برہنہ خیال ۔۔۔ عامر ابراہیم

کوئی ضرور ہے جو رات کے پچھلے پہر گھر کی چھت پہ بھاری قدموں سے چلتا رہتا ہے۔ چاہنے کے باوجود میں چھت پہ جا کے دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکا ہوں۔ ایک دن قدموں کی آواز لاؤنج کی سیڑھیاں اترتے ہوئے میرے کمرے کے باہر آ کے رک جاتی ہے۔ میں پسینے میں شرابور لحاف میں دبکا رہتا ہوں۔ کوئی دھیرے دھیرے میرے کمرے کا دروازہ بجاتا ہے۔ میں خراٹوں کی مصنوعی آواز سے گہری نیند کا تاثر تخلیق کرتا ہوں۔ لیکن باہر جو بھی ہے وہ جان لیوا سناٹے سے مجھے پیسنے کی کوشش میں ہے۔
دن چڑھے تمام گھر کی تلاشی لیتا ہوں۔ وہاں کسی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔
شہر میں ناقابل فہم افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ جگہ جگہ کھسر پھسر ہو رہی ہے۔ پڑوس والے لٹریچر کے مخبوط الحواس پروفیسر صاحب نے انتہائی راز داری سے مجھے بتایا کہ کوئی پراسرار خیال شہر کی فضا میں گردش کر رہا ہے۔ لیکن اس خیال کو بیان میں لانے کو لفظ نہیں مل رہے۔ مزید یہ کہ یہ خیال الف ننگا ہے۔ میں اس مضحکہ خیز اطلاع پہ دل کھول کے قہقہے لگانا چاہتا ہوں۔ لیکن گلی سے گذرنے والے کچھ منچلے قمیض کا اگلا پلو اٹھا کے پروفیسر کو اپنے ارادوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ میں خاموشی سے کھسک جاتا ہوں۔
دھیرے دھیرے سب پہ یہ راز کھلتا ہے کہ صرف ان کی چھت پہ نہیں ، پراسرار قدموں کی چاپ ہر گھر پہ نازل ہو رہی ہے۔ لوگ بزدل کہلانے کے خوف سے اسے چھپاتے رہے تھے۔ لیکن بات عیاں ہوتے ہی گھر گھر میں مشورے ہونے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
ایک دن بازار میں چلتے ہوئے ایک جگہ ہجوم دیکھا تو تجسس گھسیٹ کے مجھے وہاں لے گیا۔ ایک شخص مجمع کو بتا رہا تھا کہ رات وہ گھر کی چھت پہ گیا تھا۔ وہاں بھاری بوٹوں والا ایک بڑا سا لفظ بے چینی سے گردش کرہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے مجھے پکڑ لیا اور سمجھانے لگا۔ دیکھو تمہیں اس خیال سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے خیال کے بدن پہ پہنا دو۔ میں اس پراسرار خیال کی برہنگی ڈھانپ لوں گا۔ سوائے برہنگی کے اس خیال میں کوئی خامی نہیں۔ لوگ بے یقینی سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ کچھ نے اسے دیوانہ کہا اور اس کے کچھ ناقابل بیان گھریلو راز منکشف کرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ جبکہ کچھ اس کی بات پہ غور کرنے کی بات کرنے لگے اور کچھ فوراً اس کی تائید پہ اتر آئے۔ جھگڑے کا امکان دیکھ کے میں وہاں سے نکل آیا۔ دوسرے دن پتہ چلا سرکاری اہل کاروں کو خبر ہو گئی تھی مجمع میں موجود لوگ گرفتار کر لئے گئے تھے۔
راتوں کو گھروں پہ چھاپوں کو سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گھر گھر سے لفظ گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔ لیکن رات کو نئے لفظ نمودار ہوکے بھاری بوٹوں سے چھت پہ گشت شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دن تنگ آ کے میں آخر شب چھت پہ جاتا ہوں۔ میں اپنے لفظ سے چڑ چڑے انداز میں بات کرتا ہوں۔ کون ہو تم ؟ کہاں سے ٹپک پڑتے ہو؟ ہمارا سکون برباد ہو گیا ہے۔ آخر ہم کب تک تمہیں گرفتار کرتے رہیں گے۔ بھاری بوٹوں والا لفظ سکون سے مسکراتے ہوئے جواب دیتا ہے۔ ہمیں گرفتار کرنا ممکن نہیں۔ سرکار چھت سے اتار کے ہمیں چھوڑ دیتی ہے اور ہم اگلی شب پھر اپنی ڈیوٹی پہ پہنچ جاتے ہیں۔ تم فضا میں تیرتے خیال سے ناروا خوفزدہ ہو۔ لفظ نے جونہی اپنی راگنی چھیڑی میں نے اس کی بات سنے بغیر اسے اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔ وہ بخوشی راضی ہو گیا۔ اب میں اور میرا لفظ مل کے ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ میرے لفظ نے مجھے بتایا کہ شہر بھر کے لفظ خیال کے جسم پہ جسپاں ہونے کو بے چین ہیں۔ لیکن یہ خیال کیا ہے؟ میں بے چینی سے اس سے پوچھتا ہوں۔ وہ فحش انداز میں مجھے آنکھ مار کے اپنے خصیئے کھجانے لگتا ہے۔ میں الجھ کے خاموش ہو جاتا ہوں۔
دوسری طرف جلد ہی سرکار نے میری پاس لفظ کی موجودگی بھانپ لی اور ہم دونوں گرفتار کر لئے گئے۔ لفظ کو رات ہوتے ہی چھوڑنا پڑا۔ میں قید خانے کے اندھیرے میں پڑا سوچتا رہا کہ اس سے بہتر تھا لفظ چھت پہ قدموں کی دھمک بجاتا رہتا۔
ایک دن ہمیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ وہاں مجھ سے اور بھی بہت سے قیدی لائے گئے تھے۔ ہم کٹہرے میں کھڑے منصف کے منتظر تھے۔ کچھ دیر کھسر پھسر ہوتی رہی پھر سرکاری اہلکار نے اعلان کیا کہ نئے منصف کی تقرری سے کچھ تاخیر ہوئی ہے۔ اب نئے منصف پہنچ گئے ہیں اور آپ احتراماً اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو جائیں۔ شہر کا نامور جادوگر جج کے چیمبر سے منصف کے روپ میں نمودار ہوا۔ وہ جلدی سے اپنی کرسی پہ بیٹھ گیا۔ عدالت میں کھسر پھسر بڑھ کے شور بن گئی۔ جادوگر نے لکڑی کا ہتھوڑا زور سے میز پہ پٹخا۔ ہتھوڑا میز پہ نہیں سیدھا ہماری کھوپڑیوں پہ رسید ہوا تھا۔ ہماری سوچ پچک کے رہ گئی۔ درد کی شدت سے مجمع نے اپنی کھوپڑیاں تھام لی تھیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے تھا اب منصف ایک نامور جادوگر ہے۔ ایک سہمی ہوئی خاموشی کی کالی چادر فضا میں پھیل گئی۔ جادوگر لاجواب منصف تھا۔ وہ جانتا تھا کب کہاں چوٹ لگانی ہے۔ اسنے اپنی چھڑی نکالی اور اس کے ایک سرے سے قانون کی کتاب کو چھوا۔ تعزیرات کتاب سے نکل کے ہوا میں گردش کرنے لگیں۔ وہ میز پہ چڑھ گیا تھا۔ وہ ہوا میں تیرتی تعزیرات سے کھیل رہا تھا۔ جب چاہتا ان کی شکلیں بدل کے ہمیں مزید خوفزدہ کر دیتا۔
دفعتاً اس نے بولنا شروع کیا۔ مدعی کیا کہنا چاہتا ہے اور ملزم کیا سوچ رہا ہے میں سب جانتا ہوں۔ یہ کہ کے اسنے ہمارے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ یہ حیرت انگیز تھا۔ ہم خاموشی اور بے بسی سے جادوگر کو دیکھتے رہے۔ کچھ دیر ساکت رہنے کے بعد اسنے خود ہی فیصلہ سنانا شروع کیا۔
شہر کی فضا میں تیرتا خوفناک خیال برہنہ ہے۔ اسے خوفزدہ کرنے اور خود سے دور رکھنے کے لئے لازم ہے کہ شہر اپنا چلن بدلے۔ یہ کہ کے اسنے چھڑی گھمائی اور ہماری پتلونیں فضا میں تحلیل ہو گئیں۔ ہم سب نیم برہنہ اپنی قمیضوں سے اپنا ننگ چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔ جادوگر پھر سے بولا قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اس لئے فیصلہ سب پہ لا گو ہو گا۔ یہ کہ کے اس نے اپنی چھڑی سے اپنی پتلون کو چھوا اور اس کا زیریں دھڑ بھی بے لباس ہو گیا۔ وہ میز سے نیچے اتر گیا۔ میز پہ ہتھوڑا رسید کرتے ہوئے عدالت برخاست کر دی۔ اس بار ہتھوڑے کی ضرب سے ہمارے مغز پلپلے ہو گئے تھے۔ میں نے ناک اور کان میں بہتے ہوئے مغز کی چپچپاہٹ محسوس کی۔
اب ہم لاکھ جتن کریں ہمارا زیریں دھڑ برہنہ ہی رہتا ہے۔ ایسا تمام شہر کے ساتھ ہے۔ قمیض کے پلو کھینچ کھینچ کے اپنے ننگ چھپانے کی کوشش کرنا ہماری اقدار میں شامل ہو گیا ہے۔ البتہ ہم جب بھی کان یا ناک سے بہتا مغز صاف کرنا چاہیں تو کسی قریبی دیوار سے اپنی پشت چپکا دیتے ہیں اور عقبی پلو کھینچ کے اس سے بہتی ہوئی سوچ کی چپچپاہٹ صاف کرتے رہتے ہیں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے