خوشی ۔۔۔ محمد اظہر نذیر

ننھا جُگنو جیسے زندگی سے تنگ آ چکا ہو، کیا نہیں کیا تھا اُس نے ایک چھوٹی سی خوشی پانے کو؟ پر خوشی جیسے اُس کے نصیبوں سے حرف غلط کی طرح مٹا دی گئی ہو۔ آپ زیادہ دور کیوں جائیے؟ ابھی کل کی ہی بات لیجئے پڑوس کے باغ والی مادہ جُگنو سے دوستی ہو گئی باوجودیکہ اُسے سبھی سیانے جُگنوؤں نے منع کیا تھا کہ مادہ جُگنو بھوکی ہو تو نر کو کھا بھی سکتی ہے۔ دونوں نے جی بھر کے باتیں کیں اور یہ تک کہ چلتے وقت مادہ جُگنو نے اُس سے پھر ملنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ خوشی سے پھول کر کُپا ہو جاتا۔ پر حیف کہ ایسا ہوا نہیں۔ اور پھر وہ ایک ہفتہ قبل جو ہوا ، وہ کیا کم تھا خوش ہونے کیلئے؟ ہر گز نہیں۔ ایشیا سے آئے ہوئے ایک جُگن طائفے کے ننھے جگنوؤں کے ساتھ اُس نے جگمگاتی روشنیوں کے سازینے پر رقص کیا تھا، یہ خاصیت صرف ایشیائی جگنوؤں میں پائی جاتی تھی کہ وہ باقاعدہ جتھوں میں جگمگاتا رقص کیا کرتے تھے۔ پر اُس رقص کے بعد بھی جب وہ تھک ٹوٹ کر بیٹھا تو خوش نہیں تھا اُس کے بعد تو اُس نے تفنن طبع کیلئے کیا کچھ نہ کیا، سب رائگاں ، سب بے فیض، سب اُس حزن کی برف کو پگھلانے میں ناکام رہے جو نہ جانے کیوں جُگنو پر طاری تھی۔ اُس نے کیڑے کھائے، پتنگے کھائے، خرنگے کھائے پر لطف نہیں آیا۔ مزہ نہیں تھا، سواد ندارد۔ پولن اور نیکٹر تو وہ کھاتا ہی رہتا تھا۔ سو خوشی نہ جانے کہاں بیٹھی اُس پر ہنستی رہتی۔ وہ روشنی جس پر کہ اُسے ناز تھا اور وہ اُسے چمکا چمکا کر اترایا کرتا، جب گھُپ اندھیرے میں دم توڑ دیتی تو ناز کافور ہو جاتا۔ یہ روشنی ہی تو اُس کی پہچان تھی، اُس کا مان تھی اور اُس کی جان تھی۔ مانا کہ اس روشنی کا وجود باؤلومینیسنس کا مرحون منت تھا جو ہرگز حرارت پیدا نہیں کرتا اور اس طرح وہ جلنے سے بھی محفوظ رہتا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں بنتا کہ روشنی اُس کی ملکیت ہی نہ تھی۔ آخر جس کسی نے بھی اُسے روشنی عطا کی تھی اُسی کیلئے ہی تو دی تھی، ورنہ کسی اور کو نہ دے دیتا؟۔ آج بھی وہ ایک پودے پر بیٹھا یہی سوچ رہا تھا، رات ہو چکی تھی، نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور خوشی کو تو وہ قریب قریب بھول ہی چکا تھا کہ یہ بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے۔ اتنے میں اُس نے ایک چڑے کی چیخ پُکار سُنی، شائد بچارہ کسی شکاری کی اندھیرے میں چلائی گئی غلیل کا شکار ہوا تھا اور پھر وہ دھپ سے اُس کے سامنے آن گرا۔ اتنے میں کسی کے دور سے دوڑنے کی آواز بھی سُنائی دی، یقیناً وہ شکاری ہو گا جو شکار کو پکڑنے بھاگ رہا تھا، اُس نے سوچا تھا اور پھر چڑے کو دیکھا۔ رحم کی ایک لہر جیسے اُس کے سینے سے اُٹھی اور اُس نے چمکنا شروع کر دیا۔ چڑے کا ایک پر زخمی ہو چُکا تھا اور وہ اُڑنے کے قابل نہیں تھا۔ جُگنو کو کنارے پر بنی ایک کھُڈ یاد آئی جہاں اکثر وہ کیڑوں کی تلاش میں جایا کرتا۔ اُس نے چڑے کے سامنے آ کر چمکنا شروع کر دیا اور اُسے اشارہ کرنے لگا کہ بھاگو۔ چڑا بھی جیسے بات سمجھ گیا ہو اور گھسٹتا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے اُس کی روشنی میں چلنے لگا۔ زندگی میں پہلی بار جُگنو جیسے سرشار ہو گیا تھا اور جوں جوں اُس کی سرشاری بڑھتی جا رہی تھی اُس کی چمک میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے