اردو میں منی افسانہ۔۔۔ عبد السمیع

___________________________
اظہاریہ۔ کتاب چہرہ، مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵
___________________________

منی افسانہ کیا ہے اور یہ مختصر افسانے سے کتنا مختلف ہے۔ اس کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی۔ اردو میں یہ صنف کہاں سے آئی اور اس کا موجد کون ہے۔ یہ تمام سوالات اردو کی حد تک ابھی دھندلکے میں ہیں۔ اردو میں منی افسانے کا نقطۂ آغاز عام طور پر منٹو کے ’سیاہ حاشیے ‘ کو سمجھا جاتا ہے۔جو 1948 میں شائع ہوا۔ ہندوسان میں اس موضوع پر دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور تحقیقی نوعیت کے کچھ مضامین بھی لکھے گئے ہیں۔عظیم راہی نے اپنی کتاب ’اردو میں افسانچہ کی روایت-تنقیدی مطالعہ‘ میں اور آمنہ آفرین نے اپنی تحقیقی کتاب ’اردو میں منی افسانہ‘میں مختلف حوالوں سے منٹو کے مجموعے ’سیاہ حاشیے‘ کو اردو منی افسانوںکا پہلا مجموعہ اور منٹو کو اس نوع کا پہلا افسانہ نگار قرار دیا ہے۔’سیاہ حاشیے‘ جب شائع ہوا تھا اس وقت اس میں شامل تحریروں کو کچھ لوگوں نے لطیفہ اور چٹکلہ اور حکایت کا نام دیا تھا۔ ان لوگوں محمدحسن عسکری ، ممتاز حسین اور وارث علوی بھی شامل ہیں۔اس لیے ابتدا میں اس کی صنفی نوعیت اور شعریات کی طرف توجہ نہیں دی جا سکی۔منی افسانہ ، افسانچہ یا شارٹ اسٹوری کی شعریات کیا ہے اور کون سی تحریر اس خانے میں رکھی میں رکھی جائے گی اس کا فیصلہ نقاد حضرات کریں گے۔ مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘ میں شامل تحریروں کو منی افسانہ کا نقطۂ آغاز تسلیم کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ جبکہ ان سے تقریباً چھ برس پہلے دیوندرستیارتھی منی افسانہ لکھ رہے تھے۔ ان کا افسانہ’پریوں کی باتیں‘ ان کے پہلے افسانوی مجموعہ ’نئے دیوتا‘ مطبوعہ 1942 میں شامل ہے۔ اگر سیاہ حاشیے کے افسانوں سے منی افسانہ کی ابتدا ہوتی ہے تو اس افسانہ کو کس خانہ میں رکھا جائے گا۔
افسانہ ملاحظہ کیجیے:
___________________________
پریوں کی باتیں
___________________________

’’ میں اپنے دوست کے پاس بیٹھا تھا۔ اُس وقت میرے دماغ میں سُقراط کا ایک خیال چکّر لگا رہا تھا— قدرت نے ہمیں دو کان دیے ہیں اور دو آنکھیں مگر زبان صرف ایک تاکہ ہم بہت زیادہ سنیں اور دیکھیں اور بولیں کم، بہت کم!
میں نے کہا ’’آج کوئی افسانہ سناؤ، دوست!‘‘
وہ بولا۔ تو آؤ، آج میں تمھیں ایک عظیم الشان افسانہ سناؤں:
دو بھیڑیں ایک جوہڑ کے کنارے پانی پی رہی تھیں۔
پانی پیتے ہوئے چھوٹی بھیڑ نے کہا:
میں اکثر سُنتی ہوں اِس گاؤں کے لوگ سُندر، من موہنی پریوں کی باتیں کیا کرتے ہیں!
بڑی بھیڑ پانی پیتی ہوئی ایک لمحہ کے لیے رُک گئی اور آہستہ سے بولی:
’’چپ چپ بہن! یہ لوگ دراصل ہماری ہی باتیں کرتے ہیں…‘‘
ماخذ:
http://nairawayat.com/2015/06/07/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D9%81%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%81/
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے