بلا عنوان ۔۔۔ ریحان بشیر

غربت کا تمسخر ماتھے پے سجائے کچھ گھر کاندھے سے کاندھا ملائے ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے تو ایک بے ترتیب ، بے ڈھبی سی غریب بستی نے جنم لیا۔۔۔۔۔ وہی بستی جس کا ہر گھر انقلاب کا مسکن تھا۔۔۔۔۔ مگر بستی کے باسی اس بات سے بے خبر۔۔۔ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔۔۔۔ نفاق اس گلی کا چوہدری تھا اور دو بڑے بڑے نوکیلے دانتوں والے میلے کتے اس بستی کے چوکیدار۔۔۔۔۔ ایک دن دونوں کتے۔۔۔۔بستی کے ایک کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے ایک دوسرے سے محوِ گفتگو تھے۔۔۔۔ ایک کتے نے دوسرے سے کہا:
’’ہم دونوں کی جوڑی اور دوستی بے مثال ہے۔۔ یہی وجہ ہے کہ بستی کے سبھی باسی ہم سے جلتے ہیں۔۔۔ ‘‘
دوسرا بولا ’’ہاں !۔۔۔۔ شاید انہیں اتفاق سے نفرت ہے ‘‘
پہلے نے اپنائیت سے دوسرے کتے کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا:
’’کچھ بھی ہو، ہم دوستی کی اس ڈور کو نہ توڑیں گے‘‘
پہلے نے دوسرے کی تائید کی۔۔۔ پھر کافی دیر دونوں کتے ایک دوسرے سے مستیاں کرتے رہے۔۔ ہنستے رہے ایک دوسرے سے کھیلتے رہے۔۔۔
کھیلتے کھیلتے۔۔۔ پہلے کتے نے دوسرے سے کہا:
’’دیکھنا!۔۔۔۔ تمہارے جسم کے بال کتنے ملائم ، سفید اور دلکش ہیں۔۔۔ ‘‘
’’تمہاری آنکھیں مجھے بہت پسند ہیں ‘‘ دوسرے کتے نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔
’’تمہارے لمبے لمبے کان ، تمہاری دُم تمہاری شخصیت کو چار چاند لگاتی ہیں ‘‘۔۔ پہلے نے دوسرے سے کہا
’’باتیں بنا نا تو کوئی تم سے سیکھے۔ تم ہر طرح سے مجھ سے زیادہ خوبصورت ہو۔۔۔ دوسرے کتے نے پہلے سے کہا
اسی اثناء میں کوڑے کے ڈھیر کے ساتھ کھڑے درخت کی شاخوں سے۔۔۔ گرمی سے ہاری نیم مردہ فاختہ زمین پر آن گری۔۔۔ دونوں نے فاختہ کو ایک ساتھ دیکھا۔۔۔۔ اور غراتے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔۔۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے