عظیم راہی

___________________________
چلن
___________________________

وہ شخص جس نے میرے قتل کی سازش رچی تھی
معجزاتی طور پر۔۔۔ میرے بچ جانے پر۔۔۔
مبارکباد دینے والوں میں وہی سب سے آگے تھا۔
٭٭

___________________________
دردِ مشترک
___________________________

دونوں دوست ایک عرصے کے بعد مل رہے تھے۔ مسرتوں کی سرشاری میں مدتوں سے نہ ملنے کی شکایتیں تھیں اور پھر سکھ دکھ کے ملے جلے اظہار کے ساتھ پرانی باتیں نکلیں۔ ماضی کے قصے تازہ ہوئے اور کچھ نئے تذکروں کے ساتھ خوش گپیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چائے کے دوران اچانک انھیں اپنے بچوں کا خیال آیا اور ان دونوں کے چہرے مایوس اور فکر مندی کے غبار میں جیسے اٹ گئے۔ پہلے نے بے حد فکرمند لہجے میں کہا۔
ٹی وی دیکھ کر ہمارے بچے تو وقت سے پہلے ہی جوان ہوتے جا رہے ہیں۔
اور ان کے پیچھے پڑ کر۔۔۔ ان کے لئے پریشان رہ کر ہم وقت سے پہلے بوڑھے۔۔۔
دوسرے نے فورا کہا
اور پھر وہ دونوں اپنے بالوں میں بڑھتی سفیدی اور چہرے پر پڑی جھریوں کے درمیان ایک دوسرے کو تلاش کرنے لگے۔
٭٭

___________________________
زر مبادلہ
___________________________

تم تو بہت اصول پسند تھے اور وضعدار بھی۔۔۔
لیکن آج جو تم نے کیا ہے یہ سب دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور افسوس بھی
اس کے آفس کے ساتھی نے یوں کہا جیسے طنز کر رہا ہو۔۔۔
ہاں ، میری اصول پسندی ہی تھی جو دیمک کی طرح چاٹتی رہی اور اندر ہی اندر مجھے کھوکھلا کرتی رہی۔
اور وضعداری کی سچائیاں زہر بن کر قطرہ قطرہ میرے لہو میں اترتی گئیں اور پھر آخر میں کرتا بھی تو کیا ؟ وہ قدرے جذباتی ہو گیا۔
’ہاں ، میں نے اپنی جوان بیٹی کو اپنی آنکھوں کے سامنے ، بہت دور سمندروں کے اس پار بوڑھے شیخ کے ہاتھ شادی کے نام پر فروخت کر دیا ہے۔
جذبات کی شدت سے اس کی آواز بھرا گئی۔ وہ ایک لمحے کے لئے رک گیا۔ پھر ایکدم رندھے ہوئے گلے سے بولا۔
مگر صرف اس لئے کہ دوسری دو جوان بیٹیوں کو یہاں اپنے ملک میں بیاہ سکوں !
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے