غالب عرفان: زندگی کس لحن میں منظوم ہے ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

کراچی سے خبر آئی کہ کہنہ مشق شاعر غالب عرفان (محمد غالب شریف، پیدائش: 1938) اکیس جنوری 2021ء کو خالق حقیقی سے جا مِلے۔ پر خلوص جذبات اور دردمندی سے سرشار احساسات کو اشعار کے قالب میں ڈھالنے ولا جری تخلیق کار رخصت ہو گیا۔ اپنے ذہن و ذکاوت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے احساسِ زیاں سے عاری کارواں کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہنے والا یگانۂ روزگار ادیب سوئے عدم سدھار گیا۔ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں حالات نے جو رُخ اختیار کیا غالب عرفان اُس سے مطمئن نہ تھا۔ اپنے قلب حزیں پر اُترنے والے تمام موسموں کی لفظی مرقع نگاری کرنے والا مرصع ساز اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ انسانی ہمدردی، خلوص، مروّت، بے لوث محبت اور بے باک صداقت کا پیکر رخصت ہو گیا اب فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم خیال و خواب ہوتا نظر آتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے طالب علموں اور نو آموز تخلیق کاروں کو تخلیق فن کے رموز سے آگاہ کرنے والا اُستاد شاعر اب کہاں ملے گا۔ اپنے اشہبِ قلم کی جولانیوں سے بروٹس قماش کے مسخروں کی پیدا کردہ طغیانیوں کا رُخ موڑنے والا حریت فکر و عمل کا مجاہد اب ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب ہوا میں زہر گھلا، آب رواں نے شعلۂ جوالا کی صورت اختیار کر لی، خلوص، ایثار اور وفا کے سوتے خشک ہونے لگے ایسے فیض رساں ادیب کا وجود اللہ کریم کا بہت بڑا انعام تھا۔ سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر بن کر جگمگانے والا، معاشرتی زندگی کے سکوت مرگ کو ضمیر کی للکار سے توڑنے اور حریتِ ضمیر کے وار سے جبر کا ہر انداز مسترد کرنے والا مرد حق پرست ہم سے رُوٹھ کر چلا گیا۔ وہ جری تخلیق کار راہیِ ملک عدم ہوا جس نے اُن بونوں کے مکر کا پردہ فاش کیا جو اپنے تئیں عوج بن عنق بن بیٹھے تھے۔ خزاں کے سیکڑوں مناظر میں طلوع صبح بہاراں کی نوید سنانے والا ایسا رجائیت پسند ادیب مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے نہ مِل سکے گا۔ حریت فکر کا وہ مجاہد ہماری بزم ادب سے اُٹھ گیا جس نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے زندگی کے تلخ حقائق کی عکاسی کو شعار بنا کر لوح و قلم کی پرورش میں انہماک کا مظاہرہ کیا۔ ایک شان استغنا کے ساتھ زندگی بسر کرنے والا ایسامحب وطن، قناعت پسند اور صابر و شاکر تخلیق کار اب کہاں مل سکے گا۔ غالب عرفان کے ساتھ میرے معتبر ربط کا عرصہ تین عشروں پر محیط ہے۔ اس نے اس عہد نا پرساں میں ایثار، خلوص اور انسانی ہمدردی کا زمزم رواں رکھا جب ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر اس نے جو بے مثال جد و جہد کی وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ موجودہ دور میں مادیت اور ہوس نے انسانیت کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر رکھا ہے۔ معاشرتی زندگی کے فگار جسم پر وفا، ہمدردی اور خلوص سے لبریز الفاظ کا مرہم رکھنے والے اس سراپا ایثار ادیب کی دائمی مفارقت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔

غالب عرفان کا آبائی وطن حیدر آباد دکن تھا، اس نے حیدر آباد دکن سے جھاڑ کھنڈ کے صنعتی شہر جمشید پور (بہار) ہجرت کی۔ پس نو آبادیاتی دور میں جب برطانوی استعمار کا خاتمہ ہوا اور آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو غالب عرفان نے چٹاگانگ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ اس کی اگلی منزل کراچی بن گئی۔

غالب عرفان نے مندرجہ ذیل تصانیف سے اُردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کیا:

’’م‘‘ﷺ (نعتیہ شاعری کا مجموعہ)، آگہی سزا ہوئی (شعری مجموعہ)، روشنی جلتی ہوئی (شعری مجموعہ)

زندگی کی حقیقی معنویت غالب عرفان کی شاعری کا اہم موضوع ہے۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے متعدد انداز اس کی شاعری میں موجود ہیں۔ یہی وہ مضبوط اور مستحکم تعلق ہے جس نے غالب عرفان کی شخصیت کو استحکام اور اسلوب کو نکھار عطا کیا ہے۔ اس نے واضح کر دیا ہے کہ اس دنیا میں آنے والے ہر انسان کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ جاتا ہے مگر دُکھی انسانیت کے ساتھ خلوص اور درد مندی کا رشتہ نبھاتے نبھاتے اُس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ زندگی کی کہانی کو عکس کا نام دینے والے اس تخلیق کار نے محافوں میں لپٹے لوٹوں اور لفافوں کو متنبہ کیا ہے کہکسی بھی چیز کی اصلیت زیادہ عرصے تک نگاہوں سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ بے صدا الفاظ بھی کسی نہ کسی صورت میں اپنی معنویت سامنے لا سکتے ہیں۔ ایک چہرے پر کئی چہرے سجانے اور مکر و فریب سے اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کریں کہ جعل سازی اور ملمع سازی سے کوئی تلک حقیقت چھُپائی نہیں جا سکتی۔

عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے

آئینے کے باہر بھی آس پاس ہم ہی تھے

الفاظ بے صدا کا اِمکان آئنے میں

دیکھا ہے میں نے اکثر بے جان آئنے میں

رنگوں کی بارشوں سے دھُندلا گیا ہے منظر

آیا ہوا ہے کوئی طوفان آئنے میں

میں منحصر ہوں مگر انحصار اُس کا ہے

شعور میرا ہے اور اختیار اُس کا ہے

میں لہر لہر میں اُس کو نہ دیکھوں یا دیکھوں

نظارہ پھر بھی تو دریا کے پار اُس کا ہے

میں گہری نیند میں ہوں آئے وہ جگائے مجھے

پھر اپنے خواب کی دنیا میں لے کے جائے مجھے

محفل میں ملوں خود سے تو اقرار الگ ہے

تنہائی میں آئینے سے تکرار الگ ہے

اپنی شاعری میں غالب عرفان نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو بہت اہمیت دی ہے۔ دکھی انسانیت کے ساتھ خلوص و دردمندی کی بنیاد پر جو رشتہ انھوں نے استوار کیا تھا اسی کو زندگی بھر نصب العین بنائے رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی وہ محور ہے جس کے کے گرد ان کی تخلیقی فعالیت رواں دواں رہتی ہے۔ انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کیا اور یہ واضح کر دیا کہ جبر کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے ادبی منصب کے خلاف ہے۔ وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کے آرزو مند تھے اس لیے اُن کی زندگی اور فن مقصدیت سے لبریز تھا۔ تکلم کے تمام سلسلوں میں اُن کے جذبات، احساسات اور تاثرات سے ایسا دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آتا کہ اُن سے ملنے والا اُن کے اسلوب کے سحر میں کھو جاتا۔ انسانی زندگی میں کئی ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیں جہاں گردش مدام سے جی گھبرا جاتا ہے اور ہجوم یاس کو دیکھ کر روح و قلب پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اپنی رجائیت پسندی کے اعجاز سے وہ ماضی کے جھروکوں سے ایسے واقعات کو تلاش کرتے جو رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے سب استعاروں کو نیا آہنگ عطا کرتے تھے۔ تکلم کے سلسلوں کی آڑ میں خود رائی اور یک طرفہ موقف کے مظہر آمرانہ نوعیت کی تشبیہات، استعارات، اشارے و کنائے وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ فطرت کے مقاصد کی ترجمانی اور انسانیت کے وقار کی نگہبانی کو دستور العمل قرار دینے والے اس پر عزم انسان کی زندگی اور فن پر نظر ڈالیں تو تخلیق اور اس کے پس پردہ کار فرما لاشعوری محرکات کے تمام پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ اس نا تمام کائنات میں دما دم صدائے کُن فیکون کی رمز سے وہ آشنا تھے اس لیے انھوں نے واضح کر دیا کہ حیات جاوداں کا راز تو ستیز ہی میں پنہاں ہے۔ انھوں نے وسیع مطالعہ اور گہرے مشاہدے کے وسیلے سے رازِ کُن فکاں کو سمجھنے پر زور دیا۔ اُن کا خیال تھا کہ یہی وہ زاد راہ ہے جو خار زار حیات کے آبلہ پیما مسافر کو منزلوں سے آشنا کر سکتا ہے۔ اُن سے مِل کر زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس اُجاگر ہوتا اور انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے جذبات پروان چڑھتے تھے۔ اس عالمِ آب و گِل میں فطرت کے مظاہر اور گلزار ہست و بُود کی جمالیات سے انھیں جو گہری دلچسپی تھی اِس کا اظہار کرنے میں اُنھوں نے کبھی تامل نہ کیا۔ اپنے ایمان، ایقان، قوت عشق اور عزم صمیم سے انھوں نے یہ بات ثابت کر دی کہ شاہین کے لیے کارِ آشیاں بندی کی فکر ایک اہانت آمیز سوچ ہے۔

اب کسی کو یہ کہاں معلوم ہے

زندگی کس لحن میں منظوم ہے

کچھ چٹانوں سے سمندر کا سلوک

ساحلوں کی ریت پر مرقوم ہے

تنہائی کے ساتھ کوئی کہاں جائے

مجھ سے زیادہ تنہا میرے ہمسائے

زندگی کا ساز بھی عجیب ساز ہے جو پیہم بج رہا ہے مگر کوئی اس پر دھیان نہیں دیتا۔ زندگی اور موت کو متصادم کیفیات خیال کرنا حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے۔ زندگی کے ساتھ موت لگی ہے اور یوں سمجھ لینا چاہیے کہ موت زندگی ہی کا ایک حصہ ہے جو زندگی کے تمام مراحل کو اختتام تک پہچانے میں کلیدی اور حتمی کردار ادا کرتا ہے۔ زندگی کے لحن کے بارے میں غالب عرفان نے یہ دلیل دی ہے کہ اس کی سماعت کے لیے بصیرت کی احتیاج ہے۔ زندگی اور موت کے بارے میں یہ بات واضح نہیں کہ ان کی حدود کا تعین کیسے کیا جائے۔ وہ کون سا مقام ہے جسے ان کا نقطۂ فاصل قرار دیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں عقل محو تماشائے لبِ بام رہ جاتی ہے۔ موت سے کسی کو رستگاری نہیں انسان کی مثال ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی تحریر کے مانند ہے جسے سیل زماں کے تھپیڑے کسی وقت بھی مٹا سکتے ہیں۔ بساطِ سیل پر قصر حباب کی تعمیر کرنے والوں پر جلد ہی یہ راز کھُل جاتا ہے کہ اگرچہ کارِ جہاں دراز ہے اور زندگی کی رعنائیاں اور وسعتیں حدِ ادراک سے باہر ہیں مگر موت ایک اٹل حقیقت ہے جو ایک آغاز کا محض انجام ہے۔ موت کے بعد سکوت ہی سکوت ہے اور حشر تک کسی قسم کی حرکت یا حرارت کا تصور ہی بعید از قیاس ہے۔

اَدھورے خواب سے تعبیر سمجھوتہ نہیں کرتی

قلم رَو سے جہاں تحریر سمجھوتہ نہیں کرتی

خود اپنی ہی انا میں ڈُوب جاتی ہے لبِ ساحل

سمندر سے مگر جاگیر سمجھوتہ نہیں کرتی

اسلوبیاتی جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غالب عرفان کی شاعری میں جذبات و احساسات کی کثیر الجہتی کیفیت ہے۔ اس کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے مگر وہ کبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لایا۔ اس کی شاعری میں زندگی کے کٹھن حالات کے بارے میں جو منطقی استدلال ہے وہ اس کے ذاتی اور کائناتی تجربات و مشاہدات کا مظہر ہے۔ اس نے واضح کیا ہے کہ تقدیر کائنات کے ہر عقدہ کی گرہ کشائی گردشِ ایام کر تی چلی جاتی ہے۔ دِل بِینا سے متمتع افراد اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہ صدی تیزی ست بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں زبان حال سے سب حقائق بیان کر رہی ہے۔ سماجی زندگی کے بارے میں غالب عرفان نے اپنی شاعری میں زندگی کے تلخ حقائق کی گرہ کشائی کی ہے۔ وہ ان شقاوت آمیز نا انصافیوں پر رنجیدہ ہے جہاں معاشرتی زندگی میں مجبور انسان نان جویں کو ترستے ہیں مگر کالا دھن کمانے والے غاصب لٹیرے اپنے عشرت کدوں میں داد عیش دیتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ وقت کے ایسے لرزہ خیز سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ جاہل بھی اپنی جہالت کا انعام بٹورنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جب کہ جوہرِ قابل کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو مطمح نظر بنانے والے اس جری تخلیق کار نے مظلوم انسانوں کے ساتھ جو عہد وفا استوار کیا اُسی کو علاج گردشِ لیل و نہار سمجھا۔ بے بس و لاچار انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے والے آدم خوروں نے مظلوموں کی شہ رگ میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پورا سماجی ڈھانچہ لرزہ بر اندام ہے۔ انصاف کُشی کے اعصاب شکن مناظر دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھتا ہے انسانیت کی توہین، تذلیل اور تضحیک کرنے والے سفہا اور اجلاف و ارذال کے خلاف اس نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔

لفظوں کی تاثیر میں زندہ رہتا ہوں

میں اپنی تحریر میں زندہ رہتا ہوں

وِجدانِ لا مکاں نہ مجھے اس قدر ملا

جتنا بھی کائنات کا تنہا سفر ملا

خامشی لازم تھی جو اُس نے کہا سُنتے رہے

ہم روا داری میں سب کچھ ناروا سُنتے رہے

تبدیلی موسموں کی باہر تو بر محل ہے

لیکن حصارِ جاں میں اِک حبس کا عمل ہے

 

آئینے کی بات

سُن کر خود شرماتی ہے

چودھویں چاند کی رات

(ہائیکو)

 

ہوتا ہوں سیراب

جب بھی چھُو جاتے ہیں مُجھ کو

خوشبو، حُسن، کِتاب

(ہائیکو)

 

بیلے کی کلیاں

کھِلنے پر بھر جاتی ہیں

خوشبو سے گلیاں

(ہائیکو)

 

وہ اپنے ٹھکانے بدلتے رہے

ہم اپنے زمانے بدلتے رہے

تعارف تھا شناسائی نہیں تھی

کبھی یوں پاس تنہائی نہیں تھی

غالب عرفان ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے۔ معاصر ادبی رجحانات پر ان کی گہری نظر تھی۔ وطن عزیز سے شائع ہونے والے علمی و ادبی مجلات کا وہ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے اور ان میں شائع ہونے والی تخلیقات پر اپنی بے لاگ رائے سے مدیر کو خط لکھ کر مطلع کرتے رہتے تھے۔ میرے تنقیدی و تحقیقی مضامین پر اُن کی رائے جہاں اُن کی وسعت نظر کی دلیل ہے وہاں میرے لیے یہ ہمیشہ خضرِ راہ ثابت ہوئی۔ گزشتہ بیس برس کے عرصے میں ’’دکنی اور اُردو زبان کے افعال کے تقابلی جائزہ‘‘ پر میرے کئی مضامین ادبی مجلات کی زینت بنے۔ اس موضوع پر میرے ایک مضمون کے بارے میں انھوں نے لکھا:

’’ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی تاریخ دانی اور تاریخ فہمی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔‘‘

غالب عرفان: مکتوب، مطبوعہ ماہ نامہ نیرنگ خیال، راول پنڈی، جلد 95، شمارہ، 12، دسمبر 2020، صفحہ، 64

اسی طرح میرے دوسرے مضامین پر بھی انہوں نے اپنی پسندیدگی کا اکثر اظہار کیا۔

دستِ ستم شعار کے وار سہہ کر بھی غالب عرفان نے حوصلے اور امید کی مشعل فروزاں رکھنے پر اصرار کیا۔ اس کی شاعری میں سماجی زندگی کے بارے میں ایک مثبت انداز فکر اور فلسفیانہ سوچ جلوہ گر ہے۔ زدگی کو اس نے جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کی رُوپ میں دیکھا اور ذہن و ذکاوت، دِل و نگاہ اور بصیرت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اس کے ہر پہلو کا تجزیہ کیا۔ معاشرتی زندگی کے تضادات، ارتعاشات اور بے اعتدالیوں پر اس کا کرب فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا ہے۔ گلزار ہستی میں سر و سمن، گلا ہاے رنگ رنگ اور اثمار کی فراوانی ہے۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے غالب عرفان نے یہ دیکھنے کی سعی کی ہے کہ وہ انصاف کشی کے نتیجے میں اس معاشرے میں زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پُر خطر اور آہیں بے اثر کر دی گئی ہیں۔ غالب عرفان نے اپنی شاعری میں حوصلے اور امید کا جو پیغام دیا ہے وہ قاری کے لیے مہیب سناٹوں میں طلوع صبح بہاراں کی نوید، سفاک ظلمتوں میں شعاع اُمید اور حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے۔ غالب عرفان کی شاعری میں متعدد الفاظ ایسے ہیں جنھیں گنجینۂ معانی کا طلسم سمجھنا چاہیے۔ یہ الفاظ قاری کو ایک جہانِ تازہ کی نوید سناتے ہیں۔ ذیل میں اس قسم کے چند الفاظ درج ہیں:

آئینہ، ان کہی، انقلاب، اندیشہ، برگِ گل، پتھر، تخیل، تصور، تنہائی، ٹھکانہ، جستجو، چاند، چٹان، چہرہ، حبس، خارزار، خواب، خوشبو، دستار، دریا، دیوار، روشنی، سایہ، شبہ، گردش، گلیاں، محور، موسم، منزل، موج، ذرہ، رات وغیرہ۔

غالب عرفان کی شاعری میں سعیِ پیہم اور استقامت کا جو پیغام ہے وہ افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب عازم سفر ہونے کی تلقین ہے۔ اس کا خیال ہے کہ جہد مسلسل ہی زندگی میں کامیابی کا زینہ ہے۔ اس نے خوب سے خوب تر کی جستجو کو زندگی کا نصب العین بنانے پر زور دیا۔ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں سیاسی عدم استحکام کے باعث ہر شعبۂ زندگی میں ہوس نے انتشار کو ہوا دی۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد عنوانی اور بد انتظامی نے زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ درپیش حالات کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت غالب عرفان نے حرف صداقت لکھنا اپنا شعار بنایا اور کبھی مصلحت وقت کی پروا نہ کی۔ اس نے اردو شاعری کی کلاسیکی روایت سے بھر پور استفادہ کیا اور اسے جد ید دور کے عصری تقاضوں سے اس انداز سے ہم آہنگ کیا کہ قاری زبان و بیان پر اُس کے خلاقانہ دسترس کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ اس کے اسلوب کی ندرت، شگفتگی اور تازگی اس کی ذہانت اور بصیرت کی آئینہ دار ہے۔ ایک زیرک، مستعد، فعال اور گہرے شعور سے متمتع تخلیق کار کی حیثیت سے غالب عرفان نے ہمیشہ جبر کے خلاف جد و جہد کی اور مظلوم کی حمایت کی۔ بیتے لمحات کی چاپ سنتے ہوئے وہ مستقبل میں صبر و تحمل سے آگے بڑھنے پر اصرار کرتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے