نظریں : صفدر علی حیدری

دوسری بار میں اسے بازار گھسیٹ لایا تھا۔اس بار بھی چار و ناچار وہ میرے ساتھ چل تو پڑا تھا پر اس کا چہرہ اس کے اندرونی کیفیات کی چغلی کھاتا نظر آتا تھا۔ وہ کوئی فنکار تو تھا نہیں جو اداکاری کا غلاف چہرے پر چڑھا تا اور اپنا باطن چھپا لیتا۔وہ تو آئینہ بھی نہیں تھا جو دوسروں کا عکس دکھاتا اور اپنا آپ چھپاتا ہے۔ وہ تو کسی جھیل کے شفاف پانی کی مانند تھا جو نہ خود کو چھپنے دیتا ہے اور نہ اسے جسے نظر میں اتار لیتا ہے۔ چہرہ کبیدہ خاطر ، پسینے کے قطرے ماتھے سے بہہ کر نیچے کی سمت گرتے اور اس کی ریش کو تر کرتے ہوئے ، چہرے پر گھبراہٹ کے اثرات ، آنکھیں جھکی جھکی سی اور سانسیں بوجھل بوجھل ، اس کی حالت واقعی قابلِ رحم تھی۔ میں رہ نہ پایا اور ایک کو مل چہرے سے بدقت تمام اپنی نظریں ہٹاتے ہوئے اس سے پوچھ ہی بیٹھا۔
’’ یار آخر تجھے مسئلہ کیا ہے ؟ بازار آ کر آخر تجھے ہو کیا جاتا ہے ؟ یوں لگتا ہے جیسے تو نے کوئی ڈراؤنی چیز دیکھ لی ہو۔ جوان آدمی ہو ، دنیا کے رنگ ڈھنگ دیکھو۔ کیسے کیسے حسین چہرے یکایک نظروں کی اسکرین پر لمحے بھر کے لئے ابھرتے اور پل جھپکتے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ لمحہ بھر کی خوشی اور غم کا بھی اپنا الگ مزہ ہے ، اپنا الگ رنگ ہے ‘‘۔
میری نظریں بدستور بھٹکی اور اس کی حسبِ عاد ت جھکی تھیں۔
’’ یار مجھے بازار مت لایا کر۔ نظریں اٹھ ہی جاتی ہیں۔ یہ اٹھ جائیں تو ایمان بھی اٹھ جاتا ہے۔‘‘
اس کی ٹھوڑی اس کے سینے سے گویا چپک سی گئی تھی۔
یوں لگا وقت کی نبضیں کسی نے تھام لی تھیں۔کائنات جیسے رک سی گئی ہو۔
بظاہر کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔
سوائے اس کے اس کی نظریں حیا سے جھکی اور میری شر م سے زمین میں گڑی تھیں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے