بلا عنوان۔۔۔رتن سنگھ

میں گہری نیند سورہا تھا۔
اتنے میں ٹوبہ ٹیک میرے پاس آیا اور بولا ’’منٹو صاحب نے عرش سے آپ کے لئے یہ قلم بھیجا ہے۔
ابھی میں ایک خوبصورت قلم مل جانے پر خوش ہو رہا تھا کہ اپنے سامنے ایک حبشی کو کھڑا پایا۔
جی جوگندر پال صاحب نے فرش سے آپ کے لئے روشنائی بھیجی ہے۔
میں نے روشنائی لے کر اپنے پاس رکھ لی۔
صبح جب نیند کھلی تو میری ہتھیلی پر ’’مانک موتی‘‘ چمک رہے تھے۔
’’ایک چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے محلے کی ایک تنگ سی گلی میں کسی چھوٹی سی بات پر دو فرقوں کے درمیان فساد ہو گیا۔ آگ ایسی لگی ، اتنی پھیلی کہ ایک بڑا ملک برباد ہو گیا۔‘‘
’’برلن کی دیوار ٹوٹنے پر مشرقی جرمنی میں رہ رہا ایک ہندوستانی ، مغربی جرمنی میں رہ رہے پاکستانی سے اس جوش سے بغل گیر ہوا جیسے ان کے اپنے ملکوں کو تقسیم کرنے والی واہگھے کی دیوار ٹوٹ گئی ہو۔‘‘
’’جب میں خیمہ گاڑ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک آدمی جو میرے باپ سا لگتا تھا ، اپنا خیمہ اکھاڑ رہا تھا اور جب میں کوچ کی تیاریاں کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جو میرے بیٹے سے لگتا تھا اپنا خیمہ ایسی مضبوطی سے گاڑ رہا تھا جیسے وہ یہاں ہمیشہ کے لئے رہنے کے لئے آیا ہو۔‘‘
’’ایک دن اپنے آپ سے لڑتے ہوئے مجھے احسا س ہوا کہ میں خود ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہوں۔ اسی طرح ایک دن شانت چت بیٹھے بیٹھے یہ احساس ہوا کہ میں خود ہی اپنا سب سے اچھا دوست بھی ہوں۔ ایک دن خیالوں کی دنیا آباد تھی تو ایسے لگا جیسے ساری دنیا ساری کائنات میرے اپنے اندر ہی موجود ہے۔ دوسرے دن جب ذہن بالکل خالی تھا اور کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی تو میں نے خود کو بے حد تنہا محسوس کیا۔‘‘
’’ہنستے ناچتے خوشیاں مناتے ایک ہجوم کو قریب آتا دیکھ کر ایک بھکارن نے اپنے تین چار سال کے بچے کو جلدی سے گود میں اٹھا لیا اور ایسی آڑ میں لے گئی جہاں سے بچہ ان رنگ رلیاں منانے والوں کو نہ دیکھ سکے ’نا بابا نا، وہ بڑبڑاتے جا رہی تھی۔
’’میرے ننگے بھوکے بچے نے اگر ہنسنا سیکھ لیا تو کل کو اسے بھیک کون دے گا۔‘‘
’’دو بڑی طاقتوں کے بحری بیڑے سمندر میں ایسی جگہ پر لنگر ڈالے پڑے تھے جہاں ان کے بیچ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ کسی سوال کو لے کر دونوں بڑی طاقتوں کے مقاصد ٹکرا گئے۔ بڑی طاقتوں کا تو کوئی نقصان نہ ہوا ، ہاں وہ چھوٹا سا جزیرہ مفت میں مارا گیا۔‘‘
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے