دروازے۔۔۔ نیلم احمد بشیر

درخت پہ بیٹھی چڑیا بہت خوش تھی، پیٹ دانے سے بھرا تھا۔ ہر ی ہری گھاس دیکھنے میں بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ مظاہرِ قدرت کے حُسن سے وادی جگمگا رہی تھی۔ گنگناتی ہوئی ہوا اتنی ٹھنڈی تھی جیسے اللہ میاں نے انسان کی کسی بات پر خوش ہو کر جنت کے سارے دروازے کھول دئے ہوں۔ درخت کے نیچے وہ دونوں ایک دوسرے کا گریبان پکڑے کھڑے تھے۔
"کافر کہیں کے۔۔۔۔میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ اللہ میرے ساتھ ہے”۔ ایک غصے سے دھاڑا۔” تو کیا سمجھتا ہے۔۔۔۔ میں تجھے چھوڑ دوں گا۔۔۔۔ اللہ میرے ساتھ ہے”۔ دوسرا غرایا۔ دونوں نے بندوقیں اٹھا لیں "۔ اللہ ، اللہ اکبر اور فائر کی آواز سے وادی گونج اٹھی۔ جانوروں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ چڑیا بھی حیرت زدہ ہو کر اس جانب دیکھنے لگی۔ اُس کے منہ میں دبا دانہ باہر کو جاگرا۔ یکا یک آسمان میں ایک سلسلہ وار آواز آنے لگی۔۔۔۔ یوں جیسے دور بہت دور، بہت سے دروازے ، کھٹاکھٹ بند ہوتے چلے جا رہے ہوں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے