اُس پار ۔۔۔ الیاس بابر اعوان

شام کے سُرخ پرندے اترنے سے قبل اُسے اُس پار پہنچنا تھا ، اُدھر جہاں پیلی دھوپ کی سرسوں کے کھیت تھے۔ نیلے لشکتے پانی ، جیسے ٹاس میں بھری کوری پیاس جو اُدھر سے وہ اپنی آنکھوں میں بھر کر اِدھر لے آیا تھا ، اور اک عمر توں وڈی آس۔ پنڈ پہ اخیری نظر ڈالتے سمے اُس کے تنومند شانے پہ محض ایک گٹھڑی تھی ، یہ گٹھڑی شرینہہ کے بُوٹے کی طرح‌ پھیلتی رہی اور اخیری اس کے مغر مغر پھرتے ہوئے کوہان بن گئی ،اور وہ دُور سے یوں دکھائی دیتا تھا جیسے بیٹھا ہُوا اونٹھ۔ پر سب ایسا نہیں تھا۔ یہ ان دنوں کی بات تھی جب مٹٰی کے وتر سے خاردار تار نہیں اُگی تھی ، وہی تار جو ہولی ہولی اس کے ہتھ پہ اکھروں کی طرح لکھی ہوئی تھی۔ جس کے ہر موسم میں وکھرے وکھرے مطلب نکلتے ، اور وہ ہمیشہ سے ایک گُوں مگوں کی کیفیت میں رہتا۔ جُتی کو آخری تروپا لگا کر وہ جیسے ہی تقریبآ کھڑا ہوا ، اُس کے کان میں بالے کی آواز پڑی
چاچا ! اج خیر تے ہے کدھر کی سواری اے؟ بالے قُلی نے اپنی جُتی گنڈھانے کے بعد اس کی تروپا تروپا تلی پہ اک دھیلے کی خیرات پھینکتے ہوئے پُوچھا۔
اُس نے دھیلے کو دیکھا ، مٹٰی میں بھورا بھورا مٹی ہوتے اُس کے بوڑھے پاؤں ابھی اپنی تھاں جمیت تھے۔دھیلے نے ہولی سے اس کو کہا : اک عمر دا پینڈا ، اک دھیلا ، اک کُب ، تے سید سے موچی کا سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھاٹے دا سودا تے نئیں ؟
چاچا ہنس پڑا اور پھر اُس نے پرانی اخبار کی طرح مرجھائی ہُوئی پگ کا ، لڑ اک طرف کو جھٹکا اور بولا۔۔۔۔۔۔ پُتر ، اودھر جانا اے جتھے موراں دی جوڑی میرا ناں لیندی اے ، چٹیاں گھوڑیاں میری اڈیک میں بیٹھی ہیں ، بس اودھر نُوں جانا ہے
بالا ہنس پڑا ! چاچا رحمت ! اودھر کُش نئیں ، سب ادھر ای اے ، تری یہ باتیں سن کے یہ رُکھ وی بوڑھے ہو گئے نیں ، ویکھ ایہناں دا وی کُب نکل آیا ہے، پتہ نئیں تو نے کب اودھر جانا ہے ، میں اک بات بتاؤں تجھے ، یہ اودھر اِدھر کُش نئیں ہوتا ، سب تیری اپنی بنائی ہوئی دنیا ہے ، سب کجھ اِدھر ہی اے۔
نہیں پُتر اوئے ، وہاں مور ہیں جو میرا ناں لیتے ہیں ، مجھے بلاتے ہیں ، نیم کے پیڑ ہیٹھاں میری منجی وچھی ہوئی اے ، چٹے رنگ دیاں اتھریاں گھوڑیاں مجھے اڈیک رئی ہیں ، مجھے اج ہر حال میں ‌جانا اے۔ چاچے رحمت نے اپنی اک لت والی عینک کے شیشے پہ بنے مکڑی کے جالے سے بالے کو دیکھا، اور بالا محض ہنس دیا، اور پھر خبرے کس ویلے ہوا ہو گیا ، شام سے پہلے پہلے بالے کو ٹیشن پہ پہنچنا تھا حالا نکہ ایس عمر میں قلیوں کے جُثے اتنے تگڑے نئیں ہوتے جتنا بالے کا تھا۔ پر بھُوک بندے کو پر لگا دیتی ہے چنگا بھلا بندہ پکھیرو بن جاتا ہے تے فیر کدی اک تھاں تے کدی دوُجی تھاں اُڈاری ماردیاں عمر لنگھ جاتی ہے۔
اُس نے فیر اک واری اُتر ول جھات پائی۔ اُسے یقین ہو گیا کہ ہلی وی اُس پار مور اُس کا نام لیتے ہیں گھوڑیاں اس کی اڈیک میں بوڑھی ہو رہی ہیں ، اُس نے سوچا کہ بڈھے ساہ تے بڈھی گھوڑی اس منجی کی طرح ہوتے ہیں جس میں ادوائن نہیں ہوتی ، نہ ہی بندہ بہہ سکتا ہے تے نہ ہی کسے نوں دے سکدا اے کہ خبرے کس ویلے کم آ جاوے۔ ایس توں پہلاں کہ اس کی ادوائن بالکل ہی ٹُٹ جائے اُسے یہاں سے چلا جانا چاہیے
۔۔۔۔۔۔
آج چاچے کو پنڈ سے غائب ہوئے دسواں دن تھا ، پنڈ میں چاچے کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا مگر سارے رشتے چاچے سے جا کے جُڑ جاتے تھے ، چاچے کا کوئی گھر نہیں تھا ، مگر ہر گھر کی دیوار اُس کے اندر سے ہو کر گزرتی تھی، پنڈ والوں کو اتنا یاد ہے کہ پنڈ کی عمر کا اندازہ پرانے مندر کی گرتی ہوئی دیواروں اور چاچے رحمت کے بھورا بھورا زمین کی طرف جھکتے ہوئے کُب سے لگایا جاتا تھا۔ اردگرد بڑی دُور تیکر اس کی تلاش کی گئی ، اُتر ول زیادہ دُور جانے کی اجازت نہیں تھی ، اُس سے آگے دشمن کا علاقہ تھا، جے کوئی ڈنگر چراتا ہُوا بھُل بھلا کے اُس طرف کو چلا جاتا تو چاروں پاسیوں سیٹیاں بجنا شروع ہو جاتیں تے کجھ چِر بعد فوجی جوان ریفلیں اٹھائے ادھر پہنچ جاتے۔ پنڈ کے لوگوں نے فوجی جوانوں سے بھی چاچے رحمت بارے پچھیا تھا مگر کسی کو کوئی خبر نہ تھی۔ فیر اک دن کسی بکر وال خبر دی کہ اس نے اُتر ول اک کھالی کے لاگے اک لاش ویکھی ہے ، پنڈ کے لوکی پچھان کی خاطر وہاں پہنچے ، مگر لاش کو کتوں ، بھگیاڑوں اور گِدھوں نے بری طرح سے مسخ کیا ہُوا تھا ، بچے کھچے جسم پہ کپڑے کی تھاں چند لیریں تھیں ، اور بارش اور دھوپ کی وجہ سے کچھ پچھان کے قابل نہ تھا۔ یوں بھی اتنے دن بعد تو فرشتے بھی لاش نہ پہچانیں ، پنڈ کے لوگ ادھ کھادی ہوئی لاش کو دیکھتے ، کانوں کو ہاتھ لگاتے اور پاسے ہوتے جاتے ، مشک اتنی تھی کہ سب نے ناک پرنوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ جب سب لوگ مایوس ہو کر جانے لگے تو بالا آگے بڑھا ، لاش کے سجے ہتھ میں مور کا اک پر تھا جو لاش نے گھُٹ کے پکڑا ہُوا تھا۔ وہ چیخا اور کو رکو پنڈ والیو یہی لاش ہے چاچے رحمت کی ، دیکھو دیکھو اس کے سجے ہتھ میں مور کا پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب لوگوں نے مڑ کے دیکھا لاش کی مٹھی میں واقعی ایک پر تھا مگرکسی گِدھ کا۔
٭٭٭

One thought on “اُس پار ۔۔۔ الیاس بابر اعوان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے