یہ کون سر بلند ہوا ؟ دیکھتے چلیں ۔۔۔ ڈاکٹر سلیم خان

تاریخ کی کتابوں میں اکثر حکمرانوں کے قصے اور جنگ و جدال کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہے۔ واقعات و سانحاتِ زمانہ مؤرخ بیان تو کرتا ہے لیکن کچھ اس طرح کہ بقول حفیظ میرٹھی ؎
مورخ ! تیری رنگ آمیز یاں تو خوب ہیں لیکن
کہیں تاریخ ہو جائے نہ افسانوں سے وابستہ
اس لئے اگر آپ کسی دور کے عوامی مسائل کا حقیقی ادراک کرنا چاہتے ہوں تواس عہد کو شاعر کی نظر سے دیکھیں۔ اس کے دیوان میں آپ کو انسانی جذبات و احساسات کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر نظر آئے گا۔ بھیگی پلکوں کا منظر نظر آئے گا۔ گھر نظر آئے گا در نظر آئے گا۔ پھول کانٹوں کا آنگن نظر آئے گا۔ رنج و فرحت کا گلشن نظر آئے گا۔ یہ سب کیسے ہوگا اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو حفیظ میرٹھی کا یہ شعر دیکھیں ؎
کبھی قفس سا کبھی آشیاں سا لگتا ہے
یہ میرا گھر مجھے ہندوستاں سا لگتا ہے
یہاں بات اشارے کنائے میں کہی گئی ہے لیکن آگے چل کر حفیظ میرٹھی یہ بھی بتلاتے ہیں کہ ہمارے قفس میں بسمل کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ ؎
بے سہاروں کا انتظام کرو
یعنی اک اور قتلِ عام کرو
تو ہمیں عصرِ حاضر کا ایک اور منظر دکھائی دیتا ہے لیکن جب ہم ان کی زبانی یہ شعر سنتے ہیں کہ ؎
حصارِ جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا
تو ایسا لگتا ہے کہ گویا کوئی د لیر اور درد مند شاعر نہایت دل نشیں انداز میں اپنے دور کی عکاسی کر رہا ہے۔ حفیظ کے دل پذیر اندازِ سخن کا ایک اور نمونہ ملاحظہ ہو ؎
روشنی کب تھی اتنی مرے شہر میں
جل رہے ہیں مکاں مشعلوں کی طرح
داد دیجے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
ان دونوں اشعار میں موجود تمام تر کرب و الم کے باوجود اس قدر شیرینی و نغمگی ہے کہ قاری جب انہیں تنہائی میں بھی پڑھتا ہے تو بے ساختہ ترنم میں گنگنانے لگتا ہے۔ یہی حفیظ میرٹھی کا سب سے بڑا وصف ہے کہ ان کے اشعار کا مضمون، اس کی گہرائی اور گیرائی شوخیِ گفتار پر بار نہیں بنتی۔ ان کا رنج و غم نہ شعر کو بوجھل کرتا ہے اور نہ مخاطب کو حزن و یاس کا شکار کرتا ہے۔ حفیظ میرٹھی کے یہاں ظلم کی منظر کشی ضرور ہے لیکن اس پر نالہ و فریاد نہیں ہے ان دو اشعار کا بانکپن دیکھیں ؎
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں خودکشی کی ہے
یہ بانکپن ہے ہمارا کہ ظلم پر ہم نے
بجائے نالہ و فریاد شاعری کی ہے
حفیظ میرٹھی نے حالات کی مرثیہ خوانی کیوں نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندرون میں رجائیت کا ایک دریا موجزن تھا۔ امید و بیم کی ایک شمع ان اپنے قلب میں روشن تھی۔ جس نے اس سے یہ کہلوایا کہ ؎
آج کی بد حال دنیا کے بھی دن پھر جائیں گے
اے مورخ ہم اگر تاریخ دہرانے اٹھے
حفیظ میرٹھی کی رجائیت پسندی حقیقت شناس ہے۔ وہ احمقوں کی جنت میں شاعری نہیں کرتے بلکہ انقلابِ زمانہ کے مختلف مراحل سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں۔ موسمِ بہار سے قبل قفس کی وادیوں کی سیر کو لازم سمجھتے ہیں۔ اور اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں ؎
آئے گا پھر چمن پہ تصرف کا وقت بھی
پہلے قفس کی آب و ہوا دیکھتے چلیں
اردو ادب کی تاریخ میں ایسے واقعات بھی نظر آتے ہیں کہ قید و بند کے مرحلے میں مشائخ شعراء نے سرزمینِ آزمائش کو خیر باد کہہ کر دور نکل جانے میں عافیت سمجھی اور پردیس میں جا کر دلیری کے نغمے گائے۔ حفیظ میرٹھی کو اس کا خیال تک نہ گزرا۔ انہوں نے میدانِ کارزار سے فرار کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قید و بند کی صعوبتوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور بے نیازی سے فرمایا ؎
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو جاؤ اپنا کام کرو
ایمرجنسی کے زمانے میں اندراجی کے طفیل حفیظ جیل گئے لیکن دل شکستہ نہیں ہوئے بلکہ اس ماحول کی ترجمانی اس طرح کی ؎
آج کچھ ایسا طے پایا ہے حق کے اجارہ داروں میں
جو ہم پر ایمان نہ لائے چنوا دو دیواروں میں
ہر ظالم سے ٹکرّ لی ہے سچے فنکاروں نے حفیظ
ہم وہ نہیں جو ڈر کر کہہ دیں ’’ہم ہیں تابعداروں میں
اسی عزم و حوصلہ نے ستمگروں کے غرور کو پاش پاش کر ڈالا اور جب زمانے نے ایک اور کروٹ لی تو شاعر یوں گویا ہوا ؎
بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
آزمائش کے اس کٹھن گھڑی میں حفیظ صاحب کا اکلوتا بیٹا داعیٔ اجل کو لبیک کہہ کر داغِ مفارقت دے گیا لیکن اس کے باوجود ان کے پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی۔ وہ صبر و سکون کا پیکر بنے مشیت کے ہر فیصلے سے راضی برضا رہے۔ جوان بیٹے کی موت کے بعد اہلیہ کے قتل کا صدمہ حفیظ صاحب پر ٹوٹا ان حادثوں کو اپنی شاعری میں پیش بھی کیا تو کچھ ایسے کہ فرمانِ رسول اکرمﷺ ’’غم میرا رفیق ہے‘‘ کے ترجمان بن گئے غم و اندوہ پر صبر تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن شکر کرنے والے کم ہوتے ہیں ؎
غم بھی اک احسان ہے اس کا، شکر کر اے دل شکوہ کیا؟
غم تو ہماری روحِ رواں ہے، ہم نہیں غم کے ماروں میں
حفیظ میرٹھی کی ذاتی زندگی میں رنج و الم کے گہرے بادل پھر ایک اس وقت چھا گئے جب ان کی سبکدوشی کے فوراً بعد ان کی اہلیہ محترمہ کو ایک قریبی رشتہ دار نے قتل کر دیا۔ اس صدمۂ جانکاہ کو بھی حفیظ اک شانِ بے نیازی سے سہتے ہوئے گئے ایک ایسا شعر کہہ گئے کہ جو بیک وقت ان کے بیٹے، زوجہ اور ان کی اپنی موت پر صادق آتا ہے ؎
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر
اس شعر کے اندر شاعر کا سکون و چین اس کے سامعین کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔ حفیظ میرٹھی ایک عظیم فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے آپ کی طرح ایک انسان تھے۔ ان کے اپنے احساسات و جذبات تھے اس لئے یکے بعد دیگرے پیش آنے والے یہ حادثاتِ زمانہ ان کی شخصیت پر اثرات انداز ہوئے جس کا اعتراف انہوں نے کچھ اس طرح کیا کہ ؎
کھوئے کھوئے حفیظؔ پائے گئے
امتحاں پھر ہے امتحاں لوگو
حفیظ صاحب نے اپنی ذاتی زندگی کے واقعات سے اپنے قارئین میں تقسیم نہیں کیا بلکہ ان کو اپنی ذات کے اندر محصور کر دیا اور اپنے آپ کو سنبھال کر اپنی شاعری میں وہی پہلے جیسی شگفتہ مزاجی کو قائم و دائم رکھا اس لئے کہ لوازمِ انجمن سے وہ بخوبی واقف تھے ؎
اداسیوں کو حفیظ! آپ اپنے گھر رکھیں
کہ انجمن کو ضرورت شگفتگی کی ہے
یہ ایک مشکل کام ہے کہ فنکار اپنے داخلی احساسات کے اظہار سے اپنے آپ کو روک سکے لیکن حفیظ میرٹھی نے اندر پایا جانے والا تعمیرِ حیات کا بے پایاں حوصلہ ان کے کام آیا اور وہ اس آگ کے دریا سے پار نکل سکے ؎
اب بھی یہ حوصلہ ہے کسی کام آسکوں
میں ٹوٹ تو گیا ہوں بکھرنے نہ دے مجھے
حفیظ صاحب نے ایک پروقار قناعت پسندانہ زندگی بسر کی پہل ےانہوں نے کلکٹریٹ میں ملازمت کی اور اس کے بعد فیض، عام انٹر کالج سے وابستہ ہو گئے۔ جاہ و حشمت کی خواہش و طلب سے بے نیاز کسمپرسی کے عالم میں کسی نے انہیں یہ مشورہ دیا ہو کہ ؎
تم بھی دربار میں حاضری دو حفیظؔ
پھر رہے ہو کہاں مفلسوں کی طرح
حفیظ میرٹھی کی غیرت کو گوارہ نہ تھا کہ وہ از خود کوئی پیش رفت کرتے مگر ان کی قلندرانہ زندگی میں بی جے پی کی فسطائی حکومت اس وقت ایک نئی آزمائش لے کر وارد ہوئی جب ریاستی وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے ان کی تعظیم و تکریم کا اعلان کر دیا ۔ ایک با ضمیر مسلمان کیلئے بابری مسجد کو شہید کرنے والوں کےدستِ نا مبارک سے انعام و اکرام، فخروسعادت نہیں بلکہ باعثِ ننگ و عار تھا اس لئے اپنی منفرد شانِ بے نیازی کے ساتھ انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس لئے کہ بقول حفیظ صاحب ؎
کروفر کی زندگی پر موت کو ترجیح دی
مجھ کو درباری قباؤں سے کفن اچھا لگا
شاعری اک در بھی ہے درد کا پیغام بھی
یہ تڑپنے اور تڑپانے کا فن اچھا لگا
تاریخ گواہ ہے کہ ایسے بڑے بڑے شعراء کو جنہوں نے فسطائیت اور فرقہ پرستی کے خلاف شاعری کر کے خوب داد و شہرت حاصل کی تھی جب زعفرانی حکومت نے پچکار کر بلایا تو وہ دادِ عیش کے حصول کی خاطرسرکار دربار میں بسرو چشم حاضر ہو گئے لیکن حفیظ صاحب جیسے لوگ اس فتنے سے اپنے آپ کو کیونکر محفوظ رکھ سکے ؟ اس سوال کا جواب ہے مقصدِ زندگی کا شعور اور اس سے بے پایاں عشق۔ جس نے آسائشِ دنیا کو ان کی نگاہِ بلند میں بے وقعت کر کے رکھ دیا تھا اسی لئے فرماتے ہیں ؎
ہیچ ہیں میری نظر میں آشیاں و گلستاں
آدمی ہوں عزم تعمیر جہاں رکھتا ہوں میں
جہاں نو کی تعمیر کا عزم کرنے والے حوصلہ مند لوگ اپنے سفر کی ابتداء مشاہدے اور جائزے سے کرتے ہیں لیکن ان کی نظر اعداد و شمار یا اخبار تک محدود نہیں ہوتی۔ وہ ترقی و ارتقاء کو صرف مادیت کے پیمانے میں نہیں تولتے بلکہ بہت جلد تہذیب و تمدن، اخلاق و عادات اور انسانی اقدار کی شکست و ریخت ان کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں ؎
تہذیبِ نو کے عہد میں انسانیت کے ساتھ
انساں نے کیا سلوک کیا ؟ دیکھتے چلیں
انسانی مشاہدہ سطحی بھی ہوتا ہے اور اس میں گہرائی و گیرائی بھی پائی جاتی ہے۔ اول الذکر صرف ظاہر بینی تک محدود رہتا ہے اور یہ پتہ لگاتا ہے کہ ہمارے اطراف کیا کچھ رونما ہو رہا ہے لیکن اس کی رسائی پس منظر میں کارفرما اسباب و علل پر نہیں ہوتی۔ حفیظ میرٹھی دور حاضر کے سطح بین سخنوروں سے اک گو نا شکایت رہی جس کا اعتراف انہوں نے اس طرح کیا کہ ؎
کہاں یہ سطح پسندی ادب کو لے آئی
جہاں نظر کی بلندی نہ دل کی گہرائی
حفیظ صاحب دل کی گہرائی سے حالاتِ حاضرہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ ایک فاسد نظام کی بدولت ہی چہار جانب یہ نمناکی پھیلی ہوئی ہے۔ اس معرفتِ حق کے بعد وہ کہتے ہیں ؎
ہائے یہ کیا مقام ہے، ہائے یہ کیا نظام ہے
عشق کی آستیں بھی نم، حسن کی آستیں بھی نم
عشق و حسن کی آستین کو نمناک دیکھنے کے بعد حفیظ میرٹھی جیسے شاعر اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باطل کے ایوانوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے اس لئے کہ ظلمت کے پرستار سمجھ جاتے ہیں کہ اب ان کی عافیت صرف اور صرف راہِ فرار میں ہے ۔ اس موقع پر حفیظ میرٹھی یہ مژدہ سناتے ہیں ؎
ظلسم ٹوٹ رہا ہے نظام باطل کا
اجالے آئے اندھیرے فرار ہوتے ہیں
کسی نظام کی تبدیلی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کو چیلنج کرنے کی اور اس کیلئے ایک صالح اجتماعیت کو برپا کرنے کی ذمہ داری وہی ا دا کر سکتا جو خود صاحبِ عمل ہو۔ حفیظ نے اپنی زندگی کے ہر نشیب و فراز کے دوران نہایت شگفتہ مزاجی کے ساتھ اپنا شعری سفر جاری و ساری رکھا اسی لئے ان کا انفرادی طرزِ عمل دوسروں کیلئے ترغیب و حوصلہ کا سامان بنا بقول حفیظ میرٹھی ؎
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
اپنے آپ کو صاحب کردار ثابت کر دینے کے بعد دوسروں کو بھی ظلم کے خلاف میدانِ عمل میں آنے کی دعوت حفیظ میرٹھی نے کس طرح دی اسے بھی ملاحظہ فرمائیں ؎
سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح
آؤ میدان میں غازیوں کی طرح
اس شعر میں بلواسطہ طرزِ تخاطب اختیار کیا گیا مگر حفیظ نے ایک اور شعر میں یہی بات لطیف علامت کی مدد سے فرمائی۔ بے زبان بادباں کو شاعر نے قوت تکلم سے آراستہ کر کے شعر میں جان ڈال دی ؎
’’تکو گے یو نہی ہواؤں کا منہ بھلا کب تک ؟‘‘
یہ نا خداؤں سے اک روز بادباں بولا
حفیظ صاحب چونکہ ایک تحریکی شاعر تھے اس لئے ان کچھ اشعار تو خاص طور پر ان لوگوں کیلئے ہیں جو کسی نہ کسی اجتماعیت سے وابستہ ہو کر اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہیں مثلاً ؎
کارواں چاہے مختصر ہو جائے
کوئی رہزن نہ ہمسفر ہو جائے
یا
راہ روکے ہوئے خود راہنما بیٹھے ہیں
اب کوئی قافلہ گذرے تو کدھر سے گذرے
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گذر سے گذرے
اپنے ہمراہ چلنے والوں کے علاوہ تحریکی سفر میں ساتھ چھوڑ جانے والوں کی نفسیات و رویہ کا بیان حفیظ کے یہاں اس طرح ملتا ہے ؎
اب اہلِ کارواں پہ لگاتا ہے تہمتیں
وہ ہمسفر جو حیلے بہانے میں رہ گیا
میدانِ کا ر زار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا جوان آئنہ خانے میں رہ گیا
اس طرح کی تنقید کے باوجود نوجوانوں میں حفیظ صاحب بے حد مقبول تھے۔ جماعت کے علاوہ طلباء تنظیموں کا کوئی بڑا اجتماع ایسا نہ ہوتا جس میں انہیں دعوتِ سخن نہ دی جاتی۔ میرا ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ نوجوان جس قدر ان سے مل کر خوش ہوتے تھے اس سے زیادہ خوشی خود حفیظ صاحب کو نوجوانوں سے مل کر ہوتی تھی۔ ان کا یہ شعر توا یس آئی ایم میں بچے بچے کی زبان پر ہوا کرتا تھا۔
نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخ حرم مجھ کو
مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ
حفیظ میرٹھی کو کون پہچانے کہ بے چارہ
نہ ایوانوں سے وابستہ، نہ دربانوں سے وابستہ
حفیظ میرٹھی نے اپنے دور کی ترجمانی ضرور کی لیکن اس کے سبب ان کے رنگِ تغزل پر آنچ نہیں آئی۔ انہوں نے نہ تو فن کو فکر کی بھینٹ چڑھنے دیا اور نہ فن کی رعایت میں فکر سے مصالحت برداشت کی بلکہ فکر و فن کے درمیان بہترین توازن کو قائم رکھا۔ حفیظ کے خیال میں بات تو اسی وقت بنتی ہے کہ جب فکر و فن کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹ دیا جائے ؎
بات جب ہے کہ فاصلہ نہ رہے
فکر اور فن کے درمیاں لوگو
جو شاعر اپنے شعور و شعر کے درمیان ایک حسنِ امتزاج پیدا کر نے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے قلم سے بے مثال اشعار جنم لینے لگتے ہیں جو آگے چل کر ضرب المثال بن جاتے ہیں۔ حفیظ میرٹھی کے ساتھ یہی ہوا کہ زلف و رخسار کی گرفت سے آزاد ہونے کے باوجود اس ان کے بے شمار اشعار زبان زدِ عام ہو گئے مثلاً ؎
کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے
بغور میرا پیام شاید ابھی جہاں نے سا نہیں ہے
سفینۂ عہدِ نو پہ چھایا ہوا ہے بہروپیوں کا لشکر
یہاں ہر اک نا خدا نما ہے مگر کوئی نا خدا نہیں ہے
عام فنکاروں کو اس بات کی شکایت ہوتی ہے کہ لوگوں نے ان کا کلام نہیں سمجھا اس لئے وہ پذیرائی سے محروم رہے۔ اس کے برعکس حفیظ اپنے پیام کے جواب میں شکن آلودہ پیشانی کی توقع کرتے ہیں۔ وہ اپنےسامعین سے وفا کے بجائے خفا ہونے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں۔ موجودہ دور کے سیاستدانوں کیلئے بہروپیا کا استعارہ اور پھر ناخدا نما کی اصطلاح ان اشعار کو زندہ و تابندہ کر دیتی ہے اس غزل کا ہر شعر لاجواب ہے۔ ملک کے انتخابی ماحول میں سیاستدانوں سانپ اور آستین کی تشبیہ دے کر حفیظ میرٹھی نے دو مصرعوں کے اندر ایک سمندر کو بند کر دیا فرماتے ہیں ؎
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظ
آستینوں کا انتظام کرو
حفیظ کو اپنی حق گوئی وبیباکی کے اثرات کا مکمل درک تھا وہ جانتے تھے کہ مصلحت پسند دنیا میں حقیقت بیانی کیا گل کھلاتی ہے اسی لئے کہتے ہیں ؎
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا
اس شعر میں جو برجستگی ہے وہ تو صرف حفیظ صاحب کا حصہ ہے۔ حفیظ میرٹھی کی آ گ والی غزل تواس قدر مقبول ہوئی کے اس کے بعد اس زمین پر کسی کا شعر دل کو بھاتا ہی نہیں
ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ
حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر
گتھیاں ایسی بھی ہیں کچھ جن کو سلجھاتی ہے آگ
آگ ہی کی طرح زنجیروں کی جھنکار بھی کچھ ایسی کھنکی کہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی ملاحظہ ہو ؎
آباد رہیں گے ویرانے، شاداب رہیں گی زنجیریں
جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجیریں
جب سب کے لب سل جائیں گے ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے
باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں
یہ اشعار فیض کے قید و بند میں کہی ہوئی نظم ’’زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے‘‘ کی یاد دلاتے ہیں۔ اسی طویل بہر کی غزل کے بعد ایک نہایت آسان اور مختصر بہر کی غزل دیکھیں جو آگے چل کر حفیظ صاحب کا تشخص بن گئی ؎
شیشہ ٹوٹے، غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
ہائے وہ نغمہ جس کا مغنی
گاتا جائے، روتا جائے
یہ شعر قرآن حکیم کے ساتھ حفیظ صاحب کے گہرے تعلق کا ترجمان ہے ’’گاتا جائے روتا جائے‘‘ کی منظر کشی لاجواب ہے۔ دارورسن کے ساتھ غم و غصہ، حزن و ملال، ماتم و گریہ کو سبھی منسوب کرتے ہیں لیکن اس کا جو تعلق سربلندی سے ہے اس کی جانب توجہ نہیں جاتی۔ لفظِ سربلند کا بر موقع و برجستہ استعمال مندرجہ ذیل شعر کواس قدر خوبصورت بنا دیتا ہے کہ طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے اس شعر کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں دارورسن جبر کے قہر کی علامت کے بجائے شوق شہادت کا حسنِ انتخاب نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے میں اسے حفیظ میرٹھی کا نمائندہ شعر سمجھتا ہوں ؎
دارورسن کو کس نے چنا دیکھتے چلیں
یہ کون سر بلند ہوا دیکھتے چلیں
عصر حاضر کا ایک بہت بڑا چیلنج مادہ پرستی اور معیار زندگی کو بلند سے بلند کرنے کی مسابقت ہے۔ اس کا اچھوتابیان ملاحظہ فرمائیں ؎
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تیری دیوار سے اونچی مری دیوار بنے
چھین کر غیر سے اپنوں نے مجھے قتل کیا
آپ ہی ڈھال بنے، آپ ہی تلوار بنے
یہ اشعار حفیظ میرٹھی کے خاص اسلوبِ سخن اور بانکپن کے ترجمان ہیں۔ ان اشعار کو پڑھتے وقت قاری کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ حفیظ میرٹھی کے علاوہ کسی اور کے نہیں ہوسکتے۔ ایسا لگتا ہے گویا ان اشعار پر حفیظ کی مہر ثبت ہو اور ان کے اندر حفیظ صاحب کا دل دھڑک رہا ہے۔ اسے دیکھیں ؎
اے پر ستارانِ نغمہ! چھوڑ کر تارِ رباب آج کچھ دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھتا ہوں میں
یہ ایسے اشعار ہیں کہ جنہیں ایک مرتبہ کوئی ڈائری یا کیلنڈر پر بھی پڑھ لیتا ہے تو وہ اس کے دل پر نقش ہو جاتے ہیں مثلاً
رات کو رات کہہ دیا میں نے سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا
کس نے سمجھا ہے میرے غم کو حفیظؔ گدگدا کر رلا گئی دنیا
اس شعر میں گدگدا کر رلانے کی ترکیبِ معکوس کا کیا خوب استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح کا ایک شعر ان کی مشہور غزل زنجیریں میں آگیا ہے۔ عام طور پر کسی شہ کے ٹوٹنا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جانا قابلِ افسوس ہوتا ہے لیکن اگر وہ چیز جبر و غلامی کا وسیلہ ہو تو اس کی تخریب کے بطن سے تعمیر کی کونپل پھوٹتی ہے اور وہ عمل باعثِ خیر ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی بندشِ الفاظ قاری کو چونکا دیتی ہے جس کے سبب وقتی طور پر تو سامع لطف اندوز ہوتا ہے لیکن اسی کے ساتھ اس طرح کے اشعار قلب و ذہن کے پردے پر تا حیات نقش ہو جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ؎
آزادی کا دروازہ بھی خود ہی کھولیں گی زنجیریں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجیریں
حفیظ میرٹھی کی غزلوں میں روانی اور نغمگی کے ساتھ ساتھ غم جاناں اور غم دوراں کا ایسا حسین امتزاج نظر آتا گویا ان دونوں کو شاعر نے ایک جان دو قالب کر دیا ہو۔ یقین نہ آتا ہو تو یہ اشعار دیکھیں جن رنگِ تغزل تو نہیں بدلتا لیکن مضمون تبدیل ہو کر کیا سے کیا ہو جاتا ہے ؎
یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے
تڑپے ہے مگر دردسے انکار کرے ہے
تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے
ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اصلاحی و تعمیری ادب خشک و بیرنگ ہوتا ہے اس بت کو حفیظ میرٹھی نے اس طرح پاش پاش کر دیا کہ اب نہ کوئی تعمیرپسند شاعر اصلاح کی آڑ میں اپنے عیوب کی پردہ پوشی کرسکتا ہے اور نہ تخریب پسند عناصر انہیں زاہدِِ خشک کا طعنہ دے سکتے ہیں۔ اگر کوئی ایسی جرأت کرتا بھی ہےتواس کیلئے حفیظ میرٹھی کا یہ ایک شعر کافی ہے ؎
محبت خامشی بھی، چیخ بھی، نغمہ بھی، نعرہ بھی یہ اک مضمون ہے کتنے ہی عنوانوں سے وابستہ
اس مضمون کی تیاری کو حفیظ میرٹھی کی غزلوں تک محدود رکھا گیا اور دیگر اصنافِ سخن سے طوالت کے پیشِ نظر اجتناب کیا گیا لیکن کلیاتِ حفیظ غزل کے علاوہ نعتوں، نظموں، منقبت، سلام، دعا اور دیگر اصناف سخن سے آراستہ ہے۔ وقت کے ساتھ حفیظ میرٹھی نے دنیائے ادب میں اپنی قادرالکلامی کا لوہا منوا لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ زمانہ قریب آ لگا ہے جب خود حفیظ میرٹھی کی اپنے متعلق کی گئی مندرجہ ذیل پیش گوئی سچ ہوا چاہتی ہے ؎
میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا ابھی
میں سنا جاؤں گا فیصلوں کی طرح
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے