پوپ کہانیاں ۔۔۔ مقصود الٰہی شیخ

___________________________
ندیدے لڑکے
___________________________
لڑکا :
آؤ اچھے سے ریستوران میں چائے پیتے ہیں۔
لڑکی :
پھر تم کہوں گے ،
لونگ ڈرائیو پر چلتے ہیں۔
لونگ (لوو) لین سے گزرتے ہوئے تم کار کی اسپیڈ کم کر دو گے،
تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ، اندھیرے میں ڈوبی گاڑیوں کی طرف اشارہ کرو گے ، متوجہ کرو گے۔
پھر اس حوالے سے بتاؤ گے تم نے آج تک کسی لڑکی کو کِس (kiss) نہیں کیا !!۔
لڑکا :
تو تم کیا چاہتی ہو؟
بل میں ادا کروں ،
تم کھاؤ پیو اور سیدھی سیدھی گھر چلی جاؤ۔۔۔
٭٭

___________________________
Grand Pa
___________________________

بیٹا : ابا جی آپ سارا دن تسبیح پڑھتے رہتے ہیں کوئی کام ہی کیا کیجئے۔
ابا جی: تم کام بتاؤ !۔
بیٹا : ہم میاں بیوی کے پاس سانس لینے کو وقت نہیں ، بچوں پر توجہ دے ہی نہیں سکتے۔ آپ بچوں کو جمع کر کے مذہب اور کلچر کے بارے میں معلومات دیا کریں نا!۔
ابا جی : وہی تو پوچھ رہا ہوں ، کیا؟
بیٹا : جیسے ہمیں سبق آموز کہانی سناتے تھے ” شیر آیا۔ شیر آیا "۔
اباجی : شیر آیا شیر آیا۔۔۔۔۔ کیا؟
بیٹا : اباجی! آپ بھول گئے ؟ آپ نے کہانی سنائی تھی۔ ایک ٹین ایج گڈریا جنگل میں بکریاں چرانے لے جاتا تھا۔ ایک روز تنہائی سے تنگ آ کر اس نے شور مچایا کہ لوگو شیر آیا شیر آیا۔ گاؤں والوں کو گڈریئے اور بھیڑ بکریوں کی فکر ہوئی۔ دوڑے دوڑے آئے۔۔۔۔ مگر وہاں کوئی شیر ویر نہ تھا۔ اسی طرح دو ایک بار ہوا۔ فالس (جوٹھا) الارم پر گاؤں والے خفا ہوئے۔ بات آئی گئی۔ ایک روز واقعی شیر آ گیا۔ لڑکے نے شور مچایا مگر گاؤں سے کوئی نہ آیا۔
شیر آیا اپنا کام کر گیا۔ نہ بھیڑ بکریاں رہیں نہ گڈریا !!۔
سبق یہ بتلایا کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیئے اعتبار جاتا رہتا ہے۔
******
ایک روز اباجی نے بچوں کو جمع کیا۔ آؤ بچو کہانی سنو۔
بچے شوق سے دادا کے پاس جمع ہو گئے
دادا :۔ ایک بادشاہ تھا۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا ملک کا بادشاہ۔۔۔۔۔۔
ایک بچہ:۔ کٹ شارٹ۔ اب بادشاہ نہیں ہوتا۔
دوسرے بچے نے اسے چپ کرایا : چپ بد تمیز !!۔
دو بچوں نے گانا شروع کر دیا” دل بدتمیز۔ دل بد تمیز۔۔۔۔۔”
طوفان بدتمیزی تھما تو پتہ چلا
داد روٹھ چکے ہیں۔
لیکن بچوں نے منا لیا۔
سمجھو ایک بادشاہ تھا ، نام اس کا محمود تھا۔
بچے خاموشی سے سننے لگے۔
محمود غزنوی نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا غزنوی اس کا سرنیم تھا؟
دادا سوال نظر انداز کر کے بولتے چلے گئے۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔۔۔
کوئی بیچ میں بول پڑا”واٹ از سترہ؟”
دادا :۔” سیونٹین۔۔۔۔۔۔اور ہر بار دولت لوٹ کر وطن چلا گیا۔ یہ تو امیر لوگ تھے جن کا دماغ خراب ہو گیا۔عوام کے پاس اس وقت بھی روٹی کپڑا مکاں نہ تھا۔ پیسے کا نشہ برا ہوتا ہے۔ ہوس بڑھ جاتی ہے یعنی لالچ بڑھ جاتا ہے۔ امیر درباری سازشیں کرنے لگے "۔
یہ سازش والی بات بچوں کو ہضم نہ ہوئی مگر اس ڈر سے کہ دادا ابا روٹھ نہ جائیں وہ سب چپ رہے۔دادا نے کہانی جاری رکھی۔” درباریوں نے بادشاہ کے ولی عہد شہزادے کو پٹی پڑھانی شروع کی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے سوال کرنے ہی لگے تھے مگر داد نے انگلی ہونٹوں پر رکھ چپ کرا دیا۔۔۔۔۔۔۔” کہ پرنس صاحب وزیر اعظم بننے کا حق تمہارا ہے۔”۔
دو بچے مل کر گانے لگے۔۔۔۔” ساڈا حق ایتھے رکھ”۔۔۔۔۔
دادا نے دھیان نہ دیا جب بچے خاموش ہوئے تو انہوں نے کہا” ایاز ایک گڈریا تھا۔”
ایک بچے کا نام ایاز تھا سب اسے انگلیاں چبھونے لگے، گدگدانے لگے۔ دادا برابر کہانی سنانے میں محو رہے۔” بادشاہ سلامت جنگل سے اٹھا لائے غریب فقیر ایاز کو وزیر اعظم بنانے چلے ہیں۔۔۔۔ شہزادہ صاحب اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے پیارے پرنس کچھ کرو”۔
چلبلے بچوں کو چین کہاں تھا سوال کرنے کو بے چین تھے مگر بڑی مشکل سے کہانی میں دلچسپ موڑ آیا تھا۔ بس پہلو بدل کر دادا کی طرف متوجہ رہے۔
دادا:۔ ایک روز کیا ہوا؟۔۔۔
کیا ہوا؟ بچے ایک ساتھ چیخے۔
دادا:، ایک ایجنسی نے سازش والی بات بادشاہ تک پہنچا دی۔ بادشاہ چالاک تھا، بیٹے سے کہا۔ سنْڈے کو سب درباریوں کو اکٹھا کرو۔ سب کے سامنے وجہ بیان کروں گا کہ وزارت کس کا حق ہے؟
بچے پھر گانے ،لگے۔۔۔ ساڈا حق ایتھے۔۔ ایتھے رکھ !!۔
لو جی سنڈے آ گیا۔ دربار لگا یعنی پارلیمنٹ کی میٹنگ ہوئی۔
ابھی لوگ ٹھیک سے، ڈھنگ سے بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ بادشاہ نے اچانک اپنے بیٹے کو حکم دیا یہ سامنے جو نہایت قیمتی ہیروں سے جڑا تھال رکھا ہے اٹھا کر دھڑام سے زمین پر پھینک دو۔
شہزادہ ولی عہد کھڑا ہوا۔ آّداب بجا لایا اور پل دو پل ٹھر کر بولا : اتنا قیمتی تحفہ وہ بہت بڑے ملک کا تحفہ !۔ خیال فرمائیے زمین پر دے مارا تو ٹوٹ پھوٹ نہ جائے گا ؟
بادشاہ نے کہا۔ بیٹھ جاؤ
پھر بادشاہ نے یہی حکم اپنے غلام ایاز کو دیا جسے وہ وزیر اعظم بنانے جا رہا تھا۔ ایاز نے حکم سنا۔ اٹھا، آؤ دیکھا نہ تاؤ ہیرے جواہرات جڑا تھال زمین پر دے مارا۔ پورے دربار یعنی پارلیمنٹ پر سکتہ طاری ہو گیا۔
ایک ذہین نواسہ جو عمر میں دوسروں سے تھوڑا بڑا تھا: بولا” نانا ابا یہ سکتہ کیا ہوتا ہے؟”۔
دادا اباَ : سمجھو! تھوڑی دیر کو سب کے سب کومے میں چلے گئے۔
جب اسپیکر نے بیل بجا کر لنچ کا اعلان کیا کہ لنچ کے بعد چار بجے دوبارہ اجلاس ہو گا۔
بچے بھی اٹھ کر جانے لگے تو دادا ابا نے کہا بھئی ابھی تمہارے لنچ کا وقت نہیں ہوا۔ بیٹھئے رہو۔ اب کہانی ختم ہونے جا رہی ہے۔
دادا ابا ذرا ذرا مسکرائے اور کہا : اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر بادشاہ صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔ بعض وقت ملک میں اچانک دھرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ شورش کا خطرہ ہوتا ہے۔ میرا مطلب کچھ لوگ بغاوت پر آمادہ ہوتے ہیں یعنی حکومت توڑنے پر تل جاتے ہیں۔ ادھر بادشاہ کو انٹیلی جنس رپورٹیں ملی ہوتی ہیں جن کی روشنی میں فوری قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ پولیس اور رینجر اور فوج بلانی پڑتی ہے۔ ایسے وقت میں اچھی سوچ دھری رہ جاتی ہے اور ضرورت ایاز کی طرح فوری عمل کرنے کی ہوتی۔ آملیٹ بنانے کے لئے انڈے توڑنے پڑتے ہیں۔ بچوں نے بور بور کے نعرے لگائے۔
یہ بھی کوئی کہانی ہے ؟ دادا ابا کوئی اچھی سی کہانی سنائے۔۔۔۔۔
آگ اپنے گھر لگانا سیکھ لو
کیا؟ سہیل سے طلاق؟ وہ بھی عدالت کے ذریعے؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو؟
نہیں ابو، میں نے پورے ہوش وحواس میں یہ فیصلہ کیا ہے
بیٹی؛ سہیل تو تم کو اتنا چاہتا ہے۔
لیکن اس کی ماں تو نہیں چاہتی۔ اسے تو فلیٹ چاہیئے۔ اسلئے میں اسے سبق سکھانا چاہتی ہوں۔
ٹھیک ہے، میں اپنا گھر بیچ کر اسے فلیٹ دلا دوں گا۔
مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ ایک باپ کو بیٹی کیلئے اپنا گھر بیچنا پڑے
بیٹی اس میں برائی کیا ہے۔ یہ ریت ہے، بیٹی کا گھر بسانے کیلئے باپ کو گھر بیچنا ہی پڑتا ہے۔
ابْو؛ بات صرف میرے باپ کی نہیں ہے۔ مجھے تین اور باپوں کے گھر بچانا ہے
کیا مطلب؟
سہیل کے تین بھائی اور ہیں جن کیلئے سہیل کی ماں رشتے ڈھونڈھ رہی ہے۔
تواس میں بری بات کیا ہے
بری بات یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنا گھر بیچ کر سہیل کو فلیٹ دلایا تو اس کی ماں ہر لڑکی کے باپ سے یہ بات شان سے کہے گی کہ اس کی بڑی بہو کے جہیز میں ایک فلیٹ دیا گیا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر باپ اپنا گھر بیچے اور داماد کو فلیٹ دلائے۔
تو دوسروں کا گھر بچانے اپنا گھر تھوڑی اجاڑا جاتا ہے؛
ابو کیا آپ ہی نے نہیں کہا تھا کہ
تیرگی شہروں سے خود مٹ جائے گی
آگ اپنے گھر لگانا سیکھ لو؟
میں بناؤں گا انہیں کروڑ پتی۔۔۔۔۔۔ !!!
٭٭٭
___________________________
آخری ایکٹ
___________________________

تم نے کبھی ہارتے ہوئے جواری کو دیکھا ہے؟ داؤ پر داؤ لگاتا چلا جاتا ہے لیکن گراوٹ کی روک اور بندش کا خیال تک اسے نہیں آتا۔ اس کی سوچ اس سے چھین چکی ہوتی ہے۔
یہ ہماری تنہائیاں ، اکیلا پن کون سا روپ بھرنے لگا ہے؟
محبت بے وفائی کا نام نہیں۔ محبت چوری چکاری سے ملنے کی بات نہیں۔ زمانے بھر سے ڈر، چھپ کر گود میں انگارے بھرنے کو نہیں کہتے۔ یہ بیمار محبت، یہ ناصبوری، یہ حضوری، یہ سب کیا ہے؟ جو ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔
میں تم سے دور ہو جاتا ہوں۔ تم مجھ سے نہ ملا کرو۔
میں نے پا لیا ہے تمہارا وصل راحت، نہیں ، کرب کا ان چاہا تحفہ ہے۔ ایک کوڑھ ہے۔ ہجر کی لذت اور انتظار کا لطف جاتا رہا۔
ایک تم ہو۔ ایک میں ہوں۔ اور فریب کی دنیا ہے۔ وقت کا دھوکا ہے۔ ہم کب تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے؟ اخلاق باختگی کاٹنے سے نیا معیار توڑتے چلے جائیں گے۔ جس روز ہم پکڑے گئے، ہمارا پردہ فاش ہو گیا تو ہم منہ چھپانے کہاں جائیں گے۔
سوچتا ہوں۔ جذبوں کی پاکیزگی کی کوئی دھجی بھی ہو گی جو ہماری ستر پوشی میں ہماری ساتھی بن سکے گی!
کبھی کبھی میرے تصور میں دو تصویریں ابھرتی ہیں۔ ایک دولہا کی دوسری کوئی دلہن ہوتی ہے۔ ان کے چہرے اپنے چہرے نہیں ہے۔ یہ تمھارا اور میرا چہرہ ہے پھر یہ چہرے میرے تمھارے نہیں رہتے ان کے نقوش بدل جاتے ہیں۔ دو متحرک پتلے، دو بے قرار روحیں ایک بھیڑ میں نظروں کے پیاموں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ پھر سب سے نظریں چرا کر کچھ وعدے ، کچھ پیمان کرتے ہیں اور جدا ہو جاتے ہیں۔ ان کے ملن اور جدائی کے منظروں سے میری پیاس کچھ اور بڑھ جاتی ہے پھر مجھے احساس کی پہچان ملتی ہے۔ یہ دو چہرے اتنے غیر نہیں۔ میرے کانوں سے دور کی آواز ٹکراتی ہے۔ یہ میرے دو نین جل سے نکلی مچھلی کی آنکھیں بن جاتے ہیں جن میں رتی بھر نمی نہیں۔ خشک پھٹی پھٹی آنکھوں سے میں دیکھ رہا ہوں۔
ایئرپورٹ ہے۔ وہ تمہارا منگیتر ہے۔ یہ میری منگیتر ہے۔
میں اور تم ان کا استقبال کر رہے ہیں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے