افسانچے، کہانیاں اور سائبر کے درخت پر گولر کے پھول ۔۔۔مشرف عالم ذوقی

گولر کے پھول کیا ہے؟
بچپن میں اماں کہتی تھیں۔۔۔۔ گولر کے پھول کو ماما جنات اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ سمجھاتی ہوئی امّاں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی پٹاری کھول لیتی تھیں — بڑا ہو کر افسانے لکھنے لگا تو امّاں کی پٹاریاں ماضی کے دریچوں سے کھل کھل کر ماما جنات، گولر کے پھول اور روایتی کہانیوں کو علامت اور فنٹاسی میں تبدیل کر چکے تھے۔۔۔۔ گھر کے پیچھے پیپل کا پیڑ تھا۔ اب یہ پیڑ نہیں ہے۔ ابو چاچا کہا کرتے تھے۔۔۔۔ اس پر ایک بھوت رہتا ہے۔ اب تو اُس کی عمر سو سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ کہانیاں بھی ماما جنات، گولر کے پھول اور روایت سے گزرتی ہوئی سو سال زیادہ کا عرصہ گزار چکی ہیں۔ ان سے الگ تصور کریں تو ہم ایک ایسی مہذب دنیا میں ہیں جہاں چاروں طرف ٹکنالوجی کا جال بچھا ہوا ہے۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہو شربا سے نکلی ہوئی کہانیاں اب وادی حیرت تک نہیں لے جا تیں۔ سائنس کے طلسم نے دادی امّاں کی جادو نگری کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب ننھے بچے دادی اماں ، نانی اماں سے کہانیاں نہیں سنتے۔ ہوش سنبھالتے ہی لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے ایک اشتہار کی بات کروں تو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہی ایک بچہ اپنے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کو تلاش کر لیتا ہے۔ ساتھ ہی گوگل اور فیس بک پر خود کو اپ لوڈ بھی کر لیتا ہے۔
یہ نئی دنیا کی تصویر ہے جسے ہماری دنیا اور اشتہاری دنیا دونوں نے قبول کر لیا ہے۔ سماج کا چہرہ تبدیل ہوا ہے۔ سیاست بھلے وہی پرانی نفرت کی تاریخ لکھ رہی ہے مگر سیاست کے بڑے استعمال کو سوشل نیٹ ورکنگ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ نئے سماج کے بچے بھی بدلے ہیں۔ پیزا اور برگر کی یہ دنیا ہزاروں تبدیلیاں لے کر سامنے آئی ہے۔ لیکن غور کیجئے تو کیا ان کے اثرات اردو افسانے پر ہیں ؟ میرا خیال ہے نہیں — زیادہ تر افسانہ نگار ’ہرمن بیسے‘ کے مطابق پرانی دنیا کو اس طرح گلے لگائے ہوئے ہیں کہ یہ دنیا گئی تو سماج، معاشرہ اور مذہب خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہمارے ادب میں تبدیلیاں کم بولتی ہیں یا بولتی ہی نہیں ہیں۔کچھ بڑے ادیب روایات یا کلاسیکی ادب کو آج بھی کیش کرانے کی کوششوں میں لگے ہیں اور ان کا ادب مکمل طور پر نئی روشنی سے خالی ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری زبان روز بروز گم ہوتی جا رہی ہے۔ غور کریں تو نئی نسل کا آنا رک گیا ہے۔ پرانے لوگ بہت کم لکھ رہے ہیں یا شوقیہ خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادب میں نئے خوشگوار جھونکوں کی آمد ٹھر گئی ہے۔ مگر ہم صرف اپنی مایوس سوچوں پر تکیہ نہیں کر سکتے۔ اردو کو زندہ رکھنا ہے تو نئی نسل میں وہ جذبہ پیدا کرنا ہو گا جو ان کے دلوں میں اردو زبان کے لیے محبت جگانے کا کام کرے۔ اور زندہ ادب کا تقاضہ ہے کہ ہم نئی روشنیوں کو سلام کریں۔
کہانیوں سے نکل کر ہم افسانچوں کی طرف آتے ہیں تو یہاں کی دنیا کنچے کھیلتی یا لٹّو نچاتے بچوں کی دنیا معلوم ہوتی ہے۔ غالب جب دو مصرعوں میں زندگی سے وابستہ نئی فکر اور نئے فلسفوں کو آواز دے سکتا ہے تو افسانچوں میں یہ نئی دنیا آباد کیوں نہیں ہو سکتی—؟ اس کا سیدھا جواب ہے کہ آباد اس لیے نہیں ہو سکتی کہ ان میں زیادہ تو لوگوں کے پاس ادب کا کوئی واضح تصور ہی نہیں ہے۔ مطالعہ نہیں ہے۔ مشاہدہ نہیں ہے۔ زیادہ تر افسانچے نصیحت اور تبلیغ کی سطح پر لکھے جا رہے ہیں۔ اور کہیں کوئی نیا پن ہے نہ فلسفہ— جبکہ یوروپ میں دیکھیں تو افسانچوی ادب میں انقلاب آچکا ہے۔ مگر ہمارے افسانچہ نگار ابھی تک معمولی درجہ کا کرپشن، رشوت خوری، ہوس، میاں بیوی کے رشتے، فسادات کے تعلق سے چھوٹے موٹے مناظر تک الجھے ہوئے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ انہیں نہ لطیفہ قرار دے سکتے ہیں نہ افسانچہ۔ نہ فکر قرار دے سکتے ہیں نہ فلسفہ۔ اگر یہ افسانچے نہیں ہیں تو انہیں کہا جائے۔ تضیع اوقات؟
پرانی اور نئی دنیا کے تصور سے بھی افسانچوں کی ایک نئی دنیا آباد کی جا سکتی ہے۔ مگر ہمارا افسانچہ نگار محض اس بات سے خوش ہے کہ اس کی دنیا میں ہر روز ایک افسانچہ نگار کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اور مجھے یہی بات اداس کرتی ہے۔ کارواں بڑھ رہا ہے اور ایسے لوگ سامنے آ رہے ہیں جو کہانیاں ، افسانچے کے الف ب سے بھی واقف نہیں۔
چلیے۔ میں ایک افسانچہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔

"ایک بچے نے میدان میں کھیلتے ہوئے اچانک آواز لگائی۔ ’امّاں۔۔۔۔ یہاں سائبر کا ایک درخت پیدا ہو گیا ہے۔۔۔۔،
امّاں مطمئن تھی۔۔۔۔ ایک ہفتہ پہلے لیپ ٹاپ ٹھیک کرنے والا آیا تھا۔۔۔۔ ممکن ہے کہیں تار میدان میں گر گئے ہوں۔ اس میں تعجب کی بات کیا ہے۔۔۔۔؟
’اماں۔۔۔۔ سائبر کا درخت۔۔۔۔ شاخوں کی جگہ بجلی کے تار ہیں امّاں۔۔۔۔ دور تک پھیلے ہوئے۔۔۔۔ اور ان کے آگے دیکھوں تو۔۔۔۔ گولر کا پھول ہے۔۔۔۔‘
امّاں اس بار بھی مطمئن تھی۔۔۔۔ گولر کے پھول کہیں بھی پھل سکتے ہیں — ویسے ہی جیسے گولر کے پھولوں والے جناتوں نے درختوں سے نکل کر اب ہمارے ساتھ رہنا شروع کر دیا ہے۔
بچے نے اس بار درخت پر چڑھنے کی کوشش کی تو بجلی کے تاروں سے الجھ کر رہ گیا۔۔۔۔ لیکن کسی تار میں کوئی کرنٹ نہیں دوڑ رہا تھا۔ بچے کو گولر کے پھول کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔۔ وہ اپنا کرکٹ بال تلاش کر رہا تھا اور اس کے خیال سے اڑتی ہوئی بال اسی سمت آئی تھی۔۔۔۔
کیا آپ اس بچے کو دیکھ سکتے ہیں جو دیر سے سائبر کے درخت اور اُس کی شاخوں میں الجھا ہوا اپنا بال تلاش کر رہا ہے؟”

یہ افسانچہ یہاں مکمل ہوا— اور اس کے لیے مجھے کچھ سوچنا بھی نہیں پڑا۔ اس میں دو باتیں صاف ہیں۔ بچے اپنے بچپن کے ساتھ ہی رہتے ہیں — اور دوسری بات بچے سوشل میڈیا سے زیادہ قریب ہیں۔ تیسری بات یہ ہے، گھر کی مائیں ، روایتی مائیں نہیں رہ گئیں۔ ایک پورا سٹم تبدیل ہوا ہے۔
آب اسے افسانچہ نہ مانیں۔ قبول— لیکن صاحب، میرا مکالمہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ کہانیاں یا افسانچے سو سال پرانے انداز میں اب نہیں لکھے جائیں گے۔
میں نے کوئی سائنسی افسانچہ لکھنے کی کوشش نہیں کی— یہاں ساری اصطلاحیں بچوں کی ہیں۔ سائبر، تار، لیپ ٹاپ، یہ بچوں کی عام گفتگو کا حصہ ہیں۔ ہمارے افسانچے پر ابھی بھی مذہب یا روایتی عورت حاوی ہے۔ عورت کو ہم آج بھی اُسی مرد کے نظریہ سے مرغی کے ’دربہ‘ میں بند دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں — آپ بھلے پُرانی دنیا سے تعلق رکھتے ہوں لیکن اپنے ذہن کو آزادی اور نئی روشنی نہیں دیں گے تو آپ کو لکھنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے— یہاں آزادی کا مطلب بغاوت نہیں ہے کہ آپ کہیں ، لڑکی اسکرٹ پہن کر آ گئی یا جنسی تسکین چاہتی ہے تو کیا ہم اُسے آزاد کہیں — یہاں میرا کہنا ہے کہ یہ آپ کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ ایسے سو گناہ مرد زیادہ کرتا ہے— مگر آج بھی عورتوں کی آزادی پر پہرے بٹھاتا ہے۔ دیکھنا ہے تو دونوں کو ایک نظر سے دیکھیے اور زندگی میں نہ سہی، ادب میں نئے جھونکوں کا استقبال کیجئے—ایک اور اہم بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اس پر بھی غور کیجئے۔ عام طور پر افسانچوں کی حمایت میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ لوگ آج کی تیز رفتار دنیا میں نہ ناول پڑھنا چاہتے ہیں نہ افسانے، اس لیے افسانچے لکھے جا رہے ہیں تو اس فکر سے باہر نکلیے— امریکہ میں جب پہلی بار ۲۴گھنٹے چینل شروع ہوا تب بھی کہا جا رہا تھا کہ ادب ختم ہو گیا۔ کتابوں سے دوستی کرنے والے یا دوست بنانے والے یا ادب پڑھنے والے ہر زمانے میں ہوں گے۔ کتابیں پرنٹ سے نکل کر ای بکس میں آ گئی ہیں اور وہاں وہاں بھی مطالعہ کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ناول اور افسانے پڑھنے والے بڑی تعداد میں ہیں — اس لیے معمولی درجہ کے افسانچوں کی حمایت کے لیے اس طرح کے جواز نہ پیش کیجئے۔
کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے
افسانچوں کو نئی فکر اور نئی دنیا سے رو برو کرانے کی ضرورت ہے۔ اسے نصیحت اور تبلیغ کا ذریعہ نہ بنائیے۔ اسے لطیفہ اور چٹکلے کی شکل میں نہ پیش کیجئے۔ ورنہ ممکن ہے، اماں کی کہانیوں سے گلہر کا پھول تو گم ہو گیا، یہ افسانچے بھی اپنی چمک کھوتے ہوئے بھولی بسری کہانی بن جائیں گے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے