افسانچہ کی ابتداء و ارتقاء ۔۔۔ عظیم راہی

۷۰ء کے بعد بڑی افراتفری کا عالم تھا۔ چھٹی دہائی میں اردو افسانہ تجرید کی پیچیدگیوں میں اس قدر الجھ کر رہ گیا تھا کہ قاری اس سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ دراصل جدیدیت کے زیر اثر لکھے جانے والے علامتی تجریدی افسانوں سے کہانی پن نکل جانے کے باعث قاری ان سے تنگ آ چکے تھے۔ لہذا جدید اردو افسانہ میں کہانی کی واپسی ایک نئے انداز میں ہو رہی تھی جبکہ کچھ لوگ اسی روایتی انداز میں افسانے لکھ رہے تھے۔ ایسے دور میں نئی نسل میں مختصر ترین افسانے یعنی افسانچے منی افسانے لکھے جانے کا رجحان شروع ہوا جو وقت کا جائز تقاضہ اور مشینی دور میں قاری کو اپنے طرف راغب کرنے کا ذریعہ بھی ثابت ہوا۔ افسانچہ جو کہ افسانہ میں ہئیت اور فارم کا تجربہ تھا۔ یہ تجربہ اردو میں منٹو نے بہت پہلے کیا تھا۔ ۱۹۴۸ء میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں افسانچے منظر عام پر آئے تھے۔ اس کے بعد ۱۹۶۲ء میں جوگندر پال نے اپنے افسانوی مجموعہ ’’میں کیوں سوچوں ‘‘ میں ’’۳۵ افسانچے‘‘ کے نام سے مختصر ترین افسانے شامل کئے تھے اور اس کے بعد سے مختصر ترین افسانے خوب لکھے جانے لگے۔ جوگندر پال کی تقلید میں ۷۰ء کے بعد افسانچہ لکھنے کا چلن عام ہوا اور پھر یہ رجحان آٹھویں دہائی کے آغاز سے زور پکڑنے لگا۔ قارئین کی دلچسپی بڑھنے لگی ، اخبارات نے کثرت سے انھیں چھاپنا شروع کیا جو آہستہ آہستہ وقت کا جائز تقاضہ بنتا گیا۔ جدید افسانہ میں اسلوب اور ہئیت کے جو تجربے ہوئے ان کا اثر افسانچہ کی شکل میں رونما ہوا اور بعض نے اسے صرف افسانے کے سکڑنے سے تعبیر کیا۔ لیکن مختصر ترین افسانہ دراصل جدید اردو افسانہ میں ہئیت کی تبدیلی کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔ ویسے اردو میں اس تجربہ کا آغاز منٹو کے سیاہ حاشیے سے ہی ہوتا ہے۔ اتفاق دیکھئے تجریدی اور علامتی افسانہ کی شروعات بھی اردو میں منٹو کے افسانے ’’سڑک کے کنارے‘‘ اور ’’پھندنے،’ سے ہوئی ہے۔ اکثر لوگ اسے رد کرتے ہیں اور کچھ اعتراف کرتے ہیں لیکن سچ تو یہی ہے کہ باقاعدہ۱۹۶۰ءسے قبل ہی جدید اردوافسانہ کا آغاز ہو چکا تھا اور اس سلسلے کی شروعات منٹو کے ان افسانوں سے ہی ہوئی ہے۔ اس طرح جدید اردو افسانے کے تجربوں کا سہرا منٹو کے سر ہی بندھتا ہے۔
اردو میں منٹو نے سب سے پہلے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے عنوان سے مختصر ترین افسانے لکھ کر اس صنف کی بنیاد ڈالی۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ منٹو کو اس کی تحریک مغرب سے ملی ہو کیونکہ منٹو کی ادبی زندگی کا آغاز ہی روسی کہانیوں کے مترجم کی حیثیت سے ہوا تھا۔ ہوسکتا ہے اس زبان یا دیگر مغربی زبانوں کے زیر اثر انھوں نے لکھا ہو۔ لیکن افسانچہ کو سرے سے صرف مغرب سے متاثر ہونے کا نتیجہ سمجھنا قطعی مناسب نہیں ہے کہ افسانچہ بھی اردو کی خالص اپجی صنف ہے۔ اس سلسلے میں جو نظریات ملتے ہیں وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس نظریے کے تحت افسانچہ کی روایت پرانی حکایات اور خلیل جبران کے مقولوں سے شروع ہوتی ہے۔سید محمد عقیل کہتے ہیں کہ خلیل جبران کے فکر پارے کو عالمی ادب میں سب سے چھوٹی کہانی یعنی افسانچہ کا نام دیا گیا ہے۔ عربی ادب میں بھی باقاعدہ اس صنف کی روایت موجود ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اردو والوں نے قصیدہ کی طرح اس صنف کی ایجاد میں عربی ادب سے استفادہ کے نتیجے میں راہ ہموار کی ہو۔البتہ ہندی میں بھی ’’’لگھو کتھا‘‘ اور مرہٹی زبان میں ’’شنک کتھا‘‘ کے نام سے افسانچہ کی یہ روایت ملتی ہے۔پنجابی میں بھی بہت پہلے سے افسانچے لکھے جا رہے ہیں لیکن وہاں اسے لطیفے سے قریب کر دیا گیا ہے۔
دوسرے نظریے کے تحت کہا جاتا ہے کہ مختصر افسانہ کی طرح افسانچہ کا غالب رجحان مغربی ادب سے متاثر ہونے کے نتیجے میں ہی آیا ہے مختصر افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے جتنے تجربے ہوئے ہیں وہ سب مغرب کے ہی مرہون منت ہیں۔ اس لئے افسانچہ بھی اسی رجحان کے زیر اثر اردو میں لکھا گیا ہو، بعید از قیاس بھی نہیں لگتا ہے۔
افسانچہ کی ایجاد کے تعلق سے پہلا نظریہ رکھنے والوں میں کئی ممتاز ناقد و ادیب شامل ہیں۔ ممتاز شاعر قاضی سلیم اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :
’’پرانی حکایات ، لطائف سے منی کہانی اور افسانچوں کو جوڑ لیں تو ان کی جڑیں اپنی روایات میں دھنسی ہوئی مل جائیں گی۔ تازہ بہ تازہ یورپ سے درآمد کئے جانے کا الزام اپنے سر کیوں لیا جائے۔‘‘ (عظیم راہی اور منی افسانے کا فن۔’’ پھول کے آنسو‘‘ کے اجراء کے موقع پر پڑھا گیا ایک مضمون)
اس ضمن میں معروف ناقد اور ادیب و شاعر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی رائے بھی اہم ہے ، وہ لکھتے ہیں :
’’افسانچوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ صنف خلیل جبران سے شروع ہوتی ہے۔ اردو میں باضابطہ طور پر اس کی روایت منٹو سے شروع ہوتی ہے۔ منٹو کے بعد جوگندر پال نے اس صنف کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔‘‘ ( قوس قزح۔ مرتب مناظر عاشق ہرگانوی ۱۹۹۲ء۔ ص۴)
اسی نظریے کے تحت جدید افسانہ نگار م۔ناگ بڑے وثوق سے یوں اظہار خیال کرتے ہیں :
’’منی افسانہ ہندوستان کی ادبی زمین میں تیل کی صورت میں موجود ہے۔ دیش اور جاتک کتھائیں ، چھوٹی چھوٹی حکایتیں ، پند و نصائح کی ننھی منی کہانیاں ہمارے انمول خزینے ہیں۔ اس وقت سے یہ کہانیاں سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں۔ جب آدمی لکھنا نہیں جانتا تھا ، یہ ہماری ادبی میراث ہے۔‘‘ (’یہ دھواں کہا ں سے اٹھتا ہے‘۔ اشفاق احمد۔ پیش لفظ م ناگ ص۴۱)
آگے حتمی طور پر اپنی رائے دیتے ہیں :
’’ منی افسانہ باہر سے نہیں آیا ہے۔ یہ ہماری اپنی پیداوار ہے۔ اسی زمین سے اُپجا ہے۔ آج جبکہ ویڈیو نے چھپے ہوئے لفظ کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ آج جبکہ آدمی بین الاقوامیت کا گرین کارڈ حاصل کرنا چاہتا ہے ایسے دور میں منی کہانی آج کے قاری کی ضرورت بن سکتی ہے۔ (یہ دھواں کہا ں سے اٹھتا ہے۔ اشفاق احمد۔ پیش لفظ م ناگ ص۴۱)
افسانچہ کی روایت کے تعلق سے عام طور پر دوسرا نظریہ رکھنے والے صرف ہوا میں بات کرتے ہیں۔ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہینمگ وے ، لچنگ ولے اور ایڈگریلین کے اثر سے اردو میں منی افسانے لکھے گئے لیکن حتمی طور پر اپنی رائے کے جواز میں ان کے پاس کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کا نظریہ اور رویہ رکھنے والے اس بات سے انکار بھی نہیں کرتے کہ اردو میں سب سے پہلے افسانچے یا مختصر ترین افسانے منٹو نے ہی لکھے ہیں۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس بات کی کہیں کوئی وضاحت نہیں ملتی ہے کہ منٹو نے یہ چراغ مغرب کے کس ادیب سے متاثر ہو کر روشن کیا تھا اور نہ ہی منٹو نے خود کہیں اس تعلق سے کوئی بات کہی ہے۔ جوگندر پال نے بھی اس صنف کے موجد کی حیثیت سے منٹو کا نام تسلیم کیا ہے اور ’’سیاہ حاشئے‘‘ کو ہی اولیت دیتے ہیں۔ مزید اس سلسلے میں تقریباً نصف درجن ناقدین اور افسانہ نویس اردو میں افسانچہ نگاری کو منٹو کی سب سے پہلی کوشش قرار دیتے ہوئے ان کی اولیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں :
’’مختصر ترین افسانوں کا رواج اب عام ہو گیا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کی کامیاب بنیاد اردو کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے ڈالی تھی۔ ان کا ایک پورا مجموعہ حد درجہ مختصر کہانیوں پر مشتمل ہے۔ ( حرفوں کے ناسور۔ ڈی ایچ شاہ۔ پیش لفظ۔ص۹)
سید محمد عقیل کی رائے بھی اس بات کی پُر زور تائید کرتی ہے:
’’بیسویں صدی میں نئی چھوٹی کہانیاں مجموعی طور پر سب سے پہلے منٹو نے شروع کیں جو جدید زندگی خصوصاً تقسیم ہند کے فسادات سے متعلق تھیں۔ ‘‘ (منی کہانیاں سید محمد عقیل مطبوعہ روح ادب کلکتہ ص۵۶)
نثار اعظمی بڑے وثوق سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں :
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ منی افسانوں کی روایت کی داغ بیل سعادت حسن منٹو نے ڈالی۔‘‘ (’’پھول کے آنسو‘‘۔ مبصر:نثار عظمی، مطبوعہ معلم اردو لکھنؤ۔ اپریل ۱۹۸۸ء)
معتبر جدید افسانہ نگار سلام بن رزاق لکھتے ہیں :
’’غالباً سب سے پہلے منٹو نے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے عنوان سے کامیاب منی افسانے لکھے ہیں۔ ‘‘ (تعارف رشید قاسمی۔ سلام بن رزاق۔ مجلہ شاہین ۶۔ جلگاؤں )
معروف نقاد نظام صدیقی کی رائے میں بھی منٹو کو اولیت حاصل ہے۔ جوگندر پال کے افسانچوں کے مجموعہ ’کتھا نگر،پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف رقمطراز ہیں :
’’اردو فکشن میں منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے بعد پہلی بار جوگندر پال نے اعلیٰ سنجیدگی سے اس مختصر ترین صنف کو اپنے بہترین تخلیقی لمحات ایک خاص تخلیقی رویہ اور برتاؤ کے ساتھ نذر کئے ہیں۔ (کتھا نگر۔ تبصرہ مطبوعہ ماہنامہ آج کل۔ اکتوبر ۷۸)
ڈاکٹر ہارون ایوب نے بھی اس خصوص میں منٹو کی اولیت کا اعتراف کیا ہے وہ لکھتے ہیں
’’اردو ادب میں افسانچہ کی روایت کو سب سے پہلے منٹو نے متعارف کیا اور پہلا افسانچوں کا مجموعہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ منٹو کے اس مجموعہ سے افسانچوں کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی اور بہت سے افسانہ نگار، افسانچہ کی جانب متوجہ ہوئے‘‘۔ص۳۴، ماہنامہ پرواز ادب (پٹیالہ) نومبر دسمبر۱۹۹۷ء
اسی کتاب کے تبصرہ میں مناظر عاشق ہرگانوی بھی منٹو کے سیاہ حاشیے کا حوالہ دیتے ہیں۔ قاضی سلیم بھی منٹو کو ہی اولیت دیتے ہیں۔ ان تمام بیانات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اردو میں سب سے پہلے منٹو نے ہی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں افسانچے لکھے ہیں۔ حالانکہ کچھ لوگ چند ان مختصر کہانیوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو انگریزی فرانسسی اور روسی زبانوں کے ادب سے متاثر ہو کر لکھی گئیں۔ اسی طرح ابراہیم جلیس نے ’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے نام سے مختصر مختصر افسانے لکھے ہیں جو اپنے نام کی طرح اوٹ پٹانگ ہیں اور یہ انگریزی ادب سے متاثر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اور ان کا صنف افسانچہ سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس اعتبار سے اس صنف کی اولیت کا سہرا منٹو کے سر بندھتا ہے اور اردو کے ہر بڑے نقاد نے افسانچے کی تخلیق کے موجد کے طور پر انھیں تسلیم کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے وہ بھی سیاہ حاشیے کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ چاہے ان کی نظر میں افسانچہ یا افسانچہ کوئی جدید صنف نہ رہی ہو اور کچھ دوسرے مخالفین بھی جو اسے صنف کے طور پر قبول نہیں کرتے، اس باب میں منٹو کی اہمیت کے قائل ہیں۔ مجموعی اعتبار سے منٹو کو جو اولیت حاصل ہے اس سے کسی طور پر انکار ممکن نہیں کہ آج کے تمام معتبر اور نامور نقادوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔اور اس خصوص میں منٹو کی اولیت کا تقریباً سب نے اعتراف کیا ہے۔
اس مختصر سے جائزے سے یہ بات آئینہ کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ اردو میں سب سے پہلے اس روایت کی بنیاد منٹو نے ڈالی اور ان کے بعد جوگندر پال جیسے ہمہ جہت فنکار نے اسے اعتبار اور وقار بخشا ہے جو یقیناً قابل قدر ہے۔ اس سلسلے میں نثار اعظمی رقمطراز ہیں :
’’منٹو کے بعد موجودہ دور میں جوگندر پال نے اس صنف میں قابل قدر تخلیقی کام انجام دیا ہے۔‘‘ (پھول کے آنسو۔ تبصرہ مطبوعہ معلم اردو لکھنؤ۔ اپریل ۱۹۸۸ء)
مناظر عاشق ہرگانوی کے مطابق جوگندر پال منی افسانے کی فہرست میں وہ نام ہے جنھوں نے اس صنف کو ہر جہت سے فروغ دیا ہے اور اعتبار بخشا ہے۔ (کتھا نگر۔ مبصر مناظر عاشق ہرگانوی۔ توازن مالیگاؤں۔ ۹ ۱۹۸۶ء)
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کے بعد کسی بڑے افسانہ نگار نے اس صنف میں طبع آزمائی نہیں کی۔ اکثر نے تو اسے صنف ہی تسلیم نہیں کیا۔ افسانچے کا المیہ ہے کہ اس پر کہنہ مشق ادیبوں نے کم توجہ دی ہے۔ جوگندر پال کے بعد رتن سنگھ اور ان کے ساتھ صرف دو چار بڑے نام ملتے ہیں جنہوں نے گنتی کے چندافسانچے تحریر کیے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ناقدین نے بھی اسے اچھوت سمجھ کر ہاتھ نہیں لگایا۔ اس پر کچھ لکھنے اوراسے اہمیت دینے سے شعوری طور پر گریز کیا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ نئی نسل میں نئے لکھنے والوں نے اسے باقاعدہ صنف کے طور پر برتنا شروع کر دیا تھا۔اسی سبب آج اس صنف میں ناموں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے۔اس کے ساتھ ہی کچھ ناقدین کا رویہ بڑا عجیب لگتا ہے۔ محمد حسن عسکری، منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو مختصر افسانے بھی لکھتے ہیں اور لطیفے بھی…. دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں ‘‘۔
لیکن اس کے برعکس، دوسرے ترقی پسند نقاد اس رائے کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔ ممتاز حسین نے اپنی کتاب ’’نقد حیات‘‘ میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو افسانوی مجموعہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے لکھا تھا۔
’’یہ (سیاہ حاشیے) افسانوں کی کتاب نہیں بلکہ لطیفوں ، چٹکلوں اور پہیلیوں کی کتاب ہے۔ یہ لطیفے، چٹکلے فسادات کے واقعات مرتب کیے گئے ہیں ‘‘۔ (ص۱۷۷)
اسی طرح خلیل الرحمن اعظمی نے اسے منفی کوشش کا نمونہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا۔
’’اس نوع کی منفی کوشش کا نمونہ وہ لطیفے ہیں جو سیاہ حاشیے کے نام سے فسادات پر لکھے گئے ہیں ‘‘۔ (ترقی پسند تحریک۔ ص۳۲۳)
دراصل اس زمانے میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ سے منٹو کا باغیانہ رجحان کھل کر سامنے آگیا تھا اور ترقی پسند حلقے میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ اسی لیے ترقی پسند نقادوں نے منٹو کے خلاف کئی اور شوشے چھوڑے۔ منٹو کو رجعت پسند کہا گیا۔ اور ’سیاہ حاشیے‘ کو افسانوی مجموعہ ماننے سے انکار کیا گیا۔ اسے لطیفے سے قریب قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ بعد میں منٹو کے ایک بڑے معترف اور ممتاز نقاد وارث علوی نے بھی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو صرف چٹکلے کہا ہے وہ لکھتے ہیں۔
’’…. اور سیاہ حاشیے جو ہیں وہ افسانے نہیں لطیفے ہی ہیں۔ چٹکلے بھی ہیں۔ بہت کم اہم…. بہت اچھے، …. لیکن چٹکلے ہیں ….‘‘۔ (سیل گفتگو۔ عصری افسانے پر وارث علوی سے بات چیت ، ش۔ک۔نظام۔مطبوعہ ماہنامہ شاعر بمبئی افسانہ نمبر۱۹۸۱ء۔ص۱۲۹۔۱۳۰)
جبکہ سید محمد عقیل ، منٹو کے سیاہ حاشیے کی ان مختصر کہانیوں میں بہت زیادہ اثر انگیزی محسوس کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’یہ کہانیاں اپنی کاٹ، اثر انگیزی اور دھماکہ خیز اثرات کا مرقع معلوم ہوئی اور بعض اوقات تو یہ محسوس ہوا کہ ان کہانیوں میں واقعات اور حادثات کا سچ نچوڑ کر رکھ دیا گیا ہے‘‘۔ (ص۶۶۔ منی کہانیاں۔ سید محمد عقیل۔ روح ادب کلکتہ)
یہاں یہ امر مسلم ہے کہ تقسیم ہند کے فسادات کا کرب ہی ان مختصر کہانیوں کا اصل مدعا ہے۔ اس لیے یہ لطیفے ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان مختصر ترین کہانیوں میں ان واقعات کی شدید تر کیفیات شدت تاثر کے ساتھ موجود ہیں۔ ان ہی کیفیات کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے سید محمد عقیل اپنے اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں
’’ان کہانیوں میں واقعات بھی ہیں ، حادثات بھی…. اور کہیں کہیں تو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے ان کی تاثیر اور ان کے غم کے بھنور سے نکل نہیں پاتا۔ جیسے اس کے خیالات کی رو تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچ کر رک جاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ !‘‘ (ص۶۶۔منی کہانیاں۔ سید محمد عقیل۔ روح ادب کلکتہ)
یہ چونکا دینے والی ڈرامائی کیفیت، جو ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے منٹو کے ان افسانوں میں موجود ہے۔ کیونکہ یہ کہانیاں ڈاکٹر ظفر سعید کے لفظوں میں ’’محض تفنن طبع کے لیے نہیں لکھی گئی ہیں اور نہ ہی صرف انشراح قلب ان کا مقصود ہے۔ ان کہانیوں میں انسانی فطرت کا جو گہرا راز ہے زندگی کی جو بوقلمونی ہے۔ دہشت کی جو فضا ہے۔ حالات کے جبر کا جو شدید مایوس کن ماحول ہے۔ بے بسی، بے حسی اور نامرادی کی جو یاس انگیز کیفیت ہے وہ لطیفے اور چٹکلے سے بہت اونچی چیز ہے۔ لطیفہ اور چٹکلہ اس ماحول اور اس کیفیت کا متحمل ہو بھی نہیں سکتا‘‘۔ لطیفہ اور افسانہ ان دونوں کے مابین امتیازی فرق کو محسوس کرتے ہوئے وہ آگے لکھتے ہیں۔
’’افسانے کی سحر انگیزی زندگی کے آب و تاب کی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ اور خود زندگی جیسی انمول پیچیدہ اور بے کراں ہوتی ہے۔ افسانہ بھی ویسا ہی انمول پیچیدہ اور بے کراں ہوتا ہے۔ افسانہ تہذیب کا نمائندہ بھی ہوتا ہے اور تاریخی دستاویز بھی وقت اور زمانے کا نباض بھی ہوتا ہے۔ اور زندگی کے سیل رواں کا تناور بھی۔ لطیفہ ان سب خصائص میں قطعی معرا ہوتا ہے۔ لہذا افسانہ خواہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو۔ لطیفہ کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اور افسانے کی فنی خامی اسے لطیفے کے درجے پر نہیں پہنچا سکتی‘‘۔ (ص۲۱۔سیاہ حاشیے۔ افسانہ یا لطیفہ۔ ڈاکٹر ظفر سعید مطبوعہ زبان و ادب ’پٹنہ، جلد ۳۲ شمارہ۲)
چونکہ محمد حسن عسکری جیسے بالغ نظر نقاد نے بھی منٹو کے سیاہ حاشیے کے ان مختصر افسانوں کو کہیں لطیفے کہا ہے اور کہیں افسانے بھی…. شاید یہیں سے یہ غلط فہمی راہ پا گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر نے اس صنف کو لطیفے سے قریب سمجھنے کی اس غلط فہمی کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے مثلاً سید ظفر ہاشمی جیسے سلجھے ہوئے افسانہ نگار بھی افسانچہ کو نئی صنف کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے اور اسے لطیفہ سے قریب محسوس کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اور یہ صنف لطیفے اور پہیلی سے قریب لگتی ہے۔ اس لیے اسے کوئی نیا نام دینا چاہئے…. افسانوں سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ‘‘۔(تبصرہ پھول کے آنسو۔ مطبوعہ گلبن۔ احمدآباد۔۱۹۸۸ء)
غرض ڈاکٹر سعید کے لفظوں میں ’’سیا حاشیے‘‘ کی تخلیقات کے لیے افسانہ اور لطیفہ دونوں الفاظ کو استعمال کرنا سخت غلطی ہے‘‘۔ جس کا بار بار اعادہ کرنا اسے مزید بڑی غلطی بنا دینے کے مترادف ہے۔ دراصل ہماری تنقید کے اس متضاد رویے کی وجہ سے اکثر نئی اصناف کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا صحیح موقع نہیں مل سکا ہے شاید اسی وجہ سے نثری نظم اور آزاد غزل کا تجربہ ناکام رہا۔ لیکن یہ صنف (افسانچہ) بڑی سخت جان ثابت ہوئی ہے۔ ان مخالف رویوں منفی رجحان اور تنقیدی تضاد کے باوجود اپنی صنفی حیثیت کو تسلیم کروانے میں پوری طرح کامیاب ہوئی ہے اور دن بدن مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مقام شکر ہے کہ اس صنف کی تعریف، ہئیت، خدوخال اور فن کا تعین صحیح طور پر بہت پہلے ہو چکا ہے اور بیسوی صدی کی آخری تین دہائیوں سے افسانچہ بطور صنف اپنی اہمیت کا لوہا منوا چکا ہے جو وقت کے ساتھ چل کر، وقت کی ضرورت بھی بن گیا ہے اور بدلتے وقت کے ساتھ اور بھی زیادہ مقبول عام ہوا ہے اس بات کا اندازہ آپ کو اس کتاب کے مطالعے سے بآسانی ہو جائے گا۔
(اردو میں افسانچہ کی روایت۔ تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر عظیم راہی)
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے