کچّا پاگل ۔۔۔ ممتاز رفیق

پاگل خانے میں آ کر عجب اطمینان اور خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ یہاں رہنے کے لیے اسے ایک کمرہ مل گیا تھا۔کمرہ تو کیا، ہاں ایک کوٹھری سی تھی جس میں لوہے کا ایک پلنگ اور ٹوٹی پھوٹی الماری رکھی تھی لیکن یہ جو کچھ بھی تھاسب کا سب بس اس کا اپنا تھا۔زندگی میں پہلی بار کچھ تھا جسے وہ اپنا کہہ سکتا تھا اب وہ کسی صورت اس سے محروم ہونے پر آمادہ نہیں تھا وہ جانتا تھا کہ اس کے لیے اسے اداکاری کرنی ہو گی اور خود پر ہمہ وقت ایک پاگل پن طاری رکھنا پڑے گا، کیوں کہ تمام عمر تو اسے ٹین کا ایک بکس تک نصیب نہیں ہوا تھا۔ وہ اُس بدصورت دنیا میں چیزوں اور جذبوں کو شیئر کرتے کرتے تھک چکا تھا اور اب تو اس سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ رشتوں کو شیئر کرنا بھی سیکھے۔اُس نے پوری زندگی چپ چاپ رہ کر گزاری تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کوئی مردہ شخص تھا وہ نہایت حساس اور ذہین انسان تھا اور آج اپنی اس تنہا دنیا میں اسے جو آسودگی محسوس ہو رہی تھی یہ احساس اس کے لیے اجنبی سہی لیکن بے حد طمانیت بخش تھا۔ اب اس کے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی زبان پکڑے بیٹھا رہے وہ کسی بھی صورت شگفتہ کو شیئر کرنے پر رضامند نہیں ہو سکتا تھا، یہ تعلق اس کی زندگی کی اکلوتی مسرت تھی۔ وہ دیکھتا کہ شگفتہ اس کے دوست صفدر پر ملتفت ہے اور وہ جسے ایک نفیس ، خوش کلام اور مہربان انسان کی شہرت حاصل تھی وہ دیکھتے ہی دیکھتے تند مزاج اور بد خو آدمی میں ڈھلتا چلا جا رہا تھا۔ اب وہ ذرا ذرا سی بات پر ہتھے سے اکھڑ جاتا اور اس کی زبان انگارے اگلنے لگتی۔شگفتہ واقف تھی کہ یہ تبدیلی کیوں رونما ہو رہی ہے لیکن اُس کی اپنی ترجیحات تھیں ، دنیا اس کے پیروں کو جکڑے بیٹھی تھی وہ محسوس کرتی کہ زندگی کے ساتھی کے لیے صفدر بہتر انتخاب ہے مگر شگفتہ اُس کی ذہانت پر بھی لولوٹ تھی وہ دونوں سے انیس بیس کا تعلق بنائے رکھنے کے پھیر میں تھی۔ لڑکیاں اکثر اس گمان میں رہتی ہیں کہ ان کی چال کا کوئی توڑ نہیں اور وہ یہ سب دیکھ اور سمجھ رہا تھا۔ اس کے سینے میں کنڈلی مارے نفرت کا سانپ اسے رہ رہ کر ڈستا رہتا۔ صفدر کے لیے یہ سب دفتر کی دوستی سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں تھا اُدھر شگفتہ تھی کہ دور دراز کے خواب بن رہی تھی۔اسے دکھایا جانے والا یہ روزمرہ کا تماشا اس کے اعصاب توڑے ڈال رہا تھا۔ اب ہر وقت اس پر جنون کی سی کیفیت طاری رہنے لگی تھی۔رویوں کی دو رنگی سے نفرت اس کے بدن میں کینسر کی طرح بہت خاموشی اور تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی۔ اب کام میں بھی اس کی دل چسپی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ اس بے پرواہی اور متواتر غلطیوں کے نتیجے میں اسے دفتر سے جواب دے دیا گیا اور مرے کو مارے شاہ مدار اور اچانک وہ بیمار پڑ گیا اسے بے حد سنگین حالت میں اسپتال لے جایا گیا جہاں اسے ہائپر ٹینشن وارڈ میں داخل کر دیا گیا۔ وہاں مرض میں تو کیا افاقہ ہوتا وہ اپنے رہے سہے اندوختہ سے بھی جاتا رہا۔گھر میں بھی نظروں کے زاویہ بدل رہے تھے، مرد کمانے لائق نہ رہے تو آنکھ کا آزار بن جاتا ہے مگر بیماری نے اس کا سارا رس چوس لیا تھا وہ خاموش پڑا برا بھلا جھیل رہا تھا۔برداشت کے ٹانکے ادھڑ جائیں تو سب کچھ بہہ نکلتا ہے۔ ایک دن اس کے موبائل پر کال موصول ہوئی، اس نے تعجب سے فون پر نظر ڈالی:یہ آج میں کسے یاد آ گیا؟ وہ شگفتہ کا نمبر تھا، اس نے حیرت سے سوچا ارے میں تو اسے بھول ہی گیا تھا۔ وہ اپنی اسی لہلہاتی آواز میں پرانی لگاوٹ سے جانے کیا کیا کہے جا رہی تھی اسے کچھ سنائی پڑ رہا تھا اس نے محسوس کیا اس کا ذہن سُن ہو رہا ہو اور پھر یکایک وہ توازن کھو بیٹھا، اس کے چہرے پر شدید وحشت تھی اور تمام عضلات اکڑ سے گئے تھے اچانک اس نے موبائیل دیوار پر دے مارا اور مغلظات بکنے لگا۔گھر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھاسب سہمے سمٹے وہاں جمع ہو گئے، بھائی کو دفتر فون دوڑایا گیا جب تک وہ گھر پہنچے اس کے اعصاب کی کشیدگی ختم ہو چکی تھی۔ڈاکٹر نے بھی اسے نارمل قرار دیا کچھ سکون آور گولیاں تجویز کیں اور کچھ دن بعد سب یہ بات بھول بھال گئے۔ مگر چند دن کے وقفے سے یہ مجنونانہ کیفیت آئے دن کا معاملہ ہو گئی اور پھر ان دوروں میں شدت آنے لگی۔گھر میں عجب خوف اور افراتفری کی کیفیت رہنے لگی سب ہی کو مریض سے ہمدردی تھی مگر اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد وہ بے زاری اور اکتاہٹ میں بدلتی چلی جاتی ہے۔ وہ بدلتی ہوئی ان کیفیات کو خوب سمجھ سکتا تھا کیوں کہ اس کے اوسان دورے کی حالت میں ہی معطل ہوتے تھے ورنہ وہ پورے ہوش وحواس میں رہتا تھا۔ جب دیوانگی کے یہ دورے تواتر اختیار کرنے لگے تو آخر اسے پاگل خانے میں داخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور آج وہ اپنے کمرے میں لوہے کے پلنگ پر بیٹھا زندگی میں پہلی بار ملکیت کے احساس سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے