ہندکو ۔۔۔ افراسیاب کامل

عالم خان نے امریکہ سے واپسی کے بعد اپنے آبائی علاقہ میں قیام کیا رہائش کے بعد سب سے پہلا کام بچوں کا اچھے انگلش میڈیم سکولوں میں داخلہ اور اس کے بعد اس کی دوسری مصروفیات تھیں معاشی مسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی ساری توجہ اپنے مشاغل کی طرف مبذول ہو گئی خاندانی معاملات کے علاوہ اسے اپنے آبائی زبان ہندکو اور آبائی کلچر سے بہت دلچسپی تھی اس سلسلے میں اس نے اپنے شاعر دوستوں سے ملاقاتیں کیں اور چھ ماہ مسلسل رابطوں کے بعد اس نے ‘‘ ایک شام ہندکو اردو ادب کے نام‘‘ سے مشاعرے کا انعقاد بھی کیا جس میں مشاعرے کے علاوہ ہندکو زبان اور کلچرپر مقالات بھی شامل تھے اس نے ہندکو لغات کی چھپائی کا بھی عندیہ دیا جس سے سب ادیبوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
مقررہ تاریخ کو پر تکلف دعوت کے ساتھ ادبی تقریب بھی ہو ئی جس میں مقررین نے بڑے تشکرانہ انداز میں عالم خان کی ادب نوازی اور ہندکو زبان کی ادبی تاریخ پر روشنی ڈالی عالم خان سراپا عجز بنا ہر ایک کا شکریہ ادا کرتا رہا اس دن کی مناسبت سے اس نے لباس میں بھی یہی احتیاط برتی کہ اس کے رویہ اور چال ڈھال میں کوئی بات امریکی کلچر والی ظاہر نہ ہو اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب بھی رہا۔ اپنی تقریر میں اس نے بندکو زبان کی ناقدری کا گلہ کیا اور حکومت کو موردِ الزام ٹہرایا اس زبان کو سرکای سطح پر سکولوں کے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا سب نے اس کی پر زور تالیوں سے تائید کی۔
تقریب کے اختتام پر اس کی نظر اپنے دونوں بیٹوں پر پڑی چودہ سالہ عمیر اور آٹھ سالہ سہیل بھی پہلی مرتبہ مقامی لباس میں ملبوس بہت مختلف دکھائی دے رہے تھے امریکہ کے ماحول اور اعلیٰ ترین مقامی انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے والے بچے یہ سب بہت حیرانی اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ دونوں صاف اور کھری بات کرنے کے عادی تھے۔اچانک ہی سہیل نے انگلش زبان میں پوچھا ‘‘پاپا کیا ہندکو بولنا بری بات ہے‘‘ عالم خان نے جواباً کہا ‘‘ نہیں بیٹا ہم گھر میں بزرگوں سے یہی زبان تو بولتے ہیں ‘‘ عمیر نے بھی کہا ‘‘پاپا آپ کو پتہ ہے ہمارے سکول میں ہندکو بولنے کی اجازت نہیں ‘‘
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے