کتابِ زیست ۔۔۔ مجید اختر

یہ پاکستان تھوڑی ہے کہ گھر کے سامنے ٹرک آ کر رکے اور اس میں سے بڑا سارا واشنگ مشین اور ڈرائیر برآمد ہو اور محلّہ والوں کی بھیڑ نہ لگ جائے۔
یہاں تو ایسے سب کام چپ چپاتے ہوتے ہیں۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ کوئی دیکھ بھی لے تو فوراً اِدھر اُدھر ہو جانا ہی تہذیب کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ فیروزہ بیگم نے گیراج کھلوا کر واشنگ مشین اور ڈرائیر وہاں اُتروائے۔ ظفر بیگ گھر میں موجود ہونے کے باوجود باہر نہیں آئے۔ شام میں پلمبر سے اپائنٹمنٹ تھی جسے واشر اور ڈرائیر ہُک اپ کرنے تھے۔
ظفر بیگ اتنے بڑے خرچہ کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جو مشین اور ڈرائر پہلے ہی سے گھر میں موجود تھے وہ اچھے خاصے تھے اور کام چل رہا تھا۔ لیکن فیروزہ بیگم کو ان سے سخت اختلاف تھا۔ واشنگ مشین سے چلتے میں عجب گھوں گھوں گھوں کی آواز نکلتی اور ڈرائیر پر جا بجا زنگ کے نشان نمایاں ہو رہے تھے۔ اور ۔۔۔۔پھر شمائلہ کو دیکھنے ہیوسٹن سے فیملی آ رہی تھی۔ ایک آدھ دن کی بات ہوتی تو کسے پتہ چلتا۔ لیکن ان مہمانوں کو تو دو چار دن رکنا تھا۔ اب گھر میں مہمان ہوں تو کپڑے تو دھلیں گے اور ایسی باوا آدم کے زمانے کی واشنگ مشین ہوئی تو ہو چکا رشتہ۔ لڑکا خیر سے ڈاکٹر ہے۔ ہمیں کچھ تو خیال کرنا ہو گا نا۔۔۔۔۔ ظفر بیگ کی جمع پونجی سے پندرہ سو اور ستاسی ڈالر کا چیک ہوم ڈیپو کو دے دیا گیا اور ابھی ّنے والے ٹرک سے سامان کی ڈیلیوری ہو رہی تھی۔۔۔۔ پلمبر کے پیسے الگ سے دینا تھے۔ پھر دو چار دن کی مہمانداری میں جو کچھ خرچ ہونا تھا اس کا اندازہ ظفر بیگ کو تھا۔
ابھی پچھلے ہفتہ جب مہمانوں کی آمد کی اطلاع آئی تو گیراج کی صفائی شروع کی گئی۔ سب سے پہلا ہدف ظفر بیگ کی کتابیں ہی بنیں۔ جو مختلف پرانی الماریوں میں جیسے تیسے گھسیڑ کر گیراج میں ایک طرف ڈال دی گئی تھیں۔ ظفر بیگ کو حوالہ کیلئے کوئی کتاب ڈھونڈنی ہوتی تو گھنٹوں لگ جاتے۔ امریکہ میں بچے تو اردو پڑھتے نہیں تھے اور بیگم کو کتابوں سے ازلی بیر تھا ، لے دے کہ وہ اکیلے تھے سو اس نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا۔ کتنی ہی بار فیروزہ بیگم ری۔سائیکل والے گرے کلر کے ڈمپسٹر میں ان کتابوں کو پھینکے کی سازش فرما چکی تھیں۔ اور ہر بار ظفر بیگ ان کی منتیں کر کے ان کتابوں کو بچا لیا کرتے۔
اطلاع یہی تھی کہ ڈاکٹر کے والدین صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ لہٰذا آتش دان پر سجی گیتا ، چی گویرا ،بالشویک انقلاب اور فراز و فیض صاحب کی کتابوں کو ہٹا کر مسجد کے کتب خانہ سے خریدا ہوا بخاری شریف کا نیا نکور سیٹ سجادیا گیا تھا۔ الماری سے احباب کے حج سے آئے ہوئے تحفوں میں کی جا نمازیں اور تسبیحیں بھی جھاڑ پونچھ کر کوٹ رکھنے والی الماری میں رکھ دی گئی تھیں کہ بوقتِ ضرورت کام آئیں۔ باتوں باتوں میں فیروزہ بیگم ظفر بیگ کو ٹوکتی رہتیں کہ یاد رکھنا قبلہ کا رخ کس طرف ہے اور خدا کیلئے کچھ نمازوں کی پریکٹس ہی کر لو۔ ایسا نہ ہو کہ عصر کی تین اور مغرب کی چار پڑھ دو، بیٹی کے رشتہ سے بھی جاؤ اور خاندان کی ناک الگ کٹے۔
ایک اطمینان فیروزہ بیگم کو البتہ تھا کہ شمائلہ کے دمکتے ہوئے روپ اور حسین سراپے کو نظر انداز کرنا اچھے اچھوں کیلئے ممکن نہیں تھا۔ بس وہ یہ دیکھنا چاہ رہی تھیں کہ لڑکے میں کتنا دم خم ہے۔ ظفر بیگ کی بیوہ بہن حلیمہ اور ان کی بیٹی رانو کو مدد کیلئے بلا لیا گیا تھا۔ حلیمہ گو تھیں ظفر بیگ سے چھوٹی لیکن بیوگی، اپنے منحنی وجود اور سانولے رنگ کی بِنا پر بہن کم اور ملازمہ زیادہ لگتی تھیں۔ یہی حال رانو کا تھا۔ شاید یہ اس کے سانولے پن کا احساس ہی تھا کہ اس نے ہنڈیا چولہے میں خاصی دسترس حاصل کر لی تھی۔
بات واشنگ مشین یا ڈرائیر تک ہی رہتی تب بھی ٹھیک تھا۔ لیکن فیروزہ بیگم نے نیا ڈائیننگ سیٹ اور میچنگ کے کورز اور ساتھ ہی سلور وئیر بھی خرید ڈالا۔ ظفر بیگ خوب زور لگا لگا کر کارپٹ کلینر سے فرشی قالین روز صبح رگڑتے کہ کہیں فیروزہ بیگم کارپٹ بدلنے کے درپے نا ہو جائیں۔ خدا خدا کر کے مہمانوں کی آمد ہوئی۔ فیروزہ بیگم کی تو باچھیں کِھل گئیں۔ اتنا ہینڈ سم لڑکا اور خیر سے ڈاکٹر۔ ماں باپ بھی گوارا تھے۔ ڈاکٹر کی امی انہیں اپنے مقابلہ میں گنوار سی لگیں۔ لیکن ان کی توجہ تو بس ڈاکٹر کی طرف لگی تھی۔ دو دن خوب مہمانداری ہوئی۔ ظفر بیگ کی بیوہ بہن نے لذیذ کھانے پکائے اور رانو نے شمائلہ کی تیاریوں اور میک اپ میں بھرپور مدد کی۔ ڈزنی لینڈ کی سیر بھی کی گئی، مسلم چائنا رسٹورنٹ میں ڈنر بھی کیا گیا۔ مرکزی مسجد میں جمعہ بھی ساتھ پڑھا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تین دن گزر گئے اور مہمان رخصت بھی ہو گئے۔
ایک ہفتہ تک ان کی طرف سے کوئی اطلاع نہ آئی تو بیگ صاحب نے بیگم کی شہ پا کر خیریت دریافت کرنے کے بہانے ایک ای میل بھیج دی۔ اسے بھی دو روز گزر گئے تو ایک دن فون کیا گیا۔ ڈاکٹر کے والد نے مصروفیت کا رونا رویا اور کچھ ہی دنوں میں تفصیل سے بات کرنے کا وعدہ کر کے فون بند کر دیا۔ گھر میں تذبذب کی فضا چھا گئی۔ دوسرے ہفتے ایک روز ظفر بیگ کام سے واپسی پر اپنا لیپ ٹاپ کھول کے بیٹھے تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ ڈاکٹر کے والد نے ایک بڑی سی ای میل بھیجی تھی۔ ان کی اور فیروزہ بیگم کی مہمانداری کے شکریہ کے ساتھ انہوں نے لکھا تھا کہ ان کے گھر کی فضا انہیں بہت زیادہ پسند آئی ، میاں بیوی ان کے ہاں رشتہ کرنے کے خواہش مند تھے اور ان کے بیٹے نے بھی لڑکی کو پسند کر لیا تھا۔
انہوں نے لکھا تھا کہ آپ اپنی ہمشیرہ سے ان کا عندیہ پوچھ لیں تاکہ رانو کا باقاعدہ رشتہ بھجا جا سکے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے