دوست ۔۔۔ احسن اظہر

اپنے بسترپر آڑھا ترچھا لیٹا ہوا وہ سیل فون پر پچھلے ایک گھنٹے سے میسجنگ کر رہا تھا۔ دفتر سے آنے کے بعد اس نے لباس تک تبدیل نہیں کیا ،صرف جوتوں سے اپنے پیروں کو آزاد کیا اور موزوں سمیت اپنے بستر میں آ گیا۔ پورے بستر پر مسلسل کروٹیں بدلنے سے چادر اب گول مول سی ہو کر ایک کونے میں جا پڑی تھی اور لباس بے تحاشہ سلوٹوں سے بد نما سا ہو گیا تھا۔ایک سیل فون اس کے ہاتھوں میں تھا جبکہ دوسرا اس کے سرہانے پڑا تھا۔ ان دونوں فونز کو وہ باری باری استعمال کر رہا تھا۔ دونوں سیل فونز کی میسج ٹونز پچھلے ایک گھنٹے میں کئی بار بج چکی تھیں اور وہ ان میسجز کا بڑی توجہ سے جواب دے رہا تھا۔ کبھی تو وہ مسکرا دیتا ، کبھی کروٹ بدلنے لگتا تو کبھی چھت کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر مسکرا کر رہ جاتا۔ایک بار تو اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر بھرپور طریقے سے مسکرا اٹھا اور اسی حالت میں گہری سانس لی اور سینے کے بل کروٹ لے کر کھُلی ہوئی بانچھوں کے ساتھ جلدی جلدی سے کچھ لکھنے لگا۔ اس دوران اپنی ایک ٹانگ کو اٹھا اٹھا کر پاؤں سے بستر پر ضرب لگاتا جا رہا تھا۔ میسج لکھنے کے بعد وہ سیل کو ایک طرف رکھ کر مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخانے لگ گیا۔ اتنے میں دوسرے سیل کی گھنٹی بجی اور وہ میسج پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ یہ کھیل کافی دیر تک جاری رہا۔ اب اس کے چہرے پر تھکن کے آثار نمودار ہونے لگے۔پھر اسی میسجنگ میں ایک میسج پڑھنے کے بعد اچانک اس کے چہرے کے نقوش بگڑ سے گئے۔ اس نے جواب میں کچھ لکھا اور بے دلی سے سیل کو بستر پر تقریباً پٹخ دیا اور اپنی آنکھوں کو اپنی بازو سے ڈھانپ کر سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔ سیل کی گھنٹی بجی اور اس نے جلدی سے میسج پڑھا اور جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ اب وہ حواس باختہ سا دکھائی دینے لگا تھا۔اس کے چہرے کے نقوش غم اور غصے کی حالت میں بگڑ گئے۔وہ مسلسل نچلا ہونٹ چبائے جا رہا تھا۔ غصے کی حالت میں وہ اٹھا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔اس نے کچھ لکھ کر سیل فون بستر پر رکھ دیا اور ایک ہاتھ کمر اور دوجا سر پر رکھ کر کمرے میں اضطرابی حالت میں چکرانے لگا۔ اچانک سیل کی گھنٹی بجی اور اس نے تقریباً دوڑ کر سیل فون اٹھا کر میسج پڑھا اور دانت پیس کر زور سے فون بستر پر دے مارا اور چلّایا۔۔۔
"بھاڑ میں جاؤ، I hate you ”
یہ کہہ کر اس نے اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا اور دیوار سے کمر لگا کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد دیوار کے ساتھ ساتھ ہی نیچے ہو تا ہوا اپنے پیروں کے بل بیٹھ گیا اور اپنا سر گھٹنوں میں دے کر سسکیاں بھرنے لگا۔کافی دیر اسی حالت میں بیٹھے رہنے کے بعد وہ مرے ہوئے قدموں سے اٹھا اور سائیڈ ٹیبل پر پڑے سگریٹ کو ہونٹوں میں دبا کر کانپتے ہاتھوں سے اسے آگ دکھائی اور لمبا کش بھر کر فضاء کو دھواں دھواں کر کے باہر کی جانب کھلی کھڑکی کے پاس چلا گیا۔بغیر سلاخوں اور جالی کی کھڑکی میں ایک پاؤں رکھ کر اسی ٹانگ کے گھٹنے پر کہنی ٹکا کر سگریٹ کے کش بھرتے ہوئے ساتویں منزل سے نیچے سڑک پر دوڑتی ہو ئی ٹریفک کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ وہ اب اتنی اونچائی نیچے سڑک پر آ گرنے سے آنے والی چوٹوں اور درد کی شدّت پہ غور کر رہا تھا۔انھیں سوچوں کی رو میں بہتا ہوا اپنی زندگی اور اس کی اہمیت کے بارے میں غور کرنے لگا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنے آپ سے بحث اور دلائل میں مشغول ہے۔وہ آہستہ آہستہ جیسے اس سحر سے نکل آیا اور اپنے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے سر کو جھٹکا۔ اس نے ان بجھے سگریٹ کے ٹکڑے کو باہر سڑک کی طرف اچھال دیا اور اپنی نظریں اس کے تعاقب میں لگا دیں۔اسی دوران اس کی توجہ ٹریفک اور شہر کی روشنیوں کی جانب ہو گئی۔ زندگی کی رونقیں اور گہما گہمی اسے ہر جانب محسوس ہو رہی تھی۔ تقریباً دو سال ہونے کو آئے تھے کہ وہ زندگی کی ان رونقوں سے محروم تھا۔ یہ سوچتے ہی اس کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ یہ کرب آہستہ آہستہ پریشانی اور ندامت میں بدل گیا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ چند لمحے اس حالت میں رہنے کے بعد جیسے وہ کچھ سوچ کر فوراً مڑا اور بستر پر پڑے سیل فون کو اٹھا یا اور میسج لکھنے لگا۔۔۔
I m so so sorry۔
اور میسج بھیج دیا۔ وہ اپنے سیل فون سے بھیجے گئے اس میسج کو پر خیال نگاہوں سے تکے جا رہا تھا کہ اس کے دوسرے سیل فون پر میسج کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے جلدی سے وہ سیل اٹھایا اور میسج پڑھنے لگا۔۔
I’m so so sorry۔
اس نے چند لمحے اس میسج کو دیکھا ، مسکرایا اور جوابی میسج لکھنے میں مگن ہو گیا۔۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے