمین رحمان، یسار یسار شیطان تو نادانستگی میں ہم بہت کچھ غلط کر رہے ہوتے ہیں۔ تو دعا سب کے لےر کی دل سے کی اس نیت کے ساتھ کی کہ جلد یا بدیر قبول ہو گی،

کہا جاتا ہے کہ مسلمان بھائی کے لےگ اس کی عدم موجودگی میں کی گئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اے اللہ دانش، آمنہ، رائم، ریوا، صائم، سرمد، ماریہ، نوفل، نافع، فارد اور منزہ سبھی دیارِ حبیب اور درِ کعبہ حاضری کے لے بلاوے کے منتظر ہیں، ان سب کے لےر، تمام مسلمانوں کے لےز ایسے اسباب پیدا فرما کہ وہ یہاں سجدۂ شوق ادا کر سکیں۔ آمین

’’اے اللہ بڑھاپے کی اذیت سے بچا، اخیر عمر میں صحت و رزق کی فراوانی عطا فرما۔۔ بھلا کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور کون ہے جو اس کی تکلیف دور کرتا ہے۔

اے اللہ کوئی بھی امر سہل نہیں سوائے اس کے کہ آپ اسے آسان فرما دیں۔

اے اللہ بے شک میں غیر نفع بخش علم، نا مقبول عمل اور نہ ڈرنے والے دل اور غیر مقبول بات سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک میں کفر، محتاجی اور عذابِ قبر سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔

لوگو اپنے رب سے چپکے چپکے اور عاجزی سے دعا مانگو۔ اللہ ضرور سنتا ہے۔‘‘

گیٹ نمبر ۵ سے باہر نکلتے ہی قرآن میوزیم کی عالی شان عمارت بلکہ عمارتوں کا جو سلسلہ ہے، وہ اس سوق الحرم کو مسمار کر کے تعمیر کیا گیا ہے کہ جہاں ۲۰۰۱ ء میں حج کے موقع پر ہم کبھی کبھی چلے جاتے تھے لیکن دوسرے عمرے ۲۰۰۸ء پر وہاں اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اب حرم کے ارد گرد ایک سی سرخ چھتوں والی سرکاری عمارتوں کا سلسلہ ہے کہ جہاں مختلف عجائب گھر تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس وقت ہم قرآن میوزیم کی جانب جاتے تھے۔ منتظمین بہت خوش دلی سے خوش آمدید کہتے تھے۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے زائرین کی ساری توجہ مسجد تک ہی محدود رہتی ہے اور جو اہم آثار محفوظ کیے گئے ہیں یا تو ان کے متعلق وہ جانتے نہیں یا انہیں اہمیت نہیں دیتے، یہی حال اسما الحسنیٰ سے مزین عمارت کا تھا لیکن وہاں انڈونیشیا کے زائرین کی ایک جماعت ہم سے لمحہ بھر پہلے داخل ہوئی تھی جس کی بنا پر کافی ہجوم ہو گیا تھا۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی دین اسلام کے آغاز اور ارتقا پر مبنی فلم کے ذریعے نمایاں واقعات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ قرآن پاک کے قدیم ترین نسخے، وہ نسخہ جس کی تلاوت کے دوران، حضرت عثمان غنی شہید ہوئے، سب سے بڑا، سب سے چھوٹا، مختلف ممالک میں لکھے گئے، خطِ کوفی، نسخ، تعلیق، نستعلیق، شمس، ریحان، زخارف میں تحریر کردہ نسخے محفوظ کیے گئے ہیں اور زائرین کو دعوت دی گئی ہے کہ اگر ان کے پاس ایسا کوئی نایاب نسخہ ہے تو اسے یہاں رکھنے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔ قلم دوات کے نمونے بھی رکھے گئے ہیں کہ جن سے انھیں لکھا گیا ہے۔ مسجد نبوی آ کر ان مقدس آثار کی دید سے محرومی مناسب نہیں۔

آج جمعرات کی رات بارہ بجے، یعنی شب جمعہ کے آغاز کے ساتھ ہی ہمیں انتظار تھا بلال کا، کہ جس نے چوبیس گھنٹوں کے سفر کے بعد ابو ظہبی سے مدینہ پہنچنا تھا اور جاوید بھائی نے اسے کہہ دیا تھا کہ اتنی رات گئے تم ہمیں تلاش کرنے کی بجائے، اپنے ہوٹل میں آرام کرنا، نمازِ فجر کے بعد گیٹ نمبر ۷ پر آ کر ملنا ہم وہیں تمھارا انتظار کریں گے۔ اب آگے کی روداد بلال کی زبانی سنیے۔

’’شاہد ماموں کو فون کیا اور ناراض ہوا کہ یہ کیا ہوا کہ آپ اس مرتبہ عمرے کے لےے آ رہے ہیں اور دبئی کا پروگرام نہیں بنا رہے، اس مرتبہ تو ہم زیادہ شدت سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں، اب پکنک، فشنگ، سوئمنگ اور بار بی کیو کے زیادہ بہتر انداز میں اور زیادہ دور دراز کے منصوبے بن سکتے ہیں۔ اب شاہد ماموں کا مکالمہ سنیے کہ اب کے تم یہاں مکہ آ جاؤ، اکٹھے عمرہ کر تے ہیں اور پہلی مرتبہ اس جملے کے معنی کھلے کہ بلاوا ہو تو راستے خود بخود بن جاتے ہیں۔ حج عمرے کی خواہش تو ہر مسلمان کے دل میں شعور کی منزل کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے، لیکن یوں اچانک میرا ارادہ بن جانا اور اسی لمحے تگ و دو کا آغاز کر دینا یہ سب اسی کی کرم نوازی ہے، میں دل ہی دل میں کہتا رہتا کہ شاہد ماموں کیوں نہیں آ رہے، فون پر ان سے گلہ نہ کرتا تو شاید پروگرام ہی نہ بن پاتا۔

پہلے تو خیال آیا کہ فرح اور بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں، لیکن بعد ازاں خود ہی اس ارادے سے باز رہا کہ میں سڑک کے راستے سے جانے کا پروگرام بنا رہا ہوں، بہتر ہے کہ اکیلے ہی ہو آؤں۔ بچوں کو پھر لے جاؤں گا، تو جناب سفری گماشتے سے گفت و شنید شروع ہوئی اور یکم دسمبر سے دس دسمبر تک کا پروگرام بن گیا، میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ تیاریوں میں مصروف تھا، حج، عمرے سے متعلق کوئی کتابچہ پاس نہ تھا، نیٹ سے پرنٹ لے لے ، جو تھوڑا بہت وقت ملتا، انھیں دیکھ لیتا۔ اللہ اللہ کر کے جمعرات کو ہمارا سفر شروع ہوا، بس مارواڑیوں سے بھری ہوئی تھی، رہنما بھی بس نام کا ہی تھا۔ بہرحال کھاتے پیتے سوتے جاگتے لبیک اور درودِ پاک پڑھتے سفر کٹا۔ سفر تو بہتر رہا لیکن جس طرح سعودی سرحد پر جانچ پڑتال کے نام پر زائرین کو آٹھ گھنٹے تک اذیت میں مبتلا رکھا گیا، اس کا جواب نہیں۔ خیر ریاض سے روانہ ہوئے اور شہر مدینہ کی خنک ہواؤں نے رات بارہ بجے یوں استقبال کیا کہ تمام تر کلفت اور سفر کی تکان ہوا ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ امی ابو کا ہوٹل کس جانب ہے، پھر انھوں نے منع بھی کیا تھا کہ رات کے اس پہر میں انھیں تلاش کرنے کی بجائے آرام کروں۔ بہت آرام دہ ہوٹل بہت خوبصورت کمرے اور اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہو گی کہ سر زمینِ مدینہ پر پہلا قدم پڑا، پہلی نگاہ اٹھی اور سبز گنبد جسے بلند و بالا میناروں نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا، نگاہوں کے سامنے تھا۔ سبھی ساتھی بستروں پر دراز ہوئے میں نے بھی سونے کی کوشش کی لیکن اضطراب بڑھتا گیا۔ مجھے تین دن ملے ہیں دیارِ نبیﷺ کے اور میں یہ پل سو کر گزار دوں۔ یہ ممکن نہیں، میں خاموشی سے اٹھا، ہوٹل سے باہر آیا، سامنے ہی سبز گنبد مجھے اپنی اور بہت محبت سے بلاتا تھا۔ مجھے یاد تھا کہ شہرِ نبیﷺ میں داخلے کا اجازت نامہ درودِ پاک ہے، میں زیر لب درودِ ابراہیمی، درودِ تنجینا پڑھتا جاتا تھا۔ مجھے گرد و پیش کا کچھ ہوش نہ تھا بے شک رات کا ایک بج رہا تھا لیکن میرے نبی کے دیار میں اندھیروں کا کیا کام، مجھے تو یوں محسوس ہوا کہ ابھی تو شاید چار مرتبہ بھی درودِ پاک مکمل نہ کیا تھا اور میں درِ نبی پر تھا، در نبی پر پڑا رہوں گا، پڑے ہی رہنے سے کام ہو گا۔

میں پہنچ تو گیا ہوں اب مجھے کیا کرنا ہے، میں تو بالکل خالی الذہن تھا، دل کی حالت البتہ عجب تھی کیا یہ میں ہی ہوں جو یہاں تک آ پہنچا ہوں۔ میں صحنِ مسجد تک پہنچ چکا ہوں بڑی بڑی پر شکوہ عمارتیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن اس مسجد کے سنگ تراش، معمار، نقشہ نویس، رنگ ساز، خطاط، شیشہ گر، پچی کاری کے ماہر، کوئی عام سند یافتہ افراد نہ تھے ترک حکومت نے اپنے تمام عمال کو ہدایات جاری کی تھیں کہ قسطنطنیہ کے باہر نیا شہر آباد کیا جائے جہاں اطراف و اکنافِ عالم سے آنے والے قافلوں کو ٹھہرایا جائے، ماہرین کا انتخاب کیا جائے، اور وہ اپنے ذہین ترین بچے کو اپنا فن سکھائے، یہ ترک حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بچے کو قرآن حفظ کروائے گی، یہ دو چار برس کی بات نہیں، پچیس برس کا قصہ ہے۔ مسجدِ نبوی کی تعمیر میں حصہ لینے والا ہر فرد، حافظِ قرآن، بہترین شاہسوار، با عمل مسلمان اور اپنے فن کا ماہر تھا۔ پانچ سو افراد کی یہ جماعت ہر وقت با وضو مصروفِ کار رہتی۔ مسلسل قرآنِ پاک کی تلاوت جاری رہتی۔ نئی تعمیر اور توسیع کا کام پندرہ سال جاری رہا لیکن اس انداز میں کہ با جماعت نماز میں کبھی کوئی رکاوٹ نہ آئی۔ یہ تو ترک سلطنت کا احوال تھا۔ سعودی دورِ حکومت میں تعمیر وتوسیع کا کام زبردست طریقے سے جاری رہا۔ میں اس وسیع و عریض مسجد کو دیکھتا تھا جس کے صحن میں ہی چار لاکھ تیس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، وہ دروازے جو اب تک ہم تصاویر میں دیکھتے آئے تھے میرے سامنے تھے، میں سوچتا ہوں کہ میری بڑی خواہش تھی درِ نبیﷺ کو چھونے کی، ان تین دنوں میں کیا مجھے اتنی مہلت ملے گی کہ میں ان پچاسی دروازوں کو چھو سکوں۔ میں اپنے ہی دھیان گیان میں محو تھا، مجھے کچھ علم نہ تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے، ہر امتحان ہمیشہ تیاری کے ساتھ دیا ہے اور یہاں میں ایک ایسے بچے کی طرح آ گیا تھا جسے امتحان میں بٹھا دیا گیا ہو لیکن اسے نصاب کا ہی پتا نہ ہو، اچانک مجھے ایک پاکستانی دکھائی دیا، اسے کہا کہ بھائی میں یہاں تک آ تو گیا ہوں، آگے کیا کرنا ہے مجھے معلوم نہیں، اس نے سبز گنبد کی جانب اشارہ کیا، وہاں چلے جاؤ۔ میں دھیمے دھیمے قدم اٹھاتا باب جبریل پہنچ چکا تھا، چلتے چلتے میں ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں میرا خیال تھا کہ اب نفل ادا کرنے کی نیت کر لوں کہ گرد و پیش میں چند افراد نفل پڑھتے نظر آ رہے تھے، جیسے ہی میں نے اللہ اکبر کہنے کے لے ہاتھ بلند کیے کسی نے مجھے بہت پیار سے ایک قدم آگے کر دیا۔ سلام پھیرنے کے بعد معلوم ہوا کہ میں ریاض الجنۃ میں تھا۔ میں نے نہ جانے کتنے نوافل پڑھے۔ فرح، عرشمان، ریان، سنان، فہد، طلال اور ان کے بچوں سبھی کے لےل دعائیں کرتا، مسجد کے اس متبرک حصے کی دید سے نگاہوں کو سیراب کرتا رہا، ہر لمحے کو کیمرے کی آنکھ سے زندۂ جاوید کرنا میری خواہش تھی۔ درودِ پاک کا ورد لبوں پر تھا اور پھر میں نے صلوۃلتسبیح کی نیت کر لی اتنے آرام سے پڑھی گئی کہ بس۔۔۔ قریۂ دل پہ چھا گیا کیف و سرور کا سحاب

ابھی فجر میں وقت باقی تھا ہوٹل پہنچا لیکن نیند شاید نہ آئی یا کچھ دیر سویا۔ فجر کی اذان سے پہلے ہی مسجد جا پہنچا۔ امی ابو نے کہا تھا کہ نماز فجر کے بعد گیٹ نمبر سات پر آ جانا، تو اس وقت تو میں اندر نماز پڑھ لوں، نماز کے بعد ان کی تلاش میں نکلوں گا، یہی سوچتے ہوئے میں مسجد میں داخل ہوا۔ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ مجھے شاہد ماموں بیٹھے نظر آئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ انھوں نے مجھے دیکھ لیا ہے جب میں ان کے بالکل قریب پہنچا تو انھوں نے سمٹ کر مجھے راستہ دینے کی کوشش کی کہ میں آسانی سے آگے بڑھ جاؤں، لیکن میں نے ان کا ہاتھ تھام لیا، اب سارا منظر دیکھنے والوں کے لےل حیرت کا جہاں سمیٹے ہوئے تھا کہ یہاں تو ساتھ آئے ہوئے عزیز بھی لمحہ بھر کو بچھڑ جائیں تو ملنا مشکل ہوتا ہے اور اس وقت تو ایک اسلام آباد سے دوسرا دوبئی سے آیا ہوا کیسے مل گئے اور ذرا دیر میں ہی ابو سے ملاقات بھی ہو گئی۔ نماز کے بعد گیٹ نمبر سات پر پہنچتے ہی امی دکھائی دیں اور کچھ لمحوں بعد کسی نے میری آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ دیے۔۔ جی ہاں طاہرہ آنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

چار جمع ایک پانچ درویش، درویشی ڈیرے سے بہت دور، اس جگہ یکجا ہیں کہ جہاں کی زمیں پر آسمان بھی رشک کرتا ہے۔

بلال بہت ذوق و شوق سے اپنی روداد کہہ رہا تھا اور میں حیرت زدہ تھی کہ اس نے ریاض الجنۃ میں لا تعداد نوافل کے علاوہ صلوۃ لتسبیح کیسے ادا کر لی۔ ہمیں تو نفل کی ادائیگی بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر کرنا پڑتی ہے۔ ایک ایک سجدے کے لےک نئے سرے سے جگہ بنانا پڑتی ہے۔ ہر لمحہ احتمال رہتا ہے کہ سجدے میں سر رکھا تو اٹھانا بھی نصیب ہوتا ہے کہ نہیں اور کبھی نسبتاً سکون سے نوافل کی ادائگی کا موقع مل جائے تو لذت و شادکامی کی کیفیت پورے وجود کو سرشار کرتی چلی جاتی ہے۔ میں سوچ رہی تھی واقعی پہلے بلاوے کا، پہلی ملاقات کا، پہلی دید کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ بلال جس عالم سرشاری میں تھا، جس جذب و سرور میں سر تا پا غرق تھا، ریاض الجنۃ کی کتھا سناتے ہوئے جوش و ولولہ، شیفتگی اور وارفتگی اس کے چہرے سے عیاں تھی اس میں اس وقت اور اضافہ ہو جا تا تھا جب میں کہتی تھی کہ بلال تم خوش نصیب ہو تمہیں روضۂ رسول پر حضوری کے ساتھ حاضری کا موقع ملا، اللہ ہی بندے کو خود سے قریب کرتا ہے، وہ نہ چاہے تو کچھ ممکن نہیں۔ اس کی توفیق ہے جسے اپنی محبت عطا کر دے، اپنے در پہ، اپنے محبوب کے دیار بلا لے۔۔۔ اور وہ بے انتہا خوش تھا۔ بلال کی خواہش تھی کہ ہم اس کا ہوٹل بھی دیکھ لیں بلکہ وہ حرم سے قریب ہے ہم کچھ دیر وہاں آرام کر لیں۔ اس کا ہوٹل ہمارے لےن اجنبی یوں نہ تھا کہ ہم حرم سے واپسی پر اکثر اس کے شاپنگ ایریا سے ونڈو شاپنگ کرتے گزرتے تھے۔ ہوٹل کی لابی میں چند لمحے قیام کیا اس اثنا میں بلال ابو ظہبی سے لایا گیا کچھ سامان لے کر واپس آ گیا۔ اب ہم اپنے ہوٹل جاتے تھے اور اس سے پہلے ہمیں پشاوری ہوٹل کے پائے کھانے تھے جو ہم پچھلے تین دنوں سے بلال کے انتظار میں موخر کر رہے تھے۔ ہوٹل میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی کچھ صبر کیا، کچھ انتظار کیا۔ آخر جگہ ملی پراٹھے، نان، پائے، حلوہ، لسی چائے کا آ ڈر دیا جو وقفے وقفے سے پورا ہوتا رہا۔ بلال کو فکر تھی کہ اس کے دوست ریاض سے اس سے ملنے، مسجد نبویﷺ میں نمازِ جمعہ کی ادائگی کے لےا آ رہے ہیں اور اب وہ مسجد نبویﷺ پہنچنے والے ہیں۔ بلال کو میں نے بار بار کہا کہ نو بجے سے پہلے حرم پہنچ جانا، ورنہ جمعے کے روز نماز کے لے جگہ نہیں ملے گی۔ کہنے لگا، میں تو ریاض الجنۃ جاؤں گا، میں نے کہا وہاں کے لےر تو سوچنا بھی مت، اس وقت اتنا رش ہو گا کہ وہاں سانس لینا بھی محال ہو گا۔

دوپہر میں جب اس کے دوستوں کے ساتھ اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ میں تو ریاض الجنۃ بہت آرام سے پہنچ گیا نوافل بھی پڑھے اور صلوۃ التسبیح بھی ادا کی۔ مدت کے بچھڑے دوست بہت کم وقت کے لےی ملے تھے، شدید طوفانی بارش میں ایک طویل سفر کر کے پہنچے تھے اور نماز جمعہ کے بعد انھیں واپس بھی جا نا تھا ان دوستوں کو الوداع کہہ کر میں اور ثروت باجی خواتین کے حصے میں چلے گئے۔ تسبیح، صلوۃ التسبیح درودِ پاک حسبِ توفیق پڑھتے رہے، میرا خیال تھا کہ اگر دیر ہو گئی تو آج جمعہ کے سبب ہمیں نماز کے لےے جگہ نہ ملے گی لیکن ایسا نہ ہوا، ہاں گیارہ بجے کے بعد تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی۔ نماز کے بعد کھانے کا خیال آیا، اس مرتبہ دوپہر کے کھانے کی جگہ کا تعین نہ ہو سکا، جیسے پچھلے اسفار میں پاکستانی ہوٹل سے کھانا لے لیا کرتے تھے۔ اب مسجدِ نبوی کے قرب و جوار میں ایسا کوئی ہوٹل نہ تھا۔ دور جانے میں تھکن بھی ہوتی اور وقت کے زیاں کا افسوس بھی۔ بہرحال کھانے سے واپسی پر باب عثمان سے داخل ہوئے کہ اب ریاض الجنۃ جانے کا وقت ہو گیا ہو گا، معلوم ہوا تھوڑی دیر کے لےر کھولا گیا تھا۔ ہماری طرح ایک بہت بڑی تعداد منتظر تھی کہ دوبارہ کھلنے کی شنید ہے، کافی انتظار کیا معلوم ہوا کہ اب خواتین کو عشا کے بعد ہی جانے کی اجازت ہو گی۔ اس انتظار میں درود پاک پڑھنے کا خوب موقع ملا، اس مرتبہ پاکستان کے دیہات سے بہت بڑی تعداد میں عمرہ زائرین تشریف لائے تھے۔ ہال اور صحن ان کی ٹولیوں سے پر تھے۔ پورا پورا خاندان، شیر خوار بچوں سے لے کر ہر عمر کے بچے، بڑے اور بزرگ، با جماعت نماز کی ادائگی کا طریقہ معلوم نہیں۔ باتوں کے لچھے البتہ بہت تیزی سے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس وقت چار خواتین محو گفتگو تھیں۔ شاید یہیں ملاقات ہوئی تھی۔ اپنی کسی رشتہ دار کی شادی کا احوال، ساس نندوں کے تذکرے ایک ہی بات کو بار بار دہرایا جا رہا تھا اور بلند آواز دوسروں کے لےھ پریشانی کا سبب تو نہیں، اس امر کا احساس بھی نہ تھا۔ میں نے ایک خاتون سے کہا، کہ جمعے کے روز نمازِ عصر کے بعد اسی مرتبہ درود شریف اور ستر مرتبہ آیت الکرسی پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ دوسری خاتون بول اٹھیں، ہاں ایک مرتبہ میں ڈاکٹر کے پاس گئی تھے دوا لینے، بڑا ہی اچھا ڈاکٹر تھا، اس نے بھی مجھے کہا تھا درود شریف پڑھا کرو، اب اس ڈاکٹر کی صفات کا تذکرہ شروع ہو گیا، درودِ پاک کے سلسلے میں یہ بات بھی مجھے انوکھی لگی کہ ایک خاتون تسبیح لےک پھر رہی تھیں اور ہر ایک سے کہتی تھیں ایک مرتبہ درود شریف پڑھ دیں۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ خود کیوں نہیں پڑھ لیتیں۔ شاید یہ کوئی منت کا انداز ہو۔

عصر سے مغرب تک مسجد نبوی میں کہیں والدین اور کہیں مدرس یا معلمہ بچوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم دیتے ہوئے مصروف دکھائی دیتے ہیں۔۔ عشا کے بعد ہم سات نمبر گیٹ کی جانب جاتے تھے جہاں شاہد، جاوید بھائی اور بلال ہمارے منتظر تھے۔ اگر آج ہماری ریاض الجنۃ تک رسائی ہو جاتی تو ہمارے قدم اتنے تھکے تھکے اور دل بوجھل نہ ہوتے۔ بار بار خیال آتا رہا کہ پچھلے تین اسفار میں اتنی محرومی کا سامنا کرنا نہیں کرنا پڑا تھا اکثر دن میں دو مرتبہ بھی جانے کی سعادت مل جاتی تھی اب کے ہم صرف دو مرتبہ جا سکے تھے اور اس بات کا بہت قلق تھا۔

ہفتے کی صبح بلال زیارات کے لےت گیا، بہترین تصاویر اور معلومات کا خزینہ لےھ ہوئے آیا۔ ہم اس مرتبہ پاکستان سے ہی ارادہ کر کے آئے تھے کہ وادی جن جانے کا موقع بنایا جائے گا۔ بلال کے انتظار میں تھے دو ایک ٹیکسی چلانے والوں سے بات بھی ہو چکی تھی لیکن بلال آیا تو یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجدِ نبوی میں گزارنا چاہتا ہے، اس نے وادی جن جانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ مقامی زیارات میں ظہر کے وقت تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے لیکن وادی جن جانے میں ایک یا دو نمازوں کے حرم نبوی میں ادا نہ کر سکنے کا احتمال رہتا ہے۔ ہمیں بھی حرم پاک میں زیادہ عبادت کا موقع مل گیا۔ ماشا اللہ ثروت باجی دن میں چار پانچ سپارے پڑھ لیا کرتی تھیں۔ دعا مانگنے کا فرض انھیں ہی سونپ رکھا تھا، آمین کہنا میرے ذمے اور قبول کرنا اللہ کا کام تھا۔

اب ہم مسجدِ نبوی جاتے تھے قدیم مسجدِ نبوی سے سو گنا بڑی مسجد کے صحن میں نصب ایک سو بیاسی چھتریاں دھوپ کی تمازت کو کم کرتی اور حقِ میزبانی ادا کرتی تھیں۔ کل ریاض الجنۃ سے ناکام واپسی کا دکھ آج پھر ہمیں کشاں کشاں باب عثمان لےم جاتا تھا لیکن آج بھی نصیب نے یاوری نہ کی۔ معلوم ہوا کہ بس چند منٹوں کے لے کھلا تھا بہت تکلیف ہوئی، ہم وہیں بیٹھ کر درود پاک کا ورد کرتے رہے۔ نمازِ عصر اور مغرب باب عثمان پر ہی ادا کیں۔ خیال تھا کہ مغرب کے بعد ہم باب مجید چلے جائیں گے تاکہ عشا کے بعد گیٹ نمبر سات پہنچنے میں سہولت رہے۔

مغرب کی نماز ادا کی لیکن یہ پشیمانی کم نہ ہوئی کہ ریاض الجنۃ سے بلاوا نہیں آیا۔ نماز کے بعد تسبیحات کا آغاز ہی کیا تھا کہ مجھے برابر میں بیٹھی اپنے جذب و سرور میں غرق بزرگ خاتون کی پر شوق اور وجد آفریں دعائیہ صداؤں نے متوجہ کیا۔ میں نے ان کی جانب نگاہ کی اور پھر میں ان سے نظریں اٹھانا بھول گئی۔ عمر ستر بہتر کے درمیان، میدہ و شہاب سے گندھی رنگت، دبلا پتلا نازک سا سراپا، بہترین کڑھائی والے جامنی سوٹ پرسیاہ عبا، ہاتھوں میں تسبیحات اور لبوں پر محبوب سے محبت کی شیفتگی کے ترانے، جلالی کیفیت نہیں، ان کی محبت کا کمال تھا کہ ہر سو جمال ہی جمال بکھرا ہوا تھا۔ نورانی شعاعوں کے ہالے کے درمیان، بزبان عربی وہ مشاہدہ حق کی گفتگو میں محو تھیں، ندائے غیبی کی شنید میں ہمہ تن گوش تھیں۔ تسلیم و رضا کی منزل کی متلاشی، طالب کی طلب کی خواہاں، لیکن کیفیات میں زیر و بم کے سبب لہجے میں بھی تغیر محسوس ہو جاتا تھا، متلاشیِ حقیقت کی بے چینی، کبھی چپکے چپکے راز و نیاز، کبھی بلند آہنگی میں شکستہ و در ماندہ فریاد، کبھی اعترافِ خطا، کبھی عجز و انکسار، کبھی اظہار ندامت، کبھی احساسِ تشکر اور ان سب میں وفورِ شوق، نشاطِ ذوق، جذبِ محبت۔۔۔۔ میں اپنی تسبیحات میں مشغول تھی یا ان کے خود شناسی و خدا شناسی کے مراحل سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ثروت باجی کبھی مجھے اور کبھی انھیں دیکھتی تھیں۔ آخر انھوں نے سوالیہ سرگوشی کی، یہاں سے اٹھیں، میں نے نفی میں سر ہلا دیا، نہیں نہیں۔۔۔ آج تو نصیب نے یاوری کی ہے، پہلی مرتبہ کسی ولی اللہ کی قربت ملی ہے اور میں نے محسوس کیا کہ ولیہ بھی میری طرف متوجہ ہو رہی ہیں، ان کے لب مسکراتے تھے یا آنکھیں، طمانیت قلب نے ان کو مجسم محبت و شفقت بنا دیا تھا۔ انھوں نے محبت سے میرا ہاتھ دبایا، مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں نے اپنے بیگ سے دو بسکٹ نکال کر ان کی خدمت میں پیش کیے۔ انھوں نے لے لےن اور کچھ لمحوں کے بعد سامنے بیٹھی ہوئی ترک خاتون کو دے دیے۔ انھوں نے اپنے سامنے قالین پر اپنی جامنی چادر بچھائی ہوئی تھی۔ جس پر ان کے سجدۂ شوق کے نشاں ثبت تھے۔ مجھے بے حد افسوس ہوا کہ میں آج اپنا جائے نماز کیوں لے کر نہ آئی۔ بے شک وہ جائے نماز برادرم عبد الوہاب خان سلیم کا تحفہ ہے، اگر اس وقت وہ میرے پاس ہوتا تو میں ان کی خدمت میں پیش کرتی اور اس کے عوض یہ چادر ان سے مانگ لیتی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ سامنے بیٹھی، ترک خاتون نے سستانے کی خاطر ذرا ٹانگیں لمبی کیں۔ ولیہ نے فوراً وہ چادر ان کی ٹانگوں پر ڈال دی، میں نے ان کی خوش قسمتی پر رشک کیا۔ ترک خاتون نے انھیں اخروٹ کی گریوں کا لفافہ پیش کیا جو انھوں نے نہایت خوش دلی سے وصول کیا اور چند لمحوں بعد وہ لفافہ میری جھولی میں پڑا تھا۔ عشا کی نماز کے دوران بھی ان کی عبادت اور اپنی نمازوں کا موازنہ کرنے سے گریز نہ کر سکی۔

بطواف کعبہ رفتم بحرم رہم نہ دادندتو برون در چہ کر دی کہ درون خانہ آئی

بزمیں چوں سجدہ کردم ززمیں ندا برآمدکہ مرا خراب کر دی تو بسجدۂ ریائی

بعد نماز و دعا ترک خاتون جانے لگیں اور چادر واپس کرنا چاہی تو ولیہ نے انھیں بہت محبت سے کہا کہ یہ رکھ لو لیکن اس نے نہایت بے پروائی سے ان کا تحفہ رد کر دیا اور کسی قدر درشتگی سے وہ چادر انھیں واپس کر دی۔ مجھے اس کا رویہ اچھا نہ لگا۔ ابھی وہ دعاؤں میں مشغول تھیں کہ ایک نہایت خوبصورت تیرہ چودہ سالہ لڑکی آئی۔ عرف عام میں ہم اسے بر گر فیملی سے تعلق رکھنے والی کہہ سکتے ہیں، اس نے بہت محبت سے ان کی اشیا سمیٹنے اور انھیں اٹھنے میں مدد دی۔ وہ بزرگ خاتون جسے میں ہمیشہ اپنی یادوں میں محفوظ رکھنا چاہتی تھی، خواہش کے باوجود ان کی تصویر نہ لے سکی، مجھے ایسے لگتا تھا کہ ان کی تصویر کھینچ کر میں بے ادبی اور گستاخی کی مرتکب ہوں گی۔ انھوں نے رخصت ہوتے ہوئے وہ جامنی چادر مجھے تھما دی اور میں حیرت سے انھیں دھیرے دھیرے قدموں سے اس بچی کا ہاتھ تھامے جاتے دیکھتی رہی۔ ثروت باجی کہنے لگیں یہ گرم چادر ان کے سوٹ کے ساتھ کی تھی، میں نے کہا میں خود حیران تھی اور مجھے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ اس بچی نے انھیں کیوں نہ روکا۔ جب انھوں نے چادر مجھے دی تو میں نے بچی کی طرف دیکھا، کہ شاید وہ اپنی دادی کو اس عمل سے باز رکھ سکے لیکن اس کے لےں بھی شاید یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔

گیٹ نمبر سات پر شاہد، جاوید بھائی اور بلال ہمارا انتظار کرتے تھے اور ہمیں ان تک پہنچنے کے لےا کافی لمبا سفر طے کرنا تھا۔ خواتین کا یہ حصہ تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ ثروت باجی نے ستون کے ساتھ رکھا اپنے بیگ اٹھایا تو ایک اور حیرت کا سامنا تھا۔ وہاں دو مالٹے پڑے تھے۔ وہ کہنے لگیں ابھی کچھ دیر پہلے میں نے بیگ اٹھا کر اس میں تسبیح رکھی تھی تو یہاں کچھ نہ تھا اور اب یہ مالٹے کہاں سے آ گئے۔ وہ کچھ دیر دیکھتی رہیں پھر کہنے لگیں کہ اب تو مسجد خالی ہو گئی ہے، میں یہ تصور کر رہی ہوں کہ یہ میرے لےل رکھے گئے ہیں اور اگر میں غلطی پر ہوں تو اے اللہ مجھے معاف فرما۔ آج دوپہر کھانے کے لے، جاتے ہوئے مجھے پھلوں کی دکان پر مالٹے دکھائی دیے تھے اور میں نے سوچا تھا کہ پہلی فرصت میں مالٹے خریدیں گے۔ اے اللہ!، تو ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔

’’اے اللہ مجھے خوب شکر کرنے والا، کثرت سے ذکر کرنے والا، نصیحت ماننے والا اور حکم یاد رکھنے والا بنا۔‘‘ آمین

’’اے اللہ میں غیر مقبول دعا، بے خوف دل اور نفسِ غیر مطمئنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘آمین

اے اللہ بے شک میں سستی، بڑھاپے، بد عقیدگی اور عذابِ قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ آمین۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے