پہاڑی اور برتقال ۔۔۔ شاہد جمیل احمد

سرگودھا کے آٹھ چک جنوبی براستہ چار چک جاتے ہوئے کچی نما پکی سڑک پر بکھرے گول ، بیضوی اور نوکیلے پتھر اور دونوں اطراف موٹے کانٹوں والے پہاڑی کیکروں کی سے یعنی( (Parcopine کے تکلوں جیسی طوطا ہری شاخیں پہلی یاد کے طور پر میرے ذہن کے نہاں خانوں میں بے سمت پنگرتی ہیں۔
جبکہ دوسری یاد کے پہلے حصے میں میں لوگ پانی کے بڑے بڑے ٹبوں میں سٹرس کے ہزاروں بیج دھو رہے ہیں یا جراثیم کُش ادویات ((Fungicideلگا کر کھیتوں میں بونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میں نے اپنی دوسری یاد کے پہلے حصے کے مسئلے کو اپنی دانست ، تعلیم اور اکتساب سے حل کر لیا ہے کہ اب مجھے پتہ ہے کہ سٹرس کے بیج بوئیں تو پہلے کھٹیاں اگتی ہیں اور پھر ان پر سنگترے ، کینو ، مالٹے اور چکوترے کی پیوند ((Graftingکر کے نرسریوں کے لئے پودے تیار کئے جاتے ہیں۔
دوسری یاد کا دوسرا حصہ لیکن میرے لئے اب تک معمہ بنا ہوا ہے۔ گاؤں کے مشرق کی جانب لوہے کے اونچے پائپ پر ٹنگے چار سپیکر اور ان کے نیچے کچے پکے پلستر والی چھوٹی سی عمارت جس میں کچھ لوگوں کا متواتر پانچ وقت اور کچھ میرے جیسوں کا کبھی کبھار آ نا ہوتا ہے۔ مذکورہ عمارت کے پیچھے وہ بلند و بالا کریانہ پہاڑی کہ جو ہر روز سورج کی کرنیں دیر سے گاؤں پر پڑنے دینے میں مہا کامیاب ہے۔
پہاڑی کی وجہ تسمیہ کچھ بھی ہو مگر میرے لئے تو یہ اس طرح اور بھی معمہ بن گئی ہے کہ اب میرے لئے چار سپیکر اور وہ چھوٹی سی عمارت گاؤں سے چل کر پہاڑی کے مُڈہ میں نقش ہو گئے ہیں۔ میں اس پہاڑی کو پردے کی طرح آسانی سے ایک طرف سرکا کر سورج کو بلکہ روشنی کو شفق سے براہِ راست پھوٹتے دیکھنا چاہتا ہوں لیکن پردہ تو آ سانی سے سرک جاتا ہے مگر پہاڑی نہیں سرکتی۔ کشمکش ایسی کہ روشنی کو دیکھنے کی خواہش پانی کی پیاس کی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے