حرام ۔۔۔ علی جبران رانا

کسی بھی مغرب ملک میں رہنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ اب تو مجھے یہاں آئے بھی تین ماہ ہونے کو آئے تھے۔ بہت خواب دیکھے تھے میں نے اس سرزمین پر رہنے کے۔۔بڑ ے خواب دیکھے تھے میں نے زندگی کو آزادی سے مزے سے گزارنے کے۔۔مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ ہفتہ کا دن تھا۔آج میرا اس سے ملنے کا وعدہ تھا۔ "مولوی باقر کا بیٹا امریکہ میں "میں دل ہی دل میں مسکر ا دیا۔وہ میری مسکراہٹ کو استقبالیہ مسکرا ہٹ سمجھ کر جواباً مسکر ا ئی۔خوشی میر ے انگ انگ میں بھر گئی۔ ہم محبت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے چھیڑ ے ہنسی مذاق کرتے ڈاؤن ٹاؤن (شہر کے پر رونق) علاقہ کی طرف دلچسبیا ں ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔۔وہ میرا ہاتھ پکڑ کے ایک عجیب سی عمارت میں لے گئی جہاں عجیب سی بدبو آ رہی تھی۔ سانپوں کے پھن کی طرح کھڑی بوتلیں مجھے گھور رہی تھیں۔۔بار ٹینڈر نے جام بھر کر میرے سامنے نہایت بے نیازی سے رکھ ڈالا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ میں کون ہوں کیا ہوں میرے اندر کیا چل رہا ہے۔۔اس نے مجھے کتراتے دیکھا تو اتراتے ہو ے جام پکڑا اور میر ے منہ کو لگانا چاہا جیسے اسے سو فیصد یقین ہو کہ میں انکار کی جرات نہیں کرسکتا۔ میر ے زور دار جھٹکے سے جام فرش پر گر کر چکنا چور ہو گیا۔ حرام سیال مادے نے میرے جوتے پلید کر دئے۔ میر ے دن میں پانچ وقت با وضو رہنے والے پاؤں پلید جوتوں میں ہی کسمسانے لگے ایک عجیب سی بے چینی نے مجھے گھیر لیا
"پلیز پلیز یہاں سے چلو۔۔میں یہاں نہیں رک سکتا۔۔۔میں میں شراب نہیں پیتا ”
"کیا مطلب شراب کیوں نہیں پیتے ؟”اس نے خفگی سے پوچھا۔
"میں ،میں مسلمان ہوں "میں نے وضاحت کی۔
"یہاں بہت سے مسلمان پیتے ہیں ویسے بھی شام کا وقت ہے اندھیرا گناہ کا رکھوالا ہوتا ہے۔ پی لو دوست "اس نے اپنے تئیں دلیل دے کر مجھے منانے کی کوشش کی۔
"نہیں نہیں خدا دیکھ رہا ہے مجھ سے نہیں ہو گا پلیز آ ئی بیگ۔۔کہیں اور چلو”میں نے التجا کی۔۔۔
اس نے لمحے بھر کو مجھے دیکھا اور پھر کمال مہربانی سے مجھے وہاں سے لے کر باہر آ گئی۔
"تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں پلیز، کچھ ہلکا پھلکا کھا لو اور ساتھ میں سافٹ ڈرنک بھی پی لینا "۔۔میں نے حامی بھرنے کے انداز میں سر ہلایا اور اس کو مشکور نگاہوں سے دیکھا۔۔
وہ مسکراتے ہوئے ایک قریبی رستوران لے آ ئی۔ میں نے چکن برگر کا لقمہ منہ میں ڈالا اور اوپر سے سوفٹ ڈرنک پینے لگا۔۔”ارے یہ یہ کیا ہوا "وہ وہ میر ے ساتھ یعنی مولوی باقر کے بیٹے کے ساتھ ایک ہی کھا نے کی میز پر سور کے گوشت کا بنا برگر کھانے لگی۔۔۔
"افففففف”۔۔میری حالت غیر ہونے لگی۔۔۔”مجھے مجھے ابکائی آ رہی ہے”پلیز پلز یہاں سے چلو۔۔۔میں نے ایک بار پھر اس سے درخوا ست کی۔۔وہ برگر وہیں چھوڑ کر چپ چاپ میر ے ساتھ چل دی۔۔۔
"کتنی اعلی ظرف اور کشادہ ذہنیت کی لڑکی ہے دوسروں کی مجبوری کو سمجھنے والی ان کے جذبات کا احترام کرنے والی ” میں نے دل میں سوچا "اگر یہ مسلمان ہو جائے تو میں اسی سے شادی کروں گا انشاء الله ” میں نے دل میں مسقبل کا ایک خوبصورت پلان ترتیب دیا۔۔
"پلیز گھر چلتے ہیں ” میں ایک لمحے کے لیے بھی اب باہر نہیں ٹھہرنا چاہتا تھا۔ میں تو باہر آیا ہی اس کی خوشی کے لیے تھا ورنہ میں تو گھر ہی ملنے جانا چاہتا تھا اس کو۔۔۔ہم اس کے گھر پہنچے تو میں نے اس سے دانت برش کرنے کی درخواست کی جو اس نے قدرے ناخوشی سے قبول کر لی، لیکن میری عزت نفس کو مجروح نہیں کیا۔ وہ بہت سادہ اچھی اور کھلے دل کی لڑکی تھی ہر طرح کے تعصب سے پاک۔۔مذہبی معاشرتی تعصب سے پاک۔۔۔حالانکہ وہ مذاہب سے دور ہی تھی لیکن مجھے نہ جانے کیوں امید تھی کہ وہ اسلام ضرور قبول کر لے گی۔۔۔
وہ باتھ روم سے باہر نکلی تو بیڈ پر بیٹھ گئی۔ میری آنکھوں میں اس کے لیے احترام ہی احترام تھا، پیار ہی پیار۔ وہ قربانی دینا جانتی تھی۔ اعلی طرفی کی ایک زندہ مثال تھی۔ میں اس کے قریب ہوا اور اس کے بالکل ساتھ بیٹھ کر میں نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے نہ جانے کیوں میرا ہاتھ پکڑ لیا میں آج تک اس کے ہاتھ اور لہجے کی ٹھنڈک نہیں بھولا۔۔
"ابھی رات کا پہلا پہر ہے دوست اور مجھے نہیں لگتا تمہارا خدا اتنی جلدی سو گیا ہو گا ”
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے