غزلیں ۔۔۔ عزیز قیسی

 

اپنوں کے کرم سے یا قضا سے

مر جائیں تو آپ کی بلا سے

 

گرتی رہی روز روز شبنم

مرتے رہے روز روز پیاسے

 

اے رہ زدگاں، کہیں تو پہنچے

منہ موڑ گئے جو رہنما سے

 

پھر نیند اڑا کے جا رہے ہیں

تاروں کے یہ قافلے ننداسے

 

مُڑ مُڑ کے وہ دیکھنا کسی کا

نظروں میں وہ دور کے دلاسے

 

پلکوں کی وہ ذرا ذرا سی لغزش

پیغام ترے ذرا ذرا سے

 

داتا ہیں سبھی نظر کے آگے

کیا مانگیں چھپے ہوئے خدا سے

 

کیا ہاتھ اُٹھائیے دعا کو

ہم ہاتھ اٹھا چکے دعا سے

٭٭

 

والہانہ مرے دل میں مری جاں میں آ جا

میرے ایمان، مرے وہم و گماں میں آ جا

 

موند ان آنکھوں کو صاحب نظراں میں آ جا

حدِّ نظارگیِ کون و مکاں میں آ جا

 

آیتِ رحمتِ یزداں کی طرح دل میں اتر

ایک اک لفظ میں، اک ایک بیاں میں آ جا

 

 

تجھے سینے سے لگا لوں، تجھے دل میں رکھ لوں

درد کی چھاؤں میں، زخموں کی اماں میں آ جا

 

کچھ تو ایمائے کرم ہو نگہِ زخم نواز

اب کے ابروئے کشیدہ کی کماں میں آ جا

 

رونقِ جاں نہ سہی، صورتِ آسیب سہی

میرے اجڑے ہوئے تاریک مکاں میں آ جا

 

ہے تمنائے سکوں دل کو، تو قیسیؔ کی طرح

حلقۂ دردِ محبت زدگاں میں آ جا

٭٭

شعر و حکمت، حیدر آباد ہند، کتاب ۷، مئی ۲۰۰۵ء، مدیر: اختر جہاں، مرتبین: شہریار، مغنی تبسم

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے